سیاسی و سماجی

بابری مسجد کے فیصلے کے بعد!!

سپریم کورٹ نے جس طرح تمام تر دلائل اور تاریخی شواہد کو نظر انداز کرتے ہوئے اکثریت کی آستھا کو بنیاد بنا کر یک طرفہ فیصلہ سنایا ہے اس نے ہر مسلمان کا چین و سکون غارت کر دیا ہے. غم و غصہ، تکلیف اور افسوس کے جذبات نے دل و دماغ کو گھیر رکھا ہے اور قومِ مسلم کی بے بسی پر آنکھیں خون کے آنسو رو رہی ہیں. اس فیصلہ کے بعد سے الزام تراشیوں، لعنت – ملامت اور ایک دوسرے کو موردِ الزام قرار دینے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے. شکست خوردہ لوگ اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟؟ یہ بات سچ ہے اور اس کی سچ ہونے میں کسی عاقل، باغیرت مسلمان کو شک نہیں ہو سکتا کہ یہ فیصلہ جس طرز پر آیا ہے اس میں میر جعفر و میر صادق کی نسل کے کچھ لوگوں کا بڑا دخل ہے. ان لوگوں کی حقیقت واشگاف کرنا اور ان پر نکیل کسنا ضروری ہے لیکن اس میں بھی حدودِ شریعت کی پاسداری ہمارے لیے لازم ہے. کچھ لوگوں نے اسلامی آداب اور انسانی اخلاق کو پس پشت ڈال کر برہنہ گفتاری اور گالیوں کا جو طوفانِ بدتمیزی برپا کر رکھا ہے اس کی کسی بھی طرح تائید نہیں کی جا سکتی. غصہ اور ناراضگی ہم سبھی کو ہے مگر ایسے وقت میں اپنے زبان و قلم کو آلودہ ہونے سے بچانا لازم ہے.

اس فیصلے کے بعد ہر زبان پر یہ سوال ہے کہ اب ہم کریں تو کیا کریں؟ حق و انصاف کی سر بلندی کے لیے قائم کردہ عدالتیں ہی جب ناانصافی کرنے لگیں تو پھر کہاں جا کر دہائی دیں؟ جب حاکم ہی ظالم کا دوست بن جائے تو فریادرسی کے لیے مظلوم کا آواز بلند کرنا بھی جرم شمار ہوتا ہے…..

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

مایوسی کی اس مہیب تاریکی میں روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی. اب ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ ہمارے پاس کیا آپشن باقی ہیں؟ اس بارے میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں، گرچہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ مجھے ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے کسی عمومی مثبت تبدیلی کی کوئی امید نہیں ہے لیکن شریعت کی یہ تعلیم ہے کہ مایوسی کفر ہے، تدبیر و عمل ہمارے ذمہ ہے اور ثمرات کا ظہور خدا کی مشییت پر موقوف ہے، اس لئے ٹوٹے دل اور شکستہ قلم کے ساتھ کچھ معروضات آپ سب لوگوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.

(1) سب سے پہلا، سب سے ضروری اور سب سے بنیادی کام یہ ہے کہ ہم اپنے مالک و خالق سے اپنا رشتہ مظبوط کریں. ہم نے کلمۂ شہادت پڑھ کر اپنے رب سے ایک عہد کیا ہے اس عہد کو وفا کریں. اپنے گناہوں، خطاؤں اور غفلتوں کا احساس و اقرار کریں اور سچے دل کے ساتھ بارگاہِ ایزدی میں توبہ کریں. اگر ہم نے یہ کام نہیں کیا تو ہماری کوئی تدبیر، کوئی محنت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی. ہماری کوئی بھی انفرادی اور اجتماعی کوشش اس وقت تک بار آور نہیں ہو سکتی جب تک ہمارا رب ہم سے راضی نہ ہو. اس لئے سب سے پہلے ہمیں یہ کرنا ہے کہ نام کے ساتھ کام کے مسلمان بنیں. سچے اور پکے مسلمان بنیں. ظاہر اور باطن میں مسلمان بنیں. ہر مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنے لئے ائڈیل اور رہنما مانتا ہے، اب ضرورت ہے کہ ہم ماننے کے ساتھ عملی طور پر اس سیرت کو اختیار کریں. اپنی رفتار و گفتار، نشست و برخاست، زبان و لباس، معاملات اور کردار سب کو نبی کے بتائے ہوئے سانچے میں ڈھال دیں. اس میں کسی طرح کی سستی، غفلت، چوں و چرا کی گنجائش نہیں، اس کے علاوہ خدا کو راضی کرنے کا کوئی اور راستہ نہیں.

(2) دوسرا کام یہ ہے کہ اپنے مسلکی اختلافات اور نظریات سے قطع نظر کرتے ہوئے قومی و سیاسی مصلحت کے پیش نظر ہم سب کو ایک آواز بننا ہے. ہندوستان میں مسلمان غیر مسلموں کے مقابلے تعداد میں کافی کم ہیں اور اس پر مختلف گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم در تقسیم. اس پاگلپن کو ختم کیجئے. دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعتِ اسلامی وغیرہ سب مسالک والے سیاسی پلیٹ فارم پر متحد ہو کر کام کریں. مسلکی پوسٹ ڈالنے سے حتی الامکان بچیں اور اگر ضرورت ہو تو علمی انداز میں ادب کے ساتھ اس طرح بات کریں کہ انتشار کی صورت نہ ہو، خلفشار اور ایک دوسرے کے خلاف بغض و کینہ پیدا نہ ہو. ہم یہ دعوت نہیں دے رہے کہ ان سب مسالک کی حیثیت اور فرق ہی کو فراموش کر دیا جائے، نہیں! یہ مسالک اور ان کا باہمی اختلاف تو ختم ہونے والے نہیں، دعوت صرف اس بات کی دی جا رہی ہے کہ مسلک کی بنیاد پر شر انگیزی نہ ہو، وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور دشمن کے مقابلے سیاست کے میدان میں ایک جسم و جان بن کر کھڑے ہو جائیں.

(3) تیسرا کام ہے دعوتِ دین کا کام. ہمارا ماننا ہے کہ ہماری موجودہ زبوں حالی جن گناہوں کا نتیجہ ہے، ان میں دعوتِ دین کے کارِ عظیم سے اجتماعی غفلت کا گناہ سرِ فہرست ہے. اس گناہ اور جرم میں ہم سب برابر کے شریک ہیں. ہندوستان کو آزاد ہوئے تقریباً ستر سال ہو چکے ہیں ان ستر سالوں میں دعوت کے میدان میں ہم نے سات فیصد بھی کام نہیں کیا بلکہ بعض انفرادی کوششوں کو چھوڑ دیں تو یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ہم نے زیرو پرسنٹ کام کیا ہے. اگر ہم نے اجتماعی سطح پر دعوت کے پیغمبرانہ مشن کو آگے بڑھایا ہوتا تو آج یہ ذلت و رسوائی ہمارا مقدر نہ بنتی. دعوتِ دین کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ کام کا آغاز کیسے ہو؟ تیاری کس طرح سے ہو؟ اس قسم کے سب سوالات پر ان شاء اللہ ہم آئندہ مضمون میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے، فی الوقت اتنا سمجھ لیں کہ دعوتِ دین صرف علماء کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر مسلمان اس کا ذمہ دار ہے. ایک عام مسلمان سے جب کبھی اس حوالے سے بات کی جاتی ہے تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ یہ کام تو علماء کا ہے، ہمیں تو خود زیادہ علم اور معلومات نہیں ہم دوسروں کو کیا دعوت دیں گے؟ یہ بڑی غلط فہمی اور اپنی کمیوں کی بنا پر پیدا شدہ احساسِ جرم کا انفعال و اثر ہے. یاد رکھئے کہ دنیا میں اسلام کی اشاعت میں بڑا حصہ کرادر و عمل کا رہا ہے. مسلمانوں کے اخلاق و معاملات کی پاکیزگی دیکھ کر بڑی بڑی آبادیاں اور بستیاں ایک ساتھ اسلام کے حلقہ بگوش ہوئی ہیں. اگر آج بھی ہم خود کو سچا مسلمان بنا کر دنیا کے سامنے پیش کریں تو اسلام کے ابتدائی زمانے اور عہد زریں کی یادیں تازہ ہو سکتی ہیں. وہ انقلابات پھر سے رونما ہو سکتے ہیں جنہیں ہم حیرت کی نگاہوں سے تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں. ہم خود کو تبدیل کر لیں تو زمین و آسمان تبدیل ہو سکتے ہیں. جب ہم خود کو صبغۃ اللہ (خدا کے رنگ) میں رنگ لیں گے تو ہر طرف ہمارا ہی رنگ نظر آئے گا.

(4) ایک چوتھا کام باقی ہے اور وہ ہے جہاد کا کام. جہاد کے لفظ سے چونکیے مت!! یہ موضوع ایسا ہے کہ اس پر کوئی لکھنا بولنا نہیں چاہتا، مگر ہمارا ماننا ہے کہ اس کے بغیر ہماری بات مکمل ہو سکتی ہے، نہ ہمارا کام پورا ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہمارا مقصد حاصل ہو سکتا ہے. ہمارا یہ پختہ نظریہ ہے کہ مسلمانوں کو ظاہری شوکت و سر بلندی جہاد کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی. اس مشہور حدیث سے تو کئی لوگ واقف ہوں گے کہ ” الجنة تحت ظلال السيوف” ( جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے)، مگر یہ حقیقت کم لوگ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو دنیاوی عزت و دبدبہ، حشمت و شوکت بھی بغیر تلوار و جہاد کے نہیں مل سکتی. جہاد سے ہماری مراد ہرگز یہ نہیں کہ معصوموں کا قتل کیا جائے، دنگے اور فساد برپا کئے جائیں، ملکی قوانین کی دھجیاں اڑائی جائیں یہ ہرگز ہمارا مقصد نہیں. جہاد تو وہی ہے جو اعلائے کملۃ اللہ کے جذبۂ صادق کے ساتھ کیا جاتا ہے. یہ جہاد کب ہوگا؟ کس طرح ہوگا؟ کیا جہاد فرض ہو چکا ہے؟ کیا اس کی شرائط پوری ہو چکی ہیں؟ یہ سب بحث اہلِ علم کے لیے چھوڑ دیجئے. آپ کو تو صرف یہ کرنا ہے کہ جہاد کے لیے اپنے دل و دماغ اور جسم کو تیار رکھیں. کچھ کاموں کو شور شرابے کے ساتھ اور اجتماعی طور پر کرنا خلافِ مصلحت ہوتا ہے، اس لئے انفرادی طور پر خاموشی کے ساتھ ہر فرد اپنے آپ کو تیار کرے. خود حفاظتی اقدامات اور انتظامات کرے. سیلف ڈفینس کی مشق کرے. صحت کا خیال رکھے، دوڑنے بھاگنے کی مشق کرتا رہے اور اپنے قلب و ذہن میں اس کی اہمیت کا اعادہ کرتا رہے. ایسا نہ ہو کہ جب ضرورت پیش آئے تو آپ اپنی سانسیں ہی درست کرتے رہ جائیں، اپنے گھٹنے پکڑ کر بیٹھ جائیں اور جہاد کے نام ہی سے آپ کا دل خوف و دہشت میں مبتلا ہو جائے. یاد رکھیں کہ احادیثِ نبویہ کی رو سے اپنے مقررہ وقت پر یہ جہاد (ہندوستان میں بھی) ہو کر رہے گا، کسی لبرل یا سیکولرازم زدہ مسلمان کے نہ چاہنے سے فرمانِ رسول نہیں ٹل سکتا. یاد رکھیں کہ اسلام کمزور مسلمان کو پسند نہیں کرتا، یاد رکھیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح انتہائی دردمندی، محنت اور جاں فشانی کے ساتھ دعوتِ دین کا کام کیا ہے اسی طرح انتہائی پامردی، بہادری اور جواں مردی کے ساتھ پرچمِ جہاد بھی بلند کیا ہے. ہمارے لیے آپ کی سیرت کا ہر پہلو لائق تقلید ہے.

یہ چار بنیادی کام ہیں، ان کے علاوہ تعلیم اور معیشت کو مضبوط کرنا بھی انتہائی ضروری ہے. ان دونوں سے بھی غفلت نہیں برتی جا سکتی. جہالت نہ صرف یہ کہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ یہ کفر و ارتداد تک پہنچا دیتی ہے اور دنیا و دین دونوں جگہ ہلاکت کا سبب بنتی ہے. یہی حال فقر کا ہے کہ وہ کبھی کفر کا اور بسا اوقات ایمان فروشی اور منافقت کا سبب بن جاتا ہے. اس لئے اس جانب بھی مستقل توجہ اور محنت کی ضرورت ہے. میں نے یہ منتشر اور غیر مرتب باتیں بابری مسجد کے فیصلے کے بعد دل کے گہرے تاثر کے زیرِ اثر لکھی ہیں اس لیے کوئی کمی نظر آئے تو اس سے درگزر کریں اور دعا کریں کہ اے اللہ! ہمیں منافقت، ذلت، بزدلی، مایوسی کی زندگی سے نجات عطا فرما. سچ بولنے، سچ لکھنے، سچ پر عمل کرنے، سچ پر قائم رہنے اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرما.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×