سیاسی و سماجی

تبلیغی جماعت پروپیگنڈہ پر جمعیۃ علماء کی سپریم کورٹ میں عرضی کا خلاصہ کیا ہے

ملک کی قدیم ترین نیم سیاسی تنظیم جمعیۃ علماءکی جانب سے میڈیا کے خلاف عرضی داخل کی گئی ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ میڈیا نے نظام الدین معاملہ کو مذہبی رنگ دیاہے، واضح رہے کہ مرکز نظام الدین میں کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاو ون کئے جانے کے پیش نظر تقریبا ڈھائی ہزار پھنسے ہوئے تھے۔
ماہر قانون دان اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی جانب سے دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ نظام الدین معاملہ کی رپورٹنگ کے دوران الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے سارے مسلم سماج کو غلط کردار کے ساتھ پیش کیاہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی زندگی اور آزادی کو خطرے لاحق ہوسکتے ہیں، میڈیا کا یہ عمل دستور کی شق 21 کے خلاف ہے جس میں ہر شہری کو باعزت زندگی گذارنے کا حق دیا گیاہے۔
پیٹیشن میں اس جانب بھی عدالت عالیہ کی توجہ دلائی گئی ہے کہ میڈیا نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور نظام الدین کوریج کے دوران کورونا جہاد، کورونا دہشت گردی، کورونا بم اور اسلامی تباہی جیسے الفاظ استعمال کئے گئے تاکہ ناظرین اور سامعین کا رخ ایک مخصوص نظریہ کی جانب پھیرا جاسکے ۔
جمعیةعلماءنے اس نازک معاملہ کی جلد سماعت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی جانب سے تاخیر ملک میں مسلم سماج کے خلاف بد دیانتی ،دشمنی اور نفرت میں اضافہ کا سبب بنے گی۔
عرضی میں سوشل میڈیا کی کئی جعلی پوسٹس کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں مسلمانوں کو وائرس پھیلانے والے کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، ان سبھی پوسٹس کے جعلی یا پرانے اور موجودہ معاملہ سے غیر تعلق ہونے کو ثابت کرنے کے لئے حقیقی اور اصلی لنکس بھی دی گئیں تاکہ ویریفائی کیا جاسکے، نیز سوشل میڈیا پلیٹ فارمس فیس بک اور ٹوئیٹر کا تذکرہ کرکے کہا گیا کہ انہوں نے بھی اپنے اصول اور اختیارات کو استعمال کرکے ان جعلی پوسٹس پھیلانے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔
میڈیا کی خلاف دائر کی گئی اس عرضی میں درج ذیل سوالات پوچھے گئے ہیں
مرکز نظام الدین معاملہ کو کوریج دیتے وقت مذہبی رنگ دینا کیا دستور کی شق اکیس کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
کیا اس قسم کی رپورٹنگ میں مذہبی تڑکا لگانا نیٹ ورک ریگولیشن ایکٹ 1995 کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
کیا پورے مسلم سماج کو بد نام کرنا ملک کے سیکولرازم کے ساتھ بددیانتی اور بدعہدی نہیں ہے؟
کیا حکومت کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس ریگولیشن ایکٹ کی دفعہ 19 اور 20 کے تحت دیئے گئے خصوصی اختیارات کو استعمال کرکے ان پروگرامس پر روک لگانے میں ناکام ہوگئی ہے؟
کیا حکومت سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جعلی خبروں اور فرقہ وارانہ باتوں کو روکنے میں ناکام ہوگئی ہے؟
مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم کی ہدایت پر دائر کی عرضی میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مذہبی رنگ سے بھری ان خبروں اور زعفرانی صحافت کے نتیجہ میں ملک میں بسنے والی مختلف قومیں آج ایک دوسرے کے خلاف کھڑی ہوگئی ہیں، جس سے آگے چل کر سماجی بدامنی بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
عرضی میں میڈیا کے تعلق سے دیئے گئے عدالت عظمی ہی کے ایک فیصلہ کا حوالہ دیا گیا جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا "میڈیا کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے لیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عوام میں خوف و ہراس پھیلانے والی غیر مصدقہ خبریں ہرگز عام نہ کی جائیں”۔
درخواست میں  اپیل کی گئی کہ  نظام الدین معاملہ میں متعصبانہ اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے میڈیا چینلس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے اور بدترین دہلی فسادات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ میڈیا کے اس رویہ سے پوری ریاست کی امن و امان کی صورت حال کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
تفصیلات یا تبصرہ کے لئے ربط کریں
مفتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ
+91 9966 870 275

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×