سیاسی و سماجی

اپنے گھر کی فکر کیجئے

انسان علمی، سائنسی اور تحقیقی میدان میں آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے اپنے علم وعمل سے تسخیر کائنات کے قرآنی نظریہ اور الٰہی فرمان کو سچ کر دکھایا ہے، لیکن اس کے بر عکس دین وشریعت سے دوری نے اس کی ذاتی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے، خاندان ٹوٹ رہا ہے اور ذہنی سکون چھنتا جا رہا ہے، حالاں کہ اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا، لیکن  ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی بیش تر گھروں میں خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، یہ درستگی گھر کو پر سکون بنا نے کے لیے اصول کے درجے میں ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے ترتیبی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پر پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاق اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے ا نہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے، اقدار نہیں پڑھائے جاتے،ایسے میں ہماری ذمہ داری کافی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں رائج کر نا ہوگا، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلونظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے اور پر سکون ماحول میں بچے اچھی تربیت پا سکیں،سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ گھر کا ہر فرد نماز وقت پر ادا کرے،قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرے، نماز بندگی، عاجزی، در ماندگی، بے کسی اور بے بسی کے اظہار کا بڑا ذریعہ ہے، نماز کی پابندی سے تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے اور اپنے کو بڑا سمجھنے کے بجائے اللہ کی بڑائی کا خیال ذہن ودماغ پر جمتا ہے، جو سار ے جھگڑوں کے ختم کرنے کا سبب بنتا ہے، اس لیے کہ جھگڑے اپنی بڑائی کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔گھر کا ہر فرد کسی نہ کسی درجہ میں اپنے مقام مرتبہ اور حیثیت کے اعتبار سے ”انا“ کا شکار ہوتا ہے اور اس انانیت کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، اس لیے معاملہ بگڑتا چلا جاتاہے، یہ بیماری نماز کے ذریعہ ہی ختم ہو سکتی ہے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تواضع اختیار کریں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع کو رفع درجات کا سبب بتایا ہے۔ من تواضع للہ رفعہ اللہ۔
 گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے ”برائے مہربانی“ اور شکریہ کے کلمات کو رواج دینا چاہے، اس سے ایک دوسرے کی وقعت دل میں بڑھتی ہے، آتے جاتے سلام کے الفاظ دل کے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھولتے ہیں، یہ آداب ملاقات بھی ہے اور لوگوں کے لیے سلامتی کی دعا بھی، گھریلو مسائل جو بھی ہوں انہیں آپس میں ادب واحترام کے ساتھ ایک دوسرے کو منتقل کر نا چاہیے، مار پٹائی، گالی گلوج، لعن طعن سے بچنا چاہیے، عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی غلط حرکت ہے، یہ خاندان کے کمزور افراد ہوتے ہیں، اور کمزوروں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی بزدلی کی بات ہے، تنبیہ کی گنجائش تو ہے لیکن اس کا اسلوب بھی جارحانہ نہ ہو، اس لیے کہ یہی جارحیت خانگی زندگی کو جو الا مکھی اور آتش فشاں بنا دیتی ہے۔
 خانگی نظام کو ٹھیک رکھنے میں ادب واحترام کے ساتھ خوش سلیقگی کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے،خوش سلیقگی یہ ہے کہ جب کوئی بات کرے تو توجہ سے سنی جائے، خواہ وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو، اس سے اس کے اندر یہ احساس جاگے گا کہ میری بات توجہ سے سنی گئی اور اسے اہمیت دی گئی، اہمیت کا یہ احساس گھروں میں جو باغیانہ تیور نئی نسلوں میں پیدا ہو رہے ہیں اسے ختم کر نے میں معاون ومدد گار ہوگا، یہ سلیقہ گھروں میں نظر بھی آئے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد اپنے ذمہ لازم کر لے کہ جو چیز جہاں سے اٹھائے گاوہیں رکھے گا، دروازہ اور کھڑکی کھولا ہے تو ضرورت پوری ہونے کے بعد اسے بند بھی کرے گا، رات کو بارہ بجے کے بعد کوئی جاگا نہیں رہے گا، فضول گفتگو نہیں کرے گا، رات کے اس حصہ میں وہاٹس ایپ اور دوسرے ذرائع کا استعمال بھی نہیں کرے گا، یہ پابندی آپسی مجلسی گفتگو کے وقت بھی جاری رہے گی۔کیوں کہ مجلس کے شرکاء کی اہمیت کا خیال اس وقت ہر اعتبار سے ضروری ہے، ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ابھی ہمارے لیے وہ شخص سب سے اہم ہے جو ہم سے مخاطب ہے، انفرادی طور پر کھانے کے بجائے اجتماعی طور پر خورد ونوش بھی گھر کے ماحول کو ساز گار بنانے میں انتہائی معاون ہوتا ہے، اوراس سے بہت ساری غلط فہمیوں کا دروازہ بند ہوتا ہے اور کھانے میں برکت ہوتی ہے،اپنے ضروری کام خود انجام دے لینا بھی اسوہئ رسول ہے، اپنے چھوٹوں پر رعب ودبدبہ کے ساتھ حکم جمانا بچوں کی نفسیات کے لیے مضر ہے، البتہ تربیتی نقطہئ نظر سے ایسا ماحول بچوں کو فراہم کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اسے اپنی سعادت
 سمجھیں، در اصل یہ دو طرفہ الفت ومحبت کا معاملہ ہے، آپ چھوٹوں پر رحم کریں گے تو وہ اپنے بڑے کی تو قیر کریں گے، گھر میں اگر وسعت ہو اور ہر ایک کے لیے الگ الگ کمرے مختص ہوں تو حتی الامکان دوسرے کے کمرے میں جانا اس کے سامان کو الٹ پلٹ کرنا بھی ممنوع ہونا چاہیے، جانا ضروری ہو تو دروازہ پہلے کھٹکھٹا یا جائے، سلام کیا جائے، یہ سلام استیذانی کہلاتا ہے،سلام کا جواب مل جائے اور صاحب کمرہ استقبال کی پوزیشن میں ہو تو ضرور جانا چاہیے، بچوں کی تربیت کے لیے اچھے کاموں اورامتحان میں اچھے نتائج کے موقع سے حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے، اس سے آگے بڑھنے کا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے، گھر کے کسی فرد کی بیماری پر تیمار داری اور عیادت سے بھی آپسی محبت  پروان چڑھتی ہے، اس لیے اس کام کو دوسری ضروریات پر مقدم رکھنا چاہیے، خانگی زندگی کو پر سکون رکھنے کے لیے اصول اور بھی ہیں فی الوقت اتنا ہی، باقی پھر کبھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×