سیاسی و سماجی

اب ڈھونڈ انہیں چراغ رخ زیبا لے کر!!!!

ہندوستان میں اسلامی شخصیات کی کمی نہیں، نہ ماضی میں اہل علم کی کمی تھی اور نہ آج ہے، لیکن وہ گل سرسید، باغ کا گلاب اور مہ پارہ و شہ پارہ جس کے جہد مسلسل سے اسلامی معاشرے کی کھیتی سینچی گئی، انسانیت لہلہا اٹھی، اسلامی اقدار انسانی زندگی میں پیوست ہوگئے، اور وہ جو ہر محاذ پر اسلام کیلئے سینہ سپر ہو گیا، اور قیادت یوں نبھائی؛ کہ چشم فلک بھی رشک کرے، وہ شخصیت کوئی اور نہیں مفکر اسلام سیدی ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی تھی، آپ کے عظیم کارناموں میں سے ایک کی مختصر روداد سائے! بات اس وقت کی ہے جب اسلامک لا میں سیندھ لگانے کی کوشش کی جارہی تھی، ملک کی آزادی کے بعد گاہے گاہے مختلف فیہ شوشے چھوڑ کر مسلم پرسنل لا میں مداخلت کی فضا بنا جارہی تھی، جس کیلئے ملک کی متعدد پارٹیاں کمر کس چکی تھیں، اور اس مشن کو انجام دینے کیلئے حیلۃ الشیطان کا ایک چہرہ شاہ بانو کی صورت میں مل گیا تھا، جو طلاق کے باوجود نفقہ پر بضد تھی، اسے اسلام سے زیادہ دنیاوی قانون عادل نظر آتا تھا، وہ سمجھتی تھی کہ عدالت عظمی اور سفید پوش رہنماؤں کی رہنمائی میں اسلامی شریعت اور پرسنل لا کو زخمی کر دے گی؛ لیکن وہ بھول گئی کہ سیدی علی میاں زندہ ہیں۔
آپ نے ملک گیر تحریک چلائی، اپنوں کو ساتھ لیا، پرایوں کو ساتھ لیا، مسلکی اختلافات کو کنارہ کرتے ہوئے؛ ایک کلمہ لا الہ پر سب کو جمع کیا، اپنے دل کی سوز اور جگر کی طاقت نیز خدائے وحید کی نصرت و مدد اور اس سے گہرے لگاو کے ساتھ حکومت ہند سے افہام و تفہیم کی مہم شروع کردی، آپ نے علماء کی جماعت تیار کی جو ملک میں کام کرتے اور ایک خاص جماعت بنائی جس میں اپنے رفیق مولانا منت اللہ رحمانی کو ساتھ لیا اور ایوان بالا تک پہونچ گئے، راجیو گاندھی کی چوکھٹ پر دستک دی، اسلام کے نظام عدل کو سمجھایا، قرآن وحدیث کے مدلولات اور اشکالات کی تشریح کی، ایک بار نہیں کئی کئی بار ملاقات کی، رات رات بھر جاگ کر عوام اور نیتاوں سے رابطے کئے، اور پھر فیصلے کے دن اور رات کو لکھنو کے ایک پارک میں عوام کو لیکر بیٹھ گئے، رات بھر جلسہ چلا؛ لیکن مولانا نے کاروان زندگی میں لکھا ہے؛ کہ کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا، بلکہ انتہا تو یہ ہے کہ صبح کو کہیں پر بھی موم پھلی کے چھلکے تک نہیں پائے گئے۔
اسی موقع کا ایک واقعہ ہے کہ مولانا سے راجیو گاندھی نے یہ کہہ کر شاہ بانو کیس میں ساتھ دیا تھا، کہ آپ خالص دین چاہتے ہیں، اس میں کوئی سیاست نظر نہیں آتی، آپ کے دل کی تڑپ قابل داد اور دید ہے، اور انہوں نے کہا تھا؛ کہ ہم اس کے اندر اتنا ضرور کریں گے کہ اگر کسی نے ملکی عدالت سے رجوع کیا، تو اس کے حق میں ملکی قانون کے اعتبار سے فیصلہ کیا جائے گا، اس پر آپ نے فرمایا: کہ اگر کوئی اسلام کا عدل ٹھکرانا ہی چاہے، تو اس کی بدقسمتی پر رونے کے سوا کچھ نہیں! __ ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ آپ سے راجیو گاندھی نے کہا تھا: ہم اس سلسلے میں عرب علماء سے دریافت کریں گے، اس پر مولانا نے فرمایا تھا کہ کس عرب عالم سے پوچھیں گے؟ میرا حال یہ ہے کہ جب میں خود جامع ازہر کی علمی میٹنگ میں بیٹھتا ہوں، جہاں عرب علماء کا کریم ہوتا ہے، اور جب میں کوئی بات کہتا ہوں تو سب سر جھکا کر سنتے ہیں۔
دراصل آج ۲۹/۷/۲۰۱۹ کو راجیہ سبھا نے بھی طلاق ثلاثہ کا بل پاس کردیا، اور اب صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد یہ مستقل قانون بن جائے گا؛ کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو فوری طلاق ثلاثہ دی، تو وہ تین سال کیلئے جیل جائے گا اور نفقہ کا بھی ذمہ دار ہوگا وغیرہ ___ یہاں پر غور کرنے کی بات ہے کہ کیا ہمارے درمیان علی میاں ندوی کا کوئی وارث نہیں؟ کیا اب وہ دل نہیں جس میں نبی مصطفی ﷺ کی رسالت اور دین کیلئے کرب ہو، تڑپ ہو اور اس میں مداخلت کرنے والوں کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوں؟ یقناً اس سلسلہ میں کوششیں ہوئیں اور انہیں سراہنا بھی چاہیے، لیکن کچھ بھی ہو سیدی جیسا دل کہاں؟ ذرا اس بات پر غور کیجیے! کہ آج یہ بل راجیہ سبھا میں پیش ہونے والا تھا، اس کی خبر کتنے علماء کو تھی؟ اور کتنے عوام کو تھی؟ اور اگر تھی تو وہ گھروں میں کیوں (بشمول راقم) تھے؟
حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر میں دیندار طبقہ رہبانیت کی زندگی کو ترجیح دینے لگا ہے، کہفی اور خانقاہی زندگی کو شوق و محبت اور عقیدت سے دیکھتا ہے، عوام میں مقبولیت اور ان کے مابین محبوبیت کا بڑا حربہ صوفی ازم کو تصور کیا جانے لگا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ تصوف تزکیہ کا اہم میدان ہے، اس کی حیثیت مسلم ہے، اس کا شجرہ حضورﷺ سے جا ملتا ہے، لیکن فی زمانہ تصوف ایک ایسا ذریعہ بن گیا ہے؛ جس سے اسلامی شعائر پر قدغن لگتا ہے، اعتدال کا دامن چھوٹتا ہے، جہاد و جہد کا سرگرم میدان سرد پڑتا ہے، علماء کرام میں ایک بڑی تعداد نے اصلاحی مجالس اور خانقاہوں کی مسانید کو ہی اصل بنا لیا یے، حالانکہ اس کی ضرورت آٹے میں نمک کے برابر تھی؛ لیکن یہاں تو پورا آٹا ہی نمک ہوا جاتا ہے، خال خال کوئی ایسا عالم نظر آتا ہے؛ جس کے اندر علم کی حرارت، تقوی و زہد اور سربکف ہونے کا جوش یکساں ٹھاٹھیں مارتا ہو، قرآن کریم کو دستور و آئین سمجھتا ہو، اپنے اندر رسول ﷺ کیلئے سرکٹا دینے کا شوق ایسے رکھتا ہو، کہ کسی لحظہ اسلامی دستور میں کمی و کوتاہی کو برداشت نہ کرتا ہو، وہ سیاست اور معاملات کو بھی ایسے ہی دین کا حصہ سمجھتا ہو؛ جیسے نماز اور روزہ ہے، حج اور زکات ہے، اسلامی خلافت اور امیر المومنین کی اطاعت اور اس کی ضرورت امت کے حق میں ناگزیر جانتا ہو۔
لیکن افسوس صد افسوس اس امت کے قائدین غاروں میں خود کو قید کرنے اور زمانہ جاہلیت کے طرز پر رہبانیت کو اختیار کرنے کی راہ پر گامزن ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رہبانیت کا جنون سوار ہو گیا ہے، علم اور علماء کی خاص پہچان بنادی گئی ہے، ان کے میادین طے کردئے گئے ہیں، یا دیگر تعبیر میں یوں کہا جائے؛ کہ ان کے خول بنا دئے گئے ہیں، جن سے ان کا نکلنا دشوار معلوم ہوتا ہے، وہ خول رہبانیت کا ہے، تبتل اور غیر شرعی توکل کا ہے، اسلامی تعلیمات پر اجارہ داری اور زمانے کی ضرورت سے منہ پھیرنے کا یے،جس نے معاشرے سے اسلامی روح نکال دی؛ بلکہ حقیقی اسلام پر ضرب لگائی اور اسے آسمانی مذہب کے بجائے ایک خاص مجموعہ کا دین بنادیا ہے۔*
یہ باتیں یونہی نہیں کہی جارہی ہے ہیں، بلکہ زمانہ جاہلیت کی رہبانیت کو پڑھنے کے بعد اور سمجھنے کے بعد لکھی جارہی ہیں، آپ بھی سیدی ابوالحسن علی ندوی رحمہ الله کی یہ عبارت پڑھئے اور اندازہ کیجیے کہ یہ بات کس حد تک درست ہے، مفکر اسلام لکھتے ہیں: ’’تحریک رہبانیت کا اخلاقی نتیجہ یہ ہوا کہ جتنے کمالات مردانگی و جوانمردی سے متعلق ہیں، وہ سب یکسر معیوب قرار پاگئے۔ مثلا زندہ دلی، خوش طبعی، صاف گوئی، فیاضی، شجاعت، جرات کہ عابدان مرتاض کبھی ان کے قریب بھی ہو کر نہیں گزرے تھے، دوسرا اہم نتیجہ رہبانی طرز معاشرت کا یہ ہوا کہ خانگی زندگی کی بنیادیں متزلزل ہوگئیں، اور دلوں سے اعزا کا احترام و ادب کافور ہوگیا، اس زمانے میں ماں باپ کے ساتھ احساس فراموشی اور اعزاء کے ساتھ قساوت قلبی کی جس کثرت سے مثالیں ملتی ہیں اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
یہ زاہدان صحرا اور عابدان مرتاض اپنی ماوں کی دل شکنی کرتے تھے، بیویوں کے حقوق کی پامالی کرتے تھے، اور اپنی اولاد کو یہ دغا دیتے تھے کہ انہیں بے دلی و وارث محض دوسروں کے ٹکڑوں کے رحم پر چھوڑ دیتے تھے، ان کا مقصود زندگی تمام تر یہ ہوتا تھا کہ خود انہیں نجات اخروی حاصل ہو، انہیں اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ ان کے متعلقین و متوسلین جئیں یا مریں؛ لیکن اس سلسلے میں جو واقعات لکھے ہیں، ان کو پڑھ کر آج بھی آنسو نکل آتے ہیں، عورتوں کے سایہ سے وہ بھاگتے تھے، ان کا سایہ پڑجانے سے؛ اور راستہ گلی میں اتفاقاً سامنا ہوجانے سے وہ سمجھتے تھے؛ کہ ساری عمر کی زہد و ریاضت کی کمائی خاک میں مل جاتی ہے، اپنی ماوں، بیویوں، اور حقیقی بہنوں سے بات کرنا بھی وہ معصیت کبیرہ سمجھتے تھے، لیکن اس سلسلہ کے جو واقعات لکھے ہیں، ان کو پڑھ کر کبھی ہنسی آتی ہے کبھی رونا‘‘۔ (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر:۲۱۲-۲۱۳)*
’’ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ایسے ملک میں ہیں جس میں اکثریت غیرمسلموں کی ہے، وہ جمہوری ملک ہے، اور وہاں قانون ساز مجلسیں قانون بناتی ہیں، جب یہ ملک جمہوری ہے تو پارلیمنٹ ہی قانون بنائے گی، اور جمہوریت کا یہ قاعدہ ہے کہ اکثریت کی رائے اور تائید سے قانون بنتا ہے، اس لیے ہر وقت اس کا خطرہ ہے کہ ایسے قوانین بنیں جو ہمارے بنیادی عقائد، مسلمات، ہمارے جذبات اور ہماری ضرورتوں کے خلاف ہوں.اب ہمارا کام یہ ہے کہ ایسے سیکولر اور جمہوری ملک میں اپنے ملی تشخص کی حفاظت آئینی طریقہ پر کریں، ہم ہندوستان کے وفادار، مفید، کارآمد اور اس کے ضروری جزء ہونے کی حیثیت سے اپنی افادیت واہمیت ثابت کریں اور مطالبہ کریں کہ کوئی قانون ہماری شریعت، آسمانی کتاب اور ہمارے عقائد کے خلاف نہیں بننا چاہیے۔
اسی کے ساتھ یہ بھی ثابت کریں کہ خلاف شریعت قانون بننے سے ہم کو اس سے زیادہ اذیت ہوتی ہے، جتنا کھانا روکنے سے. ہم ثابت کردیں کہ اس نئے قانون سے ہم کو ایسی گھٹن ہو رہی ہے جیسے مچھلی کو پانی سے نکال کر باہر رکھنے سے ہوتی ہے، ہمارے چہروں کے اتار چڑھاؤ، حرکات و سکنات سے معلوم ہوجائے کہ ہماری صحت اور توانائی اور کارکردگی پر اثر پڑ رہا ہے، اور یہ محسوس کرلیا جائے کہ یہ ایک مغموم قوم کے افراد ہیں، اس نئے قانون سے ان کا دم گھٹ رہا ہے‘‘۔(کاروان زندگی: ٣/ ١٥٥-١٥٦)

محمدصابرحسین ندوی
mshusainnadwi@gmail.com
7987972043

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×