شخصیات

علم و فن سے عشق تھا جن کی طبیعت کا خمیر! (امام شافعیؒ علوم و فنون کی دنیا میں)

اللہ رب العزت و الجلال نے امتِ محمدیہ پر احسان کرتے ہوئے "دین اسلام” جیسا آخری اور کامل و مکمل دین دیا، جو تا قیامِ قیامت جاری وساری رہے گا؛ اور چونکہ مرورِ ایام اور رفتارِ زمانہ کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے رہتے ہیں، پروردگارِ عالم اس کا انتظام کرتے ہوئے مختلف ادوار و زمن میں ایسے رجالِ کار اور مردِ مؤمن کو پیدا کرتے ہیں، جو اپنے علم اور خداداد صلاحیت کے ذریعہ کتاب وسنت سے مسائل کا استخراج و استنباط کرکے امت کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کا بوجھ کو ہلکا کردیتے ہیں؛ چنانچہ اسی ضابطہ کے مطابق دوسری صدی میں پروردگارِ عالم نے امام محمد بن ادریس شافعی ؒ کو وجود بخشا، جنہوں نے اپنے جان و مال، راحت و آرام، چین و سکون سب کچھ قربان کرکے تجدیدِ دین کا فریضہ سرانجام دیا، آپ بےشمار خوبیوں اور خصوصیتوں کے مالک، اور بہت سے علوم و فنون کے حامل تھے؛ یہی وجہ ہے کہ آپ کے معاصرین بھی اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
*ابتدائی نقوش:*
آپ ؒ کا نام: محمد
 کنیت : ابو عبداللہ ؛لیکن آپ "شافعی ” کے نام سے مشہور ہے، سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے: ابو عبداللہ محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافعی بن عبد یزید بن ہاشم بن مطلب بن عبد مناف قریشی۔
*امام شافعی ؒ کی ولادت باسعادت اور ابتدائی تعلیم:*
 آپ کی ولادت باسعادت ١٥٠؁ھ میں فلسطین کے شہر غزہ میں ہوئی؛ لیکن جب آپ نے آنکھیں کھولی تو والد بزرگوار کا سایۂ عاطفت سر سے اٹھ چکا تھا، آپ کی والدہ ماجدہ ہی آپ کی مکمل کفیل رہی،  جب آپ دو سال کے ہوئے تو آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو آپ کے آبائی وطن مکہ مکرمہ لے آئی، آپ بچپن ہی سے نہایت ذہین و فطین اور خداداد قوتِ حافظہ کے مالک تھے، اسی طرح حصولِ علم کے بہت زیادہ شائق و متلاشی تھے؛ یہی وجہ ہے کہ سات سال ہی کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا، پھر حصولِ علم کے لیے مسجد حرام میں آمد ورفت کا سلسلہ شروع کیا، خود فرماتے ہیں: "میں مسجد میں جاتا اور علماء کرام کی مجالس میں بیٹھتا، اور احادیثِ نبویہ اور مسائلِ دینیہ یاد کرتا” (آداب الشافعی ومناقبہ لابن أبی حاتم:٢٠) سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا، فرماتے ہیں کہ اس کے تمام معانی اور مطالب مجھ پر عیاں ہوگئے تھے؛ البتہ دو مقام سمجھ میں نہ آسکے، اور اس پر مستزاد یہ کہ دس سال کی عمر میں آپ نے مؤطا امام مالک زبانی یاد کرلی تھی۔(سیرتِ اربعہ: ١٤٤)
*امام شافعی ؒ اور نبوی پیشین گوئی :*
نبی ﷺ سے یہ دعا منقول ہے: ” اللھم اھد قریشا  فان عالمھا یملأ طباق الارض علما "
"اے اللہ! قریش کو ہدایت عطا فرما، اس لیے کہ ان کا عالم سطح زمین کو علم سے پر کردے گا،”  ابو نعیم عبدالملک بن محمد کا قول ہےکہ اس حدیث میں عالم قریش سے مراد امام شافعی ؒ ہیں، یہ حدیث مختلف الفاظ میں مختلف رواۃ سے منقول ہے؛ اگرچہ یہ اسانید ضعیف ہے؛ مگر چونکہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒنے کہا ہے: کہ متعدد طرق کی بنیاد پر اس کو قوت حاصل ہوتی ہے؛ اسی وجہ سے امام احمد بھی اس حدیث کو ثابت مانتے ہیں، امام احمد بن حنبلؒ کا قول ہے کہ اللہ تعالی ہر صدی کے سرے پر ایسے عالمِ دین کو پیدا کرتا ہے،جو لوگوں کو سنت کی تعلیم دیتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دفاع کرتا ہے ، ہم نے دیکھا کہ پہلی صدی کے سرے پر عمر بن عبد العزیزؒ اور دوسری صدی کے سرے پر امام شافعیؒ نے یہ خدمت انجام دی ہے۔(تہذیب التہذیب:٩/٢٧)
*امام شافعی ؒ کی فہم وفراست اور ذہانت و فطانت:*
 آپ کی سمجھ داری و دانش مندی، اور ذہانت و ذکاوت سے کسی بشر کو انکار نہیں، ایک عالم نے اس کا اعتراف کیا‌ ہے؛ چنانچہ بغداد کے قاضی القضاۃ یحییٰ بن اکثم کہتے ہیں: ما رأیت رجلا اعقل من الشافعی کان کبیر الدماغ (مناقب الشافعی للبیہقی :٢/٢٦٢)
” میں نے امام شافعی ؒ سے زیادہ عقل والا کسی کو نہیں دیکھا، ان کا دماغ بہت بڑا تھا”۔
(٢) اور مشہور محدث ابو فضل بن دکینؒ کہتے ہیں: ” ما رأینا ولا سمعنا اکمل عقلاً و لا احضر فھما ولا اجمع علما من الشافعی” (تولی التأسیس: ٨٦) یعنی ” میں نے امام شافعی ؒ سے زیادہ عقل والا، ان سے زیادہ ذہین اور سمجھدار ، اور ان سے زیادہ علم کا جامع کسی کو نہیں دیکھا اور نہیں سنا”
(٣) بشر المریسی کہتے ہیں: "مع الشافعی نصف عقل اھل الدنیا ” (مناقب الشافعی للبیہقی:١/٢٠١) ” آدھی دنیا کی عقل امام شافعی ؒ کے پاس تھی”
(٤) مشہور محدث قتیبہ بن سعید فرماتے ہیں:” ما رأیت عینای اکیس منہ” ( توالی التأسیس: ٨٠) یعنی ” میری آنکھوں نے امام شافعی ؒ سے زیادہ عقل مند کسی کو نہیں دیکھا”
(٥) ہارون بن سعید کہتے ہیں:” لو ان الشافعی ناظر علی ھذا العمود الذی من حجارۃ بانہ من خشب لغلب ” (توالی التأسیس: ٩٢) ” اگر امام شافعی پتھر کے اس ستون کے بارے میں مناظرہ کرکے ثابت کرنا چاہیں کہ وہ لکڑی کا ہے تو ثابت کردیں گے”۔
*امام شافعی ؒ کی علمی یکسوئی:*
 آپ کو بچپن ہی سے تحصیلِ علم کا بے انتہاء ذوق تھا، اور اس سلسلہ میں یکسوئی اور لگن ، جد و جہد اور محنت بھی بے حد رہی؛ جیساکہ خود فرماتے ہیں: ” کانت نھمتی فی شیئین فی الرمی و طلب العلم فنلت من الرمی حتی کنت اصیب من عشیرۃ عشرۃ، و سکت عن العلم فقلت لہ: انت واللہ فی العلم اکبر منک فی الرمی” ( آداب الشافعی و مناقبہ:١٨)
یعنی دو چیزوں سے مجھے دل چسپی تھی،تیر اندازی اور طلبِ علم، تیر اندازی میں میں نے اتنی مہارت پیدا کی کہ دس میں دسوں نشانے صحیح لگاتا تھا، اور علم کے معاملہ میں خاموش رہے، کچھ نہیں کہا، (راوی کہتے ہیں)میں نے کہا: بخدا علم میں آپ تیر اندازی سے بھی بڑھ کر ہیں۔
*آپ کے چند باکمال اور مشہور اساتذہ اور تلامذہ :*
 (١) مقری اسماعیل بن قسطنطین المکی (المتوفی:١٩٠؁ھ)
(٢) شیخ حرم مسلم بن خالد الزنجی (المتوفی:١٧٩‚١٨٠ھ)
(٣) محدثِ عصر سفیان بن عیینہ (المتوفی: ١٩٨؁ھ)
(٤) امام مالک رحمہ اللہ ( المتوفی:١٧٩؁ھ)
(٥) امام محمد بن حسن شیبانی (المتوفی:١٨٩؁ھ)
*با کمال تلامذہ اور شاگرد:*
١: یوسف بن یحییٰ البویطی، (م:۲۳۱ھ) جوکہ مسئلہ خلقِ قرآن کی پاداش میں جیل میں وفات پاگئے۔
۲:عبد اللہ بن زبیر الحمیدی، جوکہ امام بخاریؒ کے شیخ تھے۔
۳:اسماعیل بن یحییٰ المزنی (م:۲۶۴ھ)، جنہوں نے فقہ شافعیؒ کو ’’المختصر الکبیر المسمی بالمبسوط‘‘ میں جمع کیا۔
۴:محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم
۵:ربیع بن سلیمان المرادی (م:۲۷۰ھ)، جوکہ امام شافعیؒ کی کتابوں کے سب سے بڑے راوی ہیں۔ ’’الرسالۃ‘‘ اور ’’الأم‘‘ ان کی روایت سے پہنچی ہیں۔
۶: حرملہ ین یحییٰ (م:۲۶۶ھ)،
*امام شافعی ؒ علوم و فنون کے میدان میں:*
 یہ قانونِ خداوندی اور ضابطۂ الہی ہے کہ جس بندہ سے جتنا کام لینا مقصود ہوتا ہے اسے اتنے ہی علوم و فنون، گر اور ہنر سے نوازا جاتا ہے؛ تاکہ وہ اپنی معلومات اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے سہارے مقصدِ اصلی کی تکمیل کریں، اور لوگوں کو اپنے علوم کی ضیاء سے منور اور ماحول کو معطر کریں؛ چنانچہ پروردگارِ عالم اپنے اسی ضابطہ کے مطابق امام شافعی ؒ کو بھی بہت سے علوم و فنون سے آراستہ و پیراستہ فرمایا تھا:
*علم تجوید و قرأت میں آپ کا مقام:*  پروردگارِ عالم نے آپ میں جہاں بہت سے امتیازات اور خوبیاں رکھی، تو انہیں میں ایک یہ بھی کہ بہت ہی پرسوز و خوبصورت آواز اور خوش الحانی کا ملکہ آپ کو حاصل ہوا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ تیرا برس کی عمر ہی سے آپ مسجد حرام میں لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔(مناقب الشافعی للرازی: ١٩٢) اور آپ نے اسماعیل بن عبد اللہ بن قسطنطین سے فنِ قرأت حاصل کیا،
مبرد کہتے ہیں: امام شافعی سب سے بڑے شاعروں، سب سے بڑے ادیبوں اور سب سے زیادہ قرأت کا علم رکھنے والوں میں تھے۔(تاریخ دمشق:١٥/٣٧٣)
اسی طرح امام القراء لابن الجزری (المتوفی ٨٣٣؁ھ) نے غایۃ النھایۃ فی طبقات القراء میں امام شافعی کا تذکرہ کیا، اور ان سے اپنی سندِ قرأت کو نقل کیا ہے، اسے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم نویں صدی تک امام شافعی کا سلسلہ جاری رہا۔
*امام شافعی ؒ اور علم تفسیر :*  کوئی بھی آدمی تفسیر قرآن میں درک کے بغیر فقیہ کامل نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ قرآن اساسِ ادلہ اور اصلِ احکام شرعیہ ہے، اور آپ کو تفسیر میں بہت ہی مہارت و حذاقت حاصل تھی؛ یہی وجہ ہے کہ مشہور راویِ حدیث یونس بن عبدالاعلی کہتے ہیں: میں اولاً اصحابِ تفسیر کی مجلسوں میں بیٹھا کرتا تھا اور ان سے بحث کرتا تھا، امام شافعی ؒ کا حال یہ تھا کہ جب تفسیر بیان کرتے تو ایسا لگتا کہ گویا قرآن آپ کے سامنے نازل ہوا ہے۔(احکام القرآن للشافعی جمع البیہقی:١/١٩)
امام احمد ؒ فرماتے ہیں: "میں نے اس قریشی نوجوان سے بڑھ کر کتاب اللہ کا فہم رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا "(الجرح و التعدیل للرازی:٧/٢٠٣)
 اسی وجہ سے امام فخرالدین رازی جیسے امام تفسیر نے لکھا ہے: ” کان بحرا لا ساحل لہ فی ھذا العلم”(مناقب الشافعی للرازی:١٩٣) یعنی امام شافعی ؒ تفسیر میں بحر ناپید کے کنار تھے ، صرف آپ کی مشہور تصنیف بنام” الرسالہ ” سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
*علم حدیث میں آپؒ کی جد وجہد:*
 امام شافعی ؒ نے علم حدیث میں بےحد جد وجہد اور انتھک محنت کی ہے؛ جیسا کہ خود آپ فرماتے تھے: ” انی کنت لاسیر الایام واللیالیفی طلب الحدیث الواحد” (توالی التأسیس: ٥٩) یعنی ایک ایک حدیث کی طلب اور جستجو میں کئی کئی دن اور راتیں چلتا تھا۔
اسی طرح آپ کے تلمیذ رشید امام احمد (جو خود حدیث کے بڑے امام تھے وہ) فرماتے ہیں: ما کان یکفیہ قلیل الطلب فی الحدیث (آداب الشافعی ومناقبہ:٤٢) یعنی کم حدیثوں پر اکتفا نہیں کرتے تھے؛  بلکہ زیادہ سے زیادہ حدیث کی طلب میں رہتے تھے ۔
علامہ ابن کثیر ؒنے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: سئل : ھل سنۃ لم تبلغ الشافعی، فقال: لا (البدایہ والنہایہ: ١٤/١٣٦) یعنی امام ابن خزیمہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا کوئی ایسی سنت ہے جو امام شافعی تک نہ پہنچی ہو؟  انہوں نے جواب دیا: نہیں ۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ امام شافعی ؒ نے ممکن حد تک احادیثِ مبارکہ کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
*آپ کی علم لغت و ادب میں مہارت:*  زبان وادب وہ انسانی جوہر ہے جس کے ذریعہ آدمی اپنی قابلیت کا لوہا منوا سکتا ہے، اور اپنی ایک الگ پہچان بناسکتا ہے، اسی طرح امام شافعی ؒ نے بھی لغت و ادب میں مہارت حاصل کی، بچپن ہی میں آپ عرب کے سب سے زیادہ فصیح و بلیغ خاندان ”قبیلہ ہذیل“ کے پاس جا کر ان کی بول چال سیکھنے لگے، سترہ سال آپ ان کے ساتھ رہے، سفر میں ہو یا حضر میں؛ یہی وجہ ہے کہ آپ نے قبیلہ ہذیل کے دس ہزار اشعار زبانی یاد کرلیے تھے، اور بہت سے شعراء کے اشعار بھی حفظ تھے، چنانچہ ایک مرتبہ ہارون رشید کے دربار میں آپ نے ” عمرو ” نامی تیس شعراء کے اشعار سنائے۔(مناقب الشافعی للبیہقی:٢/٤٥)
 امام احمد فرماتے ہیں: ” کلام الشافعی فی اللغۃ حجۃ ” (تاریخ دمشق: ٥١/٣٥٠)
اسی طرح امام شافعی ؒ کے استاد ایوب بن سوید فرماتے ہیں: ” خذوا عن الشافعی اللغۃ”
یعنی امام شافعی ؒ سے زبان سیکھو!
امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں : ":امام شافعی کو زبان کی مٹھاس، بلاغت کا حسن، بے انتہاء ذہن کی تیزی، فصاحت کا کمال اور دلائل کا استحضار عطا ہوا تھا، وہ فصاحت میں ضرب المثل تھے” ۔(سیر اعلام النبلاء:١٠/٤٩ )
حاصل یہ کہ بہت سے ائمہ کرام نے آپ کو علم لغت میں حجت قرار دیا۔
*امام شافعی ؒ کے نزدیک علمِ طب کی اہمیت:*
 امام شافعی ؒ کو علمِ طب سے بہت زیادہ لگاؤ تھا؛ اسی وجہ سے آپ فرماتے تھے: میں نہیں سمجھتا کہ حلال و حرام کے علم کے بعد طب سے معزز اور شریف کوئی علم ہو؛  مگر اہلِ کتاب اس میں ہم سے آگے نکل گئے ۔(سیر اعلام النبلاء: ١٠/٥٧)
اور مسلمانوں پر افسوس کرتے ہوئے فرماتے تھے: مسلمانوں نے طب کا علم ضائع کردیا، آپ اس کو ایک تہائی علم قرار دیتے تھے ؛ لیکن آپ کو اس سے خصوصی لگاؤ تھا اور اس میں مہارت بھی تھی؛ چنانچہ امام ذہبی ؒ لکھتے ہیں: امام شافعی علمِ شریعت میں مقام بلند اور عربی زبان میں مہارت تام کے ساتھ طب میں بھی گہری نظر رکھتے تھے۔(تاریخ الاسلام: ٣٣٣)
*امام شافعی ؒ کی فقہی قابلیت :*
 امام شافعی ؒ کی فقہی بصیرت کا اہل زمانہ پر اتنا اثر ہوا، کہ علمائے عصر آپ کو فقہاء کبار پر بھی ان کو علانیہ ترجیح دینے لگے؛ جیسا کہ امام احمد صاف فرماتے تھے کہ اگر کسی مسئلے میں کوئی صحیح حدیث نہ ہو تو امام شافعی ؒنے جو بات کہی ہے وہی قابلِ عمل ہوگی، ان کے پاس سب سے مضبوط دلیل ہوتی ہے۔(آداب الشافعی ومناقبہ: ٦٤)
حمیدی ، امام شافعی ؒ کو سب سے بڑا فقیہ قرار دیتے تھے، اور سید الفقہاء کے لقب سے یاد کرتے تھے، اور جب ان کے سامنے امام شافعی کا ذکر آتا تو فرماتے ہیں: حدثنا سید الفقہاء الشافعی۔ (حلیہ الاولیاء:٩/٩٤)
اور ماضی قریب کے مشہور محقق و محدث شیخ احمد شاکر (١٩٨٥؁ء) نے بڑے پر زور انداز میں امام شافعی ؒ کی فقہی بصیرت کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کتاب و سنت میں ایسی گہری نظر والا، اور ایسے دقیق  استنباط پر قادر فقیہ علمائے اسلام میں کوئی نہیں ہوا، نہ ان سے پہلے نہ ان کے بعد۔(ملاحظہ ہو: الرسالہ: مقدمہ، ٥‚٦)
مختصر یہ کہ آپ کی فقہی عظمت اور فقیہانہ شان کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی متعدد کتابوں میں اس کا اعتراف کیا کہ ان کے اندر اجتہادی صلاحیت بنیادی طور پر امام شافعی کی کتاب کتاب "الام” کے ذریعہ پیدا ہوئی ۔ (المسوی کا مقدمہ: ٤٣)
*امام شافعی ؒ تصانیف کے میدان میں:*
 آپ نے اپنی بہت ہی مختصر حیاتِ مستعار میں جہاں بے شمار خدمات سرانجام دیں تو وہیں تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی آپ پیش پیش نظر آتے ہیں، آپ نے اپنے پیچھے تقریباً سو سے زائد کتابیں چھوڑی ہیں، ابن زولاق (حسن بن ابراہیم المتوفی ٣٨٧؁ھ) کے بقول امام شافعی ؒ نے تقریباً دو سو کتابیں تصنیف کیں، (شذرات الذہب ٣/٢١) اور امام نووی ؒ نے قاضی حسین مروزی سے نقل کیا کہ امام شافعی ؒ نے تفسیر، فقہ، ادب اور دوسرے موضوعات پر ایک سو تیرہ کتابیں لکھیں،(تہذیب الاسماء و اللغات:١/٥٣)
اس پر مزید یہ کہ جاحظ جیسے متعدد علوم کے ماہر اور امامِ ادب کا کہنا ہے: ” نظرت فی کتب ھولاء النبغۃ الذین نبغوا فلم ارا احسن تالیفا من المطلبی کأن فاہ ینظم درا الی در "( مناقب الشافعی للبیہقی:١/٢٦١)
میں نے ان ماہرین فن اور اصحاب کمال کی کتابیں دیکھیں؛ مگر مجھے امام شافعی ؒ سے اچھا لکھنے والا نظر نہ آیا، گویا ان کے منہ سے موتی جھڑتے ہیں ۔
چند اہم اور مشہور تصانیف کے نام :
(١) الرسالہ
(٢) ابطال الاستحسان
(٣) جماع العلم
(٤) اختلاف الحدیث
(٥) الام
(٦) کتاب السبق و الرمی
(٧) الحجۃ : وغیرہ۔
*امام شافعی ؒ کا حلیہ:*
 امام شافعی ؒ دراز قد، گندمی رنگ کے خوبصورت چہرہ کے مالک تھے، ناک بلند تھی، رخساروں پر گوشت کم تھا، داڑھی پر مہندی کا خضاب لگانے کا معمول تھا، دانتوں کے درمیان کچھ خلا تھا، آواز بہت عمدہ اور پیاری تھی، نرم مزاج تھے (حلیۃ الاولیاء:٥٧٧-٦٤٣)
*امام شافعی ؒ کے اوصاف حمیدہ:*
 اللہ رب العزت و الجلال نے آپ میں جہاں بے شمار خوبیاں اور خصوصیات ودیعت فرمائے تو وہیں بہت سے اوصافِ جمیلہ اور خصائلِ حمیدہ سے آراستہ فرمایا اور آپ کے عادات و اطوار میں بھی اپنا ایک امتیاز ہے۔
چنانچہ آپ کی خوف و خشیت: اتنے سب علوم و فنون کے ساتھ جو عمدہ اوصاف آپ کو نصیب ہوئے : انہی میں ایک خدا ترسی اور خوفِ خداوندی ہے : چنانچہ آپ کے حج کے کیفیات اور احوال کو نقل کرتے ہوئے ربیع کہتے ہیں: ہم نے امام شافعی کے ساتھ حج کیا، وہ کسی بلندی پر چڑھتے یا وادی میں اترتے تو روتے جاتے (سیر اعلام النبلاء: ١٠/٥٨)
تلاوت قرآن مجید کا معمول: تلاوت کے سلسلے میں آپ کا معمول یہ تھا کہ روزانہ ایک قرآن کریم ختم کرتے؛ گویا مہینے میں تیس قرآن ختم کرتے اور رمضان المبارک میں ساٹھ قرآن مکمل کرتے (مناقب الشافعی للبیہقی)
مختصر یہ کہ زہد و تقویٰ، جود و سخا، عاجزی و انکساری، خوش طبعی و ملنساری، شب بیداری و تہجد گذاری، اخلاص و بے نفسی، گوشہ نشینی و خلوت گزینی جیسے عمدہ اوصاف آپ کی زندگی کا حصہ ہے۔
*وفات حسرت آیات:*
 بوئے گل کا باغ سے اور گل چیں کا دنیا سے سفر اس عالمگیر قانون کا اثر ہے جس سے نہ کوئی بچا ہے نہ بچے گا؛ بالآخر آپ بھی آخری رجب ٢٠٤؁ھ اور جمعرات کے دن اور جمعہ کی رات میں ٥٤‚سال کی عمر میں مصر میں اس دارِ فانی سے عالمِ جاویدانی کی طرف کوچ کر گئے۔
(اناللہ وانا الیہ راجعون)
آپ کے لڑکوں نے تجہیز و تکفین کے فرائض انجام دیے، اور امیر مصر نے نماز جنازہ پڑھائی، جبل مقطم کے قریب قرافہ صغری میں تدفین کی گئی۔
آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×