سیاسی و سماجی

رائٹ آف سیلف ڈیفینس یعنی اپنے دفاع کا حق، ایک قانونی مطالعہ

قانون؛ ہر شہری کوکسی یقینی خطرہ یا غیر قانونی حملہ کے مقابلہ میں اپنی جان، آزادی یا اپنی جائیداد اورمال و متاع کے دفاع کا بھرپور حق دیتا ہے، دنیاکے تقریبا ہر قانون میں اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے، تعزیرات ہند (انڈین پینل کوڈ 1860ء) کی دفعات 96 یا 106 میں رائٹ آف سیلف ڈیفینس پر بحث کی گئی ہے، ان دفعات میں ان عوامل کا ذکر کیا گیا ہے جن کی موجودگی میں ایک شخص کو اپنے دفاع کا حق ملتا ہے، نیز حملہ کو روکنے کے لئے کتنی طاقت کے استعمال کی اجازت ہے اور اس طاقت کے استعمال کے نتیجہ میں مدمقابل کا جانی یا مالی نقصان ہوتا ہے یا جان ہی چلی جاتی ہے تو یہ دفاع کرنے والے کے حق میں ”جرم“ کے زمرہ میں نہیں آتا ہے، موجودہ حالات کی مناسبت سے زیر نظر مضمون میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ ”حق دفاع خود اختیاری“ کو تعزیرات ہند کی دفعات کی روشنی میں مثالوں و نظیروں کے ساتھ واضح و سہل انداز میں ذکر کیا جائے کہ معلومات حوصلہ بخشتی ہیں اور ناواقفیت بزدلی پیدا کرتی ہے۔
یہ قانون بنیادی طور پر دو اصولوں کے تابع ہے:
1) ہر شخص کو اپنی جان یا اپنی جائیداد نیز کسی اور فرد کی جان اور جائیداد کے دفاع کا حق حاصل ہے بشرطیکہ حملہ کے علاوہ اس وقت دفاع کی کوئی اور شکل موجود نہ ہو۔
2) یہ حق انتقامی طور پر کسی کو نقصان پہونچانے کے لئے وضع نہیں کیا گیا ہے، دوسرے الفاظ میں اس کو یوں تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ ”یہ حق ڈھال کی مانند ہے تلوار کی مانند نہیں“۔
دفعہ 97,96: دفعہ 96 دفاع کے حق ہونے کو بتاتی ہے جبکہ دفعہ 97 میں حق دفاع کی وضاحت کچھ یوں کی گئی ہے کہ ”ہر فرد کو ہر ایسے جرم سے خود کو یا کسی اور کو بچانے کا حق حاصل ہے جو جسم کو نقصان پہونچاتا ہو نیزچوری سے، ڈکیتی سے، نقصان رسانی سے، مجرمانہ طور جائیداد میں دخل اندازی سے یا ان جرائم کی کوششوں سے جائیداد کے دفاع کا حق بھی حاصل ہے چاہے وہ جائیداد اپنی ہو یا کسی اور کی، منقولہ ہو یا غیر منقولہ۔۔۔۔مثلا زید نے رات کے وقت دیکھا کہ کچھ لوگ اس کی دکان کا تالہ توڑنے کی کوشش کررہے ہیں، حالانکہ ابھی تالہ کھلا نہیں ہے اور وہ لوگ دکان میں داخل نہیں ہوئے ہیں تب بھی زید کو اپنی دکان کی حفاظت میں ان پر حملہ کرنے کی اجازت ہے، زید کا یہ عمل جرم کے زمرے میں نہیں آئے گا۔
دفعہ 98: کے تحت یہ بتایا گیا ہے کہ مخبوط الحواس، فاتر العقل، پاگل شخص کے خلاف بھی دفاع کا حاصل رہے گا چاہے ان کا عمل جرم کے زمرے میں آتا ہو یا نہ آتا ہو، مثلا زید نے پاگل پن کے زیر اثر عمرو پر قاتلانہ حملہ کیا،عمرو کو دفاع کا بھر پور حق ملے گا اگرچیکہ اس مثال میں زید اپنے پاگل پن کی وجہ سے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کررہا ہے(کیونکہ پاگل قانونا بھی مرفوع القلم ہے)، اسی طرح غلط فہمی، حملہ آور کا کم عمر ہونا، حملہ آور کا نشہ میں ہونا وغیرہ مقابل کے دفاع کے حق کو ختم نہیں کرتا ہے، مثلا زید رات کے وقت ایک گھر میں داخل ہوا جس میں قانونی طور پر اس کو داخل ہونے کی اجازت ہے لیکن عمرو جو گھر میں تھا اس نے چور یا نقب زن خیال کرکے زید پر حملہ کر دیا، ایسی صورت میں زید کو بھی دفاع کا حق ملے گا، نتیجہ میں کوئی ایک یا دونوں دوسرے کے حملہ میں زخمی ہوجائے تو کوئی بھی مجرم نہ ہوگا کیونکہ دونوں نے اپنے حق کا استعمال کیا ہے۔
دفعہ99: اس دفعہ کے تحت چار باتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے
1)سرکاری ملازم(پولیس، محکمہ انکم ٹیکس، فوج وغیرہ) کے خلاف دفاع کا حق حاصل نہ ہوگا جب تک کہ مناسب وجوہات سے اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ ان کا عمل جو وہ کررہے ہیں یا کرنے کا ارادہ کررہے ہیں اس سے جان کا خطرہ یا شدید زخمی ہونے کا خطرہ ہے بشرطیکہ ان کا ارادہ نیک ہو اور ان کا عمل ان کے عہدہ کے اختیار میں ہو، مثلا زید کے گھر انکم ٹیکس والوں نے دھاوا بولا اور گھر کی تلاشی لینے لگے، ان عہدیداروں کے اس عمل کے خلاف زید کو دفاع کا حق حاصل نہ ہوگا کیونکہ وہ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں اور اس عمل سے زید کو یا زید کے گھر والوں کو کسی شدید خطرے کااندیشہ نہیں ہے، ہاں اگر سرکاری ملازم بھی اپنی حد پار کرے یا کرنے لگے جس کے نتیجہ میں مقابل اپنی زندگی کا یا سخت زخمی ہونے کا خطرہ محسوس کرے تو اس کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہوگا۔
2) ایسا شخص جو سرکاری ملازم نہ ہو لیکن کسی سرکاری ملازم کے حکم پر عمل کررہا ہو اس کے خلاف بھی دفاع کا حق نہ ملے گا، اوپر ذکر کردہ تفصیل یہاں بھی ملحق کرلیں۔
3) اُن معاملات میں دفاع کا حق نہ ملے گا جن میں متعلقہ عہدیداروں سے مدد لی جاسکتی ہو یا اپنے آپ کو سرکاری حکام کی مدد سے محفوظ کیا جاسکتا ہو، یعنی اتنا وقت یا اتنی مہلت ہو جس میں از خود دفاع کئے بغیر متعلقہ ذمہ داران سے تحفظ حاصل کا جاسکتا ہو تو خود کو دفاع کا حق نہ ملے گا، اگر ایسے میں کسی نے اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے خود دفاع کیا تو جرم کے دائرے میں آسکتا ہے۔
4)دفاع کے حق کے استعمال کرتے وقت اتنے ہی نقصان کے پہونچانے کی اجازت ہے جتنے میں دفاع کا مقصد پورا ہوجاتا ہو، مثلا حملہ آور گھٹنے پر وار کرکے اگر اسے آگے بڑھنے سے روکا جاسکتا ہو تو سر پر وار کرنا غلط ہوگا۔
دفعہ 100: یہ اس باب کی اہم دفعہ ہے، اس دفعہ کے تحت ان اسباب و عوامل کا تذکرہ ہے جن کی موجودگی میں ایک فرد اپنے حق دفاع کو استعمال کرتے ہوئے حملہ آور کی جان بھی لے سکتا ہے یا اس کو شدید نقصان پہونچا سکتا ہے، اس دفعہ کے مطابق سات جرائم ایسے ہیں جن کے خلاف اپنی جان کے دفاع کا انتہائی حق حاصل ہوگا، وہ سات جرائم حسب ذیل ہیں:
1) ایسا حملہ جس کی شدت ظاہر کرتی ہو کہ اگر اس کا دفاع نہ کیا جائے تو خود کی جان جاسکتی ہے۔
2) ایسا حملہ جس کا دفاع نہ کیا جائے تو شدید زخمی ہونے کا اندیشہ ہو۔
3) زنا بالجبر کی نیت سے حملہ کرنے والے کا دفاع۔
4) خلاف فطرت شہوت پوری کرنے کی نیت سے کئے جانے والے حملہ کا دفاع۔
5) اغوا کرنے کی نیت سے کئے جانے والے حملہ کا دفاع۔
6) حبس بے جا میں رکھنے کی نیت سے کئے جانے والے حملہ کا دفاع بشرطیکہ اسباب و عوامل یہ بتاتے ہوں کہ دفاع کئے بغیر خارجی مدد کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
7) تیزاب کے حملہ سے بچنے کے دفاع میں حملہ آور کی جان لی جاسکتی ہو بشرطیکہ صورت حال یہ بتاتی ہو کہ بغیر دفاعی حملہ کئے خود کا تحفظ نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ بالا مواقع میں حملہ آور کی”بالارادہ و بالقصد“ جان لینے والا قتل کا مجرم نہیں کہلائے گا، یہ بات واضح رہے کہ مذکورہ جرائم خود پر ہوں یا کسی اور پر، ہر دو صورت میں دفاع کا حق حاصل رہے گا، مثلا زید نے اپنے پڑوس میں دیکھا کہ ایک شخص دوسرے کو قتل کررہا ہے اور زید کو یقین ہے کہ فورا کوئی کاروائی نہ کی جائے تو قاتل کامیاب ہوجائے گا، ایسے میں دوسرے شخص کی جان بچانے کے لئے زید اگر اگر پہلے فرد پر گولی چلائے یا شدید زخمی کرے تو زید مجرم تصور نہیں کیا جائے گا، ایسے ہی باقی مواقع پر غور کرلیا جائے۔
دفعہ 101: دفعہ 100 میں ذکر کردہ سات جرائم کے علاوہ کسی اور جرم کی صورت میں دفاع کرنے والے کو صرف زخمی کرنے کی حد تک دفاع کا حق حاصل ہوگا،اب سوال یہ ہے کہ چوری سے بچنے کے چکر میں دفاعی حملہ کی صورت میں چور کی جان چلی جائے تو وہ دفاع کے حق کے تحت آئے گا یا نہیں؟
 اس کا جواب یہ ہے کہ دفعہ 100 کے سات جرائم میں ”بالقصد و بالارادہ“ جان لینے کی اجازت ہے جبکہ دوسرے جرائم میں دفاع کرتے ہوئے جان بوجھ کر جان لینے کی اجازت نہ ہوگی، ہاں اگر بلا قصد و بلا ارادہ حملہ آورکی جان چلی جائے تب بھی وہ قتل کے زمرے میں نہیں آئے گا، مثلا چوری دفعہ 100 کے ذکر کردہ جرائم میں شامل نہیں ہے، لہذا چور ی کے دفاع میں بالقصد جان لینے کی اجازت نہ ہوگی لیکن اندھیرے میں چور پر حملہ کرتے وقت ایسا وار چل جائے کہ اس کی موت واقع ہوجائے تو یہ حق دفاع کے تحت آئے گا، اگر چور نے بھی ہتھیار نکال لیا تو پھر یہ دفعہ 100 کے تحت آجائے گا۔
دفعہ 102: اس دفعہ کے تحت یہ بتایا گیا ہے کہ دفاع کا حق کب شروع ہوتا ہے اور کب ختم ہوتا ہے،اس دفعہ کے مطابق جیسے ہی خطرہ کا احساس ہو اور خطرہ کی معقول وجوہات پائی جائیں اور تحفظ کا کوئی راستہ نہ ہو تو دفاع کا حق شروع ہو جاتا ہے اور خطرہ ٹلنے تک رہتا ہے، خطرہ ٹلنے کے بعد اب دفاع کا حق باقی نہیں رہتا، مثلا گھر کے سامنے ایک شخص ہتھیار ہاتھ میں لئے مالک مکان کو یہ دھمکی دے رہا ہو کہ وہ اسے گھر میں گھس کر ختم کردے گا، اس دھمکی کو سن کر مالک مکان کو دفاع کا حق مل جائے گا لیکن کچھ دیر بعد وہ حملہ آور چلا جائے اور نہتا ہوکر دوبارہ وہاں سے گذرے اور مالک مکان کو اس کے نہتا ہونے کا یقین بھی ہو تو چونکہ مالک مکان کا دفاع کا حق ختم ہوچکا ہے لہذا اس شخص پر کسی بھی قسم کا حملہ دفاع کے حق کے بجائے انتقام تصور کیا جائے گا جو کہ جرم قرار دیا جاسکتا ہے۔
دفعہ 103: اس دفعہ کے تحت چار جرائم کی صورت میں جائیداد کے دفاع میں حملہ آور کی ”بالقصد و بالارادہ“جان لینے کی اجازت ہوگی، چار جرائم یہ ہیں، (1) ڈکیتی (2) رات کے وقت نقب زنی (3) انسانی استعمال میں موجود عمارت یا خیمہ میں آگ لگانا (4) ایسی چوری یا غیر قانونی مداخلت جس کے تعلق سے یقین ہو کہ اگر دفاع نہ کیا جائے تو جان کا خطرہ ہے۔
دفعہ 104: مذکورہ بالا چار جرائم کے علاوہ دوسرے جرائم کی صورت میں جان لئے بغیر دفاع کا حق حاصل ہوگا، ہاں جیسا کہ دفعہ 101 میں ذکر کیا گیا کہ بالقصد اور بلا قصد کا فرق یہاں بھی رہے گا۔
دفعہ 105: دفعہ 102 کی طرح جائیداد کے دفاع کا وقت بھی جرم کے شروع ہونے سے ختم ہونے تک رہتا ہے، جرم ختم ہونے کے بعد دفاع کا حق نہیں ملے گا، مثلا چور چوری کرکے چلا جائے تو اب اسے پیچھے ہتھیار لے کر جانا کہ تلاش کرکے اس سے مال واپس لے لیا جائے یہ عمل حق دفاع میں نہیں آئے گا۔
دفعہ 106: اس سلسلہ کی آخری اور اہم دفعہ میں اس نکتہ پر بحث کی گئی ہے کہ اگر جان کا دفاع کرتے وقت یہ محسوس ہو کہ کوئی معصوم بھی دفاعی حملہ کی زد میں آسکتا ہے تو کیا دفاع کا حق استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ تعزیرات ہند میں اس مسئلہ کو ایک دلچسپ مثال سے واضح کیا گیا ہے، مثال کے مطابق اگر زید پر کوئی بھیڑ قاتلانہ حملہ کرتی ہے اور اس بھیڑ میں معصوم بچے بھی ہیں اور زید اپنے دفاع کا حق گولی چلائے (یا اندھا دھند تلوار پھرائے) بغیر استعمال نہیں کرسکتا ہے اور زید کے اپنے حق کے استعمال کی صورت میں اگر کوئی معصوم مرجائے یا کسی معصوم کو نقصان پہونچ جائے تو زید کا یہ عمل جرم کے دائرے میں نہیں آئے گا، حالانکہ وہ معصوم صرف بھیڑ کا حصہ تھے حملہ آور نہیں تھے.
مضمون نگار سے رابطے یا اپنی رائے کے اظہار کے لئے:
+919966870275

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×