شخصیات

بے مثال استاد باکمال مہتمم (مفتی احمد معاذ سعودی رشادی علیہ الرحمہ)

قحط الرجال کے اس تشویشناک عہد میں یکے بعد دیگرے تھوڑے سے وفقہ میں اصحابِ علم و ہنر کا داغ مفارقت دے جانا بالخصوص ہم سب کے لیے اور بالعموم ساری قوم و ملت کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے، کیونکہ حضرت امیر شریعت دوم کی جدائیگی کے صدمہ سے مکمل نکلنے بھی نہیں پائے تھے کہ بروز منگل بعد نمازِ مغرب ایک فون کال کے ذریعہ ہم سبق ساتھیوں نے اطلاع دی کہ مشفق و مربی استادِ محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی احمد معاذ صاحب رشادی سعودی، مہتمم دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور نے اچانک داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا تو فوراً دل و دماغ پر ایک سکتہ تاری ہو گیا، اور کچھ دیر تک کے لئے ہوش و حواس باختہ ہوگئے، لیکن کسی بھی اعتبار سے دل اس بات کی تصدیق کرنے کی ہمت نہیں کر پارہا تھا مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا وہ چپکے چپکے بغیر شور و شرابا کے ہمارے درمیان سے اس دار فانی کو الوداع کہتے ہوئے رحلت فرما گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ کے  عالمانہ و فاضلانہ صلاحیتوں کو دیکھ کر اور دارالعلوم کے انتظامی امور سے ایک یقین کی کرن جاگ اٹھی تھی کہ امیر شریعت کا صحیح معنوں میں جانشین قوم و ملت کو اور بالخصوص مادر علمی کو مل گیا ہے، جو ہر اعتبار سے اپنے اندر ایک انجمن ہے۔
حقیقت میں حضرت امیر شریعت دوم  اپنے پاس قیمتی موتی و جواہر پارہ کے مانند یہ انمول خزانہ ساری دنیا سے چھپا رکھے تھے، اور دو سال کے قلیل عرصہ میں آپ کی شہرہ آفاق صلاحیتوں و قابلیتوں کو تسلیم کرنے پر سب کے سب مجبور ہوگئے تھے.
کیونکر نہ ہو جس دادا کی گودی میں کھیلے ہوں وہ علم و عمل ورع و تقویٰ کا پیکر تھا جس کے تقویٰ و طہارت پر کسی کو شک نہیں اور جس باپ کا سایہ عاطفت ملا ہو وہ علم و کمالات فہم و فراست اور دوراندیشی کا مالک تھا.
یوں تو موت حیات اور سلسہء آمد و رفت اس عالم فنا کی بدیہی خاصیات اور خلائقِ عالم کی ناقابلِ تبدیل سنت ہے جو بلا تفریق کسی بھی شخصیت کو استثناء فراہم نہیں کرسکتی تھی.
آپ کا اندازِ درس سب سے جدا تھا اور تدریسی صلاحیت ایسی کہ ایک سانس میں مختلف انداز میں الفاظِ مترادف کا انبار لگا دیتے تھے اور اندازِ بیاں ایسا جوش و ولولہ خیز کہ سامعین کی توجہ اپنے اوپر مرکوز کرلیتے. آپ کے اندر ایک ایسا رعب و دبدبہ تھا کہ طلباء آپ کے سامنے کھڑ نہیں پاتے اور آپ کے کہنے سے پہلے اس کام کو کرنے پر مجبور ہوجاتے جس کام کو آپ پسند فرماتے تھے.
میں اس بات کا شاہد ہوں جس طرح آپ اصول کی خلاف ورزی کرنے والوں پر برہمی کا اظہار فرماتے اور غیظ و غضب کا اظہار فرماتے، وہیں آپ بالکل نرم طبیعت اور منکسرالمزاج بھی نظر آتے تھے.
آپ کی ایک خوبی یہ تھی کہ اور تمام تر اساتذہ کا حال بھی یہی تھا کہ طالب علم کی غلطیوں کو نظر انداز فرماتے اور جب طالب علم دوبارہ، سہ بارہ خلاف ورزی کرتے تو سزا دیتے لیکن قابل تذکرہ آپ کی جانب سے جو اکثر سزا ہوتی وہ گھور کے دیکھنا ہی کافی ہوجاتی تھی. آپ باہر سے جتنے سخت معلوم ہوتے تھے قریب جانے پر اتنے ہی نرم خو نظر آتے تھے.
آپ 2015 کے طلبائے تحصیل کو بہت عزیز تر رکھتے تھے اور مدارس کے کام کاج کے لئے انہیں طلباء کو طلب فرماتے تھے اور ان طلباء نے آپ کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے کہ آپ طلبائے دارالعلوم سبیل الرشاد سے کتنی فکر مندی کا اظہار فرماتے تھے، گاہے بگاہے انفرادی طور پر پند و نصیحت فرماتے تھے،
دورانِ درس آپ کے ارشادات اور پند و نصائح میں پہیلیاں چھپی رہتی تھی جو کسی خاص طالب علم کی طرف اشارہ و کنایہ ہوتی جو وہ طالب علم ہی سمجھ پاتا تھا.
آپ کی باتیں، آپ کے خصائل آخر کیا کیا بتاسکتا ہوں، آپ ایک استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک حقیقی باپ کا درد رکھتے تھے اور آپ کا اچانک اس دنیا سے رحلت کرجانا جہاں پورے دارالعلوم سبیل الرشاد اور قوم ملت کے لئے نقصان کا باعث ہے وہیں 2015ء کے طلبائے تحصیل یعنی ہماری جماعت والوں کے لئے گویا کہ باپ کے سایہ سے محرومی ہے۔ ہم کو تو یتیمی کا احساس ہونے لگا۔ اور ہمارے سر پر سے آپ کا سایہ ہٹ گیا، استاد الاساتذہ حضرت امیر شریعت کا صدمہ پورا بھی نہیں ہو پایا تھا کہ یہ دوہرا صدمہ بجلی بن کر ہمارے اوپر آپڑا۔ اب قلم بھی ڈگمگا رہا ہے، الفاظ بے بس نظر آرہے ہیں، ذہن و قلب پر جدائیگی کے سبب ماؤفی کی کیفیت تاری ہے، کیوں کہ آپ ہماری جماعت سے ایک غیرمعمولی محبت و الفت رکھتے تھے، اور اس کا احساس فراغت کے بعد ہونے لگا، اب میری قوت قلم ماند پڑ رہی ہے.اخیر میں بس اس دعا کے ساتھ اختتام پر پہنچنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے استادِ محترم کی بال بال مغفرت فرمائے اور مادر علمی کو آپ کا نعم البدل عطاء فرمائے اور آپ کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین.
 ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×