سیاسی و سماجی

ہمارے ملک میں کھلتے رہیں غنچے محبت کے

اگست کا مہینہ ہمارے ملک کی تاریخ کا ایک اہم مہینہ ہے ،کیوں کہ اسی مہینہ کی پندرہ تاریخ کو ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوااور 1947ء میںاس ملک کوآزادی ملی۔اس سے قبل ہماراملک اوریہاںکے باشندے انگریزوں کے ظلم وستم میں مبتلا تھے۔مسلمانوں،علماء اور دیگر برادران ِ وطن نے مل کر آزادی کی تحریک چلائی اوراس ملک کو آزاد کرانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں نے تحریک ِ آزادی میں ناقابل ِ فراموش کرداراداکیااور علما ء کرام نے میدان ِ آزادی میں بے مثال قیادت کا فریضہ بھی انجام دیا۔مدارس ہی کی چہاردیواری میں پڑھ کر نکلنے والے بوریہ نشینوں  نے اس ملک سے محبت کا ایسا ثبوت پیش کیا کہ تاریخ اس کو کبھی بھول نہیں سکتی ۔
ظلم کا خاتمہ ،انصاف کا قیام ،غلامانہ زندگی سے آزادی ،دوسروں کے تسلط سے خود مختاری حاصل کرنے کے لئے ایک طویل جدوجہد کی گئی اور اس کے لئے قربانیوں کے ہر مطالبہ کو پورا کیا گیا۔ان کی قربانیوں اور جانفشانیوں کے نتیجہ میں ہمارا ملک آزاد ہوا اور جمہوری اقدار پر اس کو تشکیل دیا گیا ،یہاں ہندوبھی بستے ہیں،مسلمان بھی رہتے ہیں،عیسائی بھی جیتے ہیں،اور سکھ بھی اوردیگر مذاہب اور ذات وپات ،قبیلہ وخاندان کے لوگ بھی آباد ہیں۔ملک آزاد ہواتو سب کو حقوق ملے اور جینے رہنے اور مذہبی آزادی کے لئے دستور بنایاگیا۔
ملک کو آزاد ہوئے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے،اس درمیان بہت سے نشیب وفراز آئے،اور مختلف حالات سے یہاں کے رہنے والوں کو گذرنا پڑا۔آج ہمارا ملک پھر ایک دوراہے پر آچکا ہے،اور ملک میں نفرت کی سیاست زوروں پر ہے،اقلیتوں کے ساتھ نارواسلوک کیا جارہا ہے،اور خاص کرجن مسلمانوں نے اس ملک کی آزادی کا نعرہ لگایا،اس کے لئے پھانسی کے پھندوں کو چوما،جیل کی سلاخوں کے پیچھے گئے،اذیتوں کا سامنا کیااورجان وتن کی بازی لگاکر آزادی کے خواب کو پوراکیا آج ان ہی مسلمانوں پر ظلم وتشدد کا بھیانک کھیل کھیلاجارہا ہے،شریعت میں مداخلت اور مسلم پرسنل لا میںدخل اندازی کی کوشش کی جارہی ہے۔گائے کے نام پر قتل وخون کا بازارگرم ہے ،ہجومی تشدد کے ذریعہ بے قصوروں کو بے دردی سے ماراجارہا ہے اور شک بھری نگاہوں سے مسلمانوں کو دیکھاجارہا ہے،مسلمانوں کے خلاف قوانین بنانے کی کوشش کی جار ہی ہے ،مسلمانوں کی قربانیوں کو تاریخ سے حذف کرنے کی جدوجہد کی جارہی ہے،امن ومحبت،بھائی چارہ واخوت والے پیارے وطن کو نفرت کی آگ میں جھونکا جارہا ہے اور ہر طرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ماحول کو فروغ دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔کتنے واقعات ہیں جنہیں ہم آئے دن اخبارات میں پڑھ رہے ہیں ،خبروں میں دیکھ رہے ہیں،اور دل مچل کر رہ جاتاہے ،کتنا پیارا وطن تھااور ظلم کے سوداگر،نفرت کے خریدار کیا بناناچاہتے؟ ۔ملک کے بعض مقامات پر شہریت کا مسئلہ کھڑاکرکے عرصہ ٔ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔
جب گلستاں کو خون کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہمار ی ہی گردن کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن یہ چمن ہے ہمار اتمہار ا نہیں
گنگاجمنی تہذیب کا گلاگھونٹ کر،ہمہ رنگی کا خاتمہ کرکے ہندو راشٹرمیں بدلنے کی فکریں ہورہی ہیں،جو یقینا اس ملک کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہوگااور یہاں کے رہنے والوں کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگی۔دینی مدارس کے خلاف شکوک وشبہات قائم کئے جارہے ہیں۔ایسے سخت حالات میں جس میں ہر انصاف پسند،سیکولر ذہن رکھنے والا انسان پریشان ہے اور اسے اس ملک کی محبت بے چین کررہی ہے،امن ومحبت کے لئے ،بھائی چارگی کے لئے کوششیں کرنے والے فکر مند ہیں۔ایسے میں ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ جس طرح ہمارے بڑوں نے اس ملک کو انگریزوں سے آزادی دلانے کے لئے میدان ِ عمل میں جدوجہد کی ،اسی طرح ہم بھی اس ملک کی سالمیت ،اس کے امن واتحاد اور سیکولرنظام کے تحفظ کے لئے کوشش کرنے والے بنیں،نفرت کے خلاف پیام ِ محبت کو عام کرنے والے بنیں ۔برداران ِ وطن سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے ،اپنے محلے اور اردگردرہنے والے غیر مسلم بھائیوں سے اچھا سلوک کرکے ان کے دل میں محبت کو ،پیار کو ،اور ملک کی سالمیت کی بے قراری کو پیداکریں۔اورقتیل شفائی کی زبانی یہ پیغام دیں:
رشتہ ٔ دیوار ودر ،تیرا بھی ہے میرا بھی ہے مت گرا اس کو یہ گھر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
تیرے میرے دم سے ہی قائم ہیں اس کی رونقیں میرے بھائی یہ نگر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
کیوں لڑیںآپس میں ہم ایک ایک سنگِ میل پر اس میں نقصان ِ سفر تیرا بھی ہے میرا ہے
ان حالات میں ہماری ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ہم نئی نسل اور نوجوانوں کو اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے روشناس کروائیں،ملک کی تعمیر وترقی اور اس کی آزادی کے لئے ہمارا کیا رول تھا وہ بتائیں،مسلم حکمرانوں نے اس ملک کی شادابی،اورترقی کے لئے کیاکچھ کیا اس سے واقف کرائیں،مسلم حکمرانوں نے غیر مسلموں کے ساتھ کس طرح رواداری کا برتاؤ کیا اس کو اجاگر کریں،سکولس میں،کالجوں میں پروگرام رکھ کر غیر مسلموں کو مدعو کریں اور ان کے سامنے تاریخی حقائق کو پیش کریں،ملک کو درپیش مسائل سے ان کو باخبر کریں،امن وسالمیت کے لئے متحدہ کردار اداکرنے پر ان کو دعوت ِ فکر وعمل دیں۔
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے اداروں میں خود ہماری تاریخ نہیں بتائی جاتی ،طلباء کو مسلم مجاہدین ِ آزادی کے نام تک نہیں معلوم ،اس کے ذمہ دار ہم ہی ہوں گے!تاریخ ہمیں معاف نہیں کریں گی ،آئندہ آنے والے دور کے لئے ہم خود قصوروار رہیں گے کہ ایک طرف ظالم تعصب ونفرت میں ہماری تاریخ کو مٹانے پر تلا ہوا تھا تودوسری طرف ہم نے خود اپنی تاریخ کو محفوظ رکھنے اور پوری ہمدردی کے ساتھ موجودہ نسل تک منتقل کرنے کی کوئی قابل ِ قدر کوشش نہیں کی۔مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے عصری اداروں کے ذمہ داروں کی یہ بھی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ یوم ِ آزادی کے عنوان سے منعقد ہونے والے جلسوں میں اور تقریبات میں مسلم مجاہدین ِ آزادی کے انقلاب انگیز کارناموں کو بیان کریں ،ان کی لازوال قربانیوں کو پیش کریں۔تاریخ کو بچانا اور تاریخ کو نسلوں تک پہنچانا ہمارا ہی کام ہے۔آج کتنے نام ہیں جو کتابوں میں دب کراور دفن ہوکر رہ گئے،جن کا ذکرکرنے والا کوئی نہیں،آج کے ان حالات میں اگر ہم نے نظر انداز کردیا تو آنے والے دور میں کوئی بیان کرنے والا بھی نہیں ہوگا۔
اس لئے ان حالات میں ہمارے لئے یہ کام کرنے کے ہیں۔ایک نفرت کے خلاف محبت کو عام کرنے والے بنیں،دوسرامسلم مجاہدین ِ آزادی کی تاریخ اور کارناموں کو پیش کریں،صاف ذہن غیر مسلموں کو بلاکر حقائق کو بیان کریں،غلط فہمیوں کو دور کریں،ملک کی سلامتی کے
لئے متحدہ محاذبناکر عملی کوشش کا نظام بنائیں،اور پروردگارعالم کے حضور دعاؤں کا اہتمام بھی کریں کہ وہی ہمارا ناصر ومددگار ہے۔اللہ اس ملک کو سلامت رکھے،امن ومحبت کا گہوارہ بنائے،یہاں رہنے والوں کو ہر ظلم وستم سے محفوظ رکھے۔

ہمار ملک میں پھر سے کھلیں غنچے محبت کے
یہی میری دعا ہے اور یہی ارمان میرا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×