سیرت و تاریخمفتی محمد صادق حسین قاسمی

صحابہ ؓ سے الفت نبی ؐسے محبت کی علامت ہے!

صحابہ کرام ؓ کی جماعت کو یہ شرف واعزاز حاصل ہے کہ سرورکائنات سیدنامحمدرسول اللہﷺ نے ان کی تربیت فرمائی،ان کو سنوارا،اخلاق وکردار سے آراستہ کیا،پستیوں سے نکال کر رفعتوں پر پہنچایا،ہدایت کے روشن ستارے قراردیا، ان کے ایمان کو انسانوں کے لئے معیار بتایا،اوردوجہاں کی کامیابی اور نجات کے لئے ان کے نقش ِ قدم کی پیروی کو ضروری قراردیا۔جس کو اپنے نبی فخر ِ دوعالم ،امام الانبیاء سید نا محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت ہوگی ،اسے ضروری حضرات صحابہ ؓ سے بھی محبت ہوگی،جو نبی ﷺسے الفت کادم بھرتا ہوگا وہ یقینا صحابہ کرام ؓ کی عظمت ومقام ِبلند کا بھی قائل ہوگا۔صحابہ ؓ کی تعظیم واکرام اور احترام دراصل یہ نبی کریمﷺ سے محبت کی علامت اور دلیل ہے۔اور جسے اپنے سے سچی محبت نہیں ہوگی وہ نبی کریم ﷺ کے تربیت یافتہ او رتیارکردہ صحابہ کرام ؓ پر بھی نکتہ چینی اورعیب جوئی کرے گا۔
اردو وعربی کے مایہ نازادیب ومصنف حضرت مولانانورعالم خلیل امینی صاحب مدظلہ اپنے منفرد انداز واسلوب میں حضرات صحابہ کرام ؓ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:اس میں کوئی حیرت واستعجاب نہیں ؛اس لئے کہ جن حضرات کو نبی خاتم ﷺ کی صحبت کا شرف ملا،انھیں یہ سعادت،توفیق ِ الہی سے ملی تھی ۔اللہ تعالی نے خود اس کے لئے ان کا انتخاب فرمایا۔شرف ِ صحابیت کوئی معمولی چیز نہیں،جوہرکس وناکس کو مل جائے،کوئی ایسا سامان نہیں ،جسے انسان اپنی جیب سے خریدلے،یا اس کواپنے زورِ بازو سے حاصل کرلے،یا کسی حیلہ وتدبیر یاذاتی کوشش کے ذریعے اس سے بہرہ یاب ہوسکے،منصب ِ صحابیت صرف اسی کو ملا جس کے لئے یہ مقدر تھااور جس کو خدانے اس کا اہل بنایاتھا وہ جانتا تھاکہ یہ اس منصب کی ذمے داری لیاقت وصلاحیت کے ساتھ پوری کرے گا۔۔۔یہ اس لئے کہ اسلام ،اللہ کا آخری پیغام ،محمدﷺاللہ کے آخری نبی،خاتم الرسل اور امام الکل ہیں،تو اس کا تقاضا ہوا کہ اللہ تعالی اس نبی کے لئے ایسے جانشین بنائے جو براہ ِ راست نبی سے علم وحکمت کی باتیں اورتزکیہ ٔ نفس اخذکریں۔سیرت واخلاق کی بلندی،ایمان ویقین کی پختگی ،میلانات ورجحانات میں اعتدال وتوازن ،حسن سلوک ،غم خواری ،طاعت وفرماں برداری،رحمت وشفقت،احساسات وجذبات کی نزاکت ،ایثار قربانی ،عفت وپاک دامنی ،صبر وتحمل ،بہادری وشجاعت ،ہمت وحوصلہ،عدل وفضل،دنیاوی رونق ورعنائی سے بے رغبتی،انابت الی اللہ ،دربارِ الہی میں سربہ سجودہونے اور ایک دوسرے کو حق وصبرکی تلقین کرنے کے اس اعلی معیارپر ہوں کہ فرشتے ان پر رشک کریں؛پرورگارکو ان پر فخر ہو،وہ تاریخ کی پیشانی پرچمکتے موتی ہوں؛تاکہ ہدایت کے بلند مینارکاکام دیں،اگلی نسلیں ان سے راستہ چلنا سیکھیں۔دین اور اس کی شرائع ،اس کی خصوصیات واحکامات ،اس کے اخلاق اور اس کے ذوق ومزاج کو ان کے واسطے سے جذب کرسکیں۔(صحابہ ٔرسول ؐاسلام کی نظر میں:۶۹)
حضرات ِ صحابہ کرام ؓ کے مقام بلند پر قرآن شاہد ہے اور نبی کریمﷺ کے فرامین گواہ ہیں۔قرآن کریم میں جن کے لئے رضامندی کا دائمی مژدہ سنادیا گیا،انبیاء کرام کے علاوہ کسی اور جماعت کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے کہ اس روئے زمین پر ہی اللہ تعالی نے ان سے رضامندی کا ا علان بھی فرمایااور جنت کی بشارت بھی دے دی۔صحابہ کرام ؓ کی عظمت اور فضیلت کے لئے کافی ہے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان سے رضامندؤی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا : والسبقون الاولون من المھجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۔( التوبہ:۱۰۰)’’اور جو مہاجرین وانصار سابق بالایمان ہیں اور بقیہ امت میں جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے متبع ہیں ،اللہ ان سب سے راضی ہوا ، اور وہ اللہ سے۔‘‘
نبی کریمﷺ نے صحابہ سے محبت کو اپنی محبت کے مترادف قراردیااور ان سے بغض کو نبی سے بغض کی وجہ بتلایا۔مشہور حدیث ہے:اَللہَ اَللہَ فِیۡ اَصۡحَابِیۡ لَا تَتَّخِذُوۡھُمۡ غَرَضًا مِّنۡ بَعۡدِی فَمَنۡ اَحَبَّھُمۡ فَبِحُبِّیۡ اَحَبَّھُمۡ وَ مَنۡ اَبۡغَضَھُمۡ فَبِبُغۡضِیۡ اَبۡغَضَھُمۡ۔ میرے صحابہ کرام کے ( حقوق کی ادائیگی ) کے بارے میں اللہ سے ڈرو ،اللہ سے ڈرو ،ان کو میرے بعد ( سب وشتم اور طعن و تشنیع کے لئے ) تختہ مشق نہ بنانا، ( اور یہ بھی سمجھ لو کہ ) جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی ہے اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض ہی کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ہے اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف دی اور اس کا پورا خطرہ ہے کہ( اللہ ) ایسے شخص کو ( دنیا و آخرت میں ) عذاب میں مبتلا کردے ۔(ترمذی : حدیث نمبر؛۳۸۲۶)حضرت مولانا منظور نعمانی ؒ حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ:آئندہ آنے والی نسلیں صحابہ کرامؓ کے بارے میں احتیاط سے کام لیں ، ان کی تکریم و تعظیم اور ان کے حقو ق کی دائیگی کا لحاظ رکھیں ۔کسی قسم کی بے توقیری ان کے بارے میں نہ کریں ورنہ دنیوی یا اخروی عذاب کا خطرہ ہے ۔( معارف الحدیث :۸/۳۶۳)اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد ہے :اذا رائتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنۃ اللہ علی شرکم ۔جب تم ان لوگوں کو دیکھوجو میرے صحابہ کو برا کہتے ہیں تو تم کہو ’’اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر پر۔‘‘( ترمذی:۳۸۶۶)ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: لا تسبوا احدا من اصحابی فان احدکم لو انفق مثل احد ذھبا ماادرک مد احدھم ولا نصیفہ۔( بخاری :حدیث نمبر؛۳۴۲۰) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے صحابہ میں کسی کو برانہ کہو اس لئے کہ ( وہ اتنے بلند مقام اور اللہ کے محبوب ہیں ) تم اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا کرچ کروگے تب بھی ان کے ایک مد بلکہ نصف مد خرچ کرنے کے برابر ثواب کے مستحق نہ ہوگے۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ان اشرار امتی اجروھم علی اصحابی۔(الکامل:۹۲۲۳)بلاشبہ میری امت کے برے لوگ وہ ہیں جو میرے صحابہ کے بارے میں گستاخ ہیں۔
صحابی ٔ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں:جسے پیروی کرنی ہے وہ حضرات مرحومین کی پیروی کرے ،کیوں کہ زندہ آدمی فتنہ سے محفوظ نہیں ہے ۔اور وہ حضرات محمد ﷺ کے صحابہ ہیں جو اس امت کے افضل ترین حضرات تھے،وہ دلوں کے اعتبار سے سب سے نیک ،علم کے اعتبار سے سب سے گہرے اور تکلف میں سب سے کم تھے ( سادگی والے تھے) اللہ تعالی نے ان کو اپنے پیغمبر کی صحبت با برکت اور اپنے دین کی خدمت کے لئے منتخب فرمالیا تھا ،لہذا تم ان کی فضیلت کوپہنچانو،اور ان کے نقش ِ قدم پر چلو ،اور تم سے جس قدر ہو سکے ان کے اخلاق اور ان کی سیرت کو مضبوطی سے تھا مو،اس لئے کہ وہ سیدھی راہ پر قائم تھے۔(مشکوۃ:۳۲)
صحابہ کرام ؓ کی تعظیم امت پر لازم ہے اور امت کا یہ اتفاقی فیصلہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی کسی بھی طرح کی بے ادبی اور گستاخی جائز نہیں ہے ،اس سلسلہ میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کی کتاب ’’مقام ِ صحابہ ؓ ‘‘سے چند اقتباسات پیش ہیں۔علامہ ابن تیمیہ ؒ نے ’’شرح عقیدۃ واسطیۃ‘‘ میںلکھا ہے کہ:کہ اہل سنت کے اصول ِ عقائد میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وہ اپنے دلوں اور زبانوں کو صحابہ ؓ کے معاملے میں صاف رکھتے ہیں ،جیسا کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں بیان فرمایاہے۔علامہ سفارینی ؒ نے اپنی کتاب’’الدرۃ المضیۃ ‘‘ میں فرماتے ہیں:والذی اجمع علیہ اھل السنۃ والجماعۃ انہ یجب علی کل احد تزکیۃ جمیع الصحابۃ باثبات العدالۃ لھم والکف عن الطعن فیھم والثناء علیھم فقد اثنی اللہ سبحانہ علیھم فی عدۃ اٰیات من کتابہ العزیز۔یعنی اہل سنت الجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہ ؓ کو پاک صاف سمجھے،ان کے لئے عدالت ثابت کرے،ان پر اعتراضات کرنے سے بچے اور ن کی مدح وتوصیف کرے ،اس لئے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزیزکی متعدد آیات میں ان کی مدح کی ہے۔عقائد کی مشہور درسی کتاب’’ عقائد نسفیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ :ویکف عن ذکرالصحابۃ الابخیر۔یعنی اسلام کاعقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ کا ذکر بجز خیر اور بھلائی کے نہ کرے۔(تلخیص از:مقام ِصحابہؓ)
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں:کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ ان کی کوئی برائی بیان کرے،یا ان پر کسی عیب یا نقص کا الزام لگائے ،جوشخص ایسا کرے،اس کی تادیب واجب ہے ۔۔۔امت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام کی تنقیص ،خود دین اور اصول ِ دین کی تنقیص ہے،اس لئے انھی حضرات کے واسطے سے دین بعد والوں تک پہنچا ہے۔امام مسلم ؒ کے استاذ امام ابوزرعہ ؒ کہتے ہیں :جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ کسی صحابی کی تنقیص کررہاہے ،تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے؛اس لئے کہ ہمارے نزدیک رسول اللہﷺ حق ہیں،اور قرآن حق ہیں ،قرآن وسنت ہم تک پہنچانے والے یہی صحابہ کرام ؓ ہیں۔یہ تنقیص کرنے والے ہمارے گواہوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں ؛تاکہ کتاب سنت کو باطل ثابت کریں؛لہذاخود ان کو مجروح کرنا زیادہ مناسب ہے،یہ زندیق ہیں۔(صحابہ رسول اسلام کی نظر میں :۱۶۳)
آئے دن کوئی نہ کوئی اپنی جہالت اور نادانی سے اپنی آخرت خرا ب کرنے کے لئے صحابہ کرام ؓ کے خلاف زبان درازی کرتا ہے،اور بالخصوص سیدنا حضرت امیر معاویہ ؓ کی عظیم المرتبت شخصیت کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کا ارتکاب کرکے اپنے خبث ِ باطن کو آشکاراکرتا ہے۔ایسے عاقبت نااندیش خود اپنی تباہی کا سامان کرتے ہیں اور اپنی بربادی کا انتظام کرتے ہیں ،وہ تمام صحابہ ؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ کو شرف ِ صحابیت لے کر اس دنیا سے گئے اور نبی کریمﷺ کی دعائیں حاصل کرکے سرخرو وبامراد ہوئے۔سیدنا حضرت علی ؓ کی محبت کی آڑ میں بعض ِ معاویہؓ کا اظہارکرتے ہیں ،جب کہ حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کاایک دوسرے کے ساتھ کیا سلوک وبرتاؤ تھا اس سے نظریں پھیرلیتے ہیں ،یاجہالت کے اتنے اندھیرے میں ہوتے ہیں کہ انہیں ان صحابہ کرام ؓ کا آپسی خلوص ومحبت کا پتہ تک نہیں ہوتا۔تفصیل میں جائے بغیر ایک دو حوالے ملاحظہ فرمائیں۔ایک دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ ہے کہ :رومیوں نے جب دیکھا کہ حضرت علی ؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ کے درمیان جنگ گرم ہے تو انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت امیر معاویہ ؓ کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی اور ان کو خط لکھا کہ ہم علی کے مقابلے میں تمہاری مدد کے لئے تیار ہیں ،تمہارا پیغام ملنے کی دیر ہے ہم اپنا لشکر تمہاری مدد کے لئے فورا روانہ کردیں گے۔حضرت امیر معاویہ ؓ نے رومی بادشاہ کے جواب میں لکھا:اُورُومی کتے!ہمارے اختلاف سے دھوکہ نہ کھاؤ،اگر تم نے مسلمانوں کی طرف رخ کیا تو علی ؓ کے لشکر کا پہلا سپاہی جو تمہارے مقابلے کے لئے نکلے گا وہ معاویہ ہوگا۔( ندائے منبر ومحراب:۱/۱۷۴)
حضرت علی ؓ نے ایک موقع پر فرمایاکہ : امارت ِ معاویہ ؓ کو بھی برا نہ سمجھو،کیوں کہ وہ جس وقت نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتے ہوئے دیکھوگے۔( مقام ِ صحابہ:۱۰۸)
صحابہ کرام ؓ کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں ،حضرت معاویہ ؓ کا مقام ومرتبہ بہت اونچا اور اعلی ہے،انسان کی سعادت اور خوش نصیبی اس میں ہے کہ وہ اپنی زبان سے ان کے خلاف نازیبا کلمات کو نکال کر اپنے ایمان کو مشکوک نہ کرے اور دنیا وآخرت کی رسوائی وبربادی کاانتظام نہ کرے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جسے اپنے نبی پاکﷺ سے سچی محبت ہوگی وہ نبی ﷺ کے صحابہ ؓ سے محبت کرے گا،اور دل وجان سے ان کا احترام کرے گا،اور جس کا دل محبت ِ رسول سے خالی ہے اور جذبات واحساسات پر دکھاوے کے پردے پڑے ہیں تووہ کبھی بھی نبی ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ ؓ پر انگلی اٹھائے گا،ان کے خلاف زبان دراز کرے گااور اپنی بربادی خود کرے گا۔
؎تم جانو اگر تم کو محبت نہیں ان سے ہم تو ہیں صحابہ کے ہمارے ہیں صحابہ
اور
؎ایمان کا معیار ہیں اصحاب ِ مصطفی

سب صاحب ِ کردار ہیں اصحاب ِ مصطفی
فرمان مصطفی ہے کہ اصحابی کالنجوم

سب خلد کے حق دار ہیں اصحاب ِ مصطفی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×