شخصیات

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی تابناک زندگی

رسولِ اکرم ﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت ابو ہریرہؓ تاریخِ اسلام کا ایسا روشن ستارہ ہیں کہ اس کائنات میں شاید ہی کوئی مسلمان ہوگا جو ان کے نام سے واقف نہ ہو۔
قبولِ اسلام: ابو ہریرہؓ حضور اقدس ﷺ کی بعثت کے گیارہویں سال ” تہامہ ” میں آباد مشہور قبیلۂ دوس کے سردار حضرت طفیل بن عمرو الدوسیؓ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے اور وہیں اپنے قبیلہ میں مقیم رہے اور ۷؁ ھ میں اپنے سردار ( طفیل بن عمرو الدوسیؓ ) کی زیرِ قیادت تہامہ سے طویل مسافت طئے کرتے ہوئے مدینہ پہنچے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کا اصل نام زمانہ جاہلیت میں ” عبدِ شمس ” تھا لیکن قبول اسلام کے بعد جب رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضری ہوئی تب آپ ﷺ نے ان کا نام عبد شمس سے بدل کر ” عبد الرحمن ” رکھدیا تاہم سیدنا ابو ہریرہؓ اپنے نام عبد الرحمن کے بجائے اپنی کنیت ” ابو ہریرہ ” سے ہمیشہ کیلئے مشہور ہوگئے۔ حضرت ابو ہریرہؓ جب پہلی مرتبہ مدینہ منورہ آئے تب آپؓ ۲۸ برس کے جوان تھے، اس کے بعد سے انہوں نے خود کو رسول اللہ ﷺ کی صحبت و معیت، علمی استفادہ، کسبِ فیض اور اللہ کا دین سیکھنے کیلئے مکمل طور پر وقف کردیا چونکہ اس وقت آپ غیر منکوح تھے کوئی گھریلو ذمہ داری بھی نہیں تھی اس لئیے مسجد نبوی ﷺ سے بالکل متصل جو صفہ( چبوترا ) تھا اس کو اپنا مسکن بنایا اور شب و روز اللہ کی عبادت اور تحصیلِ علمِ دین میں مشغول و منہمک رہنے لگے، آپ کی رہائش گاہ بھی وہی تھی، عبادت گاہ بھی وہی تھی، اور درسگاہ بھی وہی تھی اور آپ کے استاد اور معلم و مربی خود رسول اللہ ﷺ تھے۔
حضور اقدس ﷺ سے بے لوث محبت: حضرت ابو ہریرہؓ کو رسول اکرم ﷺ سے ایسی عمیق اور گہری محبت تھی کہ جو ان کے جسم کے گوشہ گوشہ میں سرایت کرچکی تھی۔ وہ آپ ﷺ کے دیدار سے کبھی آسودہ نہیں ہوتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے: مارأیت شیئا املح و اصبح من رسول اللہ ﷺ حتی لکان الشمس تجری فی وجھہ ” میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ دلفریب اور خوبصورت کوئی شیئ نہیں دیکھی، ایسا لگتا تھا جیسے رخِ تاباں میں سورج گردش کررہا ہے۔ ( ترمذی، بحوالہ: مشکوۃ المصابیح، کتاب الفضائل )۔ وہ ہمیشہ اللہ تعالی کی اس نعمت کا شکر ادا کرتے رہتے تھے اور کہتے تھے کہ: شکر ہے اس اللہ کا جس نے ابو ہریرہ کو اسلام کی ہدایت بخشی، شکر ہے اس اللہ کا جس نے ابو ہریرہ کو قرآن کا علم دیا، شکر ہے اس اللہ کا جس نے ابو ہریرہ کو اپنے نبی ﷺ کی صحبت سے نوازا۔ ( بحوالہ: حیاتِ صحابہؓ، ص: 428 )
طلبِ علم میں خاص رغبت و اہتمام: جس طرح رسول اللہ ﷺ کی عقیدت و محبت ان کے رگ و پا میں سرایت کرچکی تھی اسی طرح آپ سے استفادہ، کسبِ فیض اور دینی علم حاصل کرنے کا جذبہ بھی اس قدر شدید تھا کہ اُسی کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا،اپنا شیوہ و شعار، اپنا نصب العین اور اپنا مقصدِ زندگی بنالیا تھا۔ صحابئ رسول حضرت زید ابن ثابت الانصاریؓ فرماتے ہیں کہ: ایک روز میں، ابو ہریرہ اور میرا ایک ساتھی تینوں مسجد نبوی میں بیٹھے ذکر و دعا میں مصروف تھے اسی اثناء میں رسول اللہ ﷺ حجرۂ مبارک سے نمودار ہوئے اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئے تب ہم خاموش ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا ” اپنا سلسلہ جاری رکھو ” تب میں اور میرے ساتھی نے ابو ہریرہ سے پہلے دعا مانگی اور آپ ﷺ نے ہماری دعاؤں پر آمین کہی اس کے بعد ابو ہریرہ نے دعا کی ” آئے اللہ! میں تجھ سے وہ چیزیں بھی مانگتا ہوں جو میرے ان دونوں ساتھیوں نے مانگی ہیں اور میں تجھ سے نہ بھولنے والا علم مانگتا ہوں ” رسول اکرم ﷺ نے ان کی دعا پر بھی آمین کہی۔ اس کے بعد ہم دونوں نے کہا کہ ہم بھی اللہ تعالی سے نہ بھولنے والا علم مانگتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سَبَقَکُمْ بِھَا اَلْغُلَامُ الدَّوْسِیْ ” یہ دوسی نوجوان تم پر بازی لے گیا ” ابو ہریرہؓ کی اس دعا سے تحصیل علم میں ان کی خاص دلچسپی اور بے انتہاء رغبت ظاہر ہوتی ہے۔
فقر و فاقہ: حضرت ابو ہریرہؓ اپنی غیر معمولی علمی مصروفیت و انہماک اور رسول اللہ ﷺ کی مجلسوں کی پابندی کی وجہ سے اکثر بھوک، فاقہ کشی، اور تنگدستی کے شکار رہا کرتے تھے، زندگی کے جو شدائد، مصائب اور تکالیف و سختیاں سیدنا ابو ہریرہؓ نے جھیلیں شاید ہی کسی دوسرے نے جھیلی ہوں۔ ابو ہریرہؓ خود اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ: ایک روز مجھے ایسی شدت کی بھوک لگی کہ میں اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا اور صحابۂ کرامؓ کے راستہ پر بیٹھ گیا۔ سب سے پہلے ابو بکرؓ کا گزر ہوا میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے متعلق دریافت کیا اور یہ سوال میں نے صرف اس لئیے کیا تاکہ وہ مجھے اپنے گھر لے جاکر کچھ کھلائیں مگر وہ نہیں بلائے۔ پھر عمر ابن خطابؓ راستہ سے گزرے میں نے ان سے بھی ایک آیت کے متعلق پوچھا لیکن انہوں نے بھی مجھے کھانے کیلئے نہیں پوچھا پھر اس گزرگاہ سے رحمتِ دو عالم ﷺ کا گزر ہوا وہ مجھے دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ میں بھوک سے بے حال ہوں اور پیار بھرے لہجہ میں فرمایا ابو ہریرہ؟ میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ! اور پھر پیچھے پیچھے چلتا ہوا آپ کے ساتھ آپ کے گھر میں داخل ہوگیا آپ کے گھر میں تحفہ میں آیا ہوا دودھ کا ایک پیالہ تھا پھر آپ ﷺ نے اصحابِ صفہ کو مدعو کیا اور ان سب کے دودھ پینے کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا ابو ہریرہ اب میں اور تم دونوں ہی بچے ہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ! پھر آپ ﷺ نے فرمایا ابو ہریرہ ” پیو ” میں نے پیا پھر فرمایا اور پیو میں نے اور پی لیا حضور ﷺ مسلسل اور پیو اور پیو فرمارہے تھے اور میں پیتا رہا حتی کہ میں شکم سیر ہوگیا اور عرض کیا ” قسم ہے اس بات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اب اور گنجائش نہیں ہے ” تب آپ ﷺ نے پیالہ لے کر باقی بچے ہوئے دودھ کو خود نوش فرمایا۔ ( سیر اعلام النبلاء بحوالہ: حیاتِ صحابہ ص: 431 ).
ابو ہریرہؓ عہدِ نبوی کے بعد: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تعلقِ خاطر، ہمہ وقت صحبت و معیت، علمی استفادہ، اور کسبِ فیض کا سلسلہ جاری و ساری رہا حتی کہ آپ ﷺ کا مبارک دور گزر گیا۔ آپ ﷺ تا دمِ آخر ان سے انتہائی مسرور و مطمئن رہے۔ رسول اکرم ﷺ کا مبارک زمانہ گزر جانے کے بعد بھی حضرت ابو ہریرہؓ کے شب و روز کے معمولات وہی رہے یعنی ہمہ وقت صرف علمِ دین کی خدمت، اللہ کا دین سیکھنا اور سکھانا، اسی کیفیت میں شب و روز اور ماہ و سال کا یہ سفر جاری رہا۔
خدمتِ علمِ دین: رسول اللہ ﷺ کے جہانِ فانی سے رحلت کے بعد حضرت ابو ہریرہؓ نے بہت طویل عرصہ تقریبا چھیالیس سال تک دینی علوم بالخصوص آپ ﷺ کے احادیث مبارکہ کی نشر و اشاعت اور درس و تدریس کی خاطر اپنی زندگی کو وقف کئے رکھا، بہت بڑی تعداد میں خلقِ خدا ان سے مستفید اور فیض یاب ہوتی رہی۔ انہوں نے پانچ ہزار سے زیادہ حدیثیں اس امت تک پہنچائی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے انہیں بہت بڑے پیمانے پر قبولِ عام نصیب ہوا۔
وفات: مرورِ زمانہ کے ساتھ حضرت ابو ہریرہؓ رفتہ رفتہ ضعیف و کمزور ہوتے چلے گئے بالآخر ۵۸؁ ھ میں ۷۸ سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کرتے ہوئے اپنے رب سے جا ملے انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت ابو ہریرہؓ جب مرض الوفات میں مبتلاء ہوئے اور ان کا وقت قریب آگیا تو رو پڑے ان سے رونے کا سبب دریافت کیا گیا تو کہنے لگے: ” ابکی لبعد السفر و قلۃ الزاد ” میرے رونے کی وجہ یہ ہے کہ آگے راستہ بہت طویل ہے جبکہ میرے پاس زادِ راہ بہت مختصر ہے۔
اللہ تعالی ابو ہریرہؓ پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے، ان کو اسلام اور اہلِ اسلام کی طرف سے بہترین اجر عطا فرمائے، اور ہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ اور تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی صحبت و معیت سے نوازے۔ آمین یا رب العلمین۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×