سیاسی و سماجیمفتی محمد صادق حسین قاسمی

وہ کو ن ہے جو زندگی کے امتحاں میں نہیں

دودن قبل دسویں جماعت کے نتائج آئے ،اس سے قبل انٹرمیڈیٹ اوراسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کے بھی نتائج آ چکے ہیں۔الحمدللہ دسویں جماعت کے نتائج اچھے رہے اور بڑی تعداد میں طلباء وطالبات نے کامیابی حاصل کی۔عموما ًنتیجہ آنے کے بعد کامیاب ہونے والوں میں خوشی کی لہر ہوتی ہے ،اور ناکام ہونے والوں میں غم والم چھاجاتا ہے۔
ایک طرف کامیاب ہونے والوں میں جشن ومسرت کا ماحول ہوتا ہے،گھر اور باہر مبارک بادیوں کا سلسلہ رہتا ہے۔یقینا کامیاب ہونے والوں اور اچھے نتائج حاصل کرنے والوں کو خوش ہونا چاہیے اور اس کا اظہار بھی فطری اورقدرتی ہے،اور ناکام ہونے یا کم نمبرات حاصل کرنے کومایوس وناامید بھی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی محنت کو جاری رکھتے ہوئے اور اپنی تمام تر کوشش کو استعمال کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچنے میں ہمہ وقت مصروف رہنا چاہیے،اللہ تعالی انسا ن کی محنت اور کوشش کو رائیگاں جانے نہیں دیتا ۔بھرپورتیاری کے ساتھ اپنے نشانہ کو پوراکرنے میں لگے رہیں،پھر ایک وقت آئے گا کامیابی اور ترقی ان کے حصہ میں بھی آئے گی۔
یہ دنیا کے ایک حصہ کے امتحان کے اثرات ہیں جو انسان پر ظاہر ہوتے ہیں،ابھی تعلیمی میدان میں ہی بچے ہوتے ہیں لیکن کامیابی وناکامی سے اس درجہ وہ متاثر ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر انسان امتحان دینے کے بعد کامیابی کی امیدیں وابستہ کئے رہتا ہے۔ہر کوئی اپنی محنت کا صلہ اور اچھا نتیجہ چاہتاہے۔پڑھنے والے کو اپنے نتائج کی فکر ،کمانے والے کو اپنی محنت کے صلہ کی فکر،گھربار والے کو اپنے خوشحال گھرانے کی فکر،تجارت کرنے والے کو اپنی کامیاب تجارت کی فکر،صاحب ِ اولاد کواپنی اولاد کی ترقی وسربلندی کی فکر،قابلیت وصلاحیت والے کواسے بروئے کار لانے کی فکر،حکمراں ولیڈر کو اپنی سیٹ اور کرسی کی فکر،اپنی فکروں کو پوراکرنے اور اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے انسان اپنے اپنے میدان میں محنتیں کرتا ہے اور اچھے نتائج کے لئے روز وشب بھاگ دوڑ میں لگے رہتا ہے۔
اس موقع پر ایک مومن کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ دنیا میں ہم بھی اللہ تعالی کی طرف سے امتحان دینے کے لئے بھیجے گئے ہیں،ہمارے امتحان کا نتیجہ کل روزِ محشر اللہ تعالی پیش کرے گا اور کامیاب وناکام لوگوں کے ناموں کا اعلان کیاجائے گا۔اور وہاں کی کامیابی دراصل حقیقی اور دائمی کامیابی ہے۔دنیا کی زندگی تو کسی نہ کسی طرح گذرجائے گی اور مدت ِ عمر پوری ہونے کے بعد انسان دنیا سے چلا جائے گااور اپنی اصلی منزل کی طرف رواں دواں ہوجائے گا۔وہاں کیا معاملہ ہوگا ؟اور ہمارے امتحان کا نتیجہ کس انداز میں ملے گا اس کی فکر بہت ضروری ہے۔علامہ سلیمان ندوی ؒ کے یہ اشعار کتنے فکر انگیزہیں :
ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے
حیات ِ دو روزہ کا کیا عیش وغم مسافر رہے جیسے تیسے رہے
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے وہاں کی کامیابی وناکامی کا بڑا ہی عجیب منظر پیش کیا ہے،دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اچھے نمبرات سے کامیاب ہونے والا اپنے نتائج کو دکھاتے پھرتا ہے اور خوشی سے ہر آنے والے کو اپنی کامیابی کے بارے میں بتاتے رہتا ہے اور جوناکام ہوجاتا ہے یا جس کے نمبرات اچھے نہیں ہوتے وہ گوشۂ تنہائی میں رہتا ہے،کسی سے ملنا اور کسی کے سامنے آناپسند نہیں کرتا ،دنیا کے امتحان کے یہ اثرات ظاہر ہوتے اور آخرت کی کامیابی وناکامی پر بندہ کا حال کیا ہوگا اس کو قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا ہے۔ارشاد ہے:فَامَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیْرًاوَیَنْقَلِبُ اِلٰی اَھْلِہٖ مَسْرُوْرًا وَاَمَّامَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَآئَ ظؤَھْرِہٖ فَسَوْفَ یَدْعُوْ ثُبُوْرًا وَیَصْلٰی سَعِیْرًا اِنَّہٗ کَانَ فِیْ اَھْلِہٖ مَسْرُوْرًا اِنَّہٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ یَحُوْرً بَلٰیٓ اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیْرًا۔(الانشقاق:۷۔۱۵)’’پھر جس شخص کو اس کااعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا،اس سے تو آسان حساب لیا جائے گا،اور وہ اپنے گھروالوں کے پاس خوشی مناتا ہوا واپس آئے گا۔لیکن وہ شخص جس کو اس کا اعمال نامہ اس کی پشت کے پیچھے سے دیا جائے گا،وہ موت کو پکارے گا،اوربھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا،پہلے وہ اپنے گھروالوں کے درمیان بہت خوش رہتا تھا ،اس نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ وہ کبھی پلٹ کر ( اللہ کے سامنے) نہیں جائے گا۔بھلاکیوں نہیں؟اس کا پروردگار اسے یقینی طور پر دیکھ رہا تھا۔‘‘
انسان دنیامیں جنتی کوشش کیا تھا اور پرورگار کے امتحان کو پوراکرنے کرنے میں جتنی محنت کیاتھا اس کے مطابق اس کو ضرور صلہ مل کر رہے گا۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰی وَاَنَّ سَعْیَہٗ سَوْفَ یُرٰی ثُمَّ یُجْزَآہُ الْجَزَائَ الْاَوْفٰی۔(النجم:۳۹۔۴۱)’’اور یہ کہ انسان کو خود اپنی کوشش کے سوااور کسی چیز کا (بدلہ لینے کا) حق نہیں پہنچتا،اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی،پھر اس کا بدلہ اسے پورا پورا دیا جائے گا۔‘‘
قرآن وحدیث میں بے شمار جگہ آخرت کے اس منظر کو بیان کیا گیا جہاں انسانی زندگی کے امتحان کا نتیجہ ظاہر ہوگا،اور کامیاب ہونے والوں کے حالات اور ناکام ہونے والوںکے اضطراب کو بیان کیا گیا۔نبی کریمﷺ نے ہمیں بتابھی دیا ہے کہ کل روزِ محشر کن چیزوں کے بارے میں سوال ہوگااوراگر ان سوالات کے جوابات صحیح دے دئیے گئے تو کس طرح کامیابی کے مژدے سنائے جائیں گے۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ اٰدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہٖ حَتّٰی یُسْاَلَ عَنْ خَمْسٍ:عَنْ عُمْرِہٖ فِیْمَا اَفْنَاہٗ، وَعَنْ شَبَا بِہٖ فِیْمَا اَبْلَاہٗ، وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اکْتَسَبَہٗ ، وَفِیْمَا اَنْفَقَہٗ ، وَمَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ ۔(ترمذی:۲۳۲۵)قیامت کے دن اللہ تعالی کے دربار میں بنی آدم کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے جب تک کہ پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے گا : (۱) اس کی عمر کے متعلق کہ اپنی عمر کو کہاں فنا کیا ؟(۲)اس کی جوانی کے بارے میں کہ اس کو کس چیز میں گنوایا ؟(۳)اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا؟(۴)مال کہاں خرچ کیا (۵)اور علم کے بارے میں کہ جو علم اس کو حاصل تھا اس پر کہاں تک عمل کیا؟
اللہ تعالی نے اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے اور زندگی وموت کا نظام اس لئے رکھا ہے تاکہ یہ دیکھے کہ کون اس امتحان میں کامیاب ہوتا ہے۔چناں چہ ارشاد ہے:اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ۔(الملک:۲)’’جس نے موت اور زندگی اس لئے پیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے۔‘‘اور اس کو بھی واضح کردیا گیا کہ قیامت کے دن کامیاب ہونے والوں میں اور بہترین نتائج حاصل کرنے والوں میں کون ہوں گے ۔ارشاد فرمایا: فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَاالْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۔( ال عمران :۱۸۵)’’پھر جس کسی کو دوزخ سے دورہٹالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا ،وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا،اور یہ دنیوی زندگی تو ( جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سواکچھ نہیں۔‘‘
دنیامیں بچے اپنے نتائج کے آنے سے پہلے بڑے فکر مند اور پریشان رہتے ہیں کہ ان کے نتائج پر ان کے والدین اور سرپرستوں کا کیاردِ عمل ہوگا؟بندوں کو بھی چاہیے کہ وہ قیامت کے دن اپنے نتائج کے بارے میں اپنے پروردگار،خالق ومالک سے ڈرنے والے بنیں ،اللہ تعالی کے سامنے رسوا ہونے اور نبی کریم ﷺ کے سامنے شرمندہ سے بچنے کااحساس ان کے دل میں پیداہوجائے،یہی احساس پھر انہیں کامیابی تک پہنچنے میں مددگار بنے گا۔جس اللہ نے زندگی عطا کی، نعمتوں سے نوازا،اس کا حکم ہے کہ تم میری بندگی کرو ،کامیاب ہوجاؤگے۔روزِ قیامت محسن ِ انسانیت ﷺ بھی ہوں گے،جنہوں نے ہمیں کامیاب کرنے اور کامیابی کی آخری منزل تک پہنچانے کے لئے دنیا میں دکھ والم کو جھیلااور تکلیفوں کو برداشت کیا،اگر ہمارے نتائج اچھے نہیں آئیں گے تو ہم انہیں کیا صورت دکھائیں گے اور کس طرح دوعالم کے محسن نبی ﷺ کے سامنے حاضر ہوپائیں گے؟؟؟
یہ دنیا مقابلہ کی ہے ،یہاں ہر کوئی ہرکسی سے آگے بڑھنا چاہتا ہے ،ہرمیدان میں نام کمانے اور بلندی پر پہنچنے کی تمنا ہوتی ہے ۔اس کے لئے لوگ محنتیں کرتے ہیں اور صبح وشام کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔اللہ تعالی نے جہاں جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کیا تووہاں فرمایا کہ اُس جہاں کی کامیابی حاصل کرنے والوں کودنیا میں نیکیوں کے اندر مقابلہ میں رہنا چاہیے،ایک دوسرے سے اچھے اعمال میں سبقت کرنے کی جستجو ان کے اندر ہونی چاہیے ،چناں چہ ارشاد ہے:وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ۔(المطففین:۲۶)’’اور یہ ہے وہ چیز جس میں مقابلہ کرنے والوں کو آگے آنا چاہیے۔‘‘اور ایک جگہ ارشاد فرمایا:وَسَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَاالسَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ۔(ال عمران:۱۳۳)’’اور اپنے رب کی طرف سے مغفرت اور وہ جنت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاؤجس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں تمام آسمان اورزمین سماجائیں ۔وہ ان پرہیز گاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
بہرحال ہر سال تعلیمی میدان کے امتحان کے نتائج آتے ہیں ،اور جب تک یہ خدا کا نظام رہے گا یہ سلسلہ جاری رہے گا،لیکن ان ہی چھوٹے موٹے حالات میں ہم بھی سبق لینے والے بنیں،اور نگاہ ِ بصیرت اور ایمانی فراست سے چیزوں کو دیکھنے والے بنیں ،تو ہر چیز ہمیں دعوت ِ فکر وعمل دیتی دکھائی دے گی ،اور ہر چیز میں ہمارے لئے بھی خاموش پیغام ہوگا۔دنیا کے امتحان انسان اپنی محنت ،کوشش اور لگن کی بنیاد پر کامیاب کرلیتا ہے تو آخرت کے امتحان کو بھی کامیاب کرنے کے لئے اسی محنت ،فکر ،کوشش اور سچی تڑپ کی ضرورت ہے۔ان شاء اللہ اللہ ہماری دنیا کو بھی بہتر بنائے گا اور آخرت کو بھی خوب سنوارے گا۔ہم یہاں کے امتحانوں میں کامیاب ہوں گے اور وہاں کے امتحان میں بھی سرخرو ہوں گے۔اس فکرکے ذریعہ ہمارے اعمال میں نکھار اور افعال میں سدھار پیداہوگا۔اللہ تعالی ہم میں سے ہر ایک کو دین ودنیا کے ہر امتحان میں کامیاب وبامرادکرے اور دوجہاں کی عزتیںنصیب فرمائے ۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×