سیاسی و سماجی

شخصیت سازی کے رہنما اصول

ہر انسان کی دلی خواہش و تمنا یہی ہوتی ہے کہ وہ سماج میں ایک مؤثر شخص بنے،ترقی کی راہوں پر چلے ،معاشرہ میں لوگ اسے عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھیں،اور وہ مرکز توجہ بنارہے، اس کی ہر بات قول فیصل کا درجہ رکھے، مگر اب سوال یہ ہے کہ ایک انسان کیسے ترقی کی منزلوں پر پہونچے؟یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جسے حل کرنے کے لئے ہر زمانہ میں کچھ ناقص و فرسودہ اصول مرتب ہوتے رہے حتی کہ ایک ایسا زمانہ بھی آیا کہ یہ ایک مستقل فن بن گیا، جسے "علم نفسیات”کہا جاتاہے، ماہرین نفسیات نے اس مسئلہ کے حل کے لئے مختلف اصول مرتب کئے جو درحقیقت کتاب وسنت ہی سے ماخوذ ومستنبط ہیں ، جسے اختیار کرنے کے بعد ایک انسان خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو ،وہ دنیا ہی میں ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکتاہے،اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کرسکتا ہے،وہ اصول درجہ ذیل ہیں؛
( ۱)مال کے پیچھے نہ بھاگے
کسب مال ،اور اس کے حصول کے لئے جد وجہد کرنا،مال دار ہونا یہ کوئی قابل ذم  نہیں بلکہ اگر اس نیت سے کیاجائے کہ دوسروں سے مانگنا نہ پڑے یہ عین عبادت ہے ،لیکن اگر اسی مال کو اپنا مقصد زیست  بنا لیاجائے، اس کی محبت رگ وریشہ  میں پیوست ہوجائے،دن ورات اسی کے حصول کی فکر میں بسر ہو، اور اس پر بھوکے بھیڑیے کی طرح اس طرح  ٹوٹ پڑے کہ نہ رشتہ داری کا پاس ولحاظ ہو، نہ کسی غریب کی فکر رہے اور نہ کسی کی پریشانی دور کرنے کی فکر ،بلکہ”المال ظل زائل”کو بھلاکر مال ہی کواپنا رفیق حیات وممات سمجھنے لگے، تو یہ حب مال اس کی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا،اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا”انما اموالکم واولادکم فتنہ(تمہارے مال و اولاد ایک تمہارے لئے ایک آزمائش ہے)ایک حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا”ان لکل امۃفتنۃ وفتنۃ امتی المال، رواہ مسلم (ہر قوم کے لئے ایک فتنہ ہے میری امت کا فتنہ مال ہے)ارشاد نبی ہے کہ دو بھوکے بھیڑیے جن کو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑدیاجائے تو اتنا نقصان نہیں پہونچائیں گے جتنا کہ مال کی حرص آدمی کے دین کو نقصان پہونچاتی ہے،یہی فرق ہے ایک کافر اور مسلمان میں، بہ قول شاعر؛
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
اس لئے ضروری ہے کہ  مال کے پیچھے نہ بھاگے ورنہ دنیا اور مال کی محبت  ہمیں ذلیل و رسوا کرکے رکھ دے گی۔

۲۔   شہرت کے پیچھے نہ بھاگے
ہر عمل میں مخلص رہے اس لئے کہ اخلاص تمام عبادات کی اساس و روح ہے ،شہرت ونام طلبی یہ محض دھوکہ  اور پل بھر کا تماشہ ہے بقول شاعر ؛
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشہ ہے
جس ڈالے پہ یہ بیٹھے وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے

اورشیطان کا ایسا ہتھیار ہے جس سےوہ بڑے بڑے متقیوں کو بھی گھائل کردیتا ہے، شہرت طب انسان سادہ زندگی سے محروم رہتاہے،اور انسان  غیر محسوس طریقہ پرخود پسندی میں مبتلا ہوجاتاہے،اسی خول میں وہ اپنی تمام زندگی گزار لیتاہے ،اسی یہ پتا بھی نہیں ہوتا کہ اس کے اعمال عند اللہ قبول بھی ہوے یا نہیں؟   ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن شہرت طلب مجاہد، غنی،اور عالم کو بلاکر  جہنم میں ڈال دیا جائیگا ،اور کہاجائے گا کہ تو نے یہ تمام اعمال تو کئے مگر ریاکاری اور طلب شہرت کے لئے ،تجھے یہ نام و شہرت مل گئی اب تیرا کوئی حصہ نہیں ،اس لئے کہاجاتا ہے کہ quality مقصود ہے quantity مقصود نہیں ،اس لئے ہم ہر عمل میں مخلص رہیں۔
۳۔گلہ شکوہ نہ کرے
ہر حال میں راضی بہ رضا رہے،ملتا تو وہی ہے جو رب کائنات نے اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے پھر خواہ مخواہ اپنی قسمت ومقدر پر رونا، کڑھ کڑھ کر زندگی گزارنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ انسان مقدر پر راضی ہوجائے،
لاکھ تقدیر پر روئےکوئی رونے والا
صرف رونے سے تو کچھ نہیں ہونے والا

جو بھی ملے اسے من جانب اللہ سمجھے، آج جب ہم غور کرتے ہیں کہ ہماری زندگی میں خوشیاں کیوں نہیں؟راحت وسکوں کیوں لٹ چکا ہے؟برکتوں ورحمتوں کے بجائے نحوستوں نے کیوں ڈیرے ڈال رکھے ہیں ؟ تو یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ مقدر پر راضی نہ رہنے کی وجہ سے ہے، اللہ نے ارشاد فرمایا "مااصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل ان نبرأھا ان ذلک علی اللہ یسیر، لکیلا تأسوا علی مافاتکم ولاتفرحوا مماآتاکم”کوئی مصیبت جو دنیا میں آئے وہ سب ایک کتاب میں محفوظ ہےان کے پیدا کرنے سے پہلے، یہ اللہ کے نزدیک آسان ہے،تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے اس پر رنج نہ کرو،اور جو چیز عطا ہوی اس پر نہ اتراؤ۔
۴۔ہر ایک کو فائدہ پہونچانے نے کی فکر کریں
نافع بنیں،آپ دوسروں کو جتنازیادہ فائدہ پہنچائیں گے آپ کی کامیابی کا درجہ اور ہول بڑھتا ہی چلاجائےگا، اللہ تعالی کا ارشاد ہے”فاما الزبد فیذھب جفاء واما ماینفع الناس فیمکث فی الارض” دوسروں کو وہ دیں جو آپ سے مطلوب ہے، اور  بدلہ میں  وہ پائیں جو آپ ان سے چاہتے ہیں،کسی مسکین، یتیم اور بیوہ کی مالی امداد ہی فائدہ پہونچانا نہیں ہے بلکہ کسی کو مفید مشورہ دینا،مریض کی عیادت کرنا،ضرورت کے وقت کام آجانا،غریب کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنا،لوگوں کو خیر کے کاموں کی طرف رہنمائی کرنا،گمراہ کو راستہ بتانا، سب اسی میں داخل ہے۔دوسروں کے لئے جینا سیکھیں،بقول شاعر؛
اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کامقصد اوروں کے کام آنا۔

۵۔مثبت سونچ (possativemind )
سقراط سے کسی نے پوچھا:میرا مستقبل کیسا ہوگا؟سقراط نے ایک کاغذ منگوایا، اور کہا کہ اس پراپنے خیالات لکھو!اس نے جو سونچا تھا سب کچھ لکھ دیا،سقراط نے کہا:جیسے تمہارے خیالات ہیں،اسی کے مطابق تمہارا مستقبل ہوگا۔
اچھی سونچ ایک ایسا خزانہ ہے جس سے مٹی کوبھی سونا بنایا جاسکتاہے،جبکہ منفی سونچ رکھنے والا شخص سونے کوبھی ہاتھ لگائے تووہ بھی مٹی ہوجائے، مثبت سونچ انسان کو صابروشاکر بناتی ہے،اچھا سونچنے والے لوگ مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ،خود کو دوسروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑتے،مثبت سونچ سے دنیاکو فتح کیا جاسکتا ہے،منفی سونچ یہ زندگی کو تباہ و برباد کردیتی ہے،جس کی وجہ سے ایک انسان ذہنی،نفسیاتی ،جذباتی، نظری وفکری،ہر لحاظ سے بانجھ ہوجاتاہے،حسدوجلن ،کینہ ونفرت، دشمنی وعداوت اسی منفی سونچ کےاثرات و نتائج ہیں۔اسی لئے ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا”اناعند ظن عبدی بی”(میں اپنے بندوں کے گمان کے ساتھ ہوں)اسی لئے ہمیشہ مثبت سونچ رکھیں۔
۶۔کامیاب لوگوں سے ملتے رہیں
آپ کا اٹھنا بیٹھنا،جس قسم کے لوگوں میں ہوگا،ان کا رنگ آپ کی سونچ پر ضرور پڑے گااسی لئے کہاجاتا ہے "صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالح ترا طالح کند”،کامیاب لوگوں کی دوستی آپ کو بھی کامیاب بناسکتی ہے، اسی لئے کہاجاتا ہے "خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے” ہم ان افرادکی سیرت وسوانح پڑھیں جنہوں نے کامیاب زندگی گزاری ،اس لئےکہ جس قوم نے اپنے اسلاف کی روشن تاریخ کو بھلادیا ،تو تاریخ شاہد ہے کہ اس قوم کا سورج جلد غروب ہوجاتا ہے۔
۷۔قناعت کرنا
قناعت یہ ایک اعلی ترین انسانی صفت ہے،قناعت کرنے والا شخص اپنی خواہشات کو اپنی ضروریات وحالات کےتابع کردیتاہے،وہ زیادہ کی دوڈ میں شامل ہونے کے بجائے صبر کے دامن میں پناہ لیتاہے،لوگوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے اپنے آپ سے مقابلہ کرناپسندکرتاہے،دوسروں سے مانگنے کے بجائے فاقہ پر راضی رہتا ہے ،یہی وجہ تھی آپﷺکے جسم مبارک پر چٹائی پر سونے کی وجہ سے نشانات آجاتے  تھے،حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے کہ آپﷺدنیا سےاس حال میں رخصت ہوے کہ آپ کے پاس صرف دوکپڑے تھے،اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اس صفت سے مزین ہو،شاہ خرچیوں سے پچیں، آمدنی کے مطابق خرچہ کریں، اس لئے کہ آج وہ کتنا ہی مال دار ہو کل کا اسے پتہ نہیں،ضرورت پڑے گی تو لامحالہ وہ  دوسر وں سے قرض مانگے گا ،اوریہ قعر مذلت کی ایک سیڑھی ہے۔
کسی کو کیا بتائیں ضرورتیں اپنی
مدد ملے نہ ملے آبرو توجانی ہے

۸۔شکر گزاری
عطاء پر شکر اور چھین جانے پر صبر کریں اس سے نعمتوں میں اضافہ اور حزن وملال میں کمی آتی ہے اللہ کا ارشاد ہے "لئن شکرتم لازیدنکم "دن ورات خدا کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے رہیں۔
۹۔تواضع و عاجزی (humbleness )
تواضع کے بغیر عروج و بلندی ،قدرومنزلت کا حصول ناممکن ہے، ایک حدیث میں آپ !ﷺنے فرمایا”من تواضع للہ رفعہ اللہ ومن تکبر وضعہ اللہ (جو عاجزی اور تواضع اختیار کرے اللہ اسے لوگوں کی نگاہوں میں معزز بنا دینگےاور جو تکبر کرے اللہ اسے ذلیل  و رسوا کرکے رکھ دینگے)، ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” لایدخل  الجنۃ من کان  فی قلبہ مثال درۃ من الکبر(جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا) ” تواضع و انکساری ایک ایسی نعمت ہے جس پر کسی کو حسد نہیں ہوتا  ، غرور کا ایک ہی قطرہ تواضع کے چشمہ کو آلودہ کرنے کے لئے کافی ہے،تکبر یہ تمام فسادات کی جڑ ہے،حضرت حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ  فرماتے ہے کہ :میرے شیخ حاجی امداد اللہ صاحب فرماتے ہے کہ :اتفاق کی جڑ تواضع ہے،اگر کوئی دوسرے کو خود سے افضل سمجھنے لگے تو پھر نااتفاقی اور جھگڑے کی نوبت ہی نہ آئے،کیونکہ نااتفاقی تو اسی سے پیدا ہوتی ہے کہ ہر شخص اپنے کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے،(ملفوظات حکیم الامت۱۰/ ۱۰۰)متکبر سے لوگ ملنا بھی پسند نہیں کرتے،اگر اس کو اس کے سمجھ کے مطابق مقام و مرتبہ نہ ملے تو وہ ڈپریشن کا شکارہوجاتاہے، نیز یہ قطع رحمی،لڑائی جھگڑے اورقتل قتال کا سبب ہے ۔
۱۰ ۔خود اعتمادی( self confidence )
خود اعتمادی کی دولت عام انسان کو بادشاہ بنادیتی ہے،اور اعتماد کی کمی ایک اچھے خاصے با صلاحیت آدمی کو بھی خاص سے عام کی صف میں لاکھڑاکردیتی ہے،یہ خود اعتمادی ہی ہے جو انسانوں میں پہاڑوں کے تسخیر کرنے کا حوصلہ پخشتی ہے،اور کامیابیوں سے ہمکنار کرتی ہے،خود اعتمادی سے سرشار شخص ہی زندگی کی مشکلات پر قابو پاکر کامیابی حاصل کرسکتاہے،اپنے راستے خود ہموار کرلیتاہے، کسی کے سہارے کی اسے ضرورت ہی نہیں ہوتی،یہی وجہ تھی چند صحابہ ہوتے لیکن کافروں کے ہزاروں افراد پر غالب آجاتے،خالد بن ولید ؓ کے خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ اکیلے ہی رومیوں کے لاکھوں افراد کے ختم کرنے کے لئے تیار تھے، اور محمد بن قاسم نے متحدہ ہندوستان کو کم عمری میں ہی فتح کرلیا تھا،خود اعتمادی کی کمی اور احساس کم تری انسان میں بزدلی،میدان سے فرار اور غلامی جیسی مذموم  صفات  پیدا کردیتی ہے،اس لیے انسان پہلے اپنی حقیقت سے آشنا ہو ،اور اپنے ذہن سے یہ جملہ”Ican’nt do it”نکال دے، اس لئے کہ خدا نے دنیا میں انسان کو کسی ایسی چیزکا مکلف ہی نہیں بنایا جو انسان کی قدرت سے پرے ہو ،بس خود اعتمادی کی کمی ہے ،اس لئے علامہ اقبال نے کہا تھا؛

آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو ، کھیتی بھی تو ، باراں بھی تو ، حاصل بھی تو

آہ ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو ، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو

کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
ناخدا تو ، بحر تو ، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو
۱۱۔ خودداری (selfdipent )
خود داری اور عزت نفس دونوں لازم و ملزوم ہے اور یہ ایسا اخلاقی وصف ہے جس سے انسان اپنی عزت، اپنے مرتبہ اور اپنی وقار کی حفاظت کرتا ہے،اپنی ضرورت صرف خداسے مانگے ،کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے میں  ذلت کے سوا کچھ نہیں ،ایک حدیث قدسی میں ہے کہ جو میرے غیر سے لو لگائے گا میں اس کی امیدیں منقطع کردوں گا، اور اسے ذلت کا لباس پہناؤں گا،اکبر الہ آبادی نے کہاتھا؛
خدا سےمانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبر!
یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
ایک حدیث میں ہے "الیدالعلیا خیر من الید السفلی(دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے)
صحابہ میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود تھی، ایک نکیل بھی گر جاتی تو تو دوسروں سے نہ مانگتے،
یہ نہ مانگنا غرور نہیں بلکہ بقول علامہ سید سلیمان ندویؒ :یہ خوداری عین شرافت ہے جس میں یہ نہ ہو اس کا وقار نہیں(سیرت النبی ۲/۵۴۰)

۱۲۔نٹ ورک اورتعلقات کو وسیع بنائیں
ہندوستان کے موجودہ حالات کے اعتبار سے  تعلقات کو وسیع سے وسیع تر بنانا انتہائی ضروری ہے ،اورترقی کے دور میں یہ  ناممکن بھی نہیں، تاکہ مصیبت ومشکل وقت میں آپ کے متعلقین آپ کا ساتھ دیں ،تعلقات جتنے زیادہ ہوں گے دشمن سے مقابلہ اتنا ہی آسان ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×