شخصیات

شکریہ ابن صفی!!

(عظیم کہانی نگارکے یومِ پیدایش پر ممنونیت کے احساس کے ساتھ لکھی گئی تحریر )
بچپن سے کہانیاں پڑھنے کاشوق تھا؛ چنانچہ ہوش سنبھالتے ہی پہلے گھرمیں موجودمختلف رسائل کی کہانیاں پڑھیں، پھر حاتم طائی، گل بکاؤلی، گل صنوبر، سندبادجہازی اورالف لیلہ کی کہانیاں پڑھتااور معصوم ذہن میں دوردیس کی پریوں اورہواؤں میں اڑنے والے شہزادوں سے ملاقات کے سپنے سنجوتارہا، حقیقی زندگی آگے بڑھتی رہی، تعلیمی سلسلے بھی بڑھتے رہے ……. پھرایک دورآیا، جب کہانیاں پڑھنے کاذوق مجھے کشاں کشاں اردوزبان میں جاسوسی کہانیوں کے منفردترین تخلیق کار ابنِ صفی کی بارگاہ میں لے گیا، ان سے تعارف کی روداد بھی بڑی دلچسپ سی ہے، تب میں دیوبندمیں زیرِ تعلیم تھااورغالباً کسی خاص تعطیل کے دن گزررہے تھے، ہمارے ایک دوست ہیں عامرمظہری (مفتی، مولانا)وہ ہمہ دم ابنِ صفی کی کہانیوں میں ہی سانس لیتے تھے، ایک شام میرے "حجرے” پرآئے، ان کے ہاتھوں میں ایک کتاب تھی، فریدبکڈپو، دہلی سے چھپی ہوئی،یہ فریدی حمیدسیریز کاکوئی نمبرتھا، عجیب وغریب طلسماتی قسم کاٹائٹل، عنوان غالبا "فریبی مسیحا "تھا….. ان سے وہ کتاب لی، چند صفحات پڑھے، مگربوریت محسوس ہونے لگی اور کتاب بند کرکے رکھ دی …… چھٹی کے دن تھے، کتابیں پڑھنے کی لت تھی اور اس وقت مطالعہ کے لیے کوئی کتاب پاس تھی نہیں، بالآخر "فریبی مسیحا "کوپھر کھولا، پڑھناشروع کیا، دوصفحے پڑھے، چار، دس صفحات کامطالعہ کیا، ابتدامیں وہی ملولیِ خاطر کی کیفیت رہی، مگرپھر بتدریج محسوس ہواکہ کتاب کے مشمولات میرے حواس، ذہن ودماغ پرچھارہے ہیں، قدم قدم پرتجسس، سسپنس، ایک صفحہ پلٹنے کے بعداگلے صفحہ تک پہنچنے کی جلدی، غالباایک یادونشستوں میں پوری کتاب مکمل ہوگئی، پھرتو ابن صفی کاچسکہ ساپڑگیا،صبح شام پڑھتا اورسوتے جاگتے پڑھتا، بیٹھ کر پڑھتا، لیٹ کرپڑھتا اورکبھی کبھی توراستہ چلتے ہوئے بھی پڑھتا، ایک جنون تھا، جوہمہ وقت انگیخت کرتااور شوق کی بے پناہی تھی، جوہرلمحہ ابن صفی کی کہانیوں میں غرق کیے رہتی ـ
ناول اورقصے کہانیوں میں اگرواقعی سماج اورمعاشرے کے تئیں کوئی مثبت پیغام ہوتاہے، توابن صفی کی کہانیاں اس کی اولین مصداق ہیں، حیرت ہوتی ہے کہ جنس وجسم وحسن وجمال کے خم وپیچ کوچھیڑے بغیرابن صفی نے ایسی سیکڑوں کہانیاں کیسے لکھ ڈالیں، جواپنے قاری کواول تاآخرباندھے رکھنے کی صلاحیتوں سے لیس ہیں،ہرجملے میں جہانِ حیرت اورعالمِ اکتشاف کھلتاہوامحسوس ہوتاہے، ابن صفی کے ذہن کی دراکی، قوتِ تخیل، فکرکی رسائی اور خیالات کوپیش کرنے کاانداز ایساہے کہ پڑھنے والالکھنے والے کے دست وقلم کوچو م لے ـ انھوں نے بعض طنزیہ جملوں اورکاٹ دار فقروں میں سماج کے مختلف طبقات کے مابین پائی جانے والی کوتاہیوں اوربیماریوں کی بروقت نشان دہی کی اور مختلف المزاج کرداروں کے ذریعے ان کودور کرنے کاپیغام دیا، گوادب کے ٹھیکیداروں اوروردی پوش نقدنگاروں کو ان کی ادبی قدروقیمت کی شناخت اورتعیین میں ایک طویل عرصے تک تذبذب رہا، مگرخودابن صفی نہ صرف بہترین ادب لکھتے تھے؛ بلکہ ان کی نگاہِ ہمہ گیرودوررس معاصر ادب کے تمام ترپہلووں کوحاوی تھی، انھوں نے اپنی کہانیوں کی سطوراوربین السطورمیں ادب کے بعض معرکة الآرامسئلوں پرجن خیالات کااظہار کیا ہے، وہ ان کی ناقدانہ بصیرت مندیوں کی بھی گواہی دیتے ہیں ـ فریدی، حمید، عمران، انور، رشیدہ، پرنس چلی، جوزف، جولیا، سلیمان، رحمان صاحب، سرسلطان ….. وغیرہ ابن صفی کے ہی کردارنہیں ہیں، وہ ہمارے اپنے معاشرے کے چلتے پھرتے نفوس ہیں، جن سے محسوس دنیامیں مختلف موقعوں پرہماراواسطہ پڑتارہتاہے ـ
ذاتی طورپر میراہر بنِ موابن صفی کاممنون ہے، کہ اس شخص نے اپنے بہت سے دوسرے قارئین کی طرح میری انگلیوں کوبھی بولنے اورقلم کولکھنے کاسلیقہ سکھایا، ہم نے مولانا عبدالماجددریابادی کی البیلی نثر، مولاناآزادکی بارعب نگارشات، شورش کاشمیری کی حسین وجمیل تحریریں، ماہرالقادری کی جزرس نثریات اوردیگر دسیوں ادیبوں، تخلیق کاروں سے حسبِ وسعت وظرف استفادہ کیا ہے، مگران سب کوپڑھنے کاشعوربھی ابن صفی سے ہی ملا …… ان کی کہانیوں کےبہت سے جملوں کوباربارپڑھتا اورتنہائیوں میں جھومنے لگتا، وجدان پرسرور وکیف کےنہ جانے کیسے اور کتنے مرحلےواردہوتے رہتے، بہت سی ترکیبوں کونوٹ کرتااوراپنے مضمون میں برتنے کی کوشش کرتا، بعض تعبیریں سمجھ میں نہ آتیں، توانھیں بھی کاپی میں لکھ لیتا، پھرلغت کی کتابوں سے رجوع کرتااورمشکل حل کرتا ……….یہ اس شخص کاکمال ہے کہ اس نے اردودنیاکوایسی تخلیقی کہانیاں دیں، جن میں بہ یک وقت تفریحِ طبع، تشحیذِ اذہان اورتعلیمِ زبان؛ تینوں خصوصیات بہ تمام وکمال پائی جاتی ہیں،ان کوپڑھنے والے، ان سے سیکھنے والے، ان سے محبت کرنے والے پوری اردوبرادری میں ہزاروں لوگ توہیں ہی، مگران کادائرہ اب محدودنہیں ہے، ان کی کہانیوں کے تراجم اب دیگرعالمی زبانوں میں بھی شائع ہورہے ہیں اورابنِ صفی کے حسنِِ اعتراف کاسلسلہ گوبہت دیربعد، مگرشروع ہوچکاہے اوراب دانش گاہوں میں ان پرریسرچ اورتحقیق کاعمل بھی شروع ہوچکاہے ….. ویسے بھی ابنِ صفی مرنے والے کہاں تھے، کہ وہ توہم جیسے کتنے ہی اشخاص وافراد کے قلم وزبان میں گھل چکے ہیں!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×