سیاسی و سماجیمفتی محمد صادق حسین قاسمی

بابری مسجد کا یوم ِ شہادت؛ مسلمان مسجدوں کو آباد کریں

ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بابری مسجد مقدمہ کی روزانہ کی اساس پر مسلسل تین ماہ تک سماعت ختم ہونے کے بعد  ماہ ِ نومبر کی 16؍تاریخ تک فیصلہ آنے کی خبریں سوشل میڈیا پر  بہت گشت کرنے لگیں ،لوگوں میں ایک قسم کی بے چینی اور فکر مندی تھی، مسلم قائدین ،علماء ،زعماء کی طرف سے مسلسل بیانات آنے لگے کہ فیصلہ کسی کے بھی حق میں آئے لیکن امن کا ماحول قائم رکھنا ہے ،اور پھر اچانک 8؍نومبر کی شام یہ خبر آئی کہ 9؍نومبر بروز ہفتہ صبح ساڑھے دس بجے بابری فیصلہ پر ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سنائے گی اور غیر متوقع عدالت عظمی دوسرے ہفتہ یعنی تعطیل کے دن بھی اپنا کام کرے گی۔ بالآخر صبح ہوئی اور سالوں سے ناانصافی کا شکار بابری مسجد کا فیصلہ آنے کا وقت آگیا،امید یہی تھی کہ دلائل،شواہد اور ثبوت چوں کہ مسجد کے حق میں ہیں ،اس لئے فیصلہ بابری مسجد کے حق میں آئے گا،لیکن کہیں نا کہیں جس چیز کا خدشہ تھا وہی ہو ا کہ فیصلہ مسجد کے خلاف آیااورمسجد کی جگہ رام مند کے لئے دے دی گئی اور اس کے بجائے مسلمانوں کو ۵ ایکڑ زمین دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا،اس فیصلہ کے بعد مختلف جماعتوں ،تنظیموں اور دانشوروں کی طرف سے مختلف قسم کا رد ِ عمل آیا،ماہرین ِ قانون نے خود بے اطمینانی کااظہار کیا ،لیکن چوں کہ عدالت ِ عظمی کا فیصلہ تھا اسے قبول کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے اور علماء کرام کی اپیلوں کا بھی اثر تھا کہ مسلمانوں نے بالکل امن وخاموشی کا مظاہرہ کیا۔اللہ جزائے خیر د ے مسلم تنظیموں کو جس نے آخر تک ثابت قدمی سے بابری مسجد کا مقدمہ لڑا،ان وکلاء ،ماہرین ِ قانون جو اجرعظیم عطاکرے جنہوں نے پوری جستجو،فکر کے ساتھ بابری مسجد کی بازیابی کے لئے کوشش کی،یقینا بابری مسجد سے ہندوستانی مسلمانوں کا ایک گہرا رشتہ وابستہ ہے ،اس کی تاریخ ،اس کی قدامت اور پھر اس کے ساتھ ہوئی ناانصافی نے ہرہندوستانی مسلمان کے دل میں اپنی جگہ بنائی ہے،مسلمان کبھی بابری مسجد کو فراموش نہیں کرسکتے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے ری ویو پیٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔بہرحال ہم اس مضمون میں ان تمام تفصیلات کو نہیں لکھیں گے کہ حقائق کیاتھے اورفیصلہ کس طرح آیا۔مختصراً یہ بتانا ہے کہ ایک مسلمان کا تعلق مسجد سے کیسا ہونا چاہیے؟بابری مسجدکے قضیہ کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنی مساجد کی کیسی فکر ہونی چاہیے؟مسجدوں آباد رکھنے اور مسجدوں سے دلی تعلق پیداکرنے کی سخت ضرورت ہے۔مسجد سے ایک مسلمان کا تعلق اور رشتہ کیسا ہوتا ہے ،قرآن وحدیث میں بہت اہتمام کے ساتھ بیان کیا گیا،اس کے فضائل کو ،اجر وثواب کوبھی ذکرکیاگیا ہے۔
مسجدیں اسلام کے شعائر میں سے ہیں اور مسلمانوں کے لئے اصلاح وہدایت کے مراکز ہیں جہاں سے ایمانی قوت اور روحانی طاقت نصیب ہوتی ہے اور مذہب اسلام کی نرالی شان کی ترجمانی ہوتی ہے ۔یہ وہ مقد س جگہیں جہاں رب العالمین کی بندگی پورے اہتمام کے ساتھ انجام دی جاتی ہے،ساری دنیا سے ہٹ کٹ کر اور تمام مشاغل اور افراد سے قطع ِ تعلق کر کے ایک بندہ اپنے پروردگار کی بارگاہ ِ پرُ جلال میں سر نیاز خم کرنے اور اپنے رشتۂ عبدیت کو مضبوط کر نے کے لئے دن میں پا نچ مرتبہ حاضری دیتا ہے اور روح و دل کو شاد کر تا ہے۔شریعت اسلامی میں مساجد کی بڑی اہمیت اور عظمت بیان کی گئی ، اور اس کے حقو ق و آداب سے آگا ہ بھی کیا گیا ۔نبی کریم ﷺ نے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے کام مسجد کی تعمیر کا فرمایا اور اپنے قول و عمل سے اللہ تعالی کے ان مقد س گھروں کے مقام بلند کو بیان فرمایا ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :أحب البلاد الی اللہ مساجدھا ،وأبغض البلاد الی اللہ أسواقھا۔(مسلم:۱۰۸۲)شہروں اور بستیوں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب ان کی مسجدیں ہیں اور سب سے زیادہ مبغوض ان کے بازار ہیں۔مسجد سے تعلق رکھنے کو ایمان کی نشانی قرار دیتے ہوئے آ پ ﷺ نے فرمایاکہ:جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ مسجد سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی خدمت و نگہداشت کرتا ہے اس کے لئے ایمان کی شہادت دو،کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ (انما یعمر مساجداللہ من اٰمن باللہ والیوم الاٰخر )اللہ کی مسجدوں کو آباد وہی لوگ کرتے ہیںجو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور یوم ِ آخرت پر۔(ترمذی:۳۰۳۷)قیامت کے ہولناک دن میں جن سات خوش نصیبوں کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا ان میں ایک وہ بندہ بھی ہوگا جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہوگا۔(بخاری:۶۲۳)قرآن مجید میں اللہ تعالی کایہ ارشاد بھی ہے:فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ یسبح فیھا بالغدو والاصال رجال لاتلھیھم تجارۃ ولابیع عن ذکر اللہ واقام الصلوۃ وایتاء الزکوۃ یخافون یوما تتقلب فیہ القلوب والابصار۔( النور:۳۶۔۳۷)’’جن گھروں کے بارے میں اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ اُن کو بلند مقام دیا جائے ،اور ان میں اس کا نام لے کر ذکر کیا جائے،ان میں صبح وشام وہ لوگ تسبیح کرتے ہیں جنہیں کوئی تجارت یا کوئی خریدوفروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوۃ دینے سے،وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اور نگاہیں الٹ پلٹ کر رہ جائیں گی۔‘‘بہرحال مسجدیں عبادت گاہ ہیں اس سے محبت اور الفت کی علامت یہ ہوگی کہ ایمان والے کا دل بار بار مسجد کی حاضری کو بے چین ہو ۔
تعمیر ِ مساجد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے فرمایا:من بنی مسجداللہ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ مثلہ۔(مسلم:۵۳۵)جوشخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد بنائے تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں ایک گھر ویسا ہی بنائیں گے۔مسجد میں نماز کے لئے آنے کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:من تطھر فی بیتہ ثم مضی الی بیت من بیوت اللہ لیقضی فریضۃ من فرائض اللہ کانت خطواتہ احداھاتحط خطیئۃ ولاخری ترفع درجۃ۔(مسلم:۶۶۹)جو شخص اپنے گھر میں وضوکرتا ہے پھر اللہ کے گھروں (مساجد)میں سے کسی مسجد کی طرف جاتا ہے،تاکہ اللہ کی طرف سے مقرر فرائض میں سے کسی ایک فریضہ(نماز) کو اداکرے تو اس کے ایک قدم کے بدلے اس کا ایک گناہ مٹایاجاتا ہے اور دوسرے کے بدلے ایک درجہ بلندکیاجاتا ہے۔اسی طرح آپﷺ نے ارشادفرمایا:من غدا الی المسجد او راح اعد اللہ لہ فی الجنۃ نزلاکلماغدااوراح۔(بخاری:۶۶۲)جو کوئی صبح وشام مسجد کو نماز کے لئے جائے ،وہ جتنی مرتبہ صبح وشام مسجدکو جائے گااللہ تعالی جنت میں اس کی مہمانی کاسامان فرمائے گا۔نبی کریمﷺکا ارشادِ مبارک ہے کہ :بشر المشائین فی الظلم الی المساجد بالنور التام۔(ترمذی:۲۲۳)کہ جو لوگ اندھیرے میں مسجدوں مین بکثرت جاتے رہتے ہیں ان کو قیامت کے دن کے پورے پورے نور کی خوش خبری سنادے۔
ایک طرف نبی کریمﷺ سے مسجدوں کو آباد کرنے کے فضائل منقول ہیں،مسجدوں کوآنے جانے پر اجر وثواب کے وعدے بیان ہوئے ہیں ،وہیں دوسری طرف آپ ﷺ نے سختی سے ان لوگوں کی بھی مذمت کی ہے جو مسجد وں کونہیں آتے اور نمازوں کا اہتمام نہیں کرتے ہیں۔خود قرآن کریم میں اللہ تعالی فرمایا:ومن اظلم ممن منع مسجداللہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعی فی خرابھا۔(البقرۃ:۱۱۴)اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں پر بندش لگادے کہ اس میں اللہ کا نام لیا جائے،اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:لقد ھممت ان امرفتیانی ان یستعدوالی بحزم من حطب ثم امر رجلایصلی بالناس ثم تحرق بیوت علی من فیھا۔(مسلم:۶۵۴)میں نے ارادہ کیاکہ اپنے نوجوانوں کو حکم دوں کہ وہ لکڑیوں کا ڈھیر اکٹھا کریں اور پھر میں کسی کو حکم دوں کہ وہ نماز پڑھائے اور( جو مرد جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے نہیں آئے ہوں ان کے)گھروں کو وہاں موجود لوگوں سمیت آگ لگادی جائے۔ایک حدیث میں فرمایا:لوگ جماعت ترک کرنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگادے گااور پھر وہ غافلوں میں سے ہوجائیں گے۔
بابری مسجد کادرد ہر مسلمان اپنے سینے میں محسوس کرتا ہے ،ایک تاریخی مسجد کو ڈھادینے کی تکلیف یقینا ہوتی ہے،لیکن بابری مسجد کا یہ پیغام بھی ہندوستان کے ہرمسلمان کو بالخصوص خاموش زبان میں یہ ہے کہ وہ اپنی مسجدوں کو آباد کریں،اپنے محلوں میں قائم مسجدوں میں نمازوں کی ادائیگی کے ذریعہ ان کی فکر کریں،ہم مسجدوں میںنمازیں اداکریں گے ،ہماری مسجدیں آباد بھی رہیں گی اور محفوظ بھی رہیں گی۔
ایسے سخت حالات میں تو ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنے تعلق کواپنے پروردگار سے مضبوط کریں ،اپنی مساجد کو آباد رکھیں ،دعا ومناجات کے ذریعہ مدد ونصرت کے طلب گار رہیں،احکام ِ شریعت پر پوری پابندی کے ساتھ عمل کریں تاکہ ہمارے دشمن ہماری عملی کمزوریوں کو دیکھ احکامِ اسلام پر قد غن لگانے کا مطالبہ نہ کرسکے،ہماری ایمانی کمیوں کو دیکھ اسلام کے خلاف سازش نہ کرسکے۔مسجدیں ہمارے لئے ایمانی قوت وطاقت کے مرکز ہیں ،اصلاح اور ہدایت کے سرچشمے ہیں،مسجدوں سے اگر ہم مربوط رہیں گے تو ان شاء اللہ اصلاح وہدایت کا فیض بھی ہم کو ملتے رہے گا ،احساسِ عبدیت وبندگی بھی ہر وقت تازہ رہے گا،اعمال کے انجام دینے میں فکر مندی رہے گی ،قرآن وسنت کی تعلیمات بھی زندگیوں میں آئیں گی،اخوت ومحبت ،ایثار وہمدردی کا مزاج بھی پروان چڑھے گا،دنیا اور مسلمانوں کے حالات سے بھی باخبر رہیں،اور حالات وتقاضوں کے لحاظ سے لائحہ ٔ عمل طے کرنے کچھ کرنے کی راہیں بھی سامنے آئیں گی ۔
ہم جائزہ لے کر دیکھیں کہ کتنے مسلمان ہیں جو ہفتہ میں صرف ایک با ر جمعہ کی نماز اداکرنے کے لئے مسجدوں کو آتے ہیں،کچھ وہ بھی ہیں جو مہینوں میں ایک دو بار آجاتے ہیں،کچھ وہ بھی ہیں جو رمضان ،عیدین اور متبرک راتوں میں حاضر ہوکر اپنی مسلمانی کا ثبو ت دیتے ہیں،لیکن ایک مسلمان کے لئے دن میں پانچ مرتبہ مسجد کی حاضری ضروری ہے،وہ ہر نماز میں مسجد حاضر ہوکر عبادت وبندگی کرتا ہے اور اپنی عبادت گاہ مسجد سے اپنے والہانہ تعلق کا ثبو ت دیتاہے۔نمازوں سے غفلت کی وجہ سے ہم بھی مسجدوں کو ویران کرنے والے شمار کئے جائیں گے،آج کتنی مسجدیں ہیں جن میں نماز پڑھنے والا نہیں ہے،جب کہ وہاں مسلم آبادی بھی ہے ،نوجوان بھی ہیں اور بڑے بوڑھے بھی ،نمازوں میں دیکھیں ہزاروں کی آبادی والے محلے میں گنتی کے چند لوگ نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں ۔کیا ہم قصوروار نہیں ہیں کہ ہم اپنی مسجدوں کو ویران کررہے ہیں اور ان کی ناقدری کے مرتکب ہورہے ہیں۔حالات اورواقعات ہمیں سبق دے رہے ہیں،اور پکار پکار کرکہہ
رہے ہیں کہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ،سدھار لے آئیں ،زندگیوں سے غفلت کو دور کریں،مسجد سے رشتہ کو مضبوط کریں،مسجد کی آبادی کی فکرکریں اور نمازوں کا خوب اہتمام کرنے والے بنیں ، علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے:

مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکاؤ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×