سیاسی و سماجیمفتی محمد صادق حسین قاسمی

محمد عظیم :فرقہ پرستی کا شکار ہونے والا کمسن مسلمان

ملک کی محبت بھری فضاؤں کو مسموم کرنے اور ذہن ودل کو مسلم دشمنی وفرقہ پرستی پراکسانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔کہیں شہروں کے نام بدل کر فرقہ پرستی کا ثبوت دیا جارہاہے،کہیں مسلم لڑکیوں کے خلاف محاذ بناکر انہیں ایمان وعقیدہ کی دولت سے محروم کرنے اور محبت کے جھوٹے عنوان پر پھنساکر تباہ کرنے کی کوشش ہے،کہیں گائے کے نام پر تشدد ہورہا ہے،کہیں قومیت کو مسئلہ بناکر بے دخل کرنے کی سازش رچائی جارہی ہے،کہیں الزامات لگاکر نوجوانوں کوقیدوبند میں ڈھکیلاجارہا ہے،کہیں ذات پات ،قبیلہ وبرادری کے عنوان پر نفرت کا ماحول ہے ،غرض یہ کہ آئے دن ملک کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں ،ملک کی سلامتی اور امن وامان کی فضا بُری طرح متاثر ہوگئی ہے، ظلم وتشدد اور نفرت وعداوت کو مختلف انداز میں ظاہر کیا جارہا ہے۔مسلم دشمنی کا امنڈتاہوا سیلا ب ہے جس کی زد میں پورے ملک کے مسلمان پریشان ہیں۔فرقہ پرست تنظیموں نے اپنی عوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرنے کا ایسا کام شروع کررکھا ہے کہ ان کے کارندے مسلمانوں کو لقمۂ تر سمجھ رہے ہیں ،جہاں چاہے اورجس طرح چاہے اپنی سفاکیت و درندگیت کا نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔بڑوں کے ساتھ بچوں کے اندر بھی ان لوگوں نے مذہبی شدت پسندی اور فرقہ پرستی کے زہر کو بھردیا ہے ،جس کی وجہ سے ماردھاڑ،قتل وخون ،ظلم وتشدد،نفرت وعداوت لوگوں کی طبیعت بنتی جارہی ہے۔چناں چہ اس کی نئی مثال دہلی میں پیش آنے والا تازہ واقعہ ہے ،جس میں ۸ سال کی کمسن طالب علم کو شدت پسند بچوں نے بڑوں کے اشارہ پر مارکر ہلاک کردیا۔تفصیلات کے مطابق دہلی کے مالویہ نگر بیگم پور میں قائم مدرسہ جامعہ فریدیہ کے ایک کمسن طالب علم محمدعظیم جو جمعرات کی چھٹی کی وجہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مدرسہ کے احاطہ میں کھیل رہا تھا ،تقریبا دوبجے قریب کے احاطے بالمیکی کیمپ کے رہنے والے کچھ شرپسند بچے آئے اور انہوں نے وہاں پر کھیل رہے بچوں پر کنکریاں پھینکیں،اس کے بعد ایک نوجوان آیا اور محمد عظیم کو اٹھاکر پاس کھڑی بائیک پر مسلسل پٹخنے لگا جس سے وہ بے ہوش ہوگیااور اس کی آواز بند ہوگئی ،پھر مدرسہ کے بچے بھاگتے ہوئے گئے اور انتظامیہ کو آگاہ کیااور عظیم کو اسپتال لے جایاگیا،جہاں ڈاکٹروں نے اسے داخل کرنے سے قبل ہی مردہ قرار دیا۔اس طرح ایک معصوم ،ہونہار اورکمسن بچہ ظلم وتشددکانشانہ پر انتقال کرگیا،جس کی نحیف جان دشمن کے وار کو برادشت نہ کرسکی اور کمزور وچھوٹابدن ان کے ظلم کی تاب نہ لاسکا۔بچوں کے ذریعہ یہاں آئے دن شرپسندی کروائی جاتی رہی ،جس شرپسند ی کا شکار آخر میں محمد عظیم بنااور اس کی جان چلی گئی۔
محمد عظیم میوات کے علاقہ کا رہنے والاطالب علم تھا،جس کے والد محمد خلیل مزدوری کا کام کرتے ہیں اور وہ اپنے دوبھائیوں محمد مستقیم ،محمد مصطفی سے چھوٹا، نہایت ذہین اور والدین کاچہیتاتھا۔ہر ماں باپ کو اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے ،وہ اولاد کو تعلیم دلوانے کے لئے دوردراز اس لئے بھیجتے ہیں تاکہ ان کی اولاد قابل بن جائے اور دین ودنیا میں نام روشن کرنے والی بنی،مدرسہ میں پڑھ کر والدین کے لئے دوجہاں کی سرخروئی کا سبب بنے،ان ماں باپ کے دل پر کیا گزرے گی کہ جن کا چھوٹا،کم عمرپھول جیسا بیٹاظلم وتشددکا نشانہ بن کر دنیا سے چلے جائے !جس سے امیدیں وابستہ ہوں۔روشن مستقبل کی فکریں لاحق ہوں،جس کے آنے سے گھر میں بہار آجاتی ہو،جسے گھر سے وداع کرنے کو نہ ماں باپ کا دل گوارا کرے اور نہ بھائی بہن جس سے جدا ئیگی کو پسند کرتے ہوں،لیکن تعلیم ،ترقی کے لئے ہر کوئی اپنے حصہ کی قربانی دے اور ان کی قربانی کا یہ صلہ ملے کہ پھول کو مسل کررکھ دیا جائے ،اور ظلم کا نشانہ بناکر وجود کو ختم کردیا جائے ، بھلاان کے دکھ ،دردکو کون سمجھے گا؟
ماب لنچنگ یاہجومی تشدد اس وقت ہمارے ملک کا بڑھتا ہوا ایک خطرناک رجحان ہے ،جس کے ذریعہ بچوں کو بھی قاتل بنایاجارہا ہے،دل ودماغ میں نفرت ایسی بھری جارہی ہے کہ مسلمان کا نظر آنا عداوت کی چنگاری کو دہکتی آگ میں تبدیل کردے رہا،مسجد ،مدرسہ آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں ،تنہائی میں کسی مسلمان کا سفر مختلف قسم کے خدشات اور خوف وہراس کا باعث سے بنتے جارہا ہے ،بالخصوص شمالی ہند میں نفرت انگیزی اور ہجومی تشدد کی مہم زوروں پر جاری ہے ۔مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول قائم کرنے کی ہر طرح کی کوشش کی جارہی ہے۔ظلم بالائے ظلم یہ بھی ہے کہ اس طرح کی شکایتوں پر نہ عہدیدار ان کان دھرتے ہیں اور نہ ہی پولیس والے اپنافرض نبھانے کی فکر کرتے ہیں۔خود اسی مدرسہ فریدیہ جہاں کا محمد عظیم طالب علم تھا وہاں کے حالات یہ تھے کہ مدرسہ میں شراب پی کر بوتلیں پھینکی جاتی ،عین جمعہ کے موقع پر پٹاخے پھوڑے جاتے ،سورکا گوشت مدرسہ کے احاطے میں ڈالا جاتا ،بچوں پر پتھراؤ کیاجاتا،مدرسہ کے نگران کے مطابق کچھ لوگ ہیں جو بچوں کے ذریعہ شرپسندی کرواتے ،تاکہ بچوں پر کیس نہ بن سکے،اس سلسلہ میں ہم نے کئی بار پولیس میں شکایت بھی کی ،لیکن پولیس اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتی اور نہ ہی کاروائی کرتی تھی۔جب یہ حادثہ پیش آیا تو محلے کی ایک دبنگ خاتون جس کا نام سروج ہے اس نے دھمکی اور نفرت بھرے انداز میں کہا کہ ابھی ایک مرا ہے آگے دیکھوہم کیاکیا کریں گے۔
گزشتہ ایک سال قبل دہلی ہی میں دل دہلانے والا واقعہ پیش آیا کہ دہلی سے ۶۰ کیلو میٹر دوری پرہریانہ کے ایک گاؤں کھندولی ( بلبھ گڑھ)کے رہنے والے تین مسلم نوجوان جو حافظِ قرآن بھی تھے ،تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل کے بعد عید کی خریداری کرکے دہلی سے واپس متھرا پسنجر ٹرین سے اپنے گاؤں جانے لگے۔ٹرین اوکھلا اسٹیشن سے آگے بڑھی تو ان کے ڈبے میں تقریبا ۱۵ سے ۲۰افراد سوار ہوئے جو انسانی بھیس میں خون آشام بھیڑئیے تھے،ان فسادیوں نے پہلے سیٹ اور جگہ کے بہانہ ان کو چھیڑااور دھکا دیا،جب ان لوگوں نے اس طرز پر اعتراض کیا تو اب وہ سیدھے شیطانیت پر اتر آئے اور ٹوپی کو اتاردیا،داڑھی کو پکڑکر کھینچنے لگے،اورتم مسلمان ہو، گاؤماتا کا گوشت کھانے والے،دیش کے دشمن ،پاکستان چلے جاؤ ایسے طعنے دینے لگے ،ان لوگوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے وہاں سے نکلنا چاہا تو مارپیٹ شروع کردی یہاں تک کہ چاقو مارنا شروع کردیا ،اور مسلسل چھری کے وار کی وجہ سے ۱۵ سال کا لڑکا حافظ جنید دم توڑدیا اور ان ظالموں نے اسے بلبھ گڑھ کے پلیٹ فارم نمبر ۴ پر خون سے لت پت نیم مردہ حالت میں ٹرین کے ڈبے سے باہر پھینک دیا،اس کا ایک بھائی صغیر،چچازاد بھائی محسن اور اس کا دوست معین زخمی حالت میں کسی طرح جان بچاپائے۔
گائے کے نام پرمستقل مسلمانوں کو ہراساں کیاجارہا ہے بلکہ جانوں کو ضائع کیاگیا ،بوڑھوں کو نشانہ بنایاگیا ،پورے ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں ،ملک کی حقیقی ترقی اور بنیادی کاموں کو پسِ پشت ڈال کر نفرت کا بازار گرم کیا جارہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول بنانے ،ملک دشمن بتانے کے لئے میڈیا کو بھرپور استعمال کیا جارہا ہے ،اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف محاذ بناکر محنت کی جارہی ہے ،اور آج کا بکاؤ میڈیا مسلمانو ں پر ہونے والے مظالم کے خلاف تو آواز نہیں اٹھاتا ،لیکن مسلمانوں کی چھوٹی سی بات کو بھی بڑا بناکر پیش کرنے میں لگا ہوا ہے۔اگر فرقہ پرست تنظیم اور اس کے افراد کھلے عام ظلم و تشدد کرے ،عورتوں کے ساتھ غلط سلوک کرے ،گائے کے نام پر مسلمانوں کے مارتے پھرے ،ان کے گھروں کو آگ لگاتے رہے ،معصوم بچے کونفرت کی شکار بنائے ،لیکن ان کو احساس تک نہیں ہوتا اور جوں ہی طلاق وغیر ہ کا مسئلہ آجائے تو پورے چینلس مل کر پورے ملک میں ایک ہنگامہ برپا کردیتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ملک کی سالمیت کو بچانے کی فکر کی جائے ،محبتوں کی فضاء کو برباد ہونے سے روکاجائے ،ذہن ودل کو نفرت سے پاک وصاف کیا جائے ،خونِ مسلم سے ہولی کھیلنے کا سلسلہ بند کروایاجائے،ہجومی تشدد کے ذریعہ مارنے اور قتل کرنے پر سختی سے کاروائی کی جائے،بدامنی پھیلانے والوں،نفرت کی مہم چلانے والوں ،انسان دشمنوں کے خلاف گرفت مضبوط کی جائے۔یہ ملک سب کاہے ،تمام اس چمن کے رنگارنگ پھول ہیں،اس گلشن کی تعمیر میں اور وطن کی ترقی میں مسلمان برابر کے حصہ دار ہیں بلکہ سچے ،بے لوث اوربڑے وفادا ر بھی ہیں اور ان شاء اللہ رہیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×