سیاسی و سماجی

ہند کے مسلم حکمران؛ تاریخی حقائق، تعارف و تجزیہ 

نہ کوئی خواب نہ ماضی ہے میرے حال کے پاس
اقوام و ملل کی تاریخ بارہا یہ ثابت کر چکی ہے کہ جو قوم اپنے ماضی کو فراموش کردے یا تاریخ کے روشن باپ پر جہالت و نادانی کے ذریعے سیاہی پھیر دے وہ کبھی بھی مستقبل میں کامیابی کو نہیں چھو سکتی یہ بات طئے شدہ ہے کہ عزائم و منصوبوں کی بلندی ماضی کے نقوش سے ہی حاصل ہوتی ہے اگر ماضی کو بھلادیا جائے یا تاریخ کی کتابوں کو کتب خانوں کی زینت بنادیا جائے یا پھر اس سے دانستہ یا غیر دانستہ تجاہل برتا جائے تو اخلاقی انحطاط فطری تنزلی قوم کا مقدر بن جاتا ہے حتی کہ وہ قوم بتدریج رو بہ زوال ہوجاتی ہے

نہ کوئی خواب نہ ماضی ہے میرے حال کے پاس
کوئی کمال نہ ٹہرا میرے زوال کے پاس

سب تباہی کے ہیں آثار خدا خیر کرے
ہندستان میں مسلمانوں کے حالات کچھ ایسے ہی ہیں آج قوم مسلم ہندستان میں گویا کٹ گھرے میں ٹھہری ہوئی ہے، جس سے طرح طرح کے سوالات ہوتے ہیں، کبھی سوال اس کے مذہب پر تو کبھی سوال اس کے شعار پر، کبھی سوال اسکی جذبہ حب الوطنی پر  تو کبھی پاکستانی کہہ کر طعنہ زنی ،اعتراض کبھی شریعت مطہرہ ہر تو کبھی مسلم راہنماؤں کی حکمرانی پر، قوم مسلم کبھی ہجومی تشدد کے شکار تو کبھی گاؤ ہتھیا کے نام پر مقتول بنی ہوئی ہے، بات شریعت اور ایمان کی سلامتی تک آ پہونچی ہے،عصر حاضر میں قوم مسلم کے ساتھ ایسا برتاؤ روا رکھا جارہا ہے کہ گویا یہ اس ملک میں کوئی اجنبی قوم ہے جو کہیں سے آکر یہاں بس گئی ہے، ہر شخص اپنے قول وعمل سے یہ تاثر دیے رہا ہے کہ مسلمان ہندوستان کی اس سر زمین پر ایک بوجھ ہیں، حکمران؛ جنھیں سیاسی مقاصد کے لئے باقی رکھ سکتے ہیں، تاجر؛ جنھیں اجرت پر لینے کے لئے تیار ہوسکتے ہیں، پرنسپل اور ذمہ دار حضرات؛ جنھیں استاذ تسلیم کرسکتے ہیں لیکن چاہت یہ ہوتی ہے کہ تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر قوم مسلم کو بے حال کردیا جائے، شکوک و شبہات کے دائرے میں جکڑ دیا جائے، ان کے امراء اور بادشاہوں کے تئیں نفرت کو عام کیا جائے تاکہ وہ اپنے تشخص اور شناخت کو باقی رکھنے کے بجائے، اپنے آباء و اسلاف کی صحیح تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے بجائے برسراقتدار طبقہ کے رحم وکرم پر جینے کے لئے مجبور ہوجائیں،اور ہو بھی یہی رہا ہے

یورپی مؤرخین کا تعصب اور ہند کے مسلم حکمران
یہ حقیقت ہے کہ ہر زمانہ میں سیاست کا ضروری جزو جنگ وجدل بھی رہا ہے ، اور میدانِ جنگ یا جنگ کے زمانہ میں کیا کچھ نہیں ہوتا ، بعض زیادتیوں کا سرزد ہونا کوئی بعید نہیں، انسان بہر حال غلطی کا پتلا ہے، اس سے بعض مظالم کا واقع ہونا عجب نہیں، لیکن یہ کسی طورپر مناسب نہیں کہ کسی ملک کے یاکسی دور کی صرف خون ریزی اور ہولناکی کی داستان جمع کی جائے اور فریقین کے درمیان نفرت کا بیج بونے کے لیے حقائق سے قطع نظر بناؤٹی اور دل آزار واقعات پیش کیے جائیں، یقینا ہم کو تاریخ میں مسلم عہد کے ضرور ایسے مواد ملیں گے جن میں مہر ومحبت کی داستانیں دلجوئی اور دلنوازی کی حکایتیں ہیں۔”محمد بن قاسم ، محمد بن تغلق ،زین العابدین ، جہانگیر اور عالمگیر کی رواداری ، قطب الدین ایبک کا امان دینا ، سلطان محمود غزنوی اور بابر کا عدل ، بلبن کا انصاف اور حق پرستی ،شیرشاہ سوری کی امداد ،دارا شکوہ کی ہندؤوں کے علوم وفنون سے دلچسپی، شاہجہاں کی ہندو شعراء کی حوصلہ افزائی، ٹیپو کے عہد میں اعلیٰ مناصب پر ہندو افسران،مندروں اور اس کے سوامیوں کا احترام اور مندروں کو نذرانے ” جیسے واقعات ملیں گے، جن کا موجودہ داخل نصاب کتابوں میں تذکرہ تک نہیں ہے۔ (مقتبس از اسلام اور دہشت گردی :ص٧٠،٧١)
*ہندستان کا نصاب تعلیم اور مسلم حکمران*
بدقسمتی سے ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں گذشتہ کئی نسلوں سے جو کتابیں پڑھائی جارہی ہیں، وہ وہی ہیں، جو یوروپی مصنفوں کی لکھی ہوئی ہیں، جو ہماری قومی زندگی کے سرچشمہ کو آلودہ کئے ہوئے ہیں، ان کتابوں میں ایسے اختلافات پر زور دیا گیا ہے کہ ہندو مسلمان کس طرح ایک دوسرے کے خلاف تشدد آمیز رویہ اختیار کئے ہوئے تھے ، ان تاریخوں میں یہ بھی دکھا یا گیا کہ مسلمان ہندؤوں کے کلچر اورروایات کو تہس نہس کرنے میں مشغول رہے، ان کے مندروں اور محلوں کا انہدام کیا، اور ان کے سامنے یہ خوفناک شرط پیش کرتے رہے کہ اسلام قبول کرو، ورنہ تلوار استعمال کی جائے گی ، پھر یہ چیزیں زندگی کے اس زمانے میں پڑھائی جاتی ہیں جب ذہن پر کسی چیز کا گہرا اثر پڑ جاتا ہے، تو پھر اس کا دورہونا مشکل ہوتا ہے، اس لئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہندو مسلمان ایک دوسرے کو شک وشبہ کی نظروں سے دیکھنے کے عادی ہوگئے اوران میں باہمی عدم اعتمادی پیدا ہوگئی”۔ (مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری:٣/٣١٣)

نفرت کا خاتمہ وقت کی اہم ترین ضرورت
جب مسلمانوں کے لئے اپنے حقوق کا مطالبہ ایک سنگین جرم سمجھا جارہا ہو،شریعت میں کھلے عام مداخلت کی جارہی ہو، مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہو،مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی جارہی ہوں اور انہیں منصوبہ بند طریقے سے پسماندہ اور قومی دھارے سے الگ تھلگ رکھا  جارہا ہے ،  ایسے ناگفتہ بہ حالات میں آج بہت سخت ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی تاریخ سے واقف ہوں، اپنے اسلاف کے عظیم کردار سے آشنا ہوں، اور برادران وطن کے سامنے ہندوستان کی صحیح تاریخ پیش کرنے کی ضرورت ہے، نفرت کا خاتمہ ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے

قوم مسلم کا المیہ
ہندستان میں قوم مسلم کی تاریخ ایک ایسی روشن مینار کی مانند ہے جس کی روشنی میں موجودہ دور کامسلمان اپنے مستقبل کو سنوار سکتا ہے۔مگر افسوس صد افسوس کہ ہندستان میں بسنے والے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے ماضی سے نا آشنا ہے یا اسے کلیہ فراموش کرچکا ہے، آج قوم مسلم اپنے اسلاف کی جانشین فرقوں، گروپوں، جماعتوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے ، قومیت ووطنیت، علاقائیت اور خاندانی انانیت کا شکار ہوکر ایک ایسی تاریخ رقم کررہی ہے جو بیان سے باہر ہے۔

لمحہ فکریہ
اس پرفتن دو رمیں جو کردار ہم ادا کرسکتے ہیں وہ یہی ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے واقف ہوں اسلامی گفتارو کردار کا عملی جامہ پہن کر میدان عمل میں آئیں اور نسل نو کے ذہن سے مغربیت کا گردوغبار ہٹا کر قرآن وسنت کی فضا قائم کریں تو پھر یہ بات بعید نہیں کہ اگر آج بھی مسلمان ﴿واعتصموا بحبل الله﴾ کا بھولا ہوا سبق دُھرالیں تو ﴿جاء الحق وزھق الباطل﴾ کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے…، ﴿ان تنصروا الله ینصرکم ویثبت اقدامکم﴾ کے تحت یہ لڑکھڑاتے، ڈگمگاتے قدم مضبوط جمے ہوئے نظر آئیں گے، ﴿ لیبدلنھم من بعد خوفھم امنا﴾ یہ خوف وہراس امن میں بدل جائے گا، مگر بات کیا ہے ؎

وطن تو آزاد ہو چکا دماغ ودل ہیں غلام اب بھی
مئے غفلت لیے ہوئے ہیں یہاں خاص وعام اب بھی
غلط ہے ساقی تیرا یہ نعرہ کہ بدل چکا ہے نظام محفل
وہ شکستہ سی بوتلیں وہی کہنہ ہے جام اب بھی
میرے خانہ وطن کا رنگ ہی کچھ عجب ہے
کسی پہ جام شراب جائز کسی پہ پانی حرام اب بھی

ا۔فاتح سندھ محمد بن قاسم تاریخی حقائق تعارف و تجزیہ یہ اسی ضمن کی پہلی کاوش ہے جس میں قسط وار ہندستان کے مسلم حکمرانوں کے شاندار ماضی کو بتانے کی کوشش کی جائے گی(اللہ پاک استقامت کے ساتھ نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے۔

832026y@gmail.com

+91 8121832026

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×