شخصیات

انگلیاں فگار اپنی،خامہ خوں چکاں اپنا! (استاذِ محترم کی یاد میں)

دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور کئی نسلوں کے معلم و مربی ،استاذ الاساتذہ حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری آج صبح قضائے الہی سے وفات پا گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
دل مغموم ہے ،آنکھیں نم ہیں،ذہن پر رنج و غم کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ میں نے ان کی وفات کی خبر قدرے تاخیر سے دیکھی اور دیکھتے ہی ان سے منسوب زمانۂ طالب علمی کی کتنی ہی یادیں ذہن کے پردے پر جھلملانے لگیں ۔ کیا شگفتہ و شاندار انسان تھے اور خدا نے ان کی شخصیت میں کیسی دلکشی رکھ دی تھی! مفتی صاحب ہندوستان؛ بلکہ دنیا کے ایسے چیدہ و خوش نصیب لوگوں میں سے ایک تھے جنھیں کم و بیش نصف صدی تک مسلسل علمِ حدیث کی تدریس کا موقع ملا اور انھوں نے ہزارہا طالبانِ علومِ نبوت کی علمی تشنگی بجھائی۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے احاطے میں ان منتخب ترین اساتذہ میں سے ایک تھے جنھیں تمام طلبہ کے درمیان یکساں مقبولیت و محبوبیت حاصل تھی اور اس کی وجہ صرف ان کا تدریسی کمال،افہام و تفہیم کا اثر انگیز انداز اور پڑھانے کا ایسا دلنشیں طَور تھا،جو شاذ ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ نو دس سال قبل جب ہم وہاں دورۂ حدیث کے طالب علم تھے ،تب اس جماعت میں کم و بیش آٹھ سو طلبہ ہوتے تھے،اسی سال انھیں صحیح بخاری کی تدریس کی ذ مے داری ملی تھی،سنن ترمذی وہ پہلے سے پڑھا رہے تھے۔ دوسرے اساتذہ کے گھنٹوں میں عموماً آدھی یا دو تہائی درس گاہ خالی ہوتی تھی ،مگر مفتی صاحب کی کلاس میں پاؤں رکھنے کو جگہ نہ ہوتی،جو طلبہ کلاس میں ان کی آمد کے بعد پہنچتے وہ عموماً آدھے اندر اور آدھے باہر رہ کر سبق سنتے۔ ان سے استفادے کے لیے دیوبند کی دوسری درسگاہوں کے طلبہ بھی جوق در جوق آتے تھے۔ جب حدیث کی عبارت خوانی ہوتی اوراس کے بعد مفتی صاحب کی تقریر شروع ہوتی ،تو ایک عجیب ہی سماں ہوتا،دلکش و سحرانگیز و دلنشیں ،ہر طالب علم سراپا سماعت بن جاتا،مکمل ذہنی و جسمانی حاضری کے ساتھ سبق سنتا۔ وہ ایسے استاذ تھے کہ ان کے سبق میں شاید ہی کوئی طالب علم ذہنی غیاب کا شکار ہوتا ہوگا،ان کے اسلوبِ کلام اور اندازِ بیان میں ایک مقناطیسیت تھی،جو طالب علموں کو ہمہ تن اپنی طرف متوجہ کرلیتی تھی۔ مفتی صاحب کی خوبی یہ تھی کہ وہ پڑھاتے ہوئے اپنا ارتکاز موضوع پر رکھتے اور اس کی تفہیم میں تمام متعلقہ دلائل و براہین کو اس خوب صورتی اور منطقی ترتیب سے بیان کرتے کہ طالب علم عش عش کرنے لگتا۔ کم و بیش تیس پینتیس سال تک انھوں نے فضیلت (دورۂ حدیث شریف) کی اہم کتاب سنن ترمذی کا درس دیا اور 2009سے تاحیات صحیح بخاری بھی ان کے زیر درس رہی۔
ان کی ظاہری شخصیت میں بھی مخصوص نوع کی وجاہت تھی،جو ایک محدث کے شایانِ شان ہوتی ہے۔ سادگی و بے تکلفی ہوتی ،مگر اس میں کشش ایسی کہ دل و نگاہ کو اپنا اسیر بنالے۔ اپنے گھر سے دارالعلوم تک کی مسافت عموماً رکشے سے طے کرتے،صددروازے سے دارالعلوم میں داخل ہوتے،احاطۂ مولسری میں پہنچ کر دوتین بار کلی کرتے،چوں کہ وہ پان کھانے کے عادی تھے تو تدریسِ حدیث سے قبل اہتمام سے کلی ضرور کرتے،پھر درس گاہ (دارالحدیث )میں داخل ہوتے،مسندِ تدریس پر بیٹھتے،ایک طالب علم بلند و خوش الحان آواز میں حدیث پاک کی عبارت پڑھتا،اس کے بعد اس حدیث پر مفتی صاحب کی گفتگو ہوتی۔ میں یہ سطور لکھتے ہوئے اس لذت کوپھر سے محسوس کر رہاہوں ،جس سے ان کے در س میں ہم لطف اندوز ہو تے تھے۔ مفتی صاحب پڑھاتے نہیں تھے،جادو کرتے تھے،طالب علم اور سامع کے حواس پر چھا جاتے تھے ،وہ بولتے نہیں تھے موتی رولتے تھے،ان کی نگہ دلنواز تھی اور ادا دلفریب،ان کی امیدیں قلیل تھیں اور مقاصد جلیل،وہ اقبال کی تعبیر ’’نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو‘‘ کی نہایت ہی تابناک مثال تھے۔
جب ہم دورۂ حدیث شریف میں تھے ، تو ششماہی امتحان میں ترمذی و بخاری میں پچاس پچاس نمبرات (تب دارالعلوم میں کل نمبرات پچاس ہوا کرتے تھے)حاصل کرنے والوں کی مفتی صاحب نے خصوصی حوصلہ افزائی کی اور ایسے طلبہ چند ایک ہی تھے۔ اللہ کے فضل سے ان میں سے ایک میں بھی تھا،مفتی صاحب نے ایسے سب طالب علموں کو بعد نماز عصر اپنے گھر بلاکر دعائیں دیں ،تحسین آمیز کلمات سے نوازا،ہمت افزائی کی اور انعام کے طور پر سنن ترمذی کی شرح عنایت فرمائی۔ انھیں یہ شکایت رہتی تھی کہ اب طلبہ محنت نہیں کرتے اور اس کا وہ ہمیشہ اپنی کلاسوں میں اظہار کرتے۔ پرانے محدثین و علما اور خود دارالعلوم کے اساتذۂ متقدمین کے واقعات و حالاتِ زندگی سے چیدہ چیدہ واقعات سناتے اور طلبہ کو مہمیز کرتے۔ وہ طلبہ و اساتذہ کے راست تعلق اور رابطے پر زور دیتے تھے؛تاکہ افادہ و استفادہ کا عمل تیز اور نتیجہ خیز ہو؛ اس لیے ہم نے ہمیشہ ان کی زبان سے سنا کہ ایک ایک جماعت میں کئی کئی سو طلبہ کا ہونا درس و تدریس کے نقطۂ نظر سے درست نہیں ہے،مگر پھروہ یہ بھی کہتے کہ چوں کہ دارالعلوم کو اس کے معیار کے مطابق اساتذہ نہیں ملتے،اس وجہ سے مجبوری میں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ اب تو دورۂ حدیث میں غالباً پندرہ سو یا اس سے بھی زیادہ طلبہ ہوتے ہیں۔
سال کے آْخری دن ہونے والی ان کی پندو نصائح سے معمور تقریر بھی یادگار ہوتی تھی ۔ اس دن وہ خود بھی جذبات سے لبریز ہوتے اور طلبہ پر بھی ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی۔ آخری حدیث کا سبق ہوتا،تشریح کی جاتی اور پھر وہ باتیں ہوتیں جو فضیلت کی تکمیل کرنے والے طلبہ کے لیے زندگی بھر کام آنے والی ہوتیں ۔ وہ اپنے طلبہ کی تین جماعتوں میں تقسیم کرتے :اعلی،متوسط اور ادنی اور پھر ان میں سے ہر ایک کو عملی زندگی کا ٹاسک بتاتے۔ اسی کے مطابق سرگرمِ کار ہونے کی تلقین کرتے۔ جب طالب علم آخری دن ان کی کلاس سے اٹھتا توگرچہ اسے اس بات کا غم ہوتا کہ مفتی صاحب جیسے عظیم استاذ سے جدا ہونا پڑ رہا ہے،مگرساتھ ہی اسے خوشی بھی ہوتی کہ اس کا دامن علم و فکر کے جواہر ریزوں سے بھرا ہوا ہے۔ مفتی صاحب نہایت ذہین انسان تھے اوران کا دماغ گویا ایک وسیع و عریض کتب خانہ تھا جس میں مختلف علوم و فنون کی ہزاروں کتابیں ہر وقت موجود و مستحضر رہتیں۔
مفتی صاحب کا کارنامہ صرف یہی نہیں ہے کہ انھوں نے کم و بیش نصف صدی تک علم حدیث پڑھا یا اور ہندوبیرون ہند کے ہزارہا طلبہ ان سے سیراب ہوئے،ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ عصرِحاضر کے طلبہ کے ذہنی مستوی کا ادراک کرتے ہوئے در سِ نظامی کی کئی اہم کتابوں کی لسانی تہذیب و تسہیل کاکام کیا اور انھیں نئے لباس میں شائع کیا۔ بانیِ دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی کی متعدد کتابوں کی تسہیل فرمائی اور انھیں نئی نسل کے لیے سہل الفہم بنایا،درسِ نظامی کی متعدد اہم کتابوں کی آسان اردو زبان میں تشریحیں کیں اور جامع ترمذی کی آٹھ جلدوں میں ،جبکہ صحیح بخاری کی بارہ جلدوں میں شرحیں لکھیں اور امام ولی اللہ دہلوی کی معرکۃ الآرا کتاب حجۃ اللہ البالغہ کی منفرد و ممتاز شرح رحمۃ اللہ الواسعہ لکھ کرعلمی دنیا پر احسانِ عظیم کیا۔ ان کے علاوہ بھی مختلف درسی کتابوں کی دسیوں شروح تحریر کیں اور دیگر موضوعات پر بھی اہم کتابیں لکھیں۔
الغرض مفتی صاحب کی پوری زندگی نہایت ہی سرگرم وماجرا پرور رہی۔ ان کی پیدایش 1940میں گجرات کے ضلع پالن پور میں ہوئی تھی،1962میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی تکمیل کی اور1972۔73میں دارالعلوم دیوبند میں استاذ مقرر ہوئے اور تاحیات علمِ حدیث وفقہ کی امہاتِ کتب کی تدریس کی خدمت انجام دی۔لگ بھگ اسی سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ پاک حضرت مفتی صاحب کی کامل مغفرت فرمائے،پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہم جیسے ان کے ہزارہا شاگردوں کی طرف سے انھیں بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے۔ (آمین)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×