مولانا ابو الکلام آزاد کی صحافتی خدمات
ہندوستان کی صحافتی تاریخ میںمولانا ابو الکلام آزادکا مقام بہت بلند ہے۔ خاص طور سے ان کے شاہ کار ’الہلال‘کی حیثیت ایک مینارۂ نور کی ہے۔مولانا نےایک طرف ’الہلال‘ کے ذریعے خوابِ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہندستانی سماج کو بیدارکیا، دوسری طرف تحریکِ آزادی کے کارواں کو بھی مہمیز کیا۔انھوں نے اپنی صحافت کے ذریعے نہ صرف قومی و ملّی جذبات کی ترجمانی کی بلکہ عالمی مسائل کا احاطہ بھی کیا۔ ان کی صحافت نے درحقیقت اُردو صحافت کو ایک نیا معیار و اعتبار عطا کیا۔
ادوار: مولانا آزادکی صحافت کو تاریخی اعتبار سے مندرجۂ ذیل چار ادوارمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے؛پہلا دور جو 1889-1903ءکا زمانہ ہے،یہ تجربے اور مشق کا دور ہے۔ جس میں انھوں نے مختلف اخبارات و رسائل کے ذریعے میدانِ صحافت کی سیاحت کی۔ دوسرا دور وہ ہے،جب ان کی عمر تقریباً 20 سال ہوئی تو ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی، جس کے چلتے کچھ وقت کے لیے وہ صحافت سے کنارہ کش ہو گئے۔ لیکن یہ وقفہ ’الہلال‘کی صورت میں نمودار ہوا، جس نے صحافت کے نور کو عام کیا۔ اسے ان کی صحافت کا تیسرا دور شمار کرنا چاہیے۔اس دور میں چھبیس ہزار کی اس کی تاریخی اشاعت نے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور علامہ اقبالؔ تک نے اس کے لیے خریدار فراہم کیے۔’الہال‘ نے موضوعات کا بے مثال تنوع پیش کیا،جس میں مذہب، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، عمرانیات، جغرافیہ، تاریخ و سوانح اورمسائل حاضرہ نیز ادب وغیرہ سب ہی کچھ موجود تھا۔مولانا کی صحافت کا چوتھا اور آخری دور رانچی میں نظربندی اور رسل رسائل کے منقطع ہو جانے کا دور ہے، جس میں انھوں نے تصنیف و تالیف کو خصوصی مشغلہ بنایا۔ اس اجمال کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
نیرنگِ عالَم:یہ دراصل ایک ماہانہ ’گلدستہ‘ تھا،جس میں شعری کلام شایع ہوتا تھا۔ مولانا نے فقط گیارہ سال کی عمر یعنی نومبر 1899ء میںاسے ہریسن روڈ پر واقع ہادی پریس، کلکتہ سے جاری کیا۔ اس کے غالباًآٹھ شمارے شایع ہوئے، جو ان کی عمر کے لحاظ سے حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔
خدنگِ نظر:1897ء میں منشی نوبت راے نے لکھنؤ سے ایک ماہنامہ بہ نام ’خدنگِ نظر‘ نکالنا شروع کیا تھا، جس میں ابتداء ً صرف منظوم کلام شایع ہوتا تھا، 1900ء سے جب اس میں مضامین شایع ہونا شروع ہوئے تو اس نثری حصے کی ترتیب مولانا کے سپرد کی گئی۔
المصباح:تقریباً بارہ سال کی عمر یعنی22جنوری 1901ءکو مولانا نے مصر کے ایک اخبار’مصباح الشرق‘ کی تقلید میں ہفتہ وار ’المصباح‘ نکالنا شروع کیا، جس میں پہلا مضمون ’عید‘لکھا۔ یہ اس قدر مقبول ہوا کہ متعدد اخبارات نے اسے شایع کیا۔ ’المصباح‘نے تین چار ماہ جاری رہ کر دم توڑ دیا۔
احسن الاخبار:1901ء میں سید احمد حسن نے کلکتے سے ’احسن الاخبار‘نامی ایک ہفتہ وار جریدہ جاری کیا تھا۔مولانا اس میں جنوری 1902ء سے منسلک ہوئے اور تقریباً دو سال تک اس کی ترتیب کی خدمات انجام دیں۔ اس میں مولانا کے متعدد مضامین بھی شایع ہوئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے مصر، قسطنطنیہ، طرابلس اور تیونس وغیرہ کے اخبارات کا مطالعہ کیا،اسی کے زیرِ اثر انھوں نے مصر کے اخبارات ’الہلال‘ اور ’المنار‘کی طرح اپنے جریدوں کے نام ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ رکھے۔
لسان الصدق:ماہ نامہ ’لسان الصدق‘ کا پہلا شمارہ 20نومبر 1903ء کو شایع ہوا تھا، جب کہ مولانا کی عمر فقط پندرہ سال تھی۔ اس زمانے میں بھی مولانا کی سنجیدگی و متانت کا یہ عالم تھا کہ ان کی تحریروں سے متاثر ہو کر ’انجمن حمایتِ اسلام، پنجاب‘کے اصحاب نے 1904ء کے سالانہ اجلاس میں مدیرِ لسان الصدق کو خطاب کی دعوت دی۔ یکم اپریل 1904ء کو مولانا نے اس اجلاس میں ’تبلیغِ اسلام کا طریقِ کار‘کے موضوع پر تقریر کی۔ ’لسان الصدق‘ تقریباً اٹھارہ ماہ جاری رہ کر بند ہو گیا۔
الندوۃ:1905ء میں مولانا شبلی نعمانی نے مولانا آزاد کو لکھنؤ آنے اور ماہ نامہ ’الندوہ‘کی ترتیب و تدوین میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ یہ خالص علمی و تحقیقی مجلّہ اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا آرگن تھا اور اس وقت مولانا کی عمر تقریباً سترہ سال تھی۔اس سے مولانا آزاد کے فضل و کمال کا اندازہ لگانا آسان ہے کہ شبلی نعمانی جیسے محقق و مصنف نے انھیں ایسی اہم ذمّے داری سونپنے کا فیصلہ کیا۔مولانا آزاد ان کی دعوت پر اکتوبر 1905ء سے مارچ 1906ء تک چھے ماہ ’الندوۃ‘ میں خدمات انجام دیتے رہےاور پھر کسی سبب علاحدہ ہو گئے۔
وکیل:’الندوہ‘سے علاحدہ ہونے پر امرتسر سے شیخ غلام محمد نے انھیں ’وکیل‘کی ادارتی ذمّے داری سپرد کی، جس کی مقبولیت میں مولانا نے اپنی صلاحیتوں و محنتوں سے خوب اضافہ کیا۔ لیکن اس دوران بھائی- مولوی ابوالنصر غلام یاسین جو عراق میں سیاحت کی غرض سے گئے ہوئے تھے- کا انتقال ہو جانے کے سبب انھیںاپریل سے نومبر( 1906ء) فقط آٹھ ماہ میں امرتسر کو خیر باد کہنا پڑا۔ اگست 1907ء میں ایک بار پھر وہ اس خدمت پر مامور کیے گئے، لیکن ناسازگیِ طبیعت کے سبب تقریباً ایک سال میں جولائی یا اگست 1908ء کو علاحدہ ہو گئے۔
دارالسلطنت:یہ کلکتے سے شایع ہونے والا ایک ہفت روزہ اخبار تھا، جس کے مالک و مدیر عبدالہادی تھے۔ ان کے انتقال کے بعد اس کی اشاعت موقوف ہو گئی تھی۔ 1907ء میں ان کے صاحب زادے محمد یوسف نے اسے دوبارہ جاری کیا اور اسی زمانے میں قلیل عرصے کے لیے مولانا نے اس کی ادارت سنبھالی۔
الہلال اور البلاغ:اس کے بعد مولانا نے ’الہلال‘ جاری کیا۔ اِ س کا اپنا پریس ، انتظامی اور ادارتی عملہ تھااور مولاناآزاد اُس کے تمام امور کے نگراں اور مدیرِ مسئول تھے۔’ الہلال‘ نے بہت جلدشان دار مقبولیتِ عام حاصل کر لی تھی۔جس کی وجہ ترقی پسند سیاسی تخیلات، معقول مذہبی ہدایات اور عمدہ و سنجیدہ ادبی شہ پارے کا شامل ہونا تھا۔مولانا کا یہ کارنامہ حکومت کی آنکھ میں ابتدا سے ہی کھٹکتا رہا اور اس کی طرف فقط دو مہینے یعنی 18ستمبر1912ء کو دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی، جو ادا کر دی گئی۔لیکن الٰہ آباد کے ایک انگریزی روزنامے ’پانئیر‘کی طرف سے لکھے جانے والے ایک سخت مضمون کی پاداش میں سابقہ رقم ضبط کر کے مزید دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کی، جس کی عدم استطاعت کے سبب 8نومبر 1914ء میں بیس شمارے مکمل کرکے اسے موقوف کرنا پڑا۔ تقریباً سال بھر کے بعد 12نومبر 1915ء کو مولانا نے نئے نام ’البلاغ‘ سے ایک رسالے کا اجرا کیا، جو کہ ’الہلال‘نقشِ ثانی تھا۔ لیکن یہ بھی فقط پانچ ماہ جاری رہ کر مارچ 1916ء کو حکومت کے عتاب کا شکار ہو کر بند کر دیا گیا۔
پیغام:مولانا نے23ستمبر 1921ء کو کلکتہ سے ’پیغام‘نامی ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا، جس کی ترتیب مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کے سپرد کی گئی تھی۔ اس میںمولانا نے معرکہ آرا تحریریں شایع کی ہیں، لیکن دیگر ملکی و سیاسی ذمّے داریوں کے سبب وہ اس جانب کماحقہ توجہ نہیںدے سکے۔اسی سال 17 نومبر کو شہزادہ ’ویلز‘ہندستان آیا، جس کا ’پیغام‘نے بایکاٹ کیا اور بالآخر مولانا آزاد اور مرتب مولانا ملیح آبادی 9فروری 1922ء کو عدالتی فیصلے کے بعد جیل چلے گئے، اور ’پیغام‘بند کر دیا گیا۔ اس کا آخری شمارہ 16دسمبر 1921ء کو شایع ہوا۔
الہلال(دورِ ثانی): پھر تقریباً بارہ سال کے بعد ’الہلال‘کے دورِ ثانی کا آغاز ہوا اور 10جون 1927ء کو اس دور کا پہلا شمارہ شایع کیا گیا۔جس میں مولانا شبلی نعمانی،مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبد السلام ندوی اور مولانا عبد اللہ عمادی وغیرہ کی قلمی کاوشیں شایع ہوتی تھیں اور اس کی ترتیب وغیرہ کے ذمّے دار مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی تھے، لیکن اس بار بھی بیس شمارے شایع ہو کر 9دسمبر 1927ء کو بند کر دیا گیا۔
علاوہ ازیں روزنامہ اقدام، مخزن،ماہ نامہ ریویو، تحفہ احمدیہ، رسالہ محمدیہ اور ماہ نامہ الجامعہ(عربی) میں بھی مولانا نے صحافتی خدمات انجام دی ہیں۔مولانا کے نزدیک صحافت ترسیل و ابلاغ کے ساتھ رائے سازی و رہنمائی کا بھی وسیلہ تھا، لیکن ان کی سیمابی طبیعت کسی ایک جگہ ٹھہر کر کام کرنے کا موقع نہ دیتی تھی۔