شخصیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی
مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی ؒ اور دارالعلوم دیوبند
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ایک تاریخ ساز اوریادگارِ زمانہ انسان تھے ،وہ میرکارواں تھے،قائد ورہبر تھے،شیخ ومربی تھے،مقرر وخطیب تھے،مصنف وادیب تھے، عرب وعجم میں جن کی عظمتوں کا ڈنکا بجا،علم وتحقیق سے پوری دنیا سیراب ہوئی اور ہورہی ہے،جن کی کتابوں اور تصنیفات سے پورا عالم فیض پارہا ہے۔اللہ تعالی نے جن کے اندر خوبیوں اور کمالات کو جمع فرمادیاتھا۔بقول حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی صاحب مدظلہ’’ان کی پوری زندگی پر طائرانہ نظر ڈالنے سے بہ خوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ رب کریم نے انھیں خاص طور پر تیارکیاتھااورملت وامت کے حالات وواقعات اور مسائل ومشکلات کے موجودہ دائرے میں ان کے فکر وعمل کی تابانی ،علم وقلم کی ضیاپاشی اور سرگرمئ عمل کی از حد ضرورت تھی‘‘۔( پس مرگ زندہ:۵۲۵)
اللہ تعالی نے آپ کو پاک و صاف دل عطا فرمایاتھا ،جس میں ہر ایک کے لئے قدر ومحبت پائی جاتی تھی ،اعتدالِ مزاج اور وسعتِ فکر ونظر آپ کا امتیاز رہا ۔مرشد الامت حضرت مولانا رابع حسنی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں کہ:’’مولانا رحمۃاللہ علیہ کی شخصیت میں دونمایاں صفتیں خاص طورپر قابلِ ذکر رہی ہیں:ایک ممکنہ حد تک وسعتِ قلبی ،دوسری صفت دوسروں کی دل آزاری سے پرہیز۔وہ دین وملت کی تعمیر میں حصہ لینے والے تمام لوگوں کے لئے اپنے دل میں جگہ رکھتے تھے،بشرطیکہ وہ دین وملت کی بنیادی قدروں اور مسلمہ اصولوں کے خلاف کام نہ کررہے ہوں۔(مولانا سید ابوالحسنی علی ندوی عہد سا ز شخصیت :۷۶)
مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی ؒ کی ہمہ شخصیت کا تعلق دارالعلوم دیوبند سے بھی بڑا گہرا اور نہایت مضبوط تھا۔دارالعلوم دیوبند کی تعمیر وترقی کے لئے انہوں نے بھی اپنی فکر وبصیرت اور زبان وقلم کو استعمال کیا ہے۔آپ 1962ء سے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن تھے۔ہم اس مختصر تحریر میں صرف اس بات کو اختصار کے ساتھ پیش کریں گے کہ حضرت علی میاں ندوی ؒ کا تعلق دارالعلوم دیوبند سے کس قدر گہرا تھااور وہ دارالعلوم دیوبند کی عظیم الشان خدمات کے کس قدر معترف تھے۔
دارالعلوم دیوبند سے متعلق اپنی آپ بیتی میں اجلاسِ صد سالہ کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں:دارالعلوم دیوبند محض ایک دینی درسگاہ ہی نہیں ہے(جس کو ازہر ہند کہنا ہر طرح سے درست ہے،بلکہ بعض حیثیتوں سے وہ مصر کے جامع ازہر پربھی فائق ہے)اصلاحِ عقائداور اشاعتِ کتاب وسنت کی تاریخ ساز دعوت ہے،وہ درحقیقت خاندان وللہی کے تجدیدی کارنامہ کا امتداد اور تسلسل ہے۔۔۔دارالعلوم ہر طرح سے اس کا مستحق تھا کہ اس کا صد سالہ جشن منایاجائے ،اس کی خدمات بلکہ فتوحات کاجائزہ لیا جائے ،اور اس کی تاریخ کو نہ صرف ملک بلکہ ملت کے سامنے رکھی جائے۔۔(کاروانِ زندگی :۲/۳۰۰)
دیوبندیت کاتعارف:
مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اجلاسِ صدسالہ میں اپنے فکر انگیز خطاب میں دارالعلوم کی کی خصوصیات اور دیوبندیت کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاتھا:اس درس گاہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اختلافی مسائل کے بجائے توحید وسنت پر اپنی توجہ مرکوز کی،اور یہ وہ وراثت اور امانت ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ ،شاہ اسماعیل شہید ؒ اور سید احمد شہید ؒ کے وسیلہ سے اس کو ملی اور ابھی تک اس کو عزیز ہے۔دوسری خصوصیت اتباعِ سنت کا جذبہ اور فکر ہے۔تیسری خصوصیت تعلق مع اللہ کی فکر اور ذکروحضوری اور ایمان واحتساب کا جذبہ ہے،چوتھا عنصر اعلاء کلمۃ اللہ کا جذبہ اور کوشش اور دینی حمیت وغیرت ،یہ چار عناصر مل جائیں تو دیوبندی بنتا ہے ،اگر ان میں سے کوئی عنصر کم ہوجائے تو دیوبندیت ناقص ہے،فضلائے دارالعلوم دیوبند کا یہی شعار رہا ہے ،اور وہ ان چار چیزوں کے جامع رہے ہیں۔‘‘(کاروانِ زندگی:۲/۳۱۰)
ایک مقام پر فرماتے ہیں:یہ ادارہ ایک چھوٹے سے مدرسہ کی حیثیت سے جس کی کوئی اہمیت نہ تھی قائم ہوا،لیکن اس کے ذمہ داروں اور مدرسہ کے اساتذہ کے اخلاص،قناعت اور ایثار کی بدولت برابر ترقی کرتا رہا،یہاں تک کہ اس کی حیثیت ایک اسلامی یونیورسٹی بلکہ براعظم ایشیا کی سب سے بڑی دینی درس گاہ ہوگئی۔۔۔۔ہندوستانی مسلمانوں کی دینی زندگی پر دارالعلوم کے فضلا ء کی اصلاحی کوششوں کے نمایاں اثرات رونما ہوئے ہیں،بدعات ورسوم کی اصلاح،عقائد کی درستی ،تبلیغِ دین اور فرق ضالہ سے مناظرہ وغیرہ میں ان حضرات کی جدوجہد لائق تحسین ہے،متعدد فضلاء نے سیاسی میدان اور وطن عزیز کے دفاع کے سلسلہ میں بھی کارہائے نمایاں انجام دئیے اور حق گوئی وبیباکی میں علمائے سلف کی یاد تازہ کردی۔(مدارسِ اسلامیہ کا مقام اور کام :۱۹)
حضرت علی میاں ؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں:ہمارے گھر میں ندوہ اور دیوبند کا کوئی تعصب نہیں تھا،جب کہ والد صاحب ابتداء ہی ندوہ سے متعلق ہوگئے اور اس کے بڑے داعی سمجھے جاتے تھے،مگر بھائی صاحب نے جب ندوے میں تعلیم مکمل کی تو والد صاحب نے ان کو حضرت شیخ الہندؒ اور مولانا انور شاہ کشمیر ؒ ی سے حدیث پڑھنے کے لئے دیوبند بھیجا۔وہاں انھوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور سند بھی لی۔اسی طرح بھائی صاحب نے ندوے کے بعد ہمیں مولانا مدنی کے پاس دیوبند بھیجا۔( مجالسِ حسنہ :۱۷۱)
12اگست1972ء کی شب دارالعلوم دیوبند کے دارالحدیث کے وسیع ہال میں آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا:میں خدا کے سامنے سجدہ ریز اور ثناخواں ہوں کہ جو کبھی یہاں طالب علم کی حیثیت سے حاضر ہوتا تھا اور اپنے لئے اس کو بڑی سعادت کی بات سمجھتا تھا،اس کو اس وقت خطاب کرنے کا شرف حاصل ہورہا ہے ،ابھی وفاشعار اوردردآشناسرزمین مجھے بھولی نہ ہوگی،میں اس سعادت وتوفیق پر بھی اللہ تعالی کے سامنے سجدۂ شکر اداکرتا ہوں کہ اس نے مجھے یہاں شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد صاحب مدنی ؒ کی زندگی میں طالب علمانہ اورنیاز مندانہ حاضری ،اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی توفیق عطافرمائی ،میں اس کو اپنے لئے سرمایۂ سعادت سمجھتا ہوں ،اور اس سے اللہ تعالی کے یہاں بڑی امیدیں رکھتا ہوں۔میں اس بات پر جتنا فخر کروں کم ہے ،لیکن میری نیازمندی کی تاریخ اس سے زیادہ وسیع اور طویل ہے،کئی پشتوں سے میرا تعلق اس درسگاہ عالی مقام سے رہا ہے ،یہاں کی زمین ان لوگوں کے آنسوؤں سے نم ،اوریہاں کی فضا ان کی دعاؤں اور آہوں سے اب بھی معطرہوگی جو قافلہ بناکر اس سرزمین سے گذرے۔( پاجاسراغِ زندگی:۱۲۵)
دارالعلوم دیوبند سے حضرت مفکر اسلام ؒ کے تعلق سے متعلق چند باتیں ان ہی کی کتابوں سے نقل کی گئیں،دراصل یہ اس لئے کہ اللہ تعالی نے آپ کے اندر کیسی جامعیت اور انفرادیت رکھی تھی اس کا اندازہ آج کے اس دور میں ہو،جہاں معمولی معمولی باتوںؤ پر تنقیص اور تحقیرکا معاملہ کیا جارہا ہے۔دل چاہتا ہے کہ آپ کی شخصیت کی اسی خوبی کو حضرت مولانا عبداللہ عباس ندوی ؒ کے قلم سے نقل کی جائے ،چناں چہ وہ لکھتے ہیں:کسی فرد یاجماعت کے خلاف سازش ،لوگوں کو کسی کے خلاف ابھارنا،پارٹی بنانے اور دوسری پارٹیوں کو گرانے یا بے وقعت دکھانے کی سعی تو بڑی چیز ہے،کبھی اشارۃً وکنایۃً بھی اس کا دور سے یانزدیک سے اظہار مولانا کی عقلیت سے بہت دور ہے۔‘‘(میر کارواں:۶۴)
دارالعلوم دیوبند کی خدمات برصغیر اور عالمِ اسلام میں کیا ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ،اس کااعتراف پورا زمانہ کرتا ہے،عالمِ اسلام کے نامور اہل علم وفضل کرتے ہیں ۔بطور نمونہ ایک یہ کہ امام حرم شیخ صالح نے مسجد رشید میں منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ:’’ دارالعلوم دیوبند نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک مینارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے اور دارالعلوم دیوبند کے علماء نے ایسے عظیم الشان کارنامے انجام دئیے جن کی گونج دنیاکے کونے کونے تک پہنچی ہے۔‘‘
زبان وقلم کا احتیاط اور فکر ونظر کااعتدال بڑی قیمتی نعمت ہے اور اسی سے انسانی شخصیت میں چارچاند لگتے ہیں ،اور ایسے ہی لوگ ہیں جو دنیا سے چلے جانے کے باوجود دلوں پر حکومت کرتے ہیں ۔حضرت علی میاں ؒ کی پرکشش شخصیت کی انگنت خوبیوں اور صفات میں یہ ایک صفت بھی دل کو کھینچتی ہے اور آپ کی عظمتوں کاگرویدہ بنادیتی ہے۔ہر ادارہ اور جامعہ قابلِ احترام ہے اور ہر ایک کی خدمات لائق ستائش ہیں،اداروں کوسے متعلق تعصب وتنگ نظری سے دل اور نگاہیں پاک ہونی چاہیے ،اورجن کو اللہ تعالی نے مقبولیت دی ہے اور جن اداروں کا فیض واسطہ یا بالواسطہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے اور جن کے فضلا ء سارے عالم میں دینی خدمات انجام دینے میں لگے ہوئے ان کا اعتراف کرنا چاہیے ۔اور کسی بھی طرح ملک اور عالم کے بااعتماد عظیم اداروں کی تنقیص کرنا یاکمتر ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔اور بالخصوص گلشنِ بوالحسن ؒ سے فیض پانے والوں کے لئے یہی پیغام ہے کہ وہ بھی اپنے مزاج میں مفکر اسلام ؒ جیسا اعتدال پیداکریں ،ان کی جیسی فکر سوچ کو فروغ دیں اور ملت کو جوڑنے اور ان کے آپسی اتحاد کے لئے کوشاں رہیں۔
اللہ کی کروڑوں رحمتوں ہوں حضرت مفکر اسلام ؒ کی قبر پر اور جنت میں اعلی سے اعلی مقام نصیب ہو۔آمین
اللہ تعالی نے آپ کو پاک و صاف دل عطا فرمایاتھا ،جس میں ہر ایک کے لئے قدر ومحبت پائی جاتی تھی ،اعتدالِ مزاج اور وسعتِ فکر ونظر آپ کا امتیاز رہا ۔مرشد الامت حضرت مولانا رابع حسنی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں کہ:’’مولانا رحمۃاللہ علیہ کی شخصیت میں دونمایاں صفتیں خاص طورپر قابلِ ذکر رہی ہیں:ایک ممکنہ حد تک وسعتِ قلبی ،دوسری صفت دوسروں کی دل آزاری سے پرہیز۔وہ دین وملت کی تعمیر میں حصہ لینے والے تمام لوگوں کے لئے اپنے دل میں جگہ رکھتے تھے،بشرطیکہ وہ دین وملت کی بنیادی قدروں اور مسلمہ اصولوں کے خلاف کام نہ کررہے ہوں۔(مولانا سید ابوالحسنی علی ندوی عہد سا ز شخصیت :۷۶)
مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی ؒ کی ہمہ شخصیت کا تعلق دارالعلوم دیوبند سے بھی بڑا گہرا اور نہایت مضبوط تھا۔دارالعلوم دیوبند کی تعمیر وترقی کے لئے انہوں نے بھی اپنی فکر وبصیرت اور زبان وقلم کو استعمال کیا ہے۔آپ 1962ء سے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن تھے۔ہم اس مختصر تحریر میں صرف اس بات کو اختصار کے ساتھ پیش کریں گے کہ حضرت علی میاں ندوی ؒ کا تعلق دارالعلوم دیوبند سے کس قدر گہرا تھااور وہ دارالعلوم دیوبند کی عظیم الشان خدمات کے کس قدر معترف تھے۔
دارالعلوم دیوبند سے متعلق اپنی آپ بیتی میں اجلاسِ صد سالہ کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں:دارالعلوم دیوبند محض ایک دینی درسگاہ ہی نہیں ہے(جس کو ازہر ہند کہنا ہر طرح سے درست ہے،بلکہ بعض حیثیتوں سے وہ مصر کے جامع ازہر پربھی فائق ہے)اصلاحِ عقائداور اشاعتِ کتاب وسنت کی تاریخ ساز دعوت ہے،وہ درحقیقت خاندان وللہی کے تجدیدی کارنامہ کا امتداد اور تسلسل ہے۔۔۔دارالعلوم ہر طرح سے اس کا مستحق تھا کہ اس کا صد سالہ جشن منایاجائے ،اس کی خدمات بلکہ فتوحات کاجائزہ لیا جائے ،اور اس کی تاریخ کو نہ صرف ملک بلکہ ملت کے سامنے رکھی جائے۔۔(کاروانِ زندگی :۲/۳۰۰)
دیوبندیت کاتعارف:
مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اجلاسِ صدسالہ میں اپنے فکر انگیز خطاب میں دارالعلوم کی کی خصوصیات اور دیوبندیت کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاتھا:اس درس گاہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اختلافی مسائل کے بجائے توحید وسنت پر اپنی توجہ مرکوز کی،اور یہ وہ وراثت اور امانت ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ ،شاہ اسماعیل شہید ؒ اور سید احمد شہید ؒ کے وسیلہ سے اس کو ملی اور ابھی تک اس کو عزیز ہے۔دوسری خصوصیت اتباعِ سنت کا جذبہ اور فکر ہے۔تیسری خصوصیت تعلق مع اللہ کی فکر اور ذکروحضوری اور ایمان واحتساب کا جذبہ ہے،چوتھا عنصر اعلاء کلمۃ اللہ کا جذبہ اور کوشش اور دینی حمیت وغیرت ،یہ چار عناصر مل جائیں تو دیوبندی بنتا ہے ،اگر ان میں سے کوئی عنصر کم ہوجائے تو دیوبندیت ناقص ہے،فضلائے دارالعلوم دیوبند کا یہی شعار رہا ہے ،اور وہ ان چار چیزوں کے جامع رہے ہیں۔‘‘(کاروانِ زندگی:۲/۳۱۰)
ایک مقام پر فرماتے ہیں:یہ ادارہ ایک چھوٹے سے مدرسہ کی حیثیت سے جس کی کوئی اہمیت نہ تھی قائم ہوا،لیکن اس کے ذمہ داروں اور مدرسہ کے اساتذہ کے اخلاص،قناعت اور ایثار کی بدولت برابر ترقی کرتا رہا،یہاں تک کہ اس کی حیثیت ایک اسلامی یونیورسٹی بلکہ براعظم ایشیا کی سب سے بڑی دینی درس گاہ ہوگئی۔۔۔۔ہندوستانی مسلمانوں کی دینی زندگی پر دارالعلوم کے فضلا ء کی اصلاحی کوششوں کے نمایاں اثرات رونما ہوئے ہیں،بدعات ورسوم کی اصلاح،عقائد کی درستی ،تبلیغِ دین اور فرق ضالہ سے مناظرہ وغیرہ میں ان حضرات کی جدوجہد لائق تحسین ہے،متعدد فضلاء نے سیاسی میدان اور وطن عزیز کے دفاع کے سلسلہ میں بھی کارہائے نمایاں انجام دئیے اور حق گوئی وبیباکی میں علمائے سلف کی یاد تازہ کردی۔(مدارسِ اسلامیہ کا مقام اور کام :۱۹)
حضرت علی میاں ؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں:ہمارے گھر میں ندوہ اور دیوبند کا کوئی تعصب نہیں تھا،جب کہ والد صاحب ابتداء ہی ندوہ سے متعلق ہوگئے اور اس کے بڑے داعی سمجھے جاتے تھے،مگر بھائی صاحب نے جب ندوے میں تعلیم مکمل کی تو والد صاحب نے ان کو حضرت شیخ الہندؒ اور مولانا انور شاہ کشمیر ؒ ی سے حدیث پڑھنے کے لئے دیوبند بھیجا۔وہاں انھوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور سند بھی لی۔اسی طرح بھائی صاحب نے ندوے کے بعد ہمیں مولانا مدنی کے پاس دیوبند بھیجا۔( مجالسِ حسنہ :۱۷۱)
12اگست1972ء کی شب دارالعلوم دیوبند کے دارالحدیث کے وسیع ہال میں آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا:میں خدا کے سامنے سجدہ ریز اور ثناخواں ہوں کہ جو کبھی یہاں طالب علم کی حیثیت سے حاضر ہوتا تھا اور اپنے لئے اس کو بڑی سعادت کی بات سمجھتا تھا،اس کو اس وقت خطاب کرنے کا شرف حاصل ہورہا ہے ،ابھی وفاشعار اوردردآشناسرزمین مجھے بھولی نہ ہوگی،میں اس سعادت وتوفیق پر بھی اللہ تعالی کے سامنے سجدۂ شکر اداکرتا ہوں کہ اس نے مجھے یہاں شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد صاحب مدنی ؒ کی زندگی میں طالب علمانہ اورنیاز مندانہ حاضری ،اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی توفیق عطافرمائی ،میں اس کو اپنے لئے سرمایۂ سعادت سمجھتا ہوں ،اور اس سے اللہ تعالی کے یہاں بڑی امیدیں رکھتا ہوں۔میں اس بات پر جتنا فخر کروں کم ہے ،لیکن میری نیازمندی کی تاریخ اس سے زیادہ وسیع اور طویل ہے،کئی پشتوں سے میرا تعلق اس درسگاہ عالی مقام سے رہا ہے ،یہاں کی زمین ان لوگوں کے آنسوؤں سے نم ،اوریہاں کی فضا ان کی دعاؤں اور آہوں سے اب بھی معطرہوگی جو قافلہ بناکر اس سرزمین سے گذرے۔( پاجاسراغِ زندگی:۱۲۵)
دارالعلوم دیوبند سے حضرت مفکر اسلام ؒ کے تعلق سے متعلق چند باتیں ان ہی کی کتابوں سے نقل کی گئیں،دراصل یہ اس لئے کہ اللہ تعالی نے آپ کے اندر کیسی جامعیت اور انفرادیت رکھی تھی اس کا اندازہ آج کے اس دور میں ہو،جہاں معمولی معمولی باتوںؤ پر تنقیص اور تحقیرکا معاملہ کیا جارہا ہے۔دل چاہتا ہے کہ آپ کی شخصیت کی اسی خوبی کو حضرت مولانا عبداللہ عباس ندوی ؒ کے قلم سے نقل کی جائے ،چناں چہ وہ لکھتے ہیں:کسی فرد یاجماعت کے خلاف سازش ،لوگوں کو کسی کے خلاف ابھارنا،پارٹی بنانے اور دوسری پارٹیوں کو گرانے یا بے وقعت دکھانے کی سعی تو بڑی چیز ہے،کبھی اشارۃً وکنایۃً بھی اس کا دور سے یانزدیک سے اظہار مولانا کی عقلیت سے بہت دور ہے۔‘‘(میر کارواں:۶۴)
دارالعلوم دیوبند کی خدمات برصغیر اور عالمِ اسلام میں کیا ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ،اس کااعتراف پورا زمانہ کرتا ہے،عالمِ اسلام کے نامور اہل علم وفضل کرتے ہیں ۔بطور نمونہ ایک یہ کہ امام حرم شیخ صالح نے مسجد رشید میں منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ:’’ دارالعلوم دیوبند نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک مینارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے اور دارالعلوم دیوبند کے علماء نے ایسے عظیم الشان کارنامے انجام دئیے جن کی گونج دنیاکے کونے کونے تک پہنچی ہے۔‘‘
زبان وقلم کا احتیاط اور فکر ونظر کااعتدال بڑی قیمتی نعمت ہے اور اسی سے انسانی شخصیت میں چارچاند لگتے ہیں ،اور ایسے ہی لوگ ہیں جو دنیا سے چلے جانے کے باوجود دلوں پر حکومت کرتے ہیں ۔حضرت علی میاں ؒ کی پرکشش شخصیت کی انگنت خوبیوں اور صفات میں یہ ایک صفت بھی دل کو کھینچتی ہے اور آپ کی عظمتوں کاگرویدہ بنادیتی ہے۔ہر ادارہ اور جامعہ قابلِ احترام ہے اور ہر ایک کی خدمات لائق ستائش ہیں،اداروں کوسے متعلق تعصب وتنگ نظری سے دل اور نگاہیں پاک ہونی چاہیے ،اورجن کو اللہ تعالی نے مقبولیت دی ہے اور جن اداروں کا فیض واسطہ یا بالواسطہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے اور جن کے فضلا ء سارے عالم میں دینی خدمات انجام دینے میں لگے ہوئے ان کا اعتراف کرنا چاہیے ۔اور کسی بھی طرح ملک اور عالم کے بااعتماد عظیم اداروں کی تنقیص کرنا یاکمتر ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔اور بالخصوص گلشنِ بوالحسن ؒ سے فیض پانے والوں کے لئے یہی پیغام ہے کہ وہ بھی اپنے مزاج میں مفکر اسلام ؒ جیسا اعتدال پیداکریں ،ان کی جیسی فکر سوچ کو فروغ دیں اور ملت کو جوڑنے اور ان کے آپسی اتحاد کے لئے کوشاں رہیں۔
اللہ کی کروڑوں رحمتوں ہوں حضرت مفکر اسلام ؒ کی قبر پر اور جنت میں اعلی سے اعلی مقام نصیب ہو۔آمین