شخصیات

آہ؛ محقق عصر ومدقق دہر چلاگیا، سعید اسم بامسمی ہوگیا

عادت اللہ یہی جاری ہیکہ ہرآنے والا رخت سفر باندھتا ہے، نظام قدرت ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں ہر آنے والے کو جانا لازم ہے یہی سنت خداوندی اور مشیت ایزدی ہے جس کو قران نے  کل نفس ذائقۃ الموت کہا ہے۔ اس حقیقت واضحہ ومسلمہ سے سرمو انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے انسان خواہ جتنا بھی اس دنیائے آب وگل میں رہ لے اور زندگی گزار لے خواہ کتنے ہی اچھے اور مثالی کارنامے درج کرالے وہ سب اس کو چھوڑ کر ہی جانا ہے قضاء و قدر اور داعئ اجل کو تو خواہی نخواہی لبیک کہنا ہی پڑتا ہے؛ لیکن آہ!
آج بتاریخ 25/رمضان المبارک 1441 19/مئ 2020بروز منگل بوقت چاشت کائنات ارضی کا چمکتا دمکتا سورج اپنے افق پر نمودار ہوکر بلندی پر چڑھ رہا تھا عین اسی وقت علمی دنیا کا آفتاب نیر تاباں استاذ الاساتذہ عالم کبیر محدث زمن شیخ دہر ولی کامل حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری کی شکل میں غروب ہوگیا۔ انا للہ واناالیہ راجعون
آپ اپنے علمی تفوق وکمال میں فرید وقت وحید دہر ویکتاے زمانہ اور طاق تھے شاید اڈی مناسبت سے رخصتی کے لیے پروردگار عالم نے  عیسوی اور ہجری تواریخ بھی طاق ہی منتخب فرمائی ہوں گی اپنے تفردات وتحقیقات میں انفرادیت رکھنے والا علمی ذوق اورعملی شوق کارسیا و خوگر لاکھوں تشنگان علوم نبوت کو سیرابی دینے والا دین اسلام کے لہلہاتے چمن کو اپنی تحقیق وتدقیق کے آب شیریں سے سینچنے والا بافیض عالم مصلح امت سعیدالملت باغباں آج ہم سے رخصت ہوگیا ہم اپنے اس روحانی باپ کے گزرجانے سے اپنے آپ میں یتیمی کا احساس پارہے ہیں۔
یقینا میرے اور سارے ہند وپاک ودیگر ممالک کے علماء کے روحانی باپ اور پیشوا جو اپنے امتیازات وخصوصیات سے ہر دل کی دهڑکن ہر طالب کے مطلوب ہر سائل کے مجیب دلوں پر حکمرانی کرنے والے علمی میدان کے مرد مجاہدتھے اللہ پاک اپنے خاص سائبان تلے جواررحمت میں جگہ عنایت فرماکر ام المدارس الاسلامیہ دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائے ۔
مربی وشیخ کامل کا مختصر سوانحی خاکہ بھی ذہن میں رہے اس لیے حق تلمیذیت ادا کرنے کے لیے راقم سطور نے چند تعزیتی کلمات رقم کیے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔مفتی سعید احمد پالن پوری کی ولادت۔۔۔۔
1362ھ مطابق 1942ء میں ہوئی۔ وہ موضع کالیٹرہ ضلع بناس کانٹھا (شمالی گجرات) کے رہنے والے ہیں۔ والدین نے ان کا نام ‘‘احمد‘‘ رکھا تھا، لیکن جب انہوں نے مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا تو اپنے نام کے شروع میں ‘‘سعید ‘‘ کا اضافہ کر دیا، اس طرح ان کا پورا نام ‘‘سعید احمد‘‘ ہو گیا، ۔

*زمانۂ طالب علمی*
ابتدائی تعلیم اپنے وطن گجرات ہی میں ہوئی، والد کے ہاتھوں ان کی بسم اللہ ہوئی اور ناظرہ و دینیات وغیرہ کی تعلیم وطن کے مکتب میں حاصل کی، پھر دار العلوم چھاپی چلے گئے اور وہاں فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ دار العلوم چھاپی میں ان کا قیام چھ ماہ رہا، پھر نذیر احمد پالن پوری کے مدرسہ میں داخل ہوئے اور وہاں عربی درجہ کی شرح جامی تک تعلیم حاصل کی، وہاں محمد اکبر پالن پوری اور ہاشم بخاری ان کے خاص استاد تھے۔
1377ھ میں مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا، نحو، منطق و فلسفہ کی بیشتر کتابیں وہیں پڑھیں، بعد ازاں 1380ھ  مطابق 1960ء میں دار العلوم دیوبند  میں داخلہ لیا اور حدیث و تفسیر اور فقہ کے علاوہ دیگر کئی فنون کی کتابیں پڑھیں۔ 1382ھ مطابق 1962ء میں دورہ حدیث شریف سے فارغ ہوئے اور سالانہ امتحان میں امتیازی نمبرات حاصل کیے، پھر اگلے تعلیمی سال (یکم ذیقعدہ 1382ھ) میں شعبہ افتاء میں داخلہ ہوا اور فتاویٰ نویسی کی تربیت حاصل کی۔

*تدریس:*
تکمیل افتاء کے بعد 1384ھ میں دار العلوم اشرفیہ راندیر (سورت) میں علیا کے مدرس مقرر ہوئے، یہاں تقریباً دس سال تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے معزز رکن محمد منظور نعمانی کی تجویز پر 1393ھ میں دار العلوم دیوبند کے مسند درس و تدریس کے لیے ان کا انتخاب عمل میں آیا اور 2020 تک تقریبانصف صدی پر محیط تدریسی خدمات انجام دیتے رہے،دار العلوم میں مختلف فنون کی کتابیں پڑھانے کے ساتھ برسوں سے ترمذی شریف جلد اول اور طحاوی شریف کے اسباق ان سے متعلق رہیں۔ ان کے اسباق بے حد مقبول، مرتب اور معلومات سے بھر پور ہوتے تھے، طلبہ میں عموما ان کی تقریر نوٹ کر لینے کا رجحان پایا جاتا تھا، ان کی تقریر میں اتنا ٹہراؤ اور اتنی شفافیت ہوتی ہے کہ لفظ بلفظ اسے نوٹ کر لینے میں کسی طرح کی دشواری پیش نہیں آتی، دار العلوم کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین نصیر احمد خان کی علالت کے بعد (1429ھ مطابق 2008ء) سے بخاری شریف جلد اول کا درس بھی ان سے متعلق کر دیا گیا۔ اب بوقت انتقال دار العلوم کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین تھے، اوقات کی پابندی اور کاموں میں انہماک، دین میں تصلب ان کے اہم قابل تقلید اوصاف ہیں۔
ان کا مزاج شروع ہی سے فقہی رہا اور فقہ وفتاویٰ میں امامت کا درجہ رکھنے والے دار العلوم دیوبند جیسے ادارہ سے تکمیل افتاء کے بعد ان کے فقہی ذوق میں اور بھی چار چاند لگ گئے، ترمذی شریف کے درس کے دوران میں بڑی خوبی اور اعتماد کے ساتھ فقہی باریکیوں کی طرف اشارہ کرتے تھے، فقہی سمیناروں میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی اور ان کے مقالات کو بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اشرف علی تھانوی کے مجموعہ فتاویٰ امداد الفتاویٰ پر حاشیہ بھی لکھا ہے، نیز ان کی فقہی مہارت اور رائے قائم کرنے میں حد درجہ حزم و احتیاط ہی کی وجہ سے دار الافتاء دار العلوم کے خصوصی بنچ میں ان کا نام نمایاں طور پر شامل ہوا۔ انہوں نے درس وتدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی گرانقدر خدمات انجام دیں، ان کی بہت سی کتابیں دار العلوم سیمت مختلف دینی مدارس میں شامل نصاب ہیں۔19 مئی 2020, 25 رمضان کو بوقت صبح تنفس میں تکلیف کے بعد ممبئی  میں انتقال ہوا۔

*تصنیفات*
•مبادیات فقہ
•آپ فتویٰ کیسے دیں
•حرمت مصاہرت
•داڑھی اور انبیا کی سنت
•تحشیہ امدادالفتاوی
•کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟
•تسہیل ادلہ کاملہ
•مشاہیر محدثین وفقہا کرام اور تذکرہ روایان کتب
•تفسیر ہدایت القرآن
•رحمۃ اللہ الواسعہ
•آسان نحو (دو حصے )
•آسان صرف (دو حصے)
•آسان منطق
•مبادی الفلسفہ (عربی)
•معین الفلسفہ
•العون الکبیر ( حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب ‘‘ الفوز الکبیر ‘‘کی مفصل (عربی شرح)
•فیض المنعم ( شرح مقدمہ صحیح مسلم)
•مفتاح التہذیب ( شرح تہذیب المنطق)
•تحفۃ الدرر ( شرح نخبۃ الفکر)
•حیات امام داؤد
•حیات امام طحاوی
•اسلام تغیر پزیر دنیا میں
•تہذیب کی اردو شرح

  اللہ پاک غریق رحمت کرے درجات کو بلند فرماے پسماندگان اور وابستگان کو صبر جمیل عطاء فرماے
آخری اپیل اور گزارش ہیکہ رمضان کے ان مقدس ایام اور موجودہ حالات میں ہم میں سے ہر عالم حافظ کچھ نہ کچھ قرأن مجیدکو تلاوت کرکے ایصال ثواب کا اہتمام فرمائیں
وقت بھی کیسے موڑ پر ہم کو لے آیا ہیکہ جس نے ساری زندگی ایک مرد مجاہد کی طرح طلباء کے ہجوم اور وابستگان کے جھرمٹ میں گزاری ہے آج پوری دنیا میں شاید کہیں بھی کووڈ19 اور اس چل رہے مہلک کروناوائریس کی وجہ سے کسی ادارہ کسی مسجد کسی خانقاہ میں طلباء یا اولیاء اللہ کا اجتماع نہ ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے اس لیے اجتماعیت کے ناممکن ہونے کی وجہ سے ہم پر ار زیادہ حق بنتا ہیکہ ہم اپنی اپنی استطاعت اور حسب توفیق ایصال ثواب کا ضرور اہتمام کریں۔
یہ بھی خدا کی شان ہے جس کی زندگی مکمل اجتماعیت میں گزری ہے آج اس کے جانے پر کوی اجتماع نہیں ہے

والسلام

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×