سیاسی و سماجی

دنیا میں آئی مصیبت کی اس گھڑی میں ہم کیا کریں؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ حالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کی بیماری سے خوف زدہ ہے۔ ہزاروں افراد اس وبائی مرض کی وجہ سے مرگئے ہیں اور لاکھوں افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام بیماروں کو شفاء کاملہ وعاجلہ نصیب فرمائے اور پوری دنیا کو اس مرض سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔ ہمیں ہر وقت خاص کر ایسے مصیبت زدہ حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہئے، اپنے گناہوں سے معافی کے ساتھ اللہ کے احکام پر پابندی سے عمل کرنا چاہئے۔ قرآن کریم میں بھی حالات آنے کے وقت صبر اور نماز کے ذریعہ مدد حاصل کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآن وحدیث میں نماز پڑھنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ صرف قرآن پاک میں تقریباً سات سو مرتبہ، کہیں صراحۃً اور کہیں اشارۃً مختلف عنوانات سے نماز کا ذکر ملتا ہے۔ صرف نماز ہی دین اسلام کا ایک ایسا عظیم رُکن ہے جس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرمﷺ تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیت ِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب ﷺ کو عطا فرمایا۔ انس وجن کے نبی حضور اکرمﷺ کی قیمتی زندگی کاکافی وقت نماز میں ہی گزرا، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مزمل میں بیان فرمایا ہے کہ نبی رات کا ایک تہائی یا آدھی رات یا دو تہائی رات قیام فرماتے ہیں۔ لہذا ہم نمازوں کا خاص اہتمام رکھیں۔ برصغیر میں کورونا وائرس پھیلنے کو روکنے کے لئے اسباب کے تحت مساجد میں چند افراد نماز بجماعت ادا کررہے ہیں جبکہ عام لوگ گھروں میں پڑھ رہے ہیں، مساجد کو بالکلیہ بند نہیں کیا گیا ہے، یہی تعلیمات تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں لوگوں کو دی ہیں۔ مساجد میں نماز بجماعت ادائیگی کے متعلق اس وقت کچھ افراد افراط وتفریط کے شکار ہیں، ایک طبقہ کی ساری صلاحیتیں اس پر لگ رہی ہیں کہ مساجد میں بالکلیہ تالا لگادیا جائے، ان کے نقطہ نظر میں اس بیماری سے حفاظت صرف مساجد میں تالا لگانے سے ہی ممکن ہے خواہ سڑکوں پر لوگ کھڑے ہوں، ٹی وی چینل اور اخباروں کے دفاتر میں بیٹھ کر اس موضوع پر بحثیں ہورہی ہوں۔ انہیں مساجد میں اللہ کی یاد میں بیٹھے چند افراد کی تو فکر ہے لیکن شوپنگ سینٹر کی لائنوں میں موجود سینکڑوں افراد کی نہیں۔ دوسری طرف کچھ لوگ علماء کرام کی تعلیمات کے برخلاف مساجد میں ہی نماز پڑھنے پر مصر ہیں۔ ہمیں اس بیماری سے بچنے کے لئے اسباب اختیار کرتے ہوئے مساجد کو ویران ہونے سے بچانا ہے۔ اس لئے علماء کرام نے درمیانی راستہ اختیار کیا ہے کہ چند حضرات مسجد میں نماز بجماعت ادا کریں باقی لوگ گھروں میں پڑھیں۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض ہمارے بھائی مصیبت کی اس گھڑی میں بھی نماز کی ادائیگی نہیں کررہے ہیں۔ سبھی حضرات سے درخواست ہے کہ حتی الامکان اپنے گھروں میں رہیں، نمازوں کا خاص اہتمام رکھیں کیونکہ اس وبائی مرض سے بچنے کے لئے دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ نمازوں کا اہتمام ضروری ہے۔ فرصت کے اوقات میں گپ شپ کرنے کے بجائے نماز تہجد، نماز اشراق اور نماز چاشت جیسی نفل نمازیں ادا کریں۔ ہمارے نبی ان نمازوں کو بھی پڑھا کرتے تھے۔ شعبان کا مبارک مہینہ شروع ہوگیا ہے، ماہِ شعبان بہت سی فضیلتوں کا حامل ہے، رمضان کے بعد آپﷺ سب سے زیادہ روزے اسی ماہ میں رکھتے تھے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کو کبھی پورے مہینے کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا، سوائے شعبان کے کہ اس کے تقریباً پورے دنوں میں آپ روزے رکھتے تھے۔ (بخاری، مسلم) اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو ان دنوں روزے بھی رکھ لیں۔ نیز صاف ستھری اور سادہ غذا کا استعمال کریں اور دو چار لقمے کم کھائیں کیونکہ بعض بیماریاں پیٹ کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
ایک اہم درخواست مالدار اور حیثیت والے حضرات سے ہے کہ وہ اس مصیبت کے وقت غریبوں کی حتی الامکان مدد کریں، ضروریات زندگی کا سامان خرید کر ان کے گھر تک پہنچانے کا انتظام کریں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (بخاری) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ ( بخاری،مسلم) البتہ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ زکوٰۃ کی رقم صرف مسلم غریب لوگوں کو ہی دی جاسکتی ہے، نیز سال مکمل ہونے سے پہلے بھی زکوٰۃ پیشگی ادا کی جاسکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے سبز لباس پہنائے گا۔ جوشخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔ ( ترمذی)
اس وبائی مرض کے خاتمہ کے لئے دعاؤں کے ساتھ ہمیں سچے دل سے توبہ بھی کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! اللہ کے حضور سچی توبہ کرو۔ کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہاری برائیاں تم سے جھاڑ دے، اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کردے، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ (سورۃ التحریم۸) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے کہا کہ وہ سچی توبہ کریں۔ سچی توبہ کے لیے ضروری ہے کہ پہلے گناہ سے باہر آئیں، اس گناہ پر شرمندہ بھی ہوں اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ بھی ہو۔ لیکن اگر توبہ کے بعد پھر گناہ دوبارہ ہوجائے تب بھی ہمیں چاہئے کہ ہم دوبارہ سچی توبہ کریں۔ ہمیں گناہوں سے بچ کر ہی زندگی گزارنی چاہئے، لیکن اگر ایک ہی گناہ بار بار ہوجائے تب بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہنا چاہئے۔ ہاں یہ فکر ضرور کریں کہ اس حال میں موت کا فرشتہ ہماری روح نکالنے کے لیے نہ آئے کہ ہم کسی بڑے گناہ میں مبتلا ہوں اور معافی مانگنے کا موقع بھی نہ مل سکے۔

(www.najeebqasmi.com)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×