سیاسی و سماجی
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
دشمنان اسلام سے محض زبانی اظہارِ بیزاری یا اظہارِ نفرت ہی کافی نہیں بلکہ ہر وہ عملی صورت اختیار کرنا ضروری ہے جس سے کفار شکست سے دوچار ہوں اور ان سے مسلمانوں پر ظلم کا انتقام لیا جا سکے،
ابو داود، نسائی، ابن حبان، مستدرک حاکم اور مسند احمد میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے:
جَاہِدُوْا الْمُشْرِکِیْنَ بِأَمْوَالِکُمْ وَ أَنْفُسِکُمْ وَ أَلْسِنَتِکُمْ
’’مشرکین کے خلاف اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں سے جہاد کرو۔‘‘
اس حدیث شریف میں مسلمانوں کو سب سے پہلے اپنے مالوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مال کے ساتھ جہاد کرنے کا مطلب صرف یہی نہیں کہ مجاہدین کو جہاد کے لیے اپنے مال مہیا کیے جائیں بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کفار کو اپنے مال سے فائدہ نہ اٹھانے دیا جائے، ان سے معاشی مقاطعہ و بائیکاٹ کیا جائے، ان کی اقتصادیات کو خسارے سے دوچار کرکے ان کی کمر توڑی جائے
چنانچہ سنن ابی داود میں وارد اس ارشادِ نبوی کا یہی مفہوم ہے:
((مَنْ أَحَبَّ لِلّٰہِ وَ أَبْغَضَ لِلّٰہِ وَ أَعْطَیٰ لِلّٰہِ وَ مَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدْ اِسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ (5965)
’’ جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اللہ کے لیے دشمنی کی، اللہ کے لیے اپنا مال دیا اور اللہ کے لیے روک لیا اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔‘
عنقریب اللہ کے قہر سے برباد اور تاخت وتاراج ہونے والا ملک فرانس (ان شاءاللہ)جہاں ماضی میں بھی گستاخیِ رسولﷺ کے سلسلے میں کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں اور ابھی چند دن پہلے بھی ایک واقعہ اسی ملک کے ایک شہر پیرس میں پیش آیا اسکول میں چیچن نوجوان نے گستاخِ رسول کارٹونسٹ ٹیچر کو خنجروں کے وار سے قتل کردیا، تاہم سیکورٹی اداروں نے جائے وقوعہ پر ہی نوجوان کو شہید کردیا۔ سائمن نامی استاد نے بچوں کو حضور خاتم النبیینﷺ کے خاکے دکھائے تھے جس پر نامعلوم مسلمان نوجوان نے یہ قدم اٹھایا۔
اوراس ملک کے صدر کی ہٹ دھرمی دیکھئےکہ جو تصویر اسکول کے ملعون ٹیچر نے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی بتائی تھی وہی تصویر ایک اونچی تعمیر پر چسپاں کردی گئی اور اس کے ارد گرد پولیس فورس
کو ٹھہرایا گیا۔
یقینا جس طرح گزشتہ انبیاء عظام کا استہزاء کرنے والے اس دنیا سے تاخت و تاراج ہوئے اور نشان عبرت بن گئے انشاء اللہ ثم انشاء اللہ ان کا بھی وہی حال ہوگا۔
فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مذاق اڑایا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر جو عذاب نازل فرمائے، ان کا تذکرہ سورۃ الاعراف میں یوں آیا ہے :
[الأعراف: ۱۳۳]
’’تو ہم نے اُن پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون، کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں مگر وہ تکبر ہی کرتے رہے، اور وہ لوگ تھے ہی مجرم و گنہگار۔‘‘
قومِ عاد نے اللہ کے نبی حضرت ہود علیہ السلام کے بارے میں ہرزہ سرائی کی اور ان کا مذاق اڑایا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ہوائی طوفان (آندھی)سے تباہ کردیا۔ چنانچہ سورۃ الحاقۃ میں ارشادِ الٰہی ہے :
[الحاقۃ: ۶، ۷]
’’رہے عاد تو ان کا نہایت تیز آندھی سے ستیاناس کر دیا گیا۔ اللہ نے آندھی کو سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار ان پر چلائے رکھا تو (اے مخاطب!) تو لوگوں کو اس میں (اس طرح) گرے (اور مرے) پڑے دیکھے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے۔‘‘
حضرت صالح علیہ السلام کے معجزے کا مذاق اڑانے والے قومِ ثمود کے بدبخت شخص ’’قدادبن سالف‘‘ کے بارے میں تیسویں سپارے کی سورۃ الشمس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : [الشمس: ۱۱ تا ۱۵]
’’(قومِ) ثمود نے اپنی سرکشی کے سبب (پیغمبر کو) جھٹلایا۔ جب ان میں سے ایک نہایت بدبخت اٹھا۔ تو اللہ کے پیغمبر (صالح) نے ان سے کہا کہ اللہ کی اونٹنی اور اس کے پانی پینے کی باری سے حذر و احتیاط کرو۔ مگر انھوں نے پیغمبر کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کھونچیں کاٹ دیں تو اللہ نے ان کے گناہ کے سبب ان پر عذاب نازل کیا اور سب کو ہلاک کر کے برابر کر دیا۔ اور اُس کو ان کے بدلہ لینے (تباہ کن انجام کا کوئی ڈر نہیں
یہ دورمحض جذباتی نعروں کا نہیں:
یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کے گھونٹ ہم پی رہے ہیں کہ چند مہینے گزرتے نہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مذہب اسلام کے شعائر پر کوئی نہ کوئی حملہ سوشل میڈیا کے ذریعے دکھائی دیتا ہے یا اخبارات کی سرخیوں پر پڑھنے کو ملتاہے ان حملوں کی روک تھام کے لیے اسلامی ممالک کو اورمسلمانوں کو کوئی حتمی فیصلہ لینا از حد ضروری ہے
اس وقت عرب ممالک و ترکی میں زبردست مہم چھڑی ہوئی ہے لیکن افسوس برصغیر پاک و ہند میں مکمل خاموشی ہے حالانکہ جب بات پیارے رسولﷺ کی آجائے تو کوئی بھی مسلمان اور کتنی بھی گری ہوئی ایمانی حالت والا مسلمان ہو خاموش نہیں رہ سکتا، یہ وہ مقام ہے جہاں مسلکی اختلافات کوئی وقعت نہیں رکھتے، رسولﷺ کی شان میں گستاخی پر بےچین ہونے کے لیے صرف مسلمان ہونا کافی ہے۔
لیکن پتہ نہیں عالم اسلام کا اتنا بڑا اردوداں طبقہ ابھی تک خاموش کیوں ہے؟ کیوں یہاں بےچینی نہیں پھیلی؟
موجودہ حالات میں سب سے کم جو ہم کرسکتے ہیں وہ یہ ہیکہ فرانسیسی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کریں اور سوشل میڈیا پر فرانسیسی حکومت کے خلاف مہم چلائیں
یادرہے کہ :
یہ دور محض جذباتی نعروں اور پر تشدد مظاہروں کا نہیں بلکہ ٹھوس بنیادوں پر تحفّظِ ناموسِ رسالت اور بقائِ اسلام کی منصوبہ بندی کا ہے۔ مغرب کی دوغلی پالیسیوں کے بارے میں مسلم حکّام و عوام کو شعور و بیداری سے کام لینا چاہیے اور اپنی ذاتی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر کفار سے تجارتی و سفارتی تعلقات پر غور کرنا چاہیے، اقتصادی تعلقات و روابط پر نظر ثانی کی جائے اور فرانس و ڈنمارک وغیرہ ممالک کے صرف دودھ، دہی، گوشت اور گھی ہی کا بائیکاٹ نہ ہو بلکہ اس ملک اور دیگر تمام کافر و گستاخ ملکوں کی غذائی اشیاء، دوائی مواد اور دیگر مصنوعات کا بھی بائیکاٹ ہو اور ان ممالک میں سے خاص طور پر وہ تمام ممالک ذہن میں رکھیں جن کے اخبارات نے توہین آمیز خاکوں کو شائع کیا ہے، جن میں سے ڈنمارک کے بعد ناروے، فرانس، اٹلی، نیوزی لینڈ، پرتگال، سپین، ہنگری، سویٹزرلینڈ، گرین لینڈ، بیلجیم، بلغاریہ، ارجنٹائن، آئرلینڈ، جنوبی افریقہ، چیکوسلواکیا، کینیڈا، آسٹریلیا، اسرائیل، برطانیہ اور امریکہ بھی ہیں
ایک عام آدمی کیا کرسکتا ہے؟ ایک سروے کے تناظرمیں
قارئینِ کرام ! اسلام دشمن کفار سے معاشی بائیکاٹ کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہےکہ بین الاقوامی تجارت کا تعلق تو حکومتوں کے ساتھ ہے لہٰذا یہ تو حکومت کے کرنے کا کام ہے، ایک عام آدمی اگر کوئی کردار ادا کرنا چاہے تو کیا کرسکتا ہے ؟
فردِ واحد کے معاشی بائیکاٹ سے کسی قسم کا فرق نہ پڑنے کا تصوّر سراسر شیطانی وسوسہ ہے، عرب ممالک میں علماء کرام اور مختلف اسلامی تنظیموں کی اپیل پر یہود و نصاریٰ (خصوصاً امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ ) کے مالِ تجارت کا مقاطعہ کے بارے میں جو اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں وہ بہت ہی حوصلہ افزا ہیں۔
مصر میں عوام الناس کے معاشی مقاطعہ کے نتیجہ میں مذکورہ ممالک کی بعض اشیاء کی فروخت میں ۸۰ فیصد کمی آئی ہے جس وجہ سے کمپنیوں کو اپنی بعض برانچیں تک بند کرنا پڑی ہیں۔ برطانوی کمپنی سیسبری کی مینجر نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ شائد مستقبل میں ہمیں مصر سے اپنا بیشتر کاروبار سمیٹنا پڑے۔
ابو ظہبی میں امریکی اشیاء کی فروخت میں ۵۰ فیصد کمی آئی ہے، سب سے زیادہ نقصان ’’فاسٹ فوڈ‘‘ مہیا کرنے والی کمپنی کو ہوا ہے جن کی فروخت صرف ۳۳فیصد رہ گئی ہے۔ امریکہ سے سعودی عرب امپورٹ ہونے والی اشیاء میں ۳۳ فیصد کمی آئی ہے جو اب ۴۳فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
یاد رکھیں!
مذہبِ اسلام میں مال کا تصور یہ ہے کہ تمام اموال کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اوربندوں کو وہ امانت کے طور پر دیا گیا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اسے خرچ کریں۔ سورۃ النور میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اور جو غلام تم سے مکاتبت چاہیں اگر تم ان میں (صلاحیت اور) نیکی پاؤ تو ان سے مکاتبت کر لو اور اللہ نے جومال تمھیں بخشا ہے اس میں سے ان کو بھی دو ۔‘‘ (سورہ نور)
اس لیے قیامت کے روز ایک ایک پائی کے بارے میں ہر ایک سے فرداً فرداً سوال کیا جائے گا کہ اس نے پیسے کہاں خرچ کیے؟
پس اگر ہم ایک روپیہ بھی اسلام دشمن کفار کی مصنوعات خریدنے پر خرچ کرتے ہیں تو قیامت کے روز اس کا بھی ہمیں جواب دینا پڑے گا۔ جو لوگ اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ آخرت کی اس جواب دہی کو نظر انداز کیسے کرسکتے ہیں ؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ فرانس کے پروڈکٹ کے متعلق معلومات حاصل کئے جائیں اور جہاں تک ہو سکے جس حد تک ہو سکے اپنی ذات کو ان کے استعمال سے روکیں اور اپنے افراد خاندان تک ان پروڈکٹ کی معلومات فراہم کریں اور ان کے استعمال سے بچنے کی تلقین کریں،اپنے گھروں کے باہر ان کے پروڈکٹس کی تشہیر کریں کہ اس کا استعمال نہ ہو، چوراہوں پر اس کے بیانر لگا سکتے ہیں تو لگائیں اپنی گاڑیوں پر چسپاں کر سکتے ہیں تو کریں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ان کے بائیکاٹ کی تصاویر کو رکھیں، اور اس کے علاوہ جو کام اپنا سکتے ہیں اپنائیں۔
جس فرد کو باری تعالی نے جو ہنر عطا کیا ہے جو صلاحیت عطا کی ہے، تقریر سے تحریر سے تفسیر سے تذکیر سے تعلیم سے تصنیف سے تجارت سے اور ملازمت سے محسن عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں آئیں۔
محمدﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگرخامی تو سب کچھ نامکمل ہے
اور
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ