سیاسی و سماجیمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

دینی وعصری تعلیمی درسگاہیں-چند غور طلب پہلو

اہل اسلام کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی اور شخصی ومعاشرتی ، تمام معاملات میں وحی الٰہی کے پابند ہیں، او اور اخروی نجات کے ساتھ ساتھ ان کی دنیاوی کامیابی اور فلاح بھی آسمانی تعلیمات کی پیروی پر موقوف ہے ، اہل اسلام حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام پیغمبروں کی تعلیمات کو حق مانتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں، اس پس منظر میں ہر مسلمان مرد وعورت پر قرآن وسنت کی تعلیمات سے آراستہ ہونا اس کے دینی فرائض میں شامل ہے ، ہر مسلمان فرد اور خاندان کو ضروری دینی تعلیم سے بہرور ہونا نہایت ضروری ہے ، ملک کے موجودہ حالات میں جب کہ اسلام اور اس کی خوبیوں سے ناواقفیت کی وجہ سے بہت سارے مسائل مسلمانوں کو دو خانوں میں بانٹنے کی کوشش جاری ہے ، ایک دینی طبقہ ، ایک دنیوی طبقہ، دینی طبقہ اسلامی محاسن کو جانتا ہے لیکن اس کو عصری تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، عصری تعلیم یافتہ طبقہ عصری تعلیم سے بہرور ہے ، لیکن دینی تعلیم سے بیزار ہے جس کے نتیجے میں اسے اسلامی تعلیمات میں العیاذ باللہ نقص اور کمی نظر آتی ہے ، جس میں وہ غیروں کو تغیر وحذف واضافہ کی دعوت دیتا ہے ، اس لئے جہاں دینی درسگاہوں میں ضروری عصری تعلیم مہیا کرانا ضروری ہے ، وہی عصری درسگاہوں میں ضروری دینی تعلیم اور محاسن اسلام اور خوبیوں کی توضیح وتشریح کی بھی ضرورت ہے ، تاکہ نوجوان عصری تعلیم یافتہ نسل الحاد اور دین بیزاری کا شکار ہو کر العیاذ باللہ دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوجائے ۔
دینی درسگاہیں کیسی ہوں ؟
یہ جان لینا چاہئے کہ موجودہ دور میں تعلیم کی دوئیت غیر اسلامی اقتدار کے عہد کی بدعت ہے ، پہلے ہمارا نظام تعلیم وحدانی اور سالمیت پر مبنی تھا، ہمارے قدیم نصاب تعلیم جس کی ’’درس نظامی‘‘ نمائندگی کرتا ہے ، مسلمانوں کے عہدِ حکومت میں ملک کا واحد نظام تعلیم اور ثقافت ، ذہنی تربیت کا واحد ذریعہ تھا، یہ جہاں محدث فقیہ اور مدرس تیار کرتا تھا، وہاں سول سروس کے عہدیدار اور ارکانِ سلطنت بھی مہیا کرتا ، اس درس کی پیدوار جس طرح ملا محب اللہ بہاری اور ملا عبد الحکیم سیالکوٹی تھے اسی طرح علامہ سعد اللہ وزیر سلطنت بھی تھے یہی حال دیگر ملکوں کا بھی تھا کہ دینی ودنیوی تعلیم کے دو الگ الگ نصاب اور نظام نہیں تھے ، چنانچہ سب کو علم ہے مشہور ریاضی داں شاعر عمر خیام اور سلطنت سلجوقیہ کا وزیر باتدبیر نظام الملک طوسی دونوں ایک ہی حلقہ درس کے شریک اور ایک ہی تعلیم کی پیداوار تھے ۔
اس لئے مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نصاب تعلیم کچھ اس طرح مرتب کیا جائے کہ جس سے دینی تعلیم بھی حاصل اور ضروری عصری تعلیم کا ایک بڑا حصہ بھی جو عصری تقاضوں کو پورا کرے وہ دینی تعلیم کے طلبہ کے لئے فراہم ہوسکے ۔
’’پرائمری اور مڈل کے مرحلے تک ایسا مشترک نصابِ تعلیم بنے جو تمام مسلمان بچوں کے لئے قابلِ استفادہ ہو اوور جو ان کو اسی معیار کی تعلیم جس کے حصول کے لئے ان کو سرکای مدارس اور اسکولوں کا رخ کرنا پڑتا ہے ، اس اضافے کے ساتھ کہ اس میں دینیات کا عنصر نمایاں ہو، اخلاقی اور دینی تربیت کے لئے بہتر ماحول اور تعلیمی نتائج عام سرکاری اسکو سے بہتر ہوں ‘‘
اس مرحلے کے بعد ثانوی تعلیم کے ساتھ جدید ضروری مضامین سائنس ، جغرافیہ، تاریخ اور انگریزی وغیرہ کی تعلیمہو، اس مرحلے کے بعد اب طلباء میں پوری احتیاط اور دقت نظر ساتھ انتخاب کیا جائم جو لوگ اس تعلیم پر اکتفا کرنا چاہیں وہ دوسرے میدانوں کی طرف رخ کرسکتے ہیں، اگر مزید تعلیم کے لئے اسکولوں او رکالجوں کا رخ کرنا چاہیں تو وہ ایسی حالت میں وہاں جائیں گے کہ وہ ضروری دینی واقفیت حاصل کر چکے ہوں گے ، ان کے ذہن میں ایک بنیاد پڑچکی ہوگی، عربی سے ان کو ایسی مناسبت پیدا ہوچکی ہوگی کہ وہ اگر اپنے آئندہ تعلمی مرحلے میں عربی کو بطور زبان کے لینا چاہیں تو وہ اس میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہیںگے ۔
’’ اس مرحلے کے بعد عربی تعلیم وعلوم دینیہ کو جاری رکھنے کی اجازت ان لوگوں کو دی جائے گی جن کے اندر ذہانت،عربی علوم کی تکمیل کی صلاحیتوں اور شوق وولوہ پایا جائے اور وہ دینی علوم کی خدمت کو اپنا بنانے پر آمادہ اور تیار ہوں اور جو دلی لگن اور یکسوئی کے ساتھ اس سلسلہ کی تکمیل کرسکیں (ندوۃ العلماء کا کتابچہ : ۶۷=۶۸) تیونس کی مشہور اسلامی درسگاہ جامعہ زیتونیہ کا بھی یہی طریقہ کار ہے ، جس نے دین ودنیا دونوں کی تعلیم کا سامان ابتدائی مرحلے میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے دینی ماحول میں اس طرح فراہم کیا جائے اس مرحلے کی تکمیل کے بعد جواسی قدر تعلیم پر اکتفا کرنا چاہے یا اسکول وکالج کی تعلیم میں لگنا چاہے یا جس کو دینی تعلیم سے لگاؤ ہو وہ اس شعبہ میں چلا جائے اس طرح ہر شخص کو اسلامی ماحول میں دینی وعصری تعلیم کا ضروری حصہ بہم حاصل ہوجائے گا ۔یہی صورتحال موجودہ وقت میں جامع ازہر کی بھی ہے جس کی صورتحال یہ تھی کہ یہاں کے فارغ التحصیل طلباء دینیات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے ، مگر دنیاوی علوم میں بالکل کورے تھے ، یعنی سماج سے الگ تھلگ ، جس کے لئے انہوں اس طریقۂ کار کو اختیار کیا کہ ایسے اسکالر پیدا کئے جائیں جو علوم دینی سے بھی واقف ہوں لیکن عملی اور علم وتجربہ کے حوالے سے بھی وہ کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں، اور اس وقت ہندوستان میں جامعہ اکل کواں دینی وعصری علوم کا حسین وجامع امتزاج اور نمونہ ہے ، گرچہ اس کی صورتحال پھر ایسی نہیں ہے ۔
مسلمانوں کے نصابِ تعلیم کے صدہا سالہ مسلسل تغیروں پر مشتمل تاریخ کا مطالعہ کرنے یہ پتہ چلتا ہے کہ دینیات اور عربی کو چھوڑ کر ہمارے نصاب کے تمام دوسرے مضامین میں میں پیہم رد وبدل اور متواتر حذف واثبات ہوتا رہا ہے ، یہ تبدیلی متوسط درجات کی ہے ، نصاب تعلیم کے اعلی درجات میں یہ تغیر وتبدیلی نظر نہیں آتی ، تفقہ فی الدین اورعربی کی ساری مہارت طلباء کے ذوق ، مناسبت او رطبع اور فرصت وحالات کی مساعدت پر منحصر ہوتی ہے ۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دین سے اوسط درجے کی عام واقفیت پیدا کرانی جس سے اسلام کے عقائد واعمال واضح ہوجائیں، اسلامی طرزِ زندگی کا علم ہوجائے اور معاشرے کی روز مرہ کی ضرورتیں پوری ہوسکیں ، ہمارے مدارس کا مطمح نظر تھا، اس سے زیادہ تعلیم کو یہ ادارے نہ ضروری سمجھتے تھے اور نہ مناسب، ان داروں کو عربی سے جتنی دلچسپی تھی اس کی حدیں مقرر تھیں ، یہ درسگاہیں اپنے طلباء کو اس قدر عربی شناس لازما بنادیتی تھیں جس سے وہ قرآن وحدیث سے بطور خود اور بلا واسطہ فائدہ اٹھاسکیں اور اس ضمن میں فقہ واصول اور عقائد وکلام کی کا براہ راست مطالعہ کرسکیں، اس اختصاص کو خصوصی ذوق اور شخصی دلچسپی پر محمول رکھا۔
دینی درسگاہوں کی صورتحال اورعصر حاضر کے تقاضے :
البتہ اسلامی درسگاہوں کی تربیت کی امتیازی خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ طلباء میں اسلامی کردار کو نشو ونما دیں، ان کے افکار ، اخلاق واعمال کو اسلامی نمونے کی مطابق ڈھالی، چنانچہ صالح ماحول اسلامی کردار کے اساتذہ اس تربیت کے لئے ضروری عناصر سمجھے گئے ،غرض یہ کہ ہماری درسگاہوں کی تربیت کا مقصد صر ف اچھے اور مفید شہری بنانا نہیں بلکہ اچھے اور مفید مسلمان بنانا رہا ہے ، اور تنہا یہی مقصد ہے جس کے لئے مسلمانوں کو اپنی مستقل درسگاہوں کی ضرورت ہے ۔
اس کے علاوہ ہمارے درس گاہوں کے مروجہ دینیاتی نصاب میں قرآن مجید کو مرکزی حیثیت حاصل ہونا چاہئے ، احادیث کو قرآن کی شرح کے انداز میں پڑھا یا جائے ، تعلیم کے آخری مرحلے میں حقیقی تفقہ پیدا کرنا ہمارے نصاب کا مطمح نظر ہونا چائے ، اصول فقہ کا درس بالکل بے مقصد ہوگیا، اس کو بامقصد بنانے کی ضرورت ہے ، عقائد وکلام میں مختلف اسباب وعوامل کی بناء پر عجیب وغریب عقائد اور دور ازکار نظری مباحث شامل ہوگئے جو ممکن ہے کبھی مفید اور ضروری رہے ہوں مگر آج ان کی وجہ سے اسلامی عقاد کی سادگی چھپ جاتی ہے اور اس زمانے کے ذہن کے لئے طمانیت بخش ہونے کے بجائے الجھنوں کا باعث بنتی ہے ، اس لئے موجود دینی درسگاہوں کے نصاب میں اس حوالے سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس طرح ہمارے مدارس میں ابتداء سے بعض ایسے مضامین شامل ہیں جوابتدائی موقف میں بالکل بیکار ہیں او ران طلباء کی قوت بے جاصرف ہوتی ہے ، ایسے مضامین کو ابتدائی مراحل سے خارج کردیا جائے تو بہتر ہے ، ان کا درس بشرط ضرورت صحیح موقعوں پر ہونا چاہئے ، معانی بیان، اصول فقہ، منطق اور فلسفہ کے اس قسم کے مضامین ہیں، صرف ونحو ابتدائی مرحلے کے لازمی مضامین ہیں، مگر ان کی مجرد حیثیت تعلیم طلباء پر غیر ضروی بار ہے ، ان کی تعلیم زبان کے ضمن میں مشق وتمرین کی حیثیت سے ہونا چاہئے ، جس کے لئے النحو الواضح اور معلم الانشاء اور تدریب النحو والصرف وغیرہ کتابیں مفید ہوسکتی ہیں، جس میں زبان کے ساتھ قواعد کی مشق ہوجائے گی ۔
نصابی کتابوں پر بعض ضروری کام :
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ہمارے نصاب میں جو کتابیں داخل ہیں، وہ اصل میں عام استفادہ کے لئے لکھی گئی تھی، شاید مصنف کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ ہوگی کہ یہ ان کی کتاب بھی داخل نصاب ہوگی ، اس لئے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ جیسے سلف صالحین نے شروح وحواشی کے ذریعہ ان کتابوں کی خدمت کی ہے ، نصابی نقطہ نظر سے آج ان پر کچھ کام کیا جائے ، یا اس طرز پر نئی کتابیں مطبوعہ یا تیار کر کے شامل نصاب کی جائیں تو بھی بہت بڑا کام ہوگا ۔
۱) ذیلی عناوین قائم کی جائیں ۔
۲) فقروں کی ترقیم کی جائے ۔
۳) پیروگراف متعین کیا جائے ۔
۴) کتاب کو مضمون کے اعتبار سے دورس میں تقسیم کیا جائے ۔
۵)۔ ہر درس کے ختم پر تمرینی سوالات تحریر کئے جائیں ۔
۶) کتاب پر ایک ایسا مختصر نوٹ لکھا جائے جس میں شخصیات، کتب ، مقامات اور نسبتوں پر مختصر روشنی پڑتی ہو ۔
۷) کتاب کے شروع میں مصنف کے حالات
۸) کتاب کی خصوصیات
۹) موضوع کاتعارف اوراس کتاب کے طریقۂ تدریس سے متعلق مختصرا نوٹ مرتب کیا جائے
اگر ہماری متداول نصابی کتب پر اسطرح کا کام ہوتا تو یہ ’’کار ‘‘ نہیں ’’کارنامہ ‘‘ ہوگا، اور اساتذہ وطلبا ء کو اس سے بڑا فائدہ ہوگا، نیز اس سے طریقہ تعلیم میں بھی مفید اور مثبت تبدیلی آئے گی ۔ (دینی وعصری درسگاہیں: تعلیمی مسائل: ۱۰۴) ۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے طول وعرض میں اور عرب ممالک میں بھی تسہیل وتطبیق کا کام شروع ہوچکا ہے ، ان خوشنما اور عصری ذوق کے مطابق طبع شدہ نسخوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔
اس لئے کہ موجودہ نصاب میں جو کتابیں شامل ہیں، جن میں فنون سے زیادہ لفظی بحثوں ، ترکیبوں ، دورازکار اشکالات اوران کے جوابات وغیرہ پر توجہ دی گئی ہے ، اور جن مسائل کو ٹھیٹ الفاظ میں ادا کیا جاسکتا ہے ان کے لئے بھی ایسی اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے کہ عبارت اور بھی مشکل ترین ہوجاتی ہے ، اس لئے نصاب تعلیم کی تسہیل وتوضیح اور اس کو فقروں اور عناوین کی تقسیم اور تمرینات اورمسقوں اور تطبیقات سے مزین کرنے کی ضرورت ہے ۔
تمرین وتدریب:
تمرین ، تمثیل کے بغیر کسی فن کو حاصل نہیں کیا جاسکتا، درس نظامی میں شامل قدیم کتابیں تقریبا سبھی تمرینات، اسباق کی حد بندی ، رموزِ املاء وغیرہ سے خالی ہیں ، چاہئے کہ اسباق کو ایام تعلیم پر تقسیم کر لیں ، ہوورک اور واجبات دراسیہ کو نوٹ کروائیں، نحو وصرف میں کسی قدر ورک بک کی شکل میں بہت سے تمرینی کتابیں ہندو پاک میں منظر عام پر آچکی ہیں،، فقہ اصول فقہ ، تفسیر پر شروحات تو کافی دستیاب ہیں مگر نئی مثالیں ، قواعد کو واضح کحرنے والی تدریبات ، فقہ کے تمام ابواب میں مفتی بہ اور معمول بہ قول کی وضاحت جیسے ندوہ کی مرتب کردہ ’’ الفقہ المیسر ‘‘ ہے ، بلاغت میں علی جارم ، مصطفی امین کا (انداز النحو الواضح) البلاغۃ الواضحۃ بے حد مفید ہم ، عربی تفاسیر سے وجوہ بلاغت ، احادیث اور بلغاء کے کلام میں نکاتِ بلاغت کا استخراج ایک ایسا ہوم ورک شروع کردیا جائے ، فن تفسیر میں جب نحو وصرف اورو تغوی تحقیق میں بھی ’’اعراب القرآن‘‘ کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں ، مزید وجوہ اعراب ، ترجمہ کا اختلاف ہوم ورک ہوسکتا ہے ۔ عربی ادب کے حوالہ سے بھی نظریاتی انداز تدریس کے بجائے عملی تربیت اور مشق کا اہتمام ہونا چاہئے ، نہ کہ نحو وصرف کی غیر ضروی مباحث اور موشگافیوں کا اشتغال ، ابتدائی درجات میں ’’النحو الواضح ‘ ’’ النحو الوافی‘‘ وغیرہ اور اسکے بعد انشاء میں ’’الأسلوب الصحیح للإنشاء‘‘ اور ’’معلم الانشاء‘‘ بہت مفید ہیں، اسی بلاغت کے حوالہ سے ’’ دروس البلاغۃ‘‘ اور ’’البلاغۃ الواضحہ ‘‘ کافی مفید ہیں ؒ (منظم مدارس عالمیت: ۱۴۲)
مدارس اور انگریزی بان
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت انگریزی عالمی رابطے کی زبان ہے ، یہ زبان نہ صرف غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لئے ضروری ہے ، بلکہ خود مسلمانوں کی نئی نسل بھی اردو کی گرفت سے باہر ہوتی جارہی ہے ، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اسلام کے خلاف جو کچھ لکھاجارہا ہے اور علمی وفکری جہت سے دین حق پر جو یلغار ہورہی ہے وہ زیادہ تر اسی زبان میں ہے ، اگر علماء اس زبان کے سمجھنے اورا اس میں اپنی ما فی الضمیر ادا کر نے کے لائق نہ ہوسکے تو وہ اسلام کی حفاظت واشاعت کا فریضہ صحیح طور پر کیسے انجام دے سکتے ہیں، ایک صاحب علم نے لکھا ہے :
’’ انگریزی ززبان کی ناواقفیت کی وجہ سے علماء اس صدی میں مقام احترام پر تو فائز ہوئے ؛ لیکن مقام قیادت پر فائز نہ ہوسکے ‘‘ ۔ ؒ (منظم مدارس عالمیت: ۳۶۲)
ہم سے پہلے مسلمانوں کی وقت کی ضرورت سمجھ کر قدیم فلسفہ اور منطق وریاضی وغیرہ اور فارسی زبان کو سیکھا، اس کا تجربہ یہ ہوا کہ اس زبان اور فنون نے مسلمانوں کے عقائد ، اعمال، اخلاق، معاشرت پر کوئی اثر نہیں ڈالا، بلکہ ان میں جو غلط اور مضر اثرات تھے ، ان کی بھی اصلاح ہوتی چلی گئی ، فارسی زبان عربی زبان کے بعد دوسری اسلامی زبان بن گئی اور یونانی فلسفہ ، منطق وغیرہ اسلامی علوم کا ضمیمہ بن گئے ، مگر انگریزی اورا سکے ذریعہ آئے ہوئے علوم وفنون کا معاملہ اس کے باکل مختلف نظر آتا ہے ، وقت کی نزاکت اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے کئی ایک مدارس دینیہ نے انگریزی زبان کو نصاب میں داخل کیا، یا تو اس کا خاطرخواہ فائد ہ نہ ہوا ، یا خود ہمارے فارغین مغرب کی تہذیب کے دلدادہ ہوگئے ، لیکن ضرورت اس بات کی تھی کہ حالات اور معاملات کا تجربہ کر کے دیکھا جاتا کہ قدیم علوم فلسفہ اور فارسی زبان ہمارے اعمال واخلاق پر اثر انداز کیوں نہیں ہوئے ، اورانگریزی زبان اور موجودہ فنون عصریہ کیوں ہمارے عقائد سے لے کر اعمال واخلاق تک سب کو یورپ کے تابع بنادیتے ہیں، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ انگریزی بزبان اور عصری علوم وفنون کو اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہ کر حاصل کیا جائے تو وہ پچھلے فلسفہ ومنطق سے زیادہ اسلامی عقائد اور اسلامی علوم کے خادم بن جائیں گے ۔
عصری تعلیم یافتہ دینی تعلیم سے نابلد:
یہا ں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ دینی تعلیم کے حاصل کرنے والے جس طرح عصری علوم اور زبان سے نابلد ہیں ، وہی دوسری طرف عصری تعلیم حاصل کرنے والے دینی تعلیم سے بالکل نابلد ہیں، اس لئے ان کو بھی دینی تعلیم بہم پہنچانا ہے ، جس کے بغیروہ نام کے تو مسلمان ہوسکتے ہیں، لیکن وہ حقیقت میں مسلمان نہیں ہوسکتے ہیں، مسلمانوں کے دین بیزای کے اس دور میں خصوصا ایک مسلمانوں کا بڑا طبقہ جو کالجوں اور عصری اسکولوں سے وابستہ اس حوالے سے بھی جدوجہد اور کوشش کی ضرورت ہے کہ ان کے لئے دینی تعلیم کے لئے صباحیہ مسائیہ مکاتب قائم کئے جائیں، اس لئے بہترین طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ دینی ماحول میں عصری تعلیم کے اسکول بڑے پیمانے پر کھولے جائیں، جہاں دینی اور شرعی لباس اور دینی معلومات اور قرآن کی تصحیح وتجوید اور قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کا منظم انتظام کیا جائے جس کی وجہ سے ہمارے اسکولس اور کالجس کا بڑا طبقہ اپنے دین پر قائم ودائم رہ سکے۔
خلاصہ کلام :
یہ ہے کہ افراط وتفریط کے اس دور میں جب کہ دین اور دنیا کو دو علاحدہ خانوں میں تقسیم کردیا گیا، جس کی وجہ سے دینی تعلیم یافتہ عصری تعلیم سے نابلد اور عصری تعلیم یافتہ دینی تعلیم سے نابلد جس کے لئے حضرت مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ نے جو مدارس کے قیام کی شکل بتائی ہے کہ ابتدائی اور متوسط تعلیم اس طرح فراہم کی جائے کہ اس میں دینی تعلیم اور عصری تعلیم کا دینی ماحول میں ایسا امتزاج پیدا کیا جائے کہ وہ طالب علم اگر چاہے تو اس کے بعد عصری تعلیم کے حاصل کرنے میں لگ جائے یا دینی تعلیم کے حاصل کرنے میں لیکن ان میں سے ہر ایک معتد بہ اور ضروری دینی اور عصری تعلیم کا واقف کار ضرور ہو جس سے وہ جہاں دینی طالب علم کی حیثیت عصری تقاضوں کوپورا کرسکے تو عصری تعلیم کے طالب علم کی حیثیت سے وہ دینیات اور قرآنیات اور حدیث کا بھی ایک معتد بہ علم کا حامل ہو، پہلے ایسی ہی درسگاہیں ہوا کرتی تھے ، علی گڑھ، دار العلوم دیوبند، جامعہ نظامیہ اور ندوۃ العلماء یہ وقت اور حالات کی پیداوار ہیں، جب کے دین کا تحفظ اور دوسری جانب عصری علوم کا تحفظ مسلمانوں کے لئے مشکل ہورہا تھا، جس کی بین بین شکل میں ندوۃ العلماء وجود میں آیا ورنہ عہداسلامی کی مشہور اسلامی جامعات جن میں چار جامعات بنیادی اسلامی جامعات شمار ہوتی ہیں، جن میں سب سے پہلے مراکش کی جامع القرووین ہے، دوسری تیونس کی جامعہ زیتونیہ ہے ، تیسری مصر کی جامعۃ الأزہر ہے اور چوتھی دار العلوم دیوبند اور جامعہ نظامیہ ہے ۔
ان میں جو مراکش کی جامعۃ القرویین ہے ، اس میں اسلامی علوم، تفسیر ، حدیث ، فقہ اوراس کے ساتھ ساتھ طب ، ریاضی، فلکیات جنہیں ہم عصری علوم کہتے ہیں، سب پڑھائے جاتے ، ابن خلدون، ابن رشد ، قاضی عیاض ان جیسے اکابر کی ایک بڑی فہرست ہے جو اس جامعہ کی فارغ التحصیل ہیں، اس یونیورسٹی میں آج تیسری اور چوتھی صدی کی سائنٹفک ایجادات کے نمونے رکھے ہیں، اس زمانے میں اسی جامعہ القرویین کے فارغ التحصیل نے جو ایجادات گھڑی وغیرہ کی ان ایجادات کے نمونے موجود ہیں۔
اصل ہوتا یہ تھا کہ دین اسلام کا فرضِ عین علم سب کو اکٹھا دیا جاتا تھا، اس کے بعد اگر کوئی علم دین میں تخصص حاصل کرنا چاہتا تو وہ اسی جامعۃ القروویین میں علم دین کی درسگاہ میں پڑھتا، اگر کوئی ریاضی پڑھنا چاہتا تو پڑھ لینا، اگر کوئی طب پڑھنا چاہتا وہ طب پڑھتا، جامعہ زیتونیہ تونس ، اور جامعہ ازہر مصر کا نظام تعلیم بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔
اان یونیورسٹیوں کی خصوصیت یہ رہے کہ اگر قاضی عیاض جو حدیث وسنت کے امام ہیں ، ان کا حلیہ دیکھا جائے ، اور ابن خلدون جو فلسفہ اور تاریخ کے اما م ہیں، ان کا حلیہ دیکھا جائے ، دونوں کو دیکھنے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، کہ یہ دین کاعالم اور وہ دنیا کا عالم ہے ، دونوں کاحلیہ، لباس، ثقافت طرز زندگی ، طرزِ کلام سب یکساں تھا، اگر آپ مشہور اسلامی سائنسداں فارابی، ابن رشد ، ابو ریحان البیرونی ان سب کا حلیہ دیکھیں او رجو محدثین او رفقہاء پیدا ہوئے ان کا حلیہ دیکھیں دونوں کا حلیہ ایک جیسا نظر آئے گا، اگر وہ نماز پڑھتے تھے تو یہ بھی نماز پڑھتے تھے ، اگر ان کونماز کے مسائل معلوم تھے تو ان کو بھی معلوم تھے ، اگر ان کو روزے کے مسائل معلوم تھے تو ان کو بھی معلوم تھے ، بنیادی اسلامی تعلیمات جو ہر انسان کے ذمے فرض عین ہیں، اس دور میں ہر انسان جانتا تھا، اوراس یونیورسٹی میں اسکو پڑھایا جاتا تھا، تفریق یہاں سے پیداہوئی کہ انگریز نے آکر باقاعدہ سازش کے تحت ایک ایسا نظام تعلیم جای کیا کہ اس سے دین کو نکال دیا گیاتو ایسے وقت میں دار العلوم اور جامعہ نظامیہ کی قیام کی ضرورت پڑی،لیکن یہ مجبوری تھی، حقیقت میں ہمارے لئے نمونہ جامعۃ القرویین، جامعۃ زیتونیہ اور جامعہ ازہر ہی ہیں۔
بہر حال اس وقت جہاں دینی درسگاہوں میں عصری تعلیم کا ضروری حصہ بہم پہنچانا جس سے عصری تقاضے پورے ہوسکیں ضروری ہے ، اسی طرح عصری درسگاہوں میں مسلمانوں کے لئے دینی تعلیم کا فرض عین حصہ بہم پہنچانا ضروی ہے جس سے ان کا ایمان اوران کا تشخص اوران کا اسلام باقی اور برقرار رہ سکے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×