سیاسی و سماجی

جشنِ آزادی کو بامقصد بنائیں‌‍!

دارالعلوم دیوبند میں اس سال ہندوستان کا 73واں جشنِ آزادی منایا گیا، اس موقع پر انتظامیہ کی جانب سے باقاعدہ ایک تقریب کا بھی انعقاد ہوا. اس پروگرام کو لے کر حسبِ عادت مسلمانوں کی دو تین آراء سامنے آئیں، کچھ نے اس کی تائید کی، کچھ نے اس پر نقد کیا اور بعض نے اسے اسلام اور کفر کا مسئلہ بنا دیا. جب یہ بات طے ہے کہ آزادی ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا ثمرہ ہے اور انگریزوں کے جبر و استبداد کے خلاف ہمارے بڑوں نے لہو دیا ہے تو اس آزادی کی خوشی منانے کے بھی ہم ہی زیادہ حقدار ہیں. اس آزادی کے لیے اپنے جان و مال سے ہم قیمت ادا کر چکے ہیں، اور اس کا حصول ہی اپنے آپ میں ایک عظیم مقصد کی تکمیل ہے. اس لئے اس موقع پر کسی تقریب کا انعقاد خلاف شرع یا خلاف عقل نہیں ہے. ملک کے دیگر اداروں اور مدارس میں یومِ آزادی اور یومِ جمہوریت کی مناسبت سے تقریبات کا انعقاد پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے. دارالعلوم دیوبند میں بھی اس حوالے سے کئی برسوں سے تجاویز پیش کی جا رہی تھیں، میں ذاتی طور پر ایسے کئی افراد سے واقف ہوں جنہوں نے مختلف اوقات میں دارالعلوم دیوبند کو خطوط کے ذریعے ان تقریبات کی اہمیت کے بارے میں متوجہ کیا اور ان کے انعقاد کی گزارش کی. اس پر پہلے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا، اور اب جن حالات میں یہ تقریب منعقد ہوئی ہے اس نے افواہوں کو خوب ہوا دی ہے.

بہر کیف یہ وقت تو گزر گیا، اب جو امور ان تقریبات کو مفید بنا سکتے ہیں، ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان پر بھی توجہ نہیں دی جا رہی ہے. سب سے بنیادی ضرورت یہ ہے کہ غیر مسلمین کو باقاعدہ ان تقریبات میں دعوت دی جائے. ان کے سامنے نپے تلے انداز میں آزادی کی صحیح تاریخ پیش کی جائے، بالخصوص مسلمانوں کی قربانیوں سے واقف کرایا جائے. آر ایس ایس کی غداری، انگریزوں کی خوشامد اور چاپلوسی، آزادی کے بعد ان کی ملک مخالف سرگرمیاں، مختلف دہشت گردانہ واقعات میں ان کی شمولیت، ان سب چیزوں پر بڑی مدلل اور باحوالہ گفتگو ہونی چاہیے. نیز ضروری ہے کہ یہ گفتگو جذباتی اور مخصوص "ہنگامہ خیز” طرزِ بیان میں نہ ہو بلکہ عصری اسلوب بیان اس کے لیے استعمال کیا جائے، جس میں ہر بات دو اور دو چار کی طرح واضح ہوتی ہے، اسے دانشمندانہ طرزِ خطاب تسلیم کیا جاتا ہے اور آج کا ذہن اس اسلوب کو جلد قبول کرتا ہے. یہ بھی اہم ہے کہ کچھ بیانات ہندی اور انگریزی میں بھی ہوں اس لیے کہ اردو (وہ بھی اہلِ مدارس کی) اس کے سمجھنے والے بھی اکثر مدارس والے ہی ہیں. یہ تقریب دارالعلوم دیوبند میں یا ملک کے جس ادارے میں بھی ہو، اس علاقے کے غیر مسلم افراد اور سماجی شخصیات کو ضرور بلایا جائے. اگر ایک پروگرام میں آپ سو دو سو غیر مسلم افراد کو بلا لیتے ہیں (مرکزی ادارے اس سے کئی گنا زیادہ لوگوں کو بآسانی جمع کر سکتے ہیں) تو یہ بھی بڑی بات ہے. مجمع میں کہی ہوئی بات تیزی سے پھیلتی اور سفر کرتی ہے. سو سے ہزاروں تک بہت جلد ہماری بات بھی پہنچ جائے گی.

اس کے ساتھ ایک کام یہ کرنا چاہیے کہ مختصر مختصر کتابچے ہندی، انگریزی آور علاقائی زبانوں میں تیار کرائے جائیں، جن میں مجاہدین آزادی کا تعارف اور تاریخ بیان کی گئی ہو، آر ایس ایس کے تعلق سے جو باتیں ہم نے عرض کیں، ان پر بھی تعارفی کتابچے ہوں اور ہر بات باحوالہ ہو. اخبارات کے تراشے اور مختلف رپورٹس ان میں شامل ہوں. ان تقریبات کے موقع پر یہ کتابچے تقسیم کئے جائیں. اس سلسلے میں بطور خاص مولانا عبد الحميد نعمانی صاحب کے علم و مطالعہ سے فائدہ اٹھانا لازمی ہے، ان سے مشورہ کیا جائے اور ان کی قلمی خدمات بھی حاصل کی جائیں. اہلِ علم و فکر کے مشورے سے جب یہ کتابچے تیار ہو جائیں تو پھر انہیں تمام مدارس والوں تک پہنچایا جائے اور وہ اپنے اپنے علاقے میں ان کی نشر و اشاعت کا کام انجام دیں. جب تک ان تقریبات میں غیر مسلموں کو شریک نہیں کیا جائے گا تب تک یہ کسی اصلاحی جلسے یا تبلیغی اجتماع کی نظیر بن کر رہ جائیں گے. جہاں کہنے والے بھی مسلمان اور سننے والے بھی مسلمان. غیر مسلمین کی شرکت کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ انہیں مدرسوں اور "مولوی” کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا، کان سے سنی اور آنکھ سے دیکھی ہوئی بات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، بہت سی غلط فہمیاں تو ان شاء اللہ ساتھ مل بیٹھنے ہی سے دور ہو جائیں گی، مسلمانوں کی مہمان نوازی اور اخلاق کا اثر پڑے گا اور میڈیا، ٹیلی-ویژن وغیرہ کے ذریعہ پیدا کی گئی خوف و وحشت کی فضا ختم ہوگی. ہمیں یہ کام کافی پہلے کرنا چاہیے تھا لیکن جو نہیں ہو سکا اب اس کا سوال اور شکوہ بیکار ہے، سوال ہے تو بس یہ کہ آئندہ ہمارا طرز بدلتا ہے یا نہیں!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×