سیاسی و سماجی

ریاست تلنگانہ میں وبائی امراض قانون 1897 کا نفاذ؛ ایک جائزہ

کورونا وائرس کے ممکنہ خطرات اور دنیاکے دیگر ممالک میں ہونے والی اموات کے پیش نظر ملک عزیز بھارت کی بعض ریاستوں میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے، یہ لاک ڈاؤن اب تلنگانہ تک پہونچ چکا ہے، کل کے جنتا کرفیو کے اختتام پر تلنگانہ کے چیف منسٹر نے اکتیس مارچ تک The Epidemic Diseases Act 1897 کے تحت لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے، یہ The Epidemic Diseases Act 1897 کیا ہے؟ اس کا نفاذ کب کیا جاتا ہے ؟ اس ایکٹ کے تحت ریاستی و مرکزی حکومت کو کیا اختیارات حاصل ہوتے ہیں نیز خلاف ورزی پر کیا کاروائی ہوگی؟ مختصراً اس کا جائزہ لے لیں تاکہ معلومات میں اضافہ ہوجائے…
یہ ایک چھوٹا سا یعنی صرف چار دفعات پر مشتمل ایکٹ ہے، 1897 کے برٹش دور میں ممبئی میں پلیگ پھیلنے کی وجہ سے یہ ایکٹ بنایا گیا تھا، 2009 میں اس ایکٹ کو پونے میں سوائن فلو سے نمٹنے کے لئے ، 2018 میں گجرات کے ایک علاقہ میں ہیضہ کی وبا پھیلنے پر، 2015 میں ملیریا اور ڈینگو کی بنا پر چندی گڑھ میں نافذ کیا گیا تھا، کورونا کے باعث ملک کی مختلف ریاستیں اس کے اختیارات استعمال کررہی ہیں…
اس ایکٹ کی دفعہ 2 میں مرکزی اور ریاستی حکومت کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ ملک یا ریاست کے کسی بھی حصہ میں کسی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لئے مناسب اقدامات کرسکتی ہے اور عوام کو اس کا پابند بھی بنا سکتی ہے، جس میں مسافرین کی جانچ،ان کو آپسی میل جول سے روکنا، ہسپتالوں میں ان مخصوص مریضوں کے لئے الگ رہائش وغیرہ امور بھی شامل ہیں…
دفعہ 3 میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ بالا اختیارات کو استعمال کرکے مرکزی یا ریاستی حکومت جو پابندیاں عائد کرتی ہے ان پابندیوں کی خلاف ورزی کی صورت میں تعزیرات ہند کی دفعہ 188 کے تحت سزا دی جائے گی، تعزیرات ہند کی دفعہ 188 کا خلاصہ کچھ یوں ہے "ایسے سرکاری ملازم کی جانب سے دیئے گئے حکم کی خلاف ورزی کرناجو اس حکم کو جاری کرنے کی اہلیت رکھتا ہو اور وہ خلاف ورزی سرکاری حکم میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہو یا سبب بننے کا خطرہ ہو تو ایسے فرد کو یا ایک ماہ کی سزا بلا مشقت یا جرمانہ یا دونوں عائد کئے جائیں گے، اگر اس سرکاری حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں انسانی جانوں کو خطرہ ہو تو پھر چھ ماہ سے ایک سال کی سزا یا جرمانہ یا دونوں عائد کئے جاسکتے ہیں”…
ایکٹ کی آخری دفعہ میں کہا گیا ہے کہ وہ فرد جو کسی نیک ارادہ یا حسن نیت کی بنا پر خلاف ورزی کرے تو اس پر کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جائے گی…واضح رہے کہ مقصد کی اچھائی آپ کی نظر میں نہیں حکومت کی نظر میں ہونی چاہئے…
تلنگانہ حکومت نے 21 اور 22 مارچ کو دو GO یعنی گورنمنٹ آرڈر پاس کئے ہیں، جس میں اس ایکٹ کی دفعہ 2 کے تحت بالترتیب 17 اور 23 نکات پر مشتمل قوانین و ضوابط بتائے گئے ہیں جن میں قابل ذکر چند یہ ہیں:
1) ریاست کی سرحدیں سوائے ضروری اشیاء کے پڑوسی ریاستوں کے لئے بند رہیں گی…
2) اندرونِ ریاست خانگی و سرکاری عوامی آمد و رفت کے تمام ذرائع جیسے آر ٹی سی، میٹرو، آٹو رکشا وغیرہ، صرف ذاتی سواری استعمال کرنے کی اجازت رہے گی وہ بھی ضروری کاموں کے لئے…
3) عوام گھر پر رہیں، باہر نکلنا ہو تو دوسرے افراد سے مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے اپنے کام کاج نمٹا کر جلد گھر واپس جائیں…
4) پانچ سے زیادہ افراد کا جمع ہونا ممنوع رہے گا…
5) ہر ضلع کے پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر، میڈیکل ایجوکیشن ڈائریکٹر، میونسپل کمشنر اور پولیس کمشنر کو اپنے ماتحت علاقوں میں مناسب اقدامات کرنے کی اجازت دی گئی ہے جس سے اس وبائی مرض کو پھیلنے سے روکا جاسکے…
6) سرکاری اور خانگی سبھی دواخانے ایک حصہ کورونا کے مشتبہ مریضوں کے لئے مخصوص رکھیں…
7) دواخانوں کو ہدایت دی گئی کہ مشتبہ مریض کے سفر کی ہسٹری اور اس سے میل جول رکھنے والوں کی تفصیل حاصل کریں…
8) کسی بھی فرد کا گذشتہ چودہ دن میں اگر ان ممالک کا سفر ہوا ہو جہاں یہ مرض پایا گیا ہو تو وہ گھر میں قرنطینہ کرے، اس پر عمل آوری نہ کرنے کی صورت میں حکومت کی نگرانی میں قرنطینہ میں کروایا جائے گا…
9) جس فرد میں اس مرض کی علامات پائی جائیں وہ ہسپتال میں الگ تھلگ رکھا جائے گا…
10) سوشل میڈیا پر غلط افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی…
11) کسی گاؤں،محلہ یا کالونی میں مرض پھیلنے کی صورت میں وہاں پر باہر سے آمد و رفت بند کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے اسکولس، آفسس، سینما ہالس، سوئمنگ پولس، جم خانے اور مختلف عوامی جگہیں بند کی جائیں گی، عمومی اجتماع گاہیں اور تقریبات بھی ضرورت پڑنے پر بند کی سکتی ہیں…
12) مذکورہ بالا ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے پر جیسا کہ اوپر مذکور ہوا
The Epidemic Diseases Act 1897
The Disaster Management Act 2005
کی دفعات کے تحت کاروائی کی جائے گی…
فی الحال آج صبح سے اکتیس مارچ تک جس لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے اس میں اور 22 مارچ کو ہوئے کرفیو میں فرق رہے گا، کرفیو میں کسی کو بھی سڑک پر نکلنے کی اجازت نہیں تھی، اس لاک ڈاؤن میں اشیائے ضروریہ کی خرید و فروخت کے لئے آمد و رفت ممنوع نہیں رہے گی، سڑکوں پر کھڑے ہونا یا پانچ افراد کا میل جول قابل اعتراض مانا جائے گا…
دنیا کے مختلف ممالک میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے، اس مضمون کی تحریر کے دوران امریکہ میں مقیم ایک عزیز سے بات ہوئی انہوں نے بتایا کہ نیویارک اور کیلی فورنیا جیسے شہر مکمل لاک ڈاؤن ہیں، پچھلے چوبیس گھنٹوں میں چار ہزار نئے مریض وجود میں آئے ہیں، پورے امریکہ میں وینٹی لیٹر کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار کے آس پاس ہے اور مریضوں کی تعداد ہر دن بڑھتی چلی جارہی ہے…
نوجوان اس غلط فہمی میں نہ رہیں ہمیں وائرس نہیں لگے گا،ممکن ہے کہ اعضاء قوی ہونے کے سبب آپ پر اثر نہ ہو لیکن آپ کے واسطہ سے آپ کے گھر کے بڑے بوڑھے متاثر ہوسکتے ہیں…
مساجد کے ذمہ داران موجودہ صورت حال میں حکمت سے کام لیں، ہمارا اللہ پر یقین اپنی جگہ پر لیکن حکومت کی پابندیاں اپنی جگہ پر، مصیبتوں میں مساجد کی طرف رجوع یقینا مصائب کو ٹالتا ہے لیکن یہ بات حکومت کو کون سمجھائے جس کا یقین خود اپنے خداؤں سے زیادہ سائنس پر ہے، ایسا طریق اپنائیں جس سے مسجد میں نماز کا تسلسل باقی رہے، صفائی کے انتظامات سخت رکھیں، خدانخواستہ کسی علاقہ میں کوئی مقامی کیس پایا جائے تو مسجدیں بند بھی ہوسکتی ہیں کیونکہ اب تک کی سائنسی و طبی تحقیق کے مطابق یہ مرض آپسی ملاقات سے پھیلتا ہے، مساجد ان کی نظر اجتماع Gathering کی ہی جگہ ہے، ہماری نظر میں یہ شفا ہے اور ان کی نظر میں بیماری کا سبب…
عوام میں شعور بیدار کریں،سرکاری ذمہ داران کو بتانے کے لئے ہی سہی مسجد میں جلد آنے اور چلےجانے کی ہدایات دیں اور اس لاک ڈاؤن کی فرصت میں رجوع الی اللہ کی ترغیب دیں…
مضمون نگار سے رابطے یا اپنی رائے کے اظہار کے لئے:
+91 9966 870 275

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×