سیاسی و سماجیمفتی محمد صادق حسین قاسمی

منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر

گزشتہ ایک مہینہ سے ہمارے ملک میں ظالمانہ شہریت ترمیمی قانو ن اوراین آرسی کے خلاف احتجاج ہورہا ہے۔کڑاکے کی سردی ،پولس کے ظلم وستم اور حکومت ِ وقت کے جبر وتشدد کے باوجود بھارت کے دارالحکومت دہلی میں یونیورسٹی کے طلباء وطالبات نے اپنے غیر معمولی جوش وخروش کے ساتھ ملک کی سلامتی وتحفظ کے لئے احتجاج کو منظم کررکھا ہے۔ان کی شروع کی ہوئی تحریک پر پورا ملک سراپااحتجاج بن چکا ہے اور ملک کے گوشے گوشے میںسیاہ قانون کے خلاف ریالیاں نکالی جارہی ہیں،دھرنے کئے جارہے ہیں،مردوخواتین ،بوڑھے وجوان ،تعلیم یافتہ وتاجرچھوٹے وبڑے ،شہری ودیہاتی ہر کوئی سڑکوں پر نکل کر ظالمانہ نظام کے خلا ف آواز بلند کررہے ہیں ۔ملک سے محبت اور ملک کی سالمیت کی فکرنے ہر دل ِ دردمند رکھنے والے شہری کو بے چین رکھا ہے ۔سوشل میڈیاان کی خبروں سے بھرا ہوا ہے۔یقینا اس صدائے انقلاب کوبلند کرنے ،سوئے ہوؤں کو جگانے ،ملک کی فکر میں بیدارکرنے کا سہرا اوّلا ًجامعہ ملیہ اسلامیہ، اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اُن عظیم طلباء کے سر جاتا ہے کہ جنہوں نے ڈنڈے کھاکر، زخموں سے بوجھل ہوکر، ظلم وتشدد کو جھیل کر، ناروا سلوک کے باجود آزادی کا نعرہ بلند کیا،پھر یہاں سے اٹھی ہوئی آواز ملک کے بے شمار تعلیم گاہوں سے گونجنے لگی اور طلباء کی جرأت،ہمت وحوصلہ کو دیکھ کر ہرکوئی میدان ِ عمل میں سرگرم نظر آرہا ہے۔ ہم ان کی دلیری، شجاعت، بے لوثی اور ملک کے تئیں ہمدردی کے جذبات کو سلام پیش کرتے ہیں،جنہوں نے ایک تاریخ رقم کی اور پوری دنیا میں تہلکہ مچادیا،دنیا بھر میں جہاں بھارت کے رہنے والے بستے ہیں اور مختلف ممالک میں جو طلباء پڑھتے ہیں انہوں نے بھی اس کے خلاف اپنے اپنے مقام پر احتجاج کرکے ظلم وستم کے خلاف بلند کی جانے والی آواز میں حصہ لیا۔بقول شاعر:
میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی
ہوکہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہیے
طلباء کی آواز کو دبانے ،ان کے جذبات کو ٹھنڈاکرنے کے لئے اگر چہ مختلف حربے استعمال کئے جارہے ہیں ،شدت پسند تنظیم کے افراد کے ذریعہ ان پر حملے ہورہے ہیں جس کی تازہ مثال جواہر لال یونیورسٹی کا واقعہ ہے جس میں یونیورسٹی میں پڑھنے والوں پر حملہ کروایا گیا،تشدد کا ان کو نشانہ بنایاگیا،زخموں سے چورچورکیاگیا،لیکن اس کے باوجود بھی جذبہ ٔ حریت میں مزید گرمی پیداہوگئی،امن پسنددنیااور انصاف پسندلوگ ظالمانہ حرکتوں کو دیکھ رہے ہیں ۔بے قصوروں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا،نہتوں پر ہونی والی بربریت کا انجام براہوکر رہے گا،علم وتعلیم کے لئے اپنے گھر و علاقوں کو چھوڑ آنے والوں کے ساتھ کیاجانے والے متعصبانہ برتاؤ انقلاب برپا کرکے رہے گا،اپنے حق اور ملک کی سالمیت کے لئے جدوجہد کرنے والی کی کوششیں رنگ ضرور لائیں گی، ظلم بہرحال ظلم ہے جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، اقتدار و اختیار کا نشہ ایک نہ ایک دن ضرور اتر کر رہے گا۔فیض احمد فیض نے کسی اور پس منظر میں کہاتھا لیکن کیا خوب کہا کہ:
جب ظلم وستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑجائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
یہ دنیا خداکی بنائی ہوئی ہے ،اس میں انسانوں کو عارضی طورپر حکومتوں سے نوازاگیا ہے ،جب اربابِ اقتداراپنی حکومت کا ناجائز فائدہ اٹھاکر ظلم وستم سے خدا کی سرزمین کو کشت وخون سے بھرنا چاہیں گے توپھروہ ان تمام ظالموں سے انتقام لے گااور اپنی مخلوق کوان کے ظلم سے نجات دلائے گا،دنیاکی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے ،قوموں کا عروج وزوال اس پر شاہد ہے۔جب اقتدار چھن جائے گااور خدا کے حضورپیش کئے جائیں گے تو پتہ چلے گا کہ ظلم کا انجام ضرور بھگتنا ہی ہے،دنیا میں ایسے ظالم رسوا ہوں گے اور آخرت میں سخت عذاب کا شکار ہوں گے۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اُس دن کے بارے میں فرمایا جس دن کا وعدہ انسانوں سے کیاگیا کہ وہ ضرور آکر رہے گا۔ارشا د ہے:یَوْمَ ھُمْ بَارِزُوْنَ لَایَخْفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنْھُمْ شَیْ ئٌ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ اَلْیَوْمَ تُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَاکَسَبَتْ لَاظُلْمَ الْیَوْمَ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۔ ( المومن :۱۶۔۱۷)’’جس دن سب کھل کر سامنے آجائیں گے،اللہ سے ان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوگی ۔(کہاجائے گا:)کس کی بادشاہی ہے آج؟( جواب ایک ہی ہوگاکہ)صرف اللہ کی جو واحدوقہار ہے۔آج کے دن ہر شخص کو اس کے کئے کابدلہ دیاجائے گا۔آج کوئی ظلم نہیں ہوگا۔یقینا اللہ بہت جلد حساب لینے والاہے۔‘‘
یہ ملک سب کا ہے یہاں ہر ذات پات،قبیلہ وخاندان ،مذہب وزبان اور رنگ ونسل کے لوگ بستے ہیں ،اور ہر ایک نے اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا لہو بہایا ہے بالخصوص مسلمان شروع سے آج تک اس ملک کے سب سے بڑے وفادار رہے ہیں اور جنتا مسلمانوں نے اس ملک کے لئے اپنا خون پیش کیا اس کی مثال کسی اور کے پاس نہیں مل سکتی،آج جو بھارت پر صرف اپنا تسلط چاہتے ہیں او ر قبضہ کرکے اس کی گنگاجمنی تہذیب کا قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ کبھی بھارت کے وفادار ر نہیں رہے۔اور انہوں نے اس ملک کی سالمیت کے لئے کوئی کوشش ہی نہیں کی بلکہ ہر وقت نفرت وعداوت کا پرچار کرنے میں ہی اپنی صلاحیتوں کو ضائع کیااور دلوں میں دوریوں کو پیداکرنے ہی کی کوشش کی ہے۔
اس وقت جس ماحول سے ہمارا ملک گزررہا ہے ،بلاشبہ یہ ایک تاریخی دور ہے،ایک طرف ملک کے نظام کو ،تہذیب وتمدن کوختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں،طاقت کے زور پر نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ ملک کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ ظلم وستم کرنے اور ناانصافی پر مبنی نظام کو عائد ونافذ کرنے کی پوری منصوبہ بند فکریں ہورہی ہیں ،میڈیا کے ذریعہ حقائق کو چھپاکر، سچائیوں کو دباکر غلط پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے، ملک کے اہم ترین مسائل کو پس پست ڈال کر غیر ضروری چیزوں میں شہریوں کو الجھایا جارہا ہے،نوجوان جو ملک کا سرمایہ اور مستقبل کا اثاثہ ہے ان کے ساتھ ظلم وستم کیا جارہا ہے ،معاشی بحران برھتے جارہا ہے ،ملک کو ترقی کی راہ پر چلانے اور آگے بڑھانے کے بجائے، نفرت، عداوت پر ڈالاجارہا ہے،بے لگام وزراء ملک کی سالمیت، باہمی محبت، آپسی بھائی چارہ کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اورظالمانہ نظام وقوانین کو عملی طورپر پیش بھی کیاجارہاہے ایسے ماحول میں ہمیں حالات سے نہ مایوس ہوناہے اور نہ ہی عزم وہمت میں کمی آنے دینا ہے حالات کاثابت قدمی سے مقابلہ اور تندبادِ مخالف کے سامنے مضبوط دیوار بن کر کھڑے ہوجاناانقلاب کی تاریخ رقم کرتا ہے،ایسی بھی کوئی شام نہیں جس کی سحر نہ ہو،بلکہ جس طرح تاریکی کے بعد اجالاچھاجاتا ہے،ظلمتیں ختم ہوتی ہیں ،روشنی پھیل جاتی ہیں ،رات جاکردن طلو ع ہوتا ہے اور سورج نمودار ہوکر دنیا کوروشن کردیتا ہے اسی طرح جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے،حکومتوں کے تختے الٹ جاتے ہیں،اقتدارسے محروم کردئیے جاتے ہیں،قرآن کریم میں فرمایاگیا:وَتِلْکَ اْلاَیََّامُ نُدَاوِلُھَابَیْنَ النَّاسِ۔( ال عمران:۱۴۰)’یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں‘‘۔بقول شاعر:
وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو
حوصلے مشکلوں میں پلتے ہیں
اور بقول ماہر القادری کہ:
یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں
اس وقت انقلاب کی جو آواز لگائی گئی ہے اور ظلم کے خلاف جو صدائے احتجاج بلند کی گئی اس کو پورے جوش وجذبہ کے ساتھ باقی رکھنا،اور اس میدان میں جدوجہدکرنے والوں کاساتھ دینا ہر شہری کی ذمہ داری ہے،دعا کے ذریعہ ،حمایت کے ذریعہ اور عملی طور پر شرکت کے ذریعہ ہمیں ان تمام کا ساتھ دینا ضروری ہے جنہوں نے اپنا آرام وسکون قربان کرکے ،خود کو جوکھم میں ڈال کر ملک میں بسنے والے کروڑوں شہریوں کی سلامتی ،حقوق کی آزادی کے لئے ظلم کے خلاف برسر پیکار ہیں،تاکہ ہمار املک ظالمانہ نظام سے محفوظ رہ سکے،اور ناانصافی پر مبنی کوئی قانون کسی کے لئے بھی نافذ نہ ہوسکے۔ان شاء اللہ اسی طرح جدوجہد کا سفر جاری رہے گا تو منزلِ مراد مل کر رہے گی،جن جذبات کے ساتھ اس تحریک ِ انقلاب کو شرو ع کیاگیا ان ہی جذبوں ،حوصلوں اور امنگوں کے ساتھ جاری رکھتے ہوئے انقلاب اور انصاف کے حصول تک جدوجہد جاری رکھنا ضروری ہے،خدا سے یہی دعا ہے کہ وہ ان کوششوں کو کامیاب کرے، ہمارے ملک کوظلم وستم سے محفوظ رکھے اور کوششیں کرنے والوں کو بہترین صلہ عطاکرے
گو آبلے ہیں پاؤں میں پھر بھی اے رہروو
منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×