شخصیات

عالم بے بدل مفتی سعید احمد پالن پوری ؒ (کچھ یادیں کچھ باتیں)

اس دار فانی کو ہر شخص کو چھوڑ کر عالم بقا کی جانب کوچ کرنا ہے، در اصل ساری کوشش محنت، عمل پیہم، جہد مسلسل کا مقصود او رمطمح نظربھی آخرت کی کھیتی بونا ہے، لیکن اس عالم فانی میں جب انسان آتا ہے اور حیات مستعار کے لمحات اور گھڑیوں کو گذار کر راہی عالم بقا ہوجاتا ہے تو پھر اس میں بعض ایسی اساطین ہوتے ہیں جو اپنے انمٹ علمی نقوش اورکارناموں کی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں، یہ شخصیات اوران کی حیات اور جہد مسلسل کی وجہ سے طبیعت یہ سننا گوارا ہی نہیں کرتی کہ فلاں شخصیت ، فلاں عالم بے مثل، محدث عظیم، فقیہ نفس اس دار فانی سے کوچ کر کے راہ عالم بقاہوچکا ہے
لیکن یہ حقیقت ہے ایسی بہت سی عظیم شخصیات کو اللہ عزوجل اس دنیا میں بھیجتا ہے ، ان سے بڑے بڑے کام لیتا ہے ، جس کے انمٹ نقوش اور گہرے اثرات انسانیت پر پڑتے ہیں، اس شخصیت سے انسان حد سے زیادہ اثر لیتا ہے ، بلکہ اس کی زبان کی طوطی بولتی ہے،اس کے منہ سے نکلنے والے الفا اور ہیرے موتی اس کی موت کے بعد بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری ؒ بڑے عظیم محقق، مدقق، عالم بے بدل، فقیہ نفس اور علم کا گہرا اور اتھاہ سمندر تھے، جن کو دیکھ کر گذشتہ اسلاف دار العلوم جن کے عظیم کارناموں سے دار العلوم کی علمی شہرت کو چار چاند لگے ، یاد آجاتی تھی ، حضرت کا ترمذی کا پر مغز درس، پروقار مجلس ، علمی ہیبت سے معمور محفل وانجمن ، عجیب سا سماں ہوتا، درس گاہ ساری کی ساری کچھاکچھ بھرجاتی ، تل دھرنی کو جگہ نہ ہوتی ہے چنیدہ قاری حدیث کو نہایت رس گھولنے والی آواز میں پڑھتے ، پھراس کے بعد استاذ محترم کا پر وقار، پر مغز، علمی خطاب شروع ہوتا ، جس میں دلائل کو اس قدر پختگی کے ساتھ پیش کرتے اور مسائل میں علماء کے درمیان اختلاف کی صورت میں موازنہ ایسے نہایت نازک اور البیلے اور اچھوتے انداز میں پیش فرماتے کہ ہر طرح کی علمی گتھیاں سلجھ جاتی ، بات کو کہنے اور پیش کرنے کا سلیقہ، علمی وقار وسنجیدگی اور متانت اس قدر زیادہ لفظ لفظ سے علم کی بو جھلکتی، نہایت پختگی کے ساتھ بغیر کسی جھجک کے نہایت پر وقار اور ایک عالم بے مثل وبے بدل کے ماند نہایت پختگی اوریقین کے ساتھ بات کو رکھنے کا سلیقہ ، اور علماء ومحققین کے اقوال کو پیش کر کے ان کے درمیان توازن اور ان کے علمی مباحث کا تجزیہ وتبصرہ درس کا منظر نہایت قابل دید ہوتا، طلبہ ہمہ تن گوش، کسی کے مجال کے دوران درس اپنی جگہ سے اٹھ کر بھی چلا جائے ، بلکہ کئی مرتبہ دیکھا ہے کہ اگر درسگاہ میں طلباء کی تعداد کم محسوس ہوتی تو ناراض ہوکر واپس تشریف لے جاتے۔درس گاہ اپنی وسعت کے باوجود تنگ دامنی کا شکوہ کرتی ، بلکہ طلباء دروازوں پر بیٹھے سماعت درس میں مصروف نظر آتے ۔
دار العلوم دیوبند میں مفتی صاحب کی علمی لیاقت کا طوطی بولتا تھا، نہایت تندہی اورتوجہ کے ساتھ مفتی صاحب کے خطابات سنے جاتے، علمی جلسوں اور ابتدائی تعلیمی سالوں اور مختلف انعامی جلسوں وغیرہ کے موقع سے نہایت پرمغز گفتگو کرتے اور بلا جھجک بلا تکلف نہایت پختگی اور ایقان کے ساتھ گفتگو کا طرز وانداز طلبہ وشاگردوں کے ذہن ودماغ کو ہمیشہ جھنجوڑتا رہے گا، معمول تھا کہ درسگاہ میں داخل ہوتے ہی طلبہ دورہ حدیث کو مختصر اور جامع احادیث حفظ اور ذہین نشیں کرنے کے لئے کئی مرتبہ دہرا کر یاد کرانے کی کوشش کرتے، ایک حدیث یاد پڑتی ہے کہ ’’البصاق فی المسجد خطیئۃ ،کفارتھا دفنھا‘‘ اس قسم کے مختصر اور جامع احادیث یاد دلائی جاتی ۔
اسماء حسنی بھی باضابطہ مکمل حدیث کی شکل میں حفظ کرائے جاتے ، بلکہ اسماء حسنی تمام طلبہ دور حدیث نے سنایا تو بطور انعام فتاوی رحیمیہ وغیرہ اور ہدایت القرآن کا سٹ بھی عنایت فرمایا، میں بھی تمام دورہ حدیث کے طلبہ کے ساتھ حضرت اقدس کے گھر پر اسماء حسنی سنانے کے لئے گیا، علمی ہیبت وقار کی وجہ سے بڑی ہیبت اور کوفت ہوئی ، بہر حال اسماء حسنی والی حدیث صحیح سنانے پر ہدایت القرآن اور فتاوی رحمیہ کے سٹ سے نوازا گیا جس سے میں ابھی بھی استفادہ کرتا ہوں۔
علمی متانت کے ساتھ سادگی بھی لائق دید ہوتی ، گھر سے رکشہ پر سوار دار العلوم آتے جاتے ، گھر چونکہ دار العلوم سے دور واقع تھاایک دیڑھ کیلو میٹر کی دوری پر وہاں سے رکشہ پر تشریف لاتے اور جاتے ، بلکہ تمام دار العلوم کے اساتذہ کی یہی شان استغناء رہی ہے کہ اس قدر بڑے ادارے کے اساتذہ جن کے ہزاروں لاکھوں شاگردوں دنیا کے انگت حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں، لیکن کارنشیں نظر نہ آتے ، وہی سادگی ، وہی جفاکشی، وہی جہد مسلسل، علمی طلب ان کا سرمایہ ، گویا کہ ان کو دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں، ساری کتابیں دور رسالت کے بعد سے لے کر موجودہ قریبی صدیوں تک کے محققین کے کتب بینی کے لئے انہیں کا انتخاب ہوا ہے ، علمی خوشہ چینی ، علمی کمال ، علمی لیاقت سب ہی امور ان کے لئے ہیں ۔نمازوں کے اوقات میں یہ اساطین علم ادھر سے ادھر عام انداز میں آجارہے ہیں، جب یہ دار العلوم سے باہر نکلتے ہیں، لوگ ان کی دست بوسی اور مصافحہ کے لئے ترس جاتے ہیں، یہی شان استغناء وبے نیازی وللہیت ، بے گانگی ، فرزانگی مفتی صاحب رحمہ اللہ کی بھی خصوصیت تھی۔
حضرت مفتی صاحب دار العلوم دیوبند کے موجودہ شیخ الحدیث اور صدر المدرسین تھے، آپ ایک مستند محدث، کامیاب مدرس ، متعدد اہم کتابوں کے مصنف اور جید الاستعداد اور صاحب بصیرت مفتی وفقیہ بھی تھے ۔
حالات وکوائف
۱۳۶۰ھ؍۱۹۴۰ء میںآپ کی ولادت ہوئی ، آپ کا وطن موضع ’’کالیڑھ‘‘ بناس کانٹھا (شمالی گجرات) ہے ، مفتی صاحب پالن پور کی نسبت سے مشہور ہوئے جو آزادی سے پہلے ایک مسلم نواب اسٹیٹ تھا اوراس ضلع کا مرکزی شہر بھی ، بسم اللہ والد محترم نے کروائی ، وطن میں ہی مکتب میں ناظرہ ودینیات کی تکمیل کے بعد ’’دار العلوم چھاپی‘‘ میں داخل مدرسہ ہوئے ، جہاں مفتی صاحب کے ماموں جان عبد الرحمن صاحب تدریسی خدمات کی انجام دہی میں مصروف تھے ۔
۱۳۷۷ھ؍۱۹۵۸ء میں مظاہر العلوم سہارن پور آگئے ،یہاں نحو، منطق اور فلسفہ کی اکثر کتابیں پڑھیں، اعلی تعلیم کے لئے ۱۳۸۰ھ؍۱۹۶۱ء میں دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا، علم حدیث ووفقہ وتفسیر کے علاوہ دیگر علوم وفنون کی کتابیں دار العلوم میں پڑھیں، ۱۳۸۲ھ؍۱۹۶۲ء میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی اور سالانہ امتحانات میں امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے ، بڑے اساتذہ علامہ ابراہیم بلیاوی ، قاری طیب صاحب وغیرہ کی سرپرستی حاصل رہی، فراغت کے بعد ایک سال تک شعبہ افتاء میں زیر تعلیم رہے اور حضرت مفتی محمود احمد نانوتوی (رکن مجلس شوری واعزازی مفتی دار العلوم دیوبند ) کے یہاں معین مفتی کے طور پر بھی فتوی نویسی کی خدمات انجام دیتے رہے ۔
تدریس
تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۳۸۴ھ؍ ۱۹۶۵ء میں دار العلوم اشرفیہ راندیر (سورت) میں درجہ علیا کے مدرس مقرر ہوئے اور ۱۳۹۳ھ؍۱۹۷۳ء تک وہاں نہایت حسن وانتظام کے ساتھ تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ، اسی زمانے میں ’’العون الکبیر شرح الفوز الکبیر ‘‘ اور علامہ طاہر پٹنی کی کتاب ’’المغنی ‘‘ کی شرح ’’ـتہذیب المغنی ‘‘(غیر مطبوعہ ) ’’حرمت مصاہرت‘‘ وغیرہ کتابیں تصنیف فرمائیں۔
دار العلوم دیوبند میں
حضرت مولانا منظور احمد نعمانی ؒ کے ایماء پر دار العلوم دیوبند میں تقرر عمل میں آیا، دار العلوم میں اس وقت سے اب تک تفسیر، حدیث، فقہ ، اصول فقہ، منطق وفلسفہ وغیرہ کی کتابوں کا درس نہایت حسن وخوبی کے ساتھ انجام دیا، دورۂ حدیث میں ایک طویل عرصہ تک ترمذی شریف کا درس دیا، جس کی شان اور خوبی نہایت قابل دید ہوتی، درس طلب کے درمیان نہایت مقبول تھا، اسی طرح تکمیل العلوم میں ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ جو فکر شاہ ولی اللہ کی کی ترجمان ہے ، یہ کتاب بھی تدریس میں آپ سے متعلق تھی، جس کی ہمہ جہت شرح ’’رحمۃ اللہ الواسعہ‘‘ کے نام سے ترتیب دے کر فکر شاہ ولی اللہ کی ترجمانی کا کام خوب انجام دیا۔
دار العلوم دیوبند کے موقر شعبہ دار الافتاء سے میں بطور مفتی افتاء نویسی کی خدمات بھی انجام دی ہے ، اخیرش مفتی صاحب کی علمی سرپرستی میں ’’فتاوی دار العلوم‘‘ کی ترتیب جدید کام انجام دیا گیا ۔
مفتی ’’فتنہ قادیانیت‘‘ و’’ـتحفظ ختم نبوت‘‘ کے سلسلہ میں قائم کردہ شعبہ ’’ کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت ‘‘ کے ناظم اعلی بھی رہے ہیں، دار العلوم کے مختلف اجلاس اور عمومی جلسوں میں مفتی صاحب کی علمی تقریروں اور پند ونصائح پر علمی خطابات کوبڑی تندہی اور بیدار مغزی کے ساتھ سنا جاتا، طلباء کے لئے علمی گتھیاں سلجھاتیں، رجال سازی اور مردم گری کا کام انجام دیتے، دورہ حدیث کے سال طلباء کی تین قسم کی استعداد کے حامل قرار دے کر فرماتے ہیں، اعلی قسم کے صلاحیتوں کے حامل طلباء تدریس متعلق رہیں، ابھی تو علم کی چابی ملی ہے جس سے علم کے تالے کھولنے ہیں، درمیان اوسط درجے کے طلباء اور وغیرہ دیگر دینی شعبوں سے متعلق خدمات کی انجام دہی کی طرف توجہ دلاتے ۔
بہت سارے طلبہ کی راست نگرانی فرما کر ان کو مختلف مقامات اور خود دار العلوم میں اپنا جانشیں اور ترجمان بنایا ۔
۱۴۲۹ھ؍۲۰۰۸ء میں استاذ محترم حضرت مولانا نصیر الدین صاحب بلند شہری ؒ کی علالت کی وجہ سے استعفاء کے بعد اس آخری سال تک دار العلوم دیوبند کے صدر المدرسین اور شیخ الحدیث کے باوقار شعبہ پر نہایت علمی طمطراق، وعلمی شان کے ساتھ فائز رہے ۔
تصنیف وتالیف
نہ صرف آپ ایک کامیاب مدرس تھے ،بلکہ ایک نہایت کامیاب مصنف اور کتب درسیہ کے محرر بھی تھے، جن میں محفوظات کے نام سے احادیث پر مشتمل کتابیں، آسان نحو وصرف، آسان منطق ، معین الفلسفہ اس طرح کی دیگر مبادیات پر مشتمل کتابیں آج بھی ہندوستان کے طول وعرض میں داخل درس ہیں، جن کو نحووصرف ومنطق وفلسفہ کی مبادیات کی شکل میں بچوں کو حفظ کرایا جاتا ہے ، اس کے علاوہ ترمذی کی شرح ’’تحفۃ الالمعی‘‘ ،’’تحفۃ القاری شرح بخاری‘‘، العون الکبیر شرح الفوز الکبیر، حاشیہ امداد الفتاوی، ہدایت القرآن وغیرہ شامل ہیں۔
نہ صرف دار العلوم دیوبند کے عظیم استاذ، محقق ، مدقق، مفتی وفقیہ، محدث باکمال ، مصنف ومولف تھے ؛ بلکہ موجودہ وقت میں دار العلوم دیوبند کے حقیقی ترجمان بھی تھے، دنیا کے طول وعرض میں دار العلوم کے ترجمان کی حیثیت سے مفتی صاحب کے اسفار ہوتے۔
آخری وقت
آخری وقت میں دوران سال کچھ طبیعت علیل ہوئی ،پھر بحالی پر بخاری شریف کی تدریس کی تکمیل فرمائی، تکمیل بخاری کی آخری مجلس نہایت ہی زیادہ غم آگیں رہی، جس میں مفتی صاحب کہتے کہتے رک گئے، بولنے کی سکت نہ رہی ، فرمایا: وہی ہوگا جو اللہ چاہے ، استاذ محترم کو روتا بلکتا اور سستا دیکھ دار الحدیث طلباء کی بھی سسکیاں بندھ ، عجیب سماں بندھ گیا، پھر علالت کے بعد صحت یابی ہوئی، پھر حضرت والا کے فرزند قاسم احمد پالنپوری نے 18مئی کو قارئین سے خصوصی دعاں کی درخواست کرتے ہوئے یہ کی اطلاع دی تھی کہ والد محترم حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتہم کی طبیعت آج بتاریخ 18 مئی بروز پیر سیریس ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل حضرت مفتی صاحب کے پھیپھڑوں میں پانی چلا گیا تھا جس کے باعث انکو سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی، اسی تناظر میں وہ ایک ہفتہ قبل انتہائی نگہداشت کے شعبہ میں داخل کیے گئے تھے، علاج معالجہ ہوتا رہا، دن بدن طبیعت میں سدھار بھی ہورہا تھا مگر آج طبیعت تشویشناک ہو چلی ہے۔ حضرت کے ہی فرزند نے 19مئی کی صبح حضرت والا کے داغِ مفارقت کی خبر دے کر امتِ مسلمہ بالخصوص تلامذہ محبین متعلقین اور محبین کو مغموم کردیا۔
مفتی صاحب کی نصف صدی پر مشتمل علمی خدمات کو ہر دور میں سنہری تحریر میں لکھا جائے گا، لاکھوں کی تعداد میں دنیا کے ہر کونے میں پھیلے شاگر د مفتی صاحب کی فکر وفن کو عموم دینے میں لگے رہیںگے ۔

کڑے سفر کا تھکامسافر ، تھکا ہے ایسا کہ سوگیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں، ہرآنکھ بھگا گیا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×