شخصیات

مولانا قاضی حبيب اللہ قاسمی رحمۃ اللہ علیہ :ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

وبائی مرض کے اس دور میں جانے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے، اہل علم تیزی سے اٹھتے جارہے ہیں اور اچھے لوگوں سے دنیا خالی ہوتی جارہی ہے، علماء، صلحاء،صوفیاء اور ماہرین علم و فن کا روز جنازہ اٹھ رہا ہے، لاک ڈاؤن اور وبائی مرض کے اس دور میں جنازہ کو کاندھا دینے کی سعادت بھی لوگوں کو نہیں مل  رہی ہے، یہ کیسی حرماں نصیبی ہے۔
اسی دور میں قاضی حبیب اللہ ابن عبد الرؤوف ابن کھکھن بھی اللہ کو پیارے ہو گئے، ٣٠/جولائی ٢٠٢٠ء بروز جمعرات بوقت دس بجکر٢١ منٹ پر انہوں نے اپنے گھر واقع گوا پوکھر مدھوبنی میں آخری سانس لی، ان کی طبیعت ٢١/ جولائی کو خراب ہوئی تھی، کرپس ہوسپیٹل مدھوبنی کے ڈاکٹروں کے زیر علاج رہے، دوا اور دعا دونوں کا سلسلہ جاری تھا؛ لیکن جب  وقت موعود آجائے تو ساری تدبیریں اور ترکیبیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں، مولانا بھی ہم لوگوں سے جدا ہوگئے، جنازہ اسی دن اٹھا اور ان کے صاحبزادہ مفتی امداداللہ قاسمی نے جنازہ کی نماز پڑھائی، لاک ڈاؤن کے باوجود بڑی تعداد میں مسلمانوں نے اپنے محبوب رہنما اور قاضی امارت شرعیہ کو الوداع کہا، مدرسہ اور دار القضاء کی درمیانی جگہ میں جانبِ جنوب تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں ایک صاحبزادہ اور چار صاحبزادیوں کو چھوڑا، معنوی اولاد ہزاروں کی تعداد میں ہیں، جنہوں نے ان سے کسب فیض کیاجو ملک بیرونِ ملک میں دینی، علمی، ملی و سماجی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
قاضی صاحب کا انتقال ملی، مذہبی،سماجی،تعلیمی اور امارت شرعیہ کا بڑا نقصان ہے، ان کی ذات اس پورے علاقے میں عزت واکرام کا مرکز و محور تھی، ذکر الٰہی کے اثرات ان کے چہرے سے ہویدا اور خشیت الہی کے اثرات ان کے حرکات و سکنات اور اعضاء و جوارح سے ظاہر ہوتے تھے، وہ اسلاف کی سچی نشانی تھے، ان کا دل امارت شرعیہ اور ان کے اکابر کی محبت و عقیدت سے سرشار تھا، انہوں نے مدھوبنی دارالقضاء کو ہر اعتبار سے خوب سے خوب تر بنانے میں اپنی بہترین کوششیں صرف کیں۔
قاضی حبیب اللہ صاحبؒ کی ولادت ١٣/ اگست ١٩٥٧ ء؁ کو گوا پوکھر مدھوبنی میں ہوئی، مولانا کا نانی ہالی محلہ لہریا گنج ہے اور سسرال گوا پوکھر مدھوبنی میں، حافظ محمد حبیب (م ٢٠٠٨ ء)ان کے خسر محترم تھے، والد صاحب کا سایہ آٹھ سال کی عمر میں ہی اٹھ گیا تھا، تعلیم کا آغاز مدرسہ فلاح المسلمین گوا پوکھر سے کیااور عربی اول تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ بنارس تشریف لے گئے اور دوسال یہاں قیام فرمایا، عربی دوم،سوم کے درجات کی نصابی کتابیں یہیں پڑھیں، چہارم تا ششم کی تعلیم مدرسہ دینیہ غازی پور یوپی،ہفتم اور دورہ حدیث شریف نیز عربی ادب کی تکمیل دارلعلوم دیوبند سے کرکے ١٩٧٧ء  سند فراغت حاصل کیا، انہوں نے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے اردو، فارسی، اور عربی زبان و ادب میں فاضل کیا تھا، اور بہار یونیورسیٹی سے اردو میں ایم اے بھی تھے۔فراغت کے بعد ہی مدرسہ فلاح المسلمین گوا پوکھر کے ذمہ داروں کی طرف سے مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دینے کا تقاضہ تھا، لیکن اپنے مرشدومربی اور استاذ حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمیؒ (م٢٢ستمبر ٢٠١٢ء)کی ہدایت کے مطابق خاموشی سے مدرسہ دینیہ غازی پور میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے،قاضی صاحب کا دوران طالب علمی ہی سے ان سے بڑا خصوصی تعلق تھا، اس تعلق کی داستان حضرت مولانا اعجازاحمدصاحبؒ کے سفر نامے اور قاضی صاحب کے نام ان کے خطوط جو ”حدیث دوستاں“ میں مطبوع ہیں، دیکھی جاسکتی ہے؛ چنانچہ انہوں نے فلاح المسلمین والوں کی بات اپنے استاد مولانا اعجاز احمد صاحب کو نہیں بتائی، تین سال کے بعد حضرت مولانا اعجاز احمدشیخو پوریؒ کو کسی طرح یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے فلاح المسلمین گوا پوکھر جوائن کرنے کی ہدایت دی، مدرسہ دینیہ میں تنخواہ کم تھی اورمدرسہ فلاح المسلمین بورڈ کا ہونے کی وجہ سے تنخواہ کا معیاراچھا تھا،گوا پوکھر منتقل ہونے سے قاضی صاحب کو بڑی سہولت ہو گئی اور معاشی اعتبار سے بھی دھیرے دھیرے استحکام نصیب ہوا۔
اپنے استاذ کی ہدایت کا اس قدر پاس و لحاظ تو اب عنقاء ہوتا جارہاہے، فراغت کے بعد روابط بھی کمزور ہو جاتے ہیں، لیکن قاضی صاحب نے استاذ و شاگرد کے اس رشتہ کو پوری زندگی برتا، ہر کام میں ان سے مشورہ لیتے رہے، مولانا اعجازاحمد صاحبؒ خود بڑے عالم اور روحانی پیشوا تھے، ان کی تربیت سے قاضی صاحب کو بڑا فائدہ پہونچا۔١٩٨١ء میں مفتی صاحب فلاح المسلمین میں بحال ہو گئے اور آپ نے پوری توجہ اورمحنت طلبہ کی تعلیم و تربیت پر لگا دی، یہ دور مولانا ہارون رشیدؒ کا تھا، مولانا ہارون رشیدؒوہاں کے صدر مدرس تھے، لیکن قاضی صاحب کی محنت اورجد و جہد دیکھ کر ان کے مشورے کو اہمیت دیتے تھے، اس جد و جہد کے نتیجہ میں بورڈ کا مدرسہ ہوتے ہوئے بھی وہ اس ضلع کے بہت سارے آزاد مدارس پر تعلیمی و تربیتی اعتبار سے فائق رہا، یہاں جانے کے بعد یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ بورڈ کا مدرسہ ہے، مدرسہ اس قدر آباد و شاداب ہے کہ دیکھ کر طبیعت مچل جاتی ہے، قاضی صاحب جب یہاں کے صدرمدرس بنے تب بھی انہوں نے بورڈ کے علائق سے اپنے کو الگ ہی رکھا، اور ” دامن تر مکن ہوشیار باش‘‘کے فارمولے پر سختی سے عامل رہے، انہوں نے مدرسہ بورڈ امتحانات کے سنٹر اور کاپی جانچ کے مرکز بننے سے بھی ادارہ کو بچانے کی مسلسل کوشش کی اور موقع بموقع انہیں اس میں کامیابی بھی ملی، انہوں نے تعلیمی معیار پر اس قدر توجہ صرف کی کہ وہاں کے لڑکے دارالعلوم دیوبند کے داخلہ امتحان میں ہر سال بڑی تعداد میں کامیاب ہوتے رہے،اس علاقہ کے فضلاء دارالعلوم کی ایک بڑی تعداد فلاح المسلمین گوا پوکھر کے ابناء قدیم کی ہے۔
قاضی صاحب کے علم، تقویٰ، امانت و دیانت،پر عوام و خواص کو بڑا اعتماد تھا، وہ امارت شرعیہ اور ان کے اکابر سے قلبی تعلق رکھتے تھے اور امارت شرعیہ کے وفود کے دورے میں بھی ساتھ ساتھ ہوا کرتے تھے،ان کی محنت اور توجہ سے اس علاقہ میں امارت شرعیہ کے کام اور بیت المال کو استحکام ملا کرتا تھا، امارت شرعیہ کے کسی بھی پروگرام کے لیے وہ ہر وقت تیار رہتے تھے، انہوں نے کبھی کسی موقع سے پروگرام کے انعقاد سے معذرت کی راہ نہیں اپنائی، سب کام خوشدلی سے کرتے اور پوری دلجمعی سے کرتے۔ ١٩٩٦ء میں وہ مدھوبنی ضلع کے قاضی نامزد کیے گیے، قاضی القضاۃ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے ایک پروگرام میں ان کے لیے منصب قضا اور مدھوبنی کے لیے دارالقضا کا اعلان کیا،وہ پوری زندگی اس منصب پر فائز رہے، ان دنوں مدھوبنی ضلع میں تین دارالقضا ہیں؛لیکن تینوں دارالقضامیں گواپوکھر مدھوبنی دارالقضا کی حیثیت ایک مرکز کی رہی ہے، قاضی حبیب اللہ صاحبؒ دارالقضا کی سہ رکنی جائزہ کمیٹی کے رکن بھی تھے۔
قاضی حبیب اللہ صاحب اچھے خطیب تھے، علاقہ کے سارے جلسوں میں آپ کی شرکت عموماََ صدر اجلاس کی حیثیت سے ہوا کرتی تھی،امارت شرعیہ کے خدام کا بھی ان جلسوں میں آنا جانا لگا ہی رہتا تھا، جب بھی ملتے جہاں ملتے پورے اکرام و احترام کا معاملہ فرماتے، جلسہ کے منتظمین سے کہہ کر راحت و آرام کا خیال کراتے اور مناسب وقت پر ہم لوگوں سے تقریر کرانے پر زور دیتے، تا کہ ہم لوگوں کی واپسی دفتر کے وقت سے پہلے ہوجائے۔
آ ج مدھوبنی اور اس کے اطراف میں جو دینی رمق ہے اور تعلیم کی جو ترویج و اشاعت دیکھی جارہی ہے اس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ قاضی صاحب کی محنت کاعمل و دخل رہا ہے، انہوں نے علوم سینہ کو علوم سفینہ بنانے کے بجائے علم و تربیت کو سینہ بسینہ منتقل کیا،وہ کتاب کی تصنیف سے زیادہ مردم سازی اوررجال کار کی تیاری کو اہمیت دیدتے تھے، اور پوری زندگی انہوں نے اسی کام میں کھپا دیا۔
گذشتہ سال دوروزہ پروگرام نقباء اور خواص کا مدرسہ فلاح المسلمین گوا پوکھر میں ہوا تھا، انتظام و انصرام میں جو سلیقہ مندی جھلکتی تھی وہ مفتی صاحب اور ان کے رفقاء کار کی غیر معمولی محنت کا نتیجہ تھا، حضرت امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم نے بھی دوروزوہاں قیام فرمایا تھا اور کئی مجلسوں سے خطاب کیا تھااور پورے انشراح کے ساتھ کیا تھا۔
قاضی صاحب سے ہمارا تعلق امارت شرعیہ آنے سے بہت پہلے سے تھا، جن دنوں میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں استاذ تھااور مدرسہ بورڈ کی کاپی کی جانچ کا مرکز مدرسہ اسلامیہ راگھونگر بھوار ہ ہوا کرتا تھا، تو میرا قیام فلاح المسلمین میں ہی ہوتا تھا اس کے علاوہ جب کبھی مدھوبنی ضلع کے مدارس کے اجلاس میں شرکت ہوتی تو ناممکن تھا کہ بغیر فلاح المسلمین میں حاضری دئیے میں گزرجاؤں، اس حاضری کی بڑی وجہ قاضی صاحب اور فلاح المسلمین کے وہ اساتذہ جو دارالعلوم دیوبند میں میرے معاصر تھے ان سے ملاقات اور تبادلہ خیال ہوا کرتی تھی، ان مجلسوں میں مختلف علمی، تعلیمی، ملی، اور سماجی مسائل زیر بحث آتے، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضرت قاضی صاحب کو بھی اُسی جلسہ میں جانا ہوتاایسے میں ہم لوگ ایک دوسرے کے رفیق سفر بن جایا کرتے تھے،اس رفاقت میں قاضی صاحب کی تواضع، انکساری،اصلاح معاشرہ کے لیے ان کی بے چینی اور مسلمانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے ان کی تڑپ دیدنی ہوتی تھی۔
قاضی حبیب اللہ صاحب کی یادوں کو سمیٹنا آسان نہیں ہے، ان کی خدمات کے دائرے کو بھی لفظوں میں قید کرنا ممکن نہیں، بس اتنا کہا جاسکتا ہے۔ طَاب حیاَ و طابَ میتاَ؛ انہوں نے خوشگوار زندگی گزاری اور اچھی موت پائی رحمہ اللہ رحمۃواسعہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×