سیاسی و سماجی

انصاف کی عدالت

مذہب اسلام ربانی مذہب ہے ،اس کے سارے احکامات منزل من اللہ ہیں ،اس کا ہر حکم انسانیت کی صلاح وفلاح اور کامیابی کا ضامن ہے، اس کے ارشادات وفرمودات سرتاپا رحمت ہیں ،اس کی تعلیمات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس کو دین فطرت اور دین حنیف بھی کہا جاتا ہے ، اس کا ہر حکم اور اس کی تمام تر تعلیم عدل وانصاف پر مبنی ہے ، سراپا عدل وانصاف کا دوسرا نام ’’ اسلام ‘‘ ہے کیونکہ یہ اپنے خالق ومالک اور پالنہار کی ماننے کی تعلیم دیتا ہے اور اس کی خلاف ورزی سے روکتا ہے ، جس طرح ایک ماں اپنے شیر خوار بچے کو دہکتی ہوئی آگ میں گرنے سے بچانے کی کوشش کرتی ہے اسلام انسانیت کو ابدی ذلت ورسوائی اور ہمیش گی کی آگ میں گرنے سے بچانے کی فکر کرتا ہے ، جو اس کی مانتا ہے وہ اپنی کامیابی کا تاج اپنے سر رکھتا ہے اور جو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے درحقیقت وہ اپنے پیر وں پر خود کلہاڑی مار تا ہے،اسلام کے معنی ہی سلامتی اور امن کے ہیں ،اس کی تعلیمات میں خیرکے سوا اور کچھ نہیں ہے،توحید ورسالت کے بعد عدل وانصاف ،مساوات وبرابری ،پیار ومحبت اور امن وآشتی اس کا امتیازی وصف ہے ،اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین پوری انسانیت کے لئے آب حیات کا درجہ رکھتی ہیں ،جس طرح پانی اور ہوا کے بغیر جاندار کے حیات کا تصور محال ہے ٹھیک اسی طرح تعلیمات اسلام اور ربانی احکامات کے نفاز کے بغیر انسانوں کی اس نگری میں عدل وانصاف اور امن وامان کا قیام نا ممکن ہے،اسلام کی بنیاد ہی عدل وانصاف کا قیام ہے ،خدا کو ایک ماننا اور صرف اسی کی پرستش کرنا یہ عدل ہے ،برخلاف خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرانا، کسی اور کی ماننا یہ ظلم وزیادتی ہے، اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرتے ہیں ،ان کا ہر کام عدل و وانصاف پر مبنی ہوتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عادل خدا کے صفاتی ناموں میں سے ایک ہے ، اصل میں عدل مصدر ہے ،اس کا مادہ ع،د،ل، ہے ،عدل کا معنی سیدھا ہے ، یہ جور کی ضد ہے،بعض حضرات کے نزدیک افراط وتفریط کے درمیان متوسط کام کا نام ’’ عدل ‘‘ ہے ،نیز امور ومعاملات ِ قضامیں درست اور برابری کا رویہ اختیار کرنے کو عدل کہا جاتا ہے۔
قرآن مجید جو آسمانی آخری کتاب ہے ،ربانی احکامات کا مجموعہ ہے ،انسانی ہدایت کا ذریعہ اور ان کے لئے ایک عظیم ربانی تحفہ ہے ،اس میں بار بار ،الگ الگ طریقہ سے اور نہایت مشفقانہ انداز سے آپس میں عدل وانصاف کا حکم دیا گیا ہے اور ظلم وناانصافی سے باز رہنے کی تاکید ی تعلیم دی گئی ہے ، قران مجید میں عدل کے متعلق ارشاد ہے:ِنَّ اللّٰہَ یَأۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ(نحل:۹۰)،صاحب تفسیر روح المعانیؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’عدل ام الفضا ئل عمل ہے ،عدل اصل میں مساوات کا دوسرا نام ہے،عدل دراصل ظلم کی ضد ہے،یعنی اگر عدل ہو تو ظلم کا خاتمہ یقینی ہے،عدل وانصاف کے موضوع پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ علماء کرام ؒ کی ایک بڑی تعداد کا یہ قول ہے کہ اگر قرآن مجید میں صرف یہی آیت نازل ہوتی تو ہدایت کے واسطے کافی ہوتی،رسول اللہ ؐ کی ذات مبارکہ سراپا عدل تھی ،آپ ؐ سے بڑا کوئی منصف نہیں ہے ،آپ ؐ نے اپنے قول وفعل اور عمل وکردار کے ذریعہ دنیائے انسانیت کو عدل وانصاف کی تعلیم دی اور دنیا کے سامنے عدل وانصاف کا عملی نمونہ بن کر دکھایا،اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ ؐ کو انسانیت کی ہدایت ،رہنمائی اور رہبری کے لئے مبعوث فرمایا تھا اور انہیں اچھائی کی تعلیم دینے اور بُرائی سے روکنے کا حکم دیا تھا وہیں ان کے درمیان عدل وانصاف کرنے کا بھی حکم فرمایا تھا ،قرآن مجید میں ارشاد ہے:وَقُلۡ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّہُ مِن کِتَابٍ وَأُمِرۡتُ لِأَعۡدِلَ بَیۡۡنَکُمُ(شوری:۱۵)’’ اور کہدو کہ میں تو اس کتا ب پر ایمان لایا ہوں جو اللہ نے نازل کی ہے، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں‘‘، قرآن مجید میں ایک مقام پر ان الٖفاظ کے ساتھ عدل و انصاف کی تاکید کی گئی ہے ،ارشاد ہے: وَإِذَا حَکَمۡتُم بَیۡۡنَ النَّاسِ أَن تَحۡکُمُواۡ بِالۡعَدۡلِ(النساء:۸۵)’’اور جب بھی تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘ ،عدل وانصاف ظلم وجور کا خاتمہ کرتا ہے ،جس سے امن وسکون اور معاشرہ میں صالح انقلاب برپا ہوتا ہے اس لئے اس موقع پر عادل اور منصف کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف سے کام لیں اور اہل قرابت ، اہل تعلق یا پھر کسی کے دباو میں آکر انصاف کو شرمندہ نہ ہونے دیں ، بعض لوگ منصف بن کر بھی نا انصافی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور لوگوں کے دباؤ میں آخر انصاف کو دبا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ظلم کو سر اٹھانے کا موقع ملتا ہے ،ظالموں کے حوصلے پلند ہوتے ہیں ، جس کے نتیجہ میں ظلم وزیادتی سے معاشرہ کا امن وسکون برباد ہوجاتا ہے ،مظلوم پس کر رہ جاتے ہیں اور جب فرش پر ان کی فریاد سننے والے کوئی نہیں ہوتے تو پھر عرش پر خالق ان کی سنتا ہے اور اس کا قانون عدل ظالموں پر نافذ ہوتا ہے پھر وہ نیست نابود ہوکر نشانہ عبرت بن جاتے ہیں ،قران مجید میں منصفوں کو تاکیدی حکم دیا گیا ہے کہ وہ کسی کے اشاروں پر یا کسی کے دباؤ میں آکر انصاف کرنے سے پیچھے نہ ہٹیں ،ارشاد ہے:وَلاَ یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَآنُ قَوۡمٍ عَلٰی أَلاَّ تَعۡدِلُوۡا اِعۡدِلُوۡا ہُوَ أَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی(المائدہ:۸)’’اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو ،،انصاف سے کام لو یہی طریقہ تقوی سے قریب ہے ‘‘ ،اس آیت مبارکہ میں کس قدر واضح اور صاف حکم دیا گیا ہے کہ دوستی یادشمنی انصاف میں حائل نہیں ہونی چاہیے ،فریقین جو بھی ہوں جب ان کے درمیان عدل کا موقع آئے تو انصاف سے کام لینا چاہیے ، یہ متقیوں کا شعار ہے اور عمل تقوی ہے ۔
رسول اللہ ؐ کی حیات طیبہ میں حق وانصاف اور عدل ومساوات پر مبنی ایسے بے نظیر فیصلے ہوئے کہ جس کی نظیر ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ،حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ قریشی حضرات ایک مخزومی عورت کے بارے میں بہت فکر مند تھے ،جس نے چوری کی تھی جو لوگوں سے سامان لے کر مکر جایا کر تی تھیں،آپ ؐ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا ،ان قریشی حضرات نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس عورت کے مقدمہ میں کون آپ ؐ سے گفتگو یعنی سفارش کر سکتا ہے اور پھر انہوں نے یہ کہا کہ حضرت اسامہ ؓ سے رسول اللہ ؐ کو بہت محبت وتعلق ہے اس لئے اس بار ے میں آپ سے کچھ کہنے کی جرأت اسامہ ؓ کے علاوہ اور کسی کو نہیں ہوسکتی ،چنانچہ ان سب نے اسامہ ؓ کو تیار کیا کہ وہ اس عورت کے بارے میں آپ ؐ سے گفتگو کریں ،حضرت اسامہ ؓ نے ان کے کہنے پر آپ ؐ سے گفتگو کی ،آپ ؐ نے ان کی بات سن کر فرمایا ’’تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟ اور پھر آپؐ کھڑے ہوئے خطبہ دیا اور حمد وثنا کے بعد فرمایا: تم سے پہلے لوگ جو گزرے ہیں ان کو اسی چیز نے ہلاک کیا کہ ان میں سے کوئی شریف آدمی (دنیوی عزت وطاقت رکھنے والا) چوری کرتا تو وہ اس کو سزادئے بغیر چھوڑ دیتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی کمزور وغریب آدمی چوری کرتا تو سزا دیتے تھے ،قسم ہے اللہ کی! اگر محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں‘‘(بخاری)، آپ ؐ نے اس فیصلہ کے ذریعہ پوری انسانیت کو پیغام دیا کہ ظلم وناانصافی کرنے والا چاہے کوئی ہو اسے اس کے کئے کی سزا ملنی چاہیے ، انصاف کے وقت یہ دیکھا نہیں جائے گا کہ مجرم کون ہے بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس کا جرم کیا ہے ،جرم کے ثابت ہوجانے کے بعد اس کی سفارش کرنا بھی جرم ہے ، مجرموں کو چھوٹ دینا اور ناانصافی سے کام لینا بد ترین قسم کی ناانصافی ،بے ایمانی اور معاشرہ کی تباہی ہے ،آپ ؐ کے تربیت یافتہ اور آپ ؐ کے سچے غلاموں نے بھی عدل وانصاف پر مبنی فیصلہ کرکے معاشرہ کے رخ کو صحیح راہ پر موڑ دیا تھا ،دشمنوں کو دوستی پر مجبور کیاتھا ،ان کے فیصلے تاریخ کا حصہ بن گئے جس پر تاریخ آج بھی ناز کرتی ہے ،ایک مرتبہ حضرت علی ؓ کی ذرہ گرپڑی اور ایک نصرانی کے ہاتھ لگ گئی ،حضرت علیؓ نے اسے دیکھا تو پہچان گئے اور قاضی شریح کی عدالت میں دعوی کیا ،نصرانی نے جھوٹ بولا کہ یہ ذرہ اس کی ہے ،قاضی نے حضرت علی ؓ سے ثبوت کے بارے میں دریافت کیا ،آپ ؓ کا جواب نفی میں تھا ،لہذا فیصلہ نصرانی کے حق میں ہوگیا ، لیکن اس واقعہ کا نصرانی پر اتنا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا ، ایسے بے شمار عدل وانصاف کے واقعات ہیں جو تاریخ کے ہزاروں صفحات کی زینت بنے ہوئے ہیں اور اپنے پڑھنے والوں کو دعوت عمل دے رہے ہیں ،رسول اللہ ؐ ،صحابہ ؓ اور آپ ؐ کے سچے غلاموں نے ہر موقع پر اور ہر عہدہ پر عدل وانصاف سے کام لیا ،کبھی کسی موڑ پر صداقت وعدالت سے پیچھے نہیں ہٹے ، جسے دیکھ کر دشمن بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ جب یہ اس درجہ مقام عدل پر فائز ہیں تو ضرور ان کا دین صداقت وعدالت کا امام ہوگا ۔
سچائی کی جیت کا ایک انوکھا واقعہ جس نے کفر کے دلدل میں پھسے لوگوں کو نکال کر اسلام کے سایہ عافیت میں لا کھڑا کیا ، یہ اس زمانہ کا واقعہ ہے جب ہندوستان پر انگریز وں کا قبضہ تھا ، شمالی ہند کا ایک قصبہ ’’کاندھلہ‘‘ جسے اپنے وقت کے بڑے علماء اور مشائخین کی جائے پیدائش اور ان کا مسکن ہونے کاشرف حاصل ہے میں سلسلہ ٔ عالیہ نقشبندیہ کے بلند پایہ عالم دین اور صاحب نسبت بزرگ رہتے تھے ،ان دنوں اس قصبہ میں زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوگیا ،مسلمان اپنی ملکیت بتاتے ہوئے یہاں مسجد کی تعمیر کرنا چاہتے تھے تو دوسری طرف غیر مسلم اسے اپنی ملکیت قرار دے کر اس جگہ مندر بنانے پر مصر تھے ، اس تنازعہ نے پورے قصبہ کے ماحول کو گرم کر رکھا تھا، فسادات کے بھڑکنے کا قوی امکان پیدا ہوچکا تھا ، ہر گلی کوچے میں اسی کی گونج اور ہر ایک کی زبان پر اسی کا چرچا تھا، بات آگے بڑھی اور پھر مقدمہ عدالت میں پہنچ گیا، جج انگریز تھا وہ بہت متفکر ہوا کہ کس طرح اسے سلجھایا جائے ، آخر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ،اس نے عدالت میں کھڑے لوگوں پر ایک نظر ڈالی ،کمرہ کھچاکھچ بھرا ہوا تھا ،سب کی نظریں جج کی طرف مرکوز تھی ،آپ لوگوں کے پاس کوئی ایسی تجویز ہے جس سے جھگڑے کے بغیر کوئی حل نکل آئے؟ جج کے پوچھنے پر غیر مسلموں میں سے ایک سمجھدار شخص نے کہا ،ہاں جج صاحب میرے پاس ایک ترکیب ہے جس کے ذریعہ اس مسئلہ کا حل ممکن ہے ، ہمارے علاقہ میں ایک مسلمان عالم دین ہیں انہیں بلاکر پوچھ لیجئے ،وہ جس کی تائید کریں گے انہیں کے حق میں آپ فیصلہ سنادیجئے،مگر ہم ان کا نام تنہائی میں بتائیں گے اس بھرے مجمع میں نہیں ،جج نے ایک بار پھر پورے مجمع کی طرف دیکھا اور ان سے جواب جاننا چاہا ، پورے ہال پر سکتہ طاری تھا ،غیر مسلموں کے ذہن میں یہ بات آئی کہ جب ہمارا آدمی کسی کا نام پیش کر رہا ہے تو ضرور اس میں کوئی حکمت ہوگی ،انہوں نے اس تجویز کو قبول کر لیا اور مسلمانوں نے یہ سمجھ کر منظوری دے دی کہ وہ شخص مسلمان ہے تو ضرور ہماری ہی تائید کرے گا، سب کا اتفاق پاکر جج نے اگلی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے تب تک کیلئے عدالت کی کاروائی کو ملتوی کر دی ،پھر مقررہ تاریخ پر انہیں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ، حسب سابق عدالت کا کمرہ فریقین سے بھر چکا تھا ،سب کی نگاہیں دروازہ پر ٹکی ہوئی تھیں ،بھرے سناٹے میں ایک سادہ لباس میں ملبوس مگر باوقار ،رعب دار ،نورانی چہرہ والی شخصیت کمرۂ عدالت میں داخل ہوئی ،یہ تھے حضرت مولانا مفتی الٰہی بخش نقشبندی ؒ ، جج نے مفتی صاحب سے گفتگو شروع کرتے ہوئے کہا کہ فلاں زمین کے سلسلہ میں مسلمان اور غیر مسلم میں تنازعہ چل رہا ہے ،بات آگے بڑھ کر یہاں تک آپہنچی ہے ،فریقین نے آپ کی گواہی پر رضامندی ظاہر کی ،اس لئے ہم نے آپ کو یہاں آنے کی زحمت دی ہے ،بتائیے یہ زمین کس کی ہے؟ ،عدالت میں سناٹا چھاگیا ،لوگ سانسیں روک کر جواب سننے کے منتظر ہیں ،حضرت مفتی صاحب نے بڑے پروقار انداز میں جج کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا ’’جج صاحب یہ زمین ہندؤں کی ہے ‘‘ جج نے پوچھا تو کیا ہندو اس جگہ پر مندر بنا سکتے ہیں ؟ مفتی صاحب نے فرمایا ہاں بالکل ،چنانچہ جج نے اسی وقت جج منٹ دیتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ لکھے کہ ’’ آج کے اس مقدمہ میں مسلمان ہار گئے مگر اسلام جیت گیا‘‘جیسی ہی جج نے فیصلہ سنایا تو دوسرے ہی لمحہ غیر مسلموں نے کہا جج صاحب فیصلہ تو ہمارے حق میں ہوگیا ،ہم نے زمین ضرور جیتی ہے مگر مسلمانوں نے ہمارے دل جیت لئے ،اب ہم کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اور اسی جگہ مسجد تعمیر کریں گے۔
قوم مسلم جن کا مذہب عدل وانصاف پر قائم ہے ،جن کے عدل وانصاف پر مبنی فیصلوں کی دنیا کی قومیں مثال دیتی ہے ،جن کے پیغمبر ؐ نے عدل ومساوات کا سبق پڑھایا ،ظلم وناانصافی کے دلدل سے انسانوں کو باہر نکالا ،جنہوں نے انسانیت کا احترام سکھایا ،پوری دنیا کے انسانوں کی نسبت آدم کی طرف کی ،انسانیت کی بنیاد پر انصاف کا حکم دیا ،بھیت بھاؤ سے باہر نکالا ،گورے کالے کا فرق مٹایا، جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی، ایسی جگہوں پر عبادت سے منع کیا جس سے دوسرے کو تکلیف ہوتی ہے ،ناجائز ایک بالشت زمین کسی کی ہڑپ کرنے پر آخرت میں سخت پکڑ کی وعید سنائی ، بھلاوہ کس طرح بے ایمانی اور ناانصافی کر سکتے ہیں جن مسلم بادشاہوں نے دسیوں سو سال حکومت کی اور ان کے دور حکومت میں بلا لحاظ مذہب وملت سب مل جل کر رہے ،ان کے بارے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کسی ایسے مقام پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کی جس پر پہلے سے کسی مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ تھی اور وہ بھی بلا ثبوت کے ،اللہ تعالیٰ کسی کو دے کر آزماتا ہے تو کسی سے لے کر آزماتا ہے ،تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان حاکم تھے تو بھی عدل سے کام لیا تھا اور محکوم ہیں تو بھی حق کی گواہی کے لئے تیار ہیں ،اگر کوئی حکومت اور تخت کے نشے میں عدل وانصاف کو بالائے طاق رکھتا ہے اور اپنی کرسی کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو بھلے مظلوم خاموش ہو جائیں مگر تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور قدرت جس طرح دینا جانتی ہے اسی طرح لینا بھی جانتی ہے ،اگر اللہ نے منصف بنایا ہے تو انصاف ٹھیک سے کرنا ہوگا ،جب انصاف کا ترازو نا انصافی کی طرف جھکتا ہے تو پھر خدا کی پکڑ اور گرفت سے وہ بچ نہیں سکتا ،کسی نے انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوئے منصفوں سے کہا ہے ؎
انصاف کا ترازو جو ہاتھ میں اٹھائے

جرموں کو ٹھیک تولے
ایسا نہ ہو کہ کل کا اتہاس کار بولے

مجرم سے بھی زیادہ
منصف نے ظلم ڈھایا

کیں پیش اس کے آگے غم کی گواہیاں بھی
رکھیں نظر کے آگے دل کی تباہیاں بھی

اس کو یقین نہ آیا
انصاف کر نہ پایا

اور اپنے اس عمل سے
بدکار مجرموں کے ناپاک حوصلوں کو

کچھ اور بھی بڑھایا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×