سیاسی و سماجیمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

کروناوائرس – تازیانۂ عبرت

آج اس وقت ساری دنیا کویڈ 19سے پریشان ہے، ساری حرکت بند، دنیا تھم سی گئی ہے ، جو بازار ہر وقت ہر دم لوگوں سے بھرے پرے رہتے تھے ،سڑکیں فراٹے بھرتے ہوئے نوع بنوع گاڑیوں سے آراستہ ہوتی تھیں ، جن گلی گوچوں میں دوکانیں ، کاروبار ، تجارت کی چمک دمک تھی، ٹرینیں اپنی پٹریوں سے برق رفتاری سے دوڑ تی تھی، ہوائیں اور فضائیں جو انسان کے مسخر تھیں، جہاں انسانیت کا راج تھا، یہ انسان ناتواں ہوائیں اور فضاؤں کو مسخر کرنے کے بعد آسمان کے دوسرے سیاروں کو اپنی آماجگاہ اور اپناآشیانہ بنانے کی سوچ رہا تھا، اچانک سے ایک وبا کیا پھیل گئی ، ساری دنیا تھم گئی ، بازار وں اورسڑکوں کی رونقیں ، انسانیت کا دم خم، اس کا ناز ونعم، اس کے پررونق محفلیں، عیاشی کی اڈے ،انسانیت کوشرمسار کرنے والی مجلسیں، رقص گاہیں، عیش وسرود کی رمزگاہیں، سب رک گئیں، سڑکیں اور بازار جو ہر دم انسانیت کی چہل پہل سے انسانیت کی قوت وطاقت اور ہر شخص اس کی وسعت بھر دولت وشہرت کاپتہ دیتیں، آج وہ بازار، آج وہ سڑکیں، آج وہ محفلیں، آج وہ رقص گاہیں، انسانیت سارا کا دم خم، اس کی قوت وتوانائی کا سرچشمہ سب ماند پڑچکا ہے ، ہر طرف ہو کا ساعالم ہے ، ہر شخص اپنے گھر تک محدود ہے ، ورنہ وہ پھر لقمہ اجل بننے کے لئے تیار ہے ، اس صورتحال نے عبرت وموعظت کے بہت سارے پہلو وائے کئے، شاید ہی کسی نے سوچا ہوگاکہ دنیا اس قدر تھم جائے گی، کل جو یہ کہتینہ تھکتے تھے کہ ’’کرلو دنیا مٹھی میں‘ ‘ آج اسی گلوبلائزائشن کا مارا انسان اپنے گھر کی چہار دیواری تک محدود ہے ، جو محفلیں سجا کر اپنے طاقت وقوت کا مظاہرہ کیا کرتا، جو اپنی بادشاہت وسلطنت کے کر وفر کا لوہا منوانا، اپنے چیلے چباٹوں کے ساتھ اپنی انانیت کا تماشاکرتا، سب دبے چھپے بیٹھے ہیں، ساری حرکت وجنبش ماند پڑگئی، سب کے ہاتھ پیر سکڑ گئے، سب کی تمنائیں اور خواہشیں تھوڑے وقت کے لئے ہی سہی دھری کی دھری رہ گئی۔
اس صورتحال نے چند ایک حقائق اور سچائیوں کو ظاہر کردیا
۱۔ تکبر اللہ کو زیب دیتا ہے : اس صورتحال نے انسانیت کے لئے اس کی حقیقت وحیثیت کوواضح کردیا ، اس کی بے وقعتی اور کمزوری کو واشگاف کردیا، اس کے خدا کے مقابلے میں لا شیء ہونے کو ظاہر کردیا کہ انسان خواہ دنیا کو مسخر کیوں نہ کرلے، وہ ہواؤں اور فضاؤں کو اپنے قبضہ میں کیوں نہ کرلے، وہ زمین کی تہوں میں کیوں نہ پہنچ جائیں، وہ بڑی سے بڑی مشنریز کیوں نہ ایجاد کر لے، وہ اپنے دماغی گلگاریوں کی کتنی ہی نقش کاری کر کے اپنے ترقی یافتہ ہونے کے کتنے ہی کیوں نہ ڈھول پیٹے لے ؛ لیکن در حقیقت وہ کمزور ہی ہے، وہ ناتواں ہی ہے ، اس کو تکبر زیب ہی نہیں دیتا، تکبر تو شان خداوندی ہے، زینب رب ذو الجلال ہے ، حدیث قدسی ہے ’’الکبریاء ردائی والعظمۃ إزاری ، فمن نازعنی منہما قذفتہ فی النار‘‘ (ابوداود، ابن ماجہ)(تکبر میری چادر ہے ، عظمت وبرتری میری تہہ بند ہے ، جو ان دونوں کے حوالے سے مجھ سے جھگڑا کرے تو میں اسے جہنم کے حوالے کردوںگا) دیگر روایات میں یہ الفاظ ہیں’’ عذبتہ‘‘ (میں اس کو عذاب میں مبتلا کروںگا) اور ایک روایت میں ہے’’قصمتہ‘‘ (میں اس کو توڑ پھوڑ کر رکھ دوںگا) ۔
اس وبا اور بیماری میں دنیا کی عظیم طاقتوں کے لئے ایک عبرت ونصیحت ہے ، ان کو تکبر بالکل زیب نہیں ہوتا، روئے زمین در حقیقت ایک خالق ومالک کی ہے ، جس کے قبضۂ قدرت میںاس کا سارا نظام ہے، جوصبح وشام کو پیدا کرتا ہے ، سورج وچاند کو نکالتا ہے ، موسموں کو تبدیل کرتا ہے ، زمین سے غلوں کو نکالتا ہے ، آسمان سے پانی کو برساتا ہے، وہی خدا کو خدائی کا دعوی کرنازیب دیتا ہے ، ہر کس وناکس ، ایک حقیر وناتوں مخلوق خدا کے مقابلہ میں اپنی نمردویت اور فرعونیت کا مظاہر کرے گی تواس کی گردن کو ایسے ہی موڑ دی جائے گی ، پھر سوائے ماتم کنی کے کچھ باقی نہ رہے گا۔
۲۔انسان نہایت کمزور ہے : یہ انسان جان لے کہ وہ ایک مخلوط بے جان نطفہ سے بنایا گیا ہے ، اس کی حقیقت ایک گندگی ہے ، جس کو رب ذو الجلال اپنی قدرت سے انسان کے قالب میں ڈھالا، اس کی منظر کشی کی، اس کو حسین وجمیل اور بولتا چالتا، سوچتا ، غور وفکر کرتا بنایا، اس میں بے شمار صلاحیتں ودیعت کی، وہ اس دنیائے جہاں میں اپنے آنکھیں کھولنے کے بعد وہ اپنی پچھلی حقیقت کو یکسر نہ بھلا دے ، اپنی صرف موجودہ شان وشوکت کے بھول بھلیوں میں ایسا گم نہ ہوجائے کہ پھر ان وباؤں اور بیماریوں کی شکل میں اس کی اصلی حقیقت کو خدائے برتر کی طرف سے واشگاف کرنے کی ضرورت پڑے ، اپنی تنہائیوں میں اپنے اصلی حقیقت وحیثیت کو ہمیشہ دل کے نہاں خانوں میں تازہ رکھے،ورنہ اس کی طاقت وقوت کا مدعی ہی ان مصائب ومتاعب کا باعث بن جائیگا ، سچ فرمایا خدائے ذو الجلال نے ’’ خلق الإنسان ضعیفا‘‘(النساء:28) (انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ) یعنی انسان طبعی اور فطری طور پرضعیف النفس ہے ، اس لئے کہ اس کے اندر خیر وشر دونوں مادے ودیعت کئے گئے ہیں، اس کے اندر وساوس وخیالات ، خواہشات وتمناؤں کی بھی ایک لا متناہی اور عظیم دنیا ہے ، وہ خلقت کے اعتبار سے بھی ضعیف اور کمزور اس طرح ہے کہ ہر دم بیماریاں ، مصائب وآلام سے وہ دوچارہوتا رہتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ درد وکسک کو بھی محسوس کرتا ہے ، اس کو آرام وراحت کی بھی ضرورت پڑتی ہے ، اس کو نیند بھی ضروری ہوتی ہے ،وہ عقلی اعتبار سے بھی اس لئے کمزورہے کہ ، خواہ فہم وادراک کے اعلی منازل پر کیوں نہ پہنچ جائے ، لیکن ہر اس کا اٹھنے والا قدم اس کی کامیابی کا ضامن ہو ایسا نہیں ہوتا، اس کو خوشی کے لمحات بھی میسر آتے ہیں، اسے رونے اور دھونے اور اپنے سر پر ہاتھ رکھ بیٹھ جانے پر مجبور کرنے والی گھڑیاں بھی درپیش ہوتی ہیں۔اس لئے انسان خواہ دنیا کی ساری قوت وطاقت کا سرچشمہ کیوں نہ ہوجائے وہ اپنی حقیقت واصلیت سے آنکھیں نہ موند لے ۔
۳۔ ظلم وستم سے باز آئے: دنیا میں اللہ عزوجل کا یہ قانون ہے کہ اس نے سارے انسانوں کو یکساں اور ایک رتبہ کے حامل نہیں بنایا، لوگوں کو مختلف درجوں اور مراتب کا حامل بنایا ہے ، یہ اس لئے نہیں کہ بڑا انسان چھوٹے انسان پر ظلم کرے ، اس پراپنی طاقت اور انانیت کا مظاہر ہ کرے ، اس کو ناحق ستائے، اس پر ستمگری کرے، اس مجبوروناتواں انسان کو ناکردہ جرم کی سزا دے، اپنی نشہ قوت میں مست ہو کر بدمست ہاتھی کی طرح سارے انسانیت کیڑے مکوڑوں کی طرح روندنا پھرے، ارض خدا میں اپنی سلطنت اور خدائی کا دعوی کرے خلق اللہ جو عیال اللہ (اللہ کا کنبہ ) ہے ، اس پر ظلم روا رکھے، بلکہ یہ اونچ نیچ ، یہ نشیب وفراز، یہ دولت وثروت، مراتب ودرجات کا تفاوت صرف اس لئے ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے کام آئے ، جس کو اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں یوں ارشاد فرمایا: ’’ ورفعنا بعضھم فوق بعض درجات لیتخذ بعضھم بعضا سخریا ‘‘(الزخرف: 32) (اور ہم نے بعض کو بعض پر درجات کے اعتبار سے فوقیت دی ہے تاکہ ان میں سے ایک دوسرے سے کام لیتا رہے)اور یہ بھی اللہ عزوجل نے فرمایا کہ یہ خاندان یہ قبیلے ، یہ اونچ نیچ یہ تفاوت ، یہ انسانیت کے درمیان فرق مراتب ، تعارف اور پہچان کا ذریعہ ہے ، اس سے مقصود اور مطلوب حقیقی اس نشیب وفراز کو بتانا نہیں؛ بلکہ حقیقت میں رب ذو الجلال کا یہاں محبوب وہ شخص ہے جو رب ذول الجلال کے احکام کو کتنا بجالاتا ہے ،اس روئے پر بحیثیت اس کے خلیفہ ہونے کے اس کے احکام کے نفاذ اور اس کے مخلوق کے ساتھ عدل اور اس کے ذات کے استحضار کے ساتھ اپنے کاموں کو کس قدر انجام دیتا ہے ؟ ۔
اس لئے کسی بھی انسان کو بحیثیت انسان ہونے کے دوسرے انسان بلکہ جانور پر بھی ناحق ظلم کرنا درست نہیں، اللہ عزوجل نے حدیث قدسی میں فرمایا ہے :’’ یا عبادی حرمت الظلم علی نفسی وجعلتہ بینکم محرما، فلا تظالموا‘‘(مسلم)( اے میرے بندو! میں نے ظلم کرنے کو اپنی ذات پر حرام کیا ہے ، تم بھی ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لو، کسی پر ظلم نہ کرو)۔اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اتقوا دعوۃ المظلوم، وإن کان کافرا ، فإنہ لیس دونھا حجاب‘‘ (صحیح البخاری) ( مظلوم کی بدعا سے بچو، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ اس کے بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی آڑ نہیں ہوتی )ظالموں نے نہتے لوگوں میں روئے زمین کے مختلف حصوں پر کتنا ظلم نہیں کیا، اللہ عزوجل کو غصہ کیوں نہ آتا، ظالموں کی گردنیں کومڑو ڑ کر کیوں نہ رکھ دی جاتی ،اس بیماری اوروبا میں ظالموں کے لئے تازیانہ عبرت وموعظت ہے کہ وہ ظلم وستم کی اپنی پالیسیوںسے باز آئیں، وہ مظلوموں کے خلاف تانے بانے بنیںگے ، مکر وتدبیر کریں گے ، خدائی تدبیر کے سامنے انہیں بے بس اور لاچار ہوناپڑے گا۔
۴۔خدائی حدود کو نہ پھلاندیں: ہر چیز اپنے حد میں رہ کر ٹھیک ہوتی ہے ، اس کا حسن وکمال اس کے دائرہ کار میں بہتر نظر آتا ہے ، انسان کا خالق اللہ عزوجل ہے ، اس نے انسان کی تخلیق کی ، اس کو بہترین سانچے میں ڈال کر درست اور ٹھیک ٹھاک کیا، اس میں روح پھونکی ، اس کو عقل ودانائی ، ادراک ووقوت شعور سے نوازا،لیکن انسان کا حسن وکمال اس کے خدائی احکام کے حدود میں رہ کر اپنے کارہائے زندگی کو انجام دینے میں ہے ، خدائی احکام وحدود کا پھلاندنا یہ یا تو عذاب خدا کو دعوت دینے والا ہوتا ہے ، یہ ایسے وباؤں کا باعث بنتا ہے، جس کا سرے کا بھی پتہ نہیں ہے ، جس کی ابتداء اور انتہاء بھی معلوم نہیں ہوتی ہے، اس لئے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک، سر کے بالوں سے لے کر پیر کے ناخن نک ، صبح سے لے کر شام تک احکام خداوندی ، خالق ومالک حقیقی کے احکام کے مطابق زندگی گذارنے میں ہی اس کی اور ساری خدائی مخلوق کا بقا اور تحفظ مضمر ہے ، جہاں فطرت خداوندی سے چھیڑ چھاڑکیا، اپنے حدود کو پھلاند دیا، حرام وحلال کی تمیز کو ترک کردیا ، پھر گرفت خداوندی میں آگئے، عذاب الٰہی کو دعوت دے بیٹھے،اسی کو اللہ عزوجل نے فرمایا: ’’ولا تعتدوا، إن اللہ لا یحب المعتدین‘‘ ( البقرۃ: 190) (حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ عزوجل حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے )۔
۵۔مخلوق خدا کی بھلائی کے لئے کام کرے: آج کا انسان صرف اپنے خول میں محدود ہوگیا ، اسے صرف اپنے پیٹ اوراس کے اطراف واکناف کے خواہشات کی لگی رہتی ہے ، اسے سستی انسانیت، بلکتی مخلوق ، نہتے عوام سے کوئی مطلوب ومقصود نہیں، بلکہ اس کی ہردم یہ خواہش ہوتی ہے کس طرح ، کون سی تدبیر ایسی اپنائی جائے ہر مخلوق خدا کی کمائی کا کچھ نہ کچھ حصہ اس کے اپنے قبضہ میں آئے، لینے کے ذرائع تو بہت سے بنالئے، دینے کے ذرائع، خدمت خلق ، خدمت انسان، درد انسانیت، احترام انسانیت، زکاۃ وصدقات کا اہتمام، اپنے کمائی کے حصہ کو راہ خدا میں خدمت خلق کے لئے وقف کرنے کاجذبہ مفقود ہوچکا، جس کی وجہ سے یہ عمومی مصائب ومتاعب ساری دنیا پر آن پڑی جس کی وجہ سے انسان کو اپنے ہاتھوں مجبور ہو کر گھروں میں محدود ہونا پڑا۔
یہ وہ چند تلخ حقائق اورسچائیاں جو اس وقت ساری دنیا میں بسنے والی نوع انسانیت کی سمجھ میں ضرور آئے ہیں، ہر حاکم ومحکوم، ہر اعلی وادنی، ہر امیر وغریب کے ذہن کے نہاں خانوں میں ان تلخ حقائق کا گذر اپنے اس غیر مصروف اورغیر ہنگامی زندگی میں ضرور ہوا ہوگا، اللہ عزوجل حقیقت کو سمجھ کر زندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×