سیرت و تاریخمفتی محمد صادق حسین قاسمی

رسولِ رحمتﷺ کا بارِ احساں ،تمام خلقت کے دوش پر ہے

کفر وشرک کے تاریک ماحول میں ، جہالت و ضلالت کے اندھیرے میں ،ظلم و جور ،اور ناانصافی و حقوق تلفی کے دور میں ہمیشہ کے لئے رحمتِ انسانیت اور محسنِ کا ئنات بن کر نبی کریم ﷺ تشریف لائے ۔آپﷺ کی آمد سے دنیا کے تمام مظلوم طبقوں اور ستم رسیدہ انسانوں کو جینے کا قرینہ ملا اور سب پر رحمتِ الہی برسنے لگی ،اس دنیا کا ہر ذرہ آپﷺ کے احسانات کے سایہ تلے آگیا، پوری انسانیت کی گردن آپﷺ کے احسانات کے سامنے ہمیشہ کے لئے جھکی رہے گی اور دنیا کی ہر قوم آپ ہی کے احسانات سے جلا پائی اور پاتی رہے گی ۔آپﷺ کے احسانات دنیا میں بھی ہیں اور آخرت میں بھی ہو ں گے ،آپ ﷺکے احسانات سے آپ ﷺکے نا م لیوا بھی فیض پا تے رہیں اور جنہوں نے آپ ﷺکے احسانا ت کی قدر نہیں جا نی اور وہ بھی مستفید ہو تے رہے ہیں گے،آپﷺ کے احسانات کے اثرات دنیا کی تمام مخلوقات پر ظاہر ہوئے ،شجر و حجر نے، شمس و قمر نے، لیل و نہارنے، بحر و بر نے ،انس و جن نے ، عرب وعجم نے ،رنگ ونسل کے اختلاف والوں نے ،ہر ایک نے اپنے اپنے ظر ف کے مطابق آپﷺ کی شخصیت اور آپ ﷺ کی رحمت و رأفت سے فیض پایااور پاتے رہیں گے۔آپ ﷺکی بعثت ہی سارے عالم کے رحمت بن کر ہو ئی چناں چہ خود قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:وما ارسلنا ک الا رحمۃ اللعالمین۔(الانبیاء:۱۰۷ )ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لئے رحمت ہی رحمت بناکربھیجا ہے۔علامہ سیوطی ؒ نے فرمایا کہ : جو آپ پر ایمان لائے اس کے لئے دنیا وآخرت میں پوری رحمت ہوگی،او رجو ایمان نہ لائے وہ بھی ان عذابوں سے مامون ہو ں گے جو پہلی قوموں پر آئے جیسے زمین میں دھنسادیا جانا ، چہرہ کا مسخ ہو جاناوغیرہ۔( الدر المنثور:۱۰/۴۰۵)آپ ﷺ کی رحمت کے اثرات ہر چیز پر ظاہر ہوئے یہاں تک کہ فرشتے بھی آپ کی رحمت سے مستفید ہوئے ۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ سے پوچھا کہ کیا تمہیں میری رحمت سے کچھ پہونچا ؟تو جبرئیل ؑ نے کہا کہ:ہاں ! میں ( پہلے ) اپنے انجام سے ڈرتا تھا ، لیکن جب اللہ تعالی نے قران میں ’’ذی قوۃ عند ذی العرش مکین‘‘ کے ذریعہ تعریف فرمائی تو مطمئن ہوگیا( روح المعانی:۱۷/۱۰۵بیروت)
دنیا میں آپﷺ کے احسانات:
آپ ﷺکی آمد سے قبل عرب بلکہ ساری دنیا کے حالات انتہائی ابتر تھے ،بے دینی اور خدا فراموشی کی دنیا تھی اور کمزوروں ،مجبوروں، یتیموں ، عورتوں،مزدوروں اور غلاموں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا ،کس مپرسی اور ذلت ومظلومیت کی زندگی ان کا مقدر بنی ہو ئی تھی اِن ہی حالات میں سرورِکا ئنات محسنِ انسانیت ﷺ کی آمد ہو ئی ۔آپﷺ کا اس دنیا پر سب سے بڑا احسان بلا شبہ یہ بھی ہے کہ آ پﷺ نے انسانوں کی پیشانیوں کو مختلف دروں سے اٹھاکر صرف اس ایک مالک سے سامنے جھکا یا جو اس کائنات کا خالق ہے اور مذہبوں کے شکنجے سے آزاد کر کے اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں میں جگہ دی اور فرمایا:ائے لوگو!لاالہ الااللہ کہہ لو کامیاب ہو جائے گے۔( صحیح ابن خزیمہ:۱۶۵)آپﷺ کے احسانات کا تذکرہ کرتے ہو ئے جعفر طیارؓ نے نجاشی کے دربار میں کیاکہا تھا اس کا کچھ اقتباس مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے کہ:سن ائے بادشاہ!ہم لوگ جاہلیت میں غوطے کھا رہے تھے، ہم پتھروں کی کھودی ہوئی مورتیوں کے آگے جھکتے تھے،ہم بے حیائیوں سے لت پت تھے، ہم رشتوں کو کاٹتے تھے ،ہم پڑوسیوں کے لئے صرف دکھ اور رنج تھے۔۔۔اچانک ہم میں اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو اٹھا یا ، جس کے نسب کو بھی ہم جانتے ہیں ، جس کی سچائی کا ،صدق کا ، امانت کا ،پارسائی کا ہم سب کو تجربہ ہے،۔۔۔۔۔(النبی الخاتم ۴۰) اورآپﷺ نے ان گرے ہو ئے مظلوم انسانوں کو قعرِ مذمت سے اٹھا یا اور ان کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کی پیاری تعلیمات دیں اور خود عملی طور پر ان کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کے لئے میدان میں آگئے۔کمزوروں اور محتاجوں کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا کہ :ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،(اس لئے) نہ خود اس پر ظلم کرے ،نہ ظلم کا نشانہ بننے دے،جو کوئی اپنے ضرورت مند بھائی کی حاجت پوری کرے گا،تو اللہ تعالی اس کی حاجت روائی کرے گا،اور جو کوئی کسی مسلمان کو تکلیف و مصیبت سے نجات دلائے گا ،اللہ تعالی ا س کو قیامت کے دن کی مصیبت و پریشانی سے نجات عطا کرے گا،اور جو کسی مسلمان کی پردہ داری کرے گا ،اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ داری کرے گا۔(مسلم:۴۶۸۳)یتیموں کے ساتھ احسان کا برتاؤ کر نے کی تاکید فرماتے ہو ئے کہا کہ:اللہ کے جس بندے نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم بچے کو لے لیا ،اور اپنے کھانے میں شریک کرلیا ، تو اللہ تعالی اس کو ضرور بالضرور جنت میں داخل کرے گا۔( ترمذی :۱۸۳۶) آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ مسلمانوں کے گھرانوں میں بہترین وہ گھرانہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جا تا ہو ، اور مسلمانوں کے گھروں میں بد ترین گھر وہ ہے جس میں کو ئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔( ابن ماجہ:۳۶۷۷) آپ ﷺ نے خواتین میں مراتب کے لحاظ سے الگ الگ حقوق بتائے اور مرتبوں کی رعایت کے ساتھ ان کے فضائل سنائے۔اگر عورت ماں ہے تو آپ ﷺ نے اتنی عظمت بیان کی کہ جنت اس کے قدموں کے نیچے قرار دیا (مسند احمد : ۱۵۲۳۳)تا کہ اولاد خد مت کر کے اس کی مستحق بنیں،اور خو د قران کریم میں ما ں کی بڑی اونچی شان بیا ن کی گئی اور آداب و حقوق کو بجا لا نے کی تر غیب دی ۔عورت اگر بیو ی ہے تو اس درجہ اس کے ساتھ حسن سلوک اور بہتر برتاؤ کا حکم دیا کہ اسی کو اخلا ق کی کسوٹی بنا یا ،آپ ﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر جو عظیم تعلیمات انسا نیت کو دی اس میں ایک یہ بھی ہے کہ :اے لوگو!تم عورتوں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہوکیوں کہ تم نے ان کو اللہ تعالی کی امان سے لیا ہے ۔(مسلم : ۲۱۴۵)اور یہ بھی فرمایاکہ :تم سے بہتر شخص وہ ہے جس کے اخلاق عمدہ ہوں اور بہتر اخلاق رکھنے والا وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر طریقہ برتتا ہو،اور خو د اپنے بارے میں فرمایا کہ انا خیر کم لاھلی ۔(ترمذی :۳۸۵۹)غلاموں پر احسانات کی بارش کی اور فرمایا کہ:: اخوانکم جعلھم اللہ تحت ایدیکم فمن جعل اللہ اخاہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یاکل و یلبسہ مما یلبس ولا یکلفہ من العمل ما یغلبہ ان کلفہ ما یغلبہ فلیعنہ علیہ(بخاری:۲۳۷۱)۔کہ یہ (غلام) تمہارے بھائی ہیں،اللہ تعالی نے ان کو تمہارا زیر دست بنا یا ہے ،اللہ جس کے زیر دست اس کے کسی بھائی کو کردے تو اس کو چاہئے کہ اس کو وہ کھلائے جو خود کھا تا ہو ،،جو خود پہنو ان کو پہناؤ،اور ایسے کا م کا مکلف نہ کرے جو اس کے لئے بھاری ہو ، اور اگر ایسے کا م کے مکلف کرے تو پھر اس کام میں خود اس کی مدد کرے۔آپﷺنے مزدور پیشہ افراد کے ساتھ ادائے حق کی تعلیم دی اور فرمایا کہ : میں قیامت کے دن تین لوگو ں کا دشمن ہوں گا ،ان میں سے ایک وہ ہے جو مزدور سے کام تو پورا لے لیکن اجرت ادا نہ کرے۔(بخای:۲۰۸۵)آپ ﷺ نے جانوروں کے اوپر پر بھی احسان فرمایا ان کے ساتھ بھی بہتر سلوک کی تعلیم دی ،عدوات و دشمنی کو ختم کر کے انسانوں کو اخوت کی لڑی میں پرویااور فرمایا کہ:سب مسلمان ایک شخص واحد کی طرح ہیں،اگر اس کی آنکھ دکھے تو اس کا سارا جسم دکھ محسوس کرتا ہے ،اسی طرح اس کے سر میں تکلیف ہو تو بھی تمام بدن تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔(مسلم:۴۶۹۳) اس کے علاوہ بھی اس محسن نبی ﷺکے احسانات اس دنیا پر اور دنیا والوں پر بے شمار ہیں جو اس مختصر تحریر کے احاطہ میں نہیں لائے جا سکتے۔
آخرت میں آپﷺ کے احسانات:
دنیا پر تو آپ ﷺکے احسانات کا کوئی شمار ہی نہیں ،آخری وقت تک اپنی امت کے لئے تڑپنے والے نبی ﷺکے احسانات کو کوئی گنا بھی کہاں سکتا ہے ،دنیا کے علاوہ آپﷺکے احسانات کا سلسلہ آخرت میں بھی ہو گا اور وہاں بھی آپ ﷺ اپنی امت کو خدا کی بارگاہ میں تنہا نہیں چھوڑیں گے اور امت کی شفاعت کراکے اس کو بچا لیں گے، آپﷺ کی شفاعت کے سلسلہ میں احادیث بکثرت وارد ہوئیں ،مولانامنظور نعمانی ؒ فرماتے ہیں کہ :شفاعت کے متعلق حدیثیں اتنی کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ سب ملاکر تواتر کی حد کو پہنچ جاتی ہیں۔آپﷺکی پہلی شفاعت اہل حشر کی تکلیف دور کرنے کے سلسلہ میں ہو گی،دوسری حساب و کتاب کے شروع کئے جانے کی شفاعت بھی آپ ﷺ فرمائیں گے،اور تیسری شفاعت اپنی امت کے مختلف گنہ گاروں کے بارے میں ہوگی۔(ملخصاازمعارف الحدیث:۱/۱۹۰)قیامت کے میدان میں ساری انسانیت کا مجمع نفسی نفسی کے عالم میں ہو گا اور ابنیا ئے کرام ؑ کے پاس سفارش کے لئے جائے گا کہ اللہ تعالی سے حساب و کتاب شروع کئے جانے کی درخواست کیجئے سبھی معذرت کریں گے ،تو اولین وآخرین کا جم غفیر سیدنا محمدﷺ کے پاس آکر عر ض کرے گا تو آپ ﷺاللہ تعالی کی بارگا ہ میں سجدہ ریز ہو جائیں گے یہاں تک آپﷺسے کہا جائے گا کہ : ائے محمد ! سر اٹھائے ،کہئے جو کہنا ہو ، تمہاری سنی جائے گی ،مانگئے تم کو عطا کیا جائے گا،جو سفارش کرنا ہو کرو تمہاری مانی جائے گی،آپ ﷺامت امت عرض کریں گے اور شفاعت کرواتے جائیں ،طویل حدیث ہے آخر میں ارشاد ہو گاکہ:میری عزت و کبریائی کی قسم میں ددوزخ سے ان سب کو نکال لوں گا جنہوں نے لاالہ الاللہ کہاہو۔(بخاری :۶۹۷۹،مسلم:۲۹۱)یہ ایک طویل حدیث ہے جس کو اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جس میں آپ ﷺکا ساری انسانیت پر بالعموم اور آپﷺکی امت پر بالخصوص احسان کا ذکر فرمایا کہ آپﷺکی سفارش پر انسانیت کا مسئلہ حل ہو گا اور اضطراب و بے چینی کے عالم میں آپﷺساری انسانیت کے لئے رحمتِ الہی بن کر پریشانی کو دور فرمائیں گے۔ایک مرتبہ آپﷺاپنی امت کو یاد کر کے خدا کے حضور رونے لگے ،اللہ تعالی نے جبرئیل ؑ کو باوجود عالم الغیب ہو نے بھیجا کہ معلوم کریں کہ آپﷺ کیوں رنجیدہ ہیں اور رونے کا سبب کیا ہے ؟تو آپ ﷺ نے رونے کا سبب بتادیا ، اللہ تعالی نے کہلابھیجا کہ جاؤ ،اور ان کو ہماری طرف سے کہو کہ تمہاری امت کے بارے میں ہم تمہیں راضی اور خوش کر دیں گے اور تمہیں رنجیدہ اور غمگین نہیں کریں گے۔(مسلم۳۰۶)
آخری بات:
بہر حال اور بھی احادیث میں آپ ﷺ کی امت کے تئیں فکر و غم کو بیان کیا جو تما م اس پر دلالت کر تی ہیں کہ نبی کریم ﷺکس درجہ اپنی امت سے محبت کرتے اور ان کی نجات اور کامیابی کی کتنی فکر میں رہتے،یہ بھی آپ ﷺ کا انسانوں پر کتنا بڑااحسان ہے کہ کسی موقع پر بھی اپنی امت کو فرامو ش نہیں کیا ،لیکن آج امت نے اپنی خواہشوں اور تمناؤں میں اس محسن اور پیا رے نبی کی مبارک تعلیمات کو فراموش کر دیا اور ان کے اسوۂ حسنہ کو چھوڑ کر زندگی گزار رہی ہے۔کاش ہم اپنے آقا اور محسن کے احسانات کی قدردانی کرتے اور ان کی ایک ایک ادا کو اپنی زندگی کا جزء بناتے ، اور ان ہی کے بتا ئے ہوئے طریقہ کے مطابق کشتۂ حیات کو آگے بڑھا تے تو یقیناًعزت و سربلندی بھی ہمارے حصہ میں آتی اور ان کے احسانات کی ناقدری کے جرم عظیم سے بچ جاتے۔آپ ﷺکے احسانات لا تعداد و بے شمار اورہمارے زبان وقلم کی رفتار مختصر اورمحدور آخر میں بصدق و ادب حضرت نفیس الحسینیؒ کی زبانی عرض ہے کہ ؤ:
رسولِ رحمتؐ کا بار احساں ، تمام خلقت کے دوش پر ہے تو ایسے مُحسن کو بستی بستی ، نگر نگر کا سلام پہنچے
اور بقول جگن ناتھ آزاد:
سلام اس ذات ِ ا قدس پر سلام اس فخر دوراں پر
ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×