سیاسی و سماجی

تاریخ ساز خواتین عہدِنبوت سےعہدِحاضر تک

میں مسلمان ہوں ، اسلام ہماری ہڈیوں میں رچا ہوا ہے اور ہمیں باطل سے ٹکرا جانے کا سبق سکھاتا ہے یاد رکھو! میں مسلمانوں سے نہ کسی صورت میں غداری کر سکتی ہوں اور نہ انہیں دھوکا دے سکتی ہوں ،مگر غیرملکی حکومت کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتی اور نہ اس کے کسی اقدام کی تائید کر سکتی ہوں، میرے مذہب کی رو سے غیر قوم کی غلامی اللہ کا بہت بڑا عذاب ہے، میں اس عذاب سے اپنی قوم کو نجات دلانے کی ہرممکن کوشش کروں گی اس وقت تک اپنی جدوجہد جاری رکھوں گی جب تک میری قوم غیر ملکی تسلط سے نجات نہیں حاصل کر لیتی تم مجھے جو جی چاہے سزادو ! میں اپنے فرض منصبی کو ترک نہیں کروں گی اور جس راہ پر قدم زن ہوں ،اس سے ذرہ برابر بھی نہیں ہٹوں گی ۔اسلام کی بیٹیاں۵۷۹
یہ الفاظ الجزائر کی ۲۲ سالہ بے باک خاتون جمیلہ بوحیرہ کے ہیں، جس نے ۱۹۵۵ میں اپنےملک الجزائر کی آزادی کے لیے فرانس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا، اور فرانس کی فوجی عدالت کو یہ بیان دیا۔

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

قارئین و ناظرین ! اسلامی تاریخ کی ابتداء ہی سے جہاں مردوں نے اپنی بہادری جواں مردی بے باکی کا اظہار کیا ہے ، وہیں خواتین ِاسلام نے ببھی اپنے شجاعت کے جھنڈے گاڑے ہیں، اسلامی تاریخ کی ابتدائی جنگ ہو یا پھر خلافت راشدہ کے ادوار۔ میدانِ جنگ کےمعرکوں میں مجاہدین کے خیموں کی حفاظت کا ذمہ ہو یا زخم شدہ حضرات کو میدان سے اٹھا لانےاور ان کے زخموں پر مرہم لگانےکا کام ہو یا پھر پیاسوں کو پانی پلانا، ایسے دسیوں کام خواتین انجام دیا کرتی تھیں۔ہم تاریخ کے پننے الٹتے ہیں تو کبھی اسلام پر قربان ہونے والی حضرت سمیہ کی شہادت کی المناک داستاں ملتی ہے تو کہیں حضرت زنیرہ و امِ فکیہہ کا درد وکرب سے لدا ہوا منظر ملتا ہے ، کبھی حضرت خنساء سے اپنے بیٹوں کو شہادت کے لئے میدان جنگ میں روانہ کرنے کا تاریخ ساز درس ملتا ہے تو کہیں حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کا وہ رونگٹے کھڑا کردینے والا تاریخی جملہ پڑھنے کہ ملتا ہے،جو انہوں نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش سرِ راہ سولی پرلٹکتے ہوئے ملنے پر کہا تھا،کیا اب تک یہ سوار اپنی سوار ی سے زمیں پر نہیں اترا ۔چار سوباکمال خواتین
تاریخ اسلام سے ہٹ کر تاریخ ہند کا مطالعہ کرتے ہیں تو شاہ التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ کی دلیری وجاں بازی نظر آتی ہے کہ وہ مردانہ لباس پہن کر اسلحہ سے لیس ہوکر کر دشمنوں اور مخالفوں کے سامنے سدِسکندری بن کر ٹھہر جاتی ، اور شاہ التمش کو خونخوار شیر سے بچاتی نظر آتی ہے، کہیں تیمور و بابر کی بہو نورجہاں کا پیشانی پر بَل لاے بغیرچار شیروں کو زمین بوس کرنے کا تذکرہ ملتا ہے ، کہیں علاؤالدین خلجی کے حکم پر دربارکی ایک معمولی سی کنیز۔راجہ کانیر دیو ۔کے قلعہ میں غلغلہ مچاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ خواتینِ اسلام کی بہادری
ہم مغلوں اور تیموریوں کی ان مختصر سی تا ریخی جھلکیوں سے گزرتے ہیں اور ماضی قریب کے ادوار پر سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں دو عظیم سپوتوں کی ماں کی و ہ دعا یاد آتی ہے جو انہوں نے کعبہ کے غلاف کو تھام کر اپنے بیٹوں کو راہِ خدا میں قبول ہونے کی دعا مانگی تھی اورجب یہ دونوں فرزندان جنگِ آزادی کی پاداش میں جیل میں مقید ہو گئے تو اس خاتون نے بیان دیا کہ فرنگیوں نے میرے وارث بیٹوں کو قید کردیا ہے اور اسلام پکار رہا ہے اس لئے مجھ معذور وبوڑھی عورت کے لئے بھی اب جائز نہیں کہ گھر کی چاردیواری میں بیٹھی رہوں، دونوں بہووں کو لے کر نکل کھڑی ہوئی اور پورے ملک کا دورہ کیا، دلوں میں آگ لگادی عورتوں نے اپنے زیور اور بعض نے اپنے بچے تک فنڈ کے لیے پیش کر دئیے 3کروڑ چندا کیا ۔یہ خاتون مولانا محمد علی جوہرؒ او ر مولانا شوکت علی جوہرؒ کی والدہ محترمہ تھیں۔۔۔ ۱۹۲۵ کانگریس کی کمیٹی اجلاس میں ایک خاتون کسانوں اور مزدوروں کولے کر چل پڑی ،پنڈت جواہر لال نہرو نےاپنے احباء واقرباءکے ساتھ انہیں روکنا چاہا اسی ہنگامی صورت میں اور بے اختیاری طور پر پنڈت نہرو کا ہاتھ اس باحیا خاتون پر لگ گیا اور اس خاتون کی رگِ حمیت بھڑک اٹھی کھینچ کر زوردار طمانچہ رسید کر دیا ،جس پر پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا :آپ میری ماں ہو مجھے معاف کر دیجیے ! یہ خاتون مو لانا حسرت موہانی علیہ الرحمہ کی اہلیہ سیدہ نشاط النساءؒ تھیں۔
عہدِحاضر کی تاریخ ساز خواتین:
اشاعت دین کا مسئلہ ہویاحفاظت ِ دین کا مسئلہ یا پھرقوم وملک کی بقا کا مسئلہ ہو اگر مردانِ خدا میدانِ کارزار میں نظر آیے ہیں تو ان کے اردگرد دلیر خواتین کا جمِ غفیربھی ا منڈ تا ہوا آگے بڑھتا ہوا للکارتا ہوا پیش پیش نظر آیاہے!
آج مذکورہ بالاجا ںبا ز عزم و استقلال کی پیکر خواتین کی بیٹیاں سر زمین ہند پر ملک اور ملک کی جمہوریت کی سالمیت کے لیے ،سیاہ چہرے اورسیاہ دل حکمرانوں کے نافذ کردہ سیاہ قانون کو ختم کرنےکےلیے اپنے آباواجداد کی تاریخوں کو دوبارہ رقم کر رہی ہیں، یقینا جب مؤرخ ہندوستان کی تاریخ لکھنے کے لئےقلم اٹھائے گا تو اس ملک کی خواتین کا تذکرہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا ۔جوگھروں کو تالے لگا کر استقامت کا پہاڑ بن کر ملک کی مختلف ریاستوں میں بیٹھی ہوئی ہیں، وطن کی محبت سے سرشار اِن خواتین کے جسم اور لہو کو نہ دھوپ کی شدت و تمازت نقصان پہنچا رہی ہے، نہ سردی کی سرسراہٹ ان کی چمڑی میں لرزہ پیدا کر رہی ہے، نہ بارش کے قطرات ان کے عزمِِ سفر میں رخنہ ڈال رہے ہیں، بلکہ گنگا جمنا تہذیب کے تحفظ کے لئے ،ملک کوایک راشٹر میں تبدیل ہونے سے سے بچانے کے لیے ، ملک کے ترنگے کو ایک رنگ میں رنگنے کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے، دستورِ ہند کی حفاظت کے لیے، شہروں، قصبوں، دیہاتوں، آبادیوں، ویرانوں، گلیوں، روٹوں، خشکیوں، سمندروں،پیدل ،سواریوں پر اپنی جان اپنا مال لگا کر اپنی آرائش و زیبائش، آرام و راحت کو چھوڑ چھاڑ کر ،باشعور بچوں کو اسکول بھجوا کر کم سن بچوں کے ہاتھوں کو تھام کر، گودوں میں اٹھا کر، سینے سے چمٹا کر، فرعون ونمرود اور ہامان کے خلاف نعرہ فگن نظر آرہی ہیں۔
ہم سلام پیش کرتے ہیں باہمت لدیدہ و وعائشہ کو جن کے جنون وجزبہ نے منجمد خون میں حمیت کا صور پھونکا
کھلی ہے وطن میں جوصبحِ آزادی
میرے جہاد کی، میری جستجو کی ہے
ہم سلام پیش کرتے ہیں شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین کو جو دو مہینوں سے کھلے آسمان کے نیچے آہنی دیوار بنی بیٹھی ہوئی ہیں،بندوق کی گولیوں نے بھی ان کے جزبات کہ سرد نہیں کیا
نہ پوچھ مجھ سے میرے صبر کی وسعت کہاں تک ہے
ستا کر دیکھ لے ظالم،تیری طاقت جہاں تک ہے
ستم گر تجھ سے امید کرم ہوگی جسے ہوگی
ہمیں تو دیکھنا یہ ہے کہ تو ظالم کہاں تک ہے

ہم سلام پیش کرتے ہیں آئیشی گھوش کو جس نے جبیں کے خون سے لالہ زار ہونے کے باوجود ڈٹے رہنے کی قسم کھائی۔
فریدی کہدو! أعداء سے نِہَتا مجھ کو مت سمجھیں
تمہارے خنجروں سے تیزتر گفتار رکھتی ہوں

ہم سلام پیش کرتے ہیں دیوبند کے عید گاہ میدان میں بیٹھی ہوئی ان خواتین کو جنہوں نے چوڑیاں برساکر حکومتی کمیٹی کو واپس کیا،اور کالے قانون کے واپس ہونے تک اپنے احتجاج
کو باقی رکھنے کا بیان دیا۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریقہ

ہم سلام پیش کرتے ہیں اس ننھی سی جان کو جو٣٠/جنوری کو غریقِ رحمت ہوگئی اور اس کی ماں کو جو اس حال میں بھی زعفرانی قانون کے خلاف ٹکی رہی‌۔
پھول بننے کی خوشی میں مسکرائی تھی کلی
کیا خبر تھی کہ یہ تبسم ،موت کا پیغام ہے
ہم سلام پیش کرتے ہیں حیدرآباد کی معزز خواتین کو جن کو اب تک دسیوں جگہ دھرنا کرنے سے ہٹایاگیا،جیل خانوں میں منتقل کیا گیا مگر
کہدو! اغیار سے گلشن کو اجاڑے، غم نہیں
پھر سے تعمیرِچمن کوباغباں تیار ہے
ر بِ کریم وقت کے فرعونوں سے ٹکرانے والے مردوں، عورتوں، بوڑھوں ،بوڑھیوں،بچوں ،بچیوں اور ہرحصہ دارکے حوصلہ اور جزبہ کو قبول فرماے،اورہند میں اس قانون اورحکومت کا سورج غروب اور کچرے کو صاف کرنے والی حکومت کا سورج طلوع فرماے۔آمین
چراغِ امن کی لو پرشباب آئیگا
ستم گروں پر یقیناً عذاب آئیگا
قدم پیچھے نہ ہٹانا وطن کی شاہینوں
تمہارے دم سے انقلاب آئیگا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×