سیاسی و سماجی

ستم گر رہنما ہوگئے

تاریخ دنیا کی کتاب میں دو کالم ہیں ،ایک ظالم حکمرانوں کے اور دوسرے عادل حکمرانوں کے ، دونوں کی طرز حکومت سے دنیا وقف ہے اور دونوں کا طرز عمل بھی یاد ہے ،مگر فرق اتنا ہے کہ ظالم حکمران یاد ہیں اور عادل حکمرانوں کو انہوں نے یاد رکھا ہے ، ظالم حکمرانوں کو ان کے ظلم وستم اور جور وبربریت کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں یاد رہتا ہے ،ان کے ظلم وستم کی داستانیں سنائی جاتی ہیں اور ان کے کالے کرتوتوں سے دنیا کو واقف کرایا جاتا ہے ،یہ کسی اچھائی کی وجہ نہیں بلکہ اس سے عبرت حاصل کرنے اور ان کے ظالمانہ طریقوں سے بچنے کے لئے ہوتا ہے ،اس کے بر خلاف عادل حکومتوں اور انصاف کے ترازو میں تولنے والوں کا تذکرہ اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ نئی نسل کو ان کی عمدہ حکمرانیوں ،اچھائیوں اور خوبیوں سے واقف کرایا جا سکے تا کہ اس کے ذریعہ آنے والوں کو رہنمائی ورہبری مل سکے اور ان کے طرز عمل کو اختیار کر سکے ، تاریخ میں یہ بات پوشیدہ نہیں ہے بلکہ اس کا ہر ایک صفحہ اس کی گواہی دیتا ہے کہ اسلام کی آمد اور اس کے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ؐ کی تشریف آوری سے قبل پور ے جزیرۃ العرب پر ظلم وجور کے برستے بادل تھے ،ہر طاقتور کمزور پر ،ہر مالدار غریب پر اور ہر عہدہ دار اپنے ماتحتوں پر ظلم ڈھاتا تھا بلکہ وہ ظلم وستم کو اپنا حق سمجھتے تھے ،انسان انسانیت سے نیچے گر چکے تھے ،آدمیت صرف ظاہری شکل صورت تک محدود ہوکر رہ گئی تھی ،عفریت اپنے عروج پر تھی ،شیطانیت رقص کر رہی تھی اور چہار سو بد امنی پھیلی ہوئی تھی ،اس نازک ترین دور میں اللہ کے آخری پیغمبر تشریف لائے ، وہ کیا آئے پژمردہ انسانیت کو نئی زندگی ملی ،ظلم وجبر کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اور ہر طرف عدل وانصاف کے جھنڈے لہرائے ، نبی رحمت ؐ نے بلند آواز میں ، صاف طور پر یہ اعلان کر دیا اور خدا کا پیغام خداکے بندوں تک پہنچاتے ہوئے فرمایا کہ تم سب ایک ماں باپ کی اولاد ہو ،کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں ،کسی گورے کو کالے پر برتری نہیں ،بلکہ تم میں معزز وہ ہے کو خدا سے ڈرنے والا ہے ، پھر خلفائے راشدین کا دور خلافت آیا ،اسلامی حکومت و سلطنت کا رقبہ دور دور تک پھیلنے لگا اور لوگ اس کی بے مثال تعلیمات اور قانون امن سے امن وسکون پانے لگے ،خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق ؐ نے اپنے دور خلافت میں امن وامان اور بہترین نظم وضبط کی ایک مثال قائم کردی ۔
سیدنا عمر فاروقؐ نے اپنے دور خلافت میں امن وامان ،نظم وضبط اور رعایا کی حفاظت و سہولت کی خاطر کئی محکمے قائم کئے اور اس پر قابل ترین لوگوں کو مقرر فرمایا ،محکمہ پولیس ،محکمہ نظم ونسق اور ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لئے جوانوں کے دستے متعین فرمائے ،آپ ؓ بنفس نفیس حالات کا جائزہ لینے کے لئے بازار وں کا دورہ کیا کرتے تھے اور خرید وفروخت کا مشاہدہ کرتے تھے ، رعایاکے احوال سے واقفیت کی خاطر رات شہر کی گلیوں کا چکر لگایا کرتے تھے ،انصاف کا ترازو ہمیشہ اور ہر ایک کے لئے تیار رکھتے تھے ،مظلوم چاہے غریب ہو اور ظالم چاہے صاحب ثروت کیوں نہ ہو انصاف کرنے میں عدل سے کام لیتے تھے اور جب تک انصاف نہیں کرتے تھے آپ ؓ کو چین نہیں آتا تھا،آپ ؓ کی رعایا میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی ہوتے تھے مگر آپ ؓ نے ان کے ساتھ بھی حسن وسلوک ،برابری اور انصاف کا معاملہ کیا ،کبھی بھی انہیں اپنے غیر مذہبی ہونے کا احساس تک نہ ہونے دیا ،یہی وجہ تھی پورے مملکت اسلامی میں امن وسکون قائم تھا ، عدل وانصاف کا بول بالا تھا ،محبت وپیار کا ماحول تھا ،امن وشانتی کا بسیرا تھا، رات لوگ بے فکر ہوکر سویا کرتے تھے اور دن کو بغیر کسی خوف وحراس کے اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے تھے ،سیدنا عمر فاروق ؓ کی حکومت اور آپ ؓ کا دور خلافت پورے دنیا کے حکمرانوں کے لئے رول ماڈل ہے ،آپ ؓ نے اپنے عمل وکردار سے دنیا کے حکمرانوں کو پیغام دیا کہ حکومت ظلم وجور سے نہیں عدل وانصاف سے چلتی ہے اور عادل حکمران، لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے برخلاف ظالم حکمران کے جو لوگوں کے جسموں پر حکمومت کرتا ہے اور جسموں پر حکومت کرنے والے کو ظالم اور دلوں پر حکومت کرنے والے کو عادل کہتے ہیں ۔
یہ ایک سچی حقیقت ہے کہ انصاف قوموں کی زندگی کو زندہ اور توانا رکھتا ہے ،جس قوم میں انصاف نہیں پایا جاتا وہ قوم اپنی طاقت خود کھو دیتی ہے اور دوسروں کی نظر وں میں ہی نہیں بلکہ خود کی نظر میں بے وزن اور بے وقعت ہو کر رہ جاتی ہے ،یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم میں برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کو اس کے سپہ سالار نے بتایا کہ ہم شکست کھانے والے ہیں اور جاپانی فوجیں لندن کا محاصرہ کر چکی ہیں تو اس نے صرف ایک سوال کیا ۔۔۔’’ کیا ہماری عدالتیں ابھی تک انصا ف کر رہی ہیں ۔۔۔؟‘‘ جواب ملا ۔۔۔۔۔جی ہاں!،تو چرچل نے کہا: ’’پھر ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا ‘‘ ،پھر تاریخ گواہ ہے کہ جاپانی فوج کو آخر کار پسپا ہونا پڑا ،اسی طرح ایک عظیم چینی فلسفی ’’ کنفیوشس‘‘ سے کسی نے پوچھا کہ ’’ اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں ہوں ،’’انصاف، معیشت اور دفاع‘‘ اور بوجہ مجبوری کسی چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس چیز کو ترک کیا جائے ؟ ،کنفیوشس نے جواب دیا : دفاع کو ترک کردو ،سوال کرنے والے پھر پوچھا ،اگر باقی ماندہ دو چیزوں میں انصاف اور معیشت میں سے کسی ایک کو ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے ؟ ،کنفیوشس نے جواب دیا: معیشت کو چھوڑ دو ،اس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا ۔۔۔۔معیشت اور دفاع کو ترک کیا جائے تو قوم بھوکی مرجائے گی اور دشمن حملہ کر دیں گے ؟ تب کنفیوشس نے کہا : نہیں ! ایسا نہیں ہوگا بلکہ ایسا ہوگا کہ انصاف کی وجہ سے اس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باند کر دشمن کا راستہ روک لیں گے ،عدل وانصاف ملک وملت کی ترقی اور قوموں کے عروج کا ذریعہ ہے ، جو لوگ اپنوں کے ساتھ عدل وانصا ف نہیں کرتے وہ دوسروں کے لئے کبھی بھی نمونہ اور مثال بن نہیں سکتے ،حکمرانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی رعایا کو اعتماد میں لیں اور اس کے مطالبات کو پورا کریں ،رعایا کے درمیان مذہب ومشر ب ، خاندان و نسب اور امیری غریبی کی تفریق کرنا بد ترین قسم کا جرم اور انسانی پستی کی علامت ہے ۔
وطن عزیز پر اس وقت جو طبقہ حکومت کی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے اس کے طرز عمل ،جارحانہ تیور ،سخت فیصلے اور متنازع بلوں کو پاس کراتا ہوا دیکھ یہی کہا جاسکتا ہے اس وقت وہ اقتدار کے نشے میں چور ہے اور خود کو بہت کچھ سمجھنے لگا ہے ،افسوس تو اس بات پر ہے کہ جمہوریت کے نام پر جمہوری قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ،انصاف کے نام پر انصاف کاخون کیا جارہا ہے ،برابری کے نام کمزور طبقات کو اور خصوصاً اقلیت کو کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور بے حد افسوس تو اس بات پر ہے کہ یہ سب جمہوریت کی مندر کہی جانے والی عمارت (پارلیمنٹ ) میں کیا جارہاہے ،یہ وہ لوگ ہیں جن کی ایوان بالا میں رسائی انصاف کے نام پر یا پھر رعا کی خدمت اور خیر خواہی کے نام پر نہیں بلکہ مذہب کا نعرہ لگا کر ہوئی ہے ،ان کا مقصد عوام الناس اور ملکی باشندگان کی خدمت اور انہیں سہولت پہنچانا نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد اپنے مفادات کے حصول اور دیر تک کرسی پر رہتے ہوئے خواہشات کی تکمیل ہے ،انہوں نے اقتدار کی کرسی سنبھالنے کے بعد سے ہی ملک میں مذہبی نفرتوں کو پروان چڑھانا شروع کر دیا تھا ،ان کے لیڈران کے زہر اگلنے والے بیانات اس کی مضبوط دلیل ہیں ،انہوں نے عورتوں کے حقوق اور تحفظ کے نام پر شریعت اسلامی میں مداخلت کرتے ہوئے متنازعہ خواتین کا بل کو پاس کیا ، اس کے بعد سیاہ قانون (CAA,NRC,NPR) کے ذریعہ اقلیتوں کو محروم کرنے کی سازش رچی ،اسے پہلے پہل آسام میں نافذ کیا اور اس کے بعد پورے ملک میں لاگو کرنے کی بات کہی گئی ،جس کے بعد سے پورے ملک میں ایک ہنگامہ مچ گیا ،لوگوں سڑکوں پر اتر آئے ،جگہ جگہ صدائے احتجاج بلند ہونے لگے ،شاہین باغ کو صدائے احتجاج کی مرکزیت حاصل ہوئی ،جن لوگوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلندکیا ان پر حکومت نے طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی ،مظلوموں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ،انہیں جیلوں میں مقید کیا گیا اور ظلم کی حد یہ کردی کہ ان پر ملک سے غداری کا الزام لگایا گیا ،خیر کورونا وائرس کی وبا نے آکر اس پر وقتی روک لگائی ہے مگر حکومت کے تیور وہیں ہیں اور اب بھی ان کے مذموم عزائم میں کمی نہیں آئی ہے جس کا اظہار وقتا فوقتا ان کے لیڈران کرتے آرہے ہیں ،یہ کیسی عجیب بات ہے آزادی کے بعد ستر سال قبل بنائے گئے دستور میں صریح تبدیلی کرکے بھی یہ وفادار اور محب وطن ٹہرے اور دستور بچانے کے لئے جد جہد کرنے والے ملک دشمن ٹہرے ،شاید آزادی کے بعد ان ستر سالوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ عوام جن میں مرد عورتیں ،بچے بوڑھے ،ہندو ،مسلم ،سکھ ،عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں سبھوں نے مل کر منظم احتجاج کیا تھا ۔
ادھر کورونا وائرس جس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے نفاذ نے عوام کی نیندیں اڑادی تھی ،ہر طرف افراتفری کا ماحول تھا ،مزدور طبقہ سڑکوں پر نکل آیا ،غریب ومتوسط کھانے کھانے کو ترسنے لگے ،تاجر پریشانی کی مو رت بن گئے اور اسکولس ومدارس بند ہونے کی وجہ سے لاکھوں ٹیچرس واساتذہ تنخواہوں سے محروم ہو گئے اور ان میں سے بعض ترکاری و چائے بیچنے پر مجبور ہو گئے ،یہ تکلیفیں ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ حکومت کی جانب سے کسانوں پر زبر دست بم گرایا گیا ،کسان بل پاس کردیا گیا،بیچارے کسان ویسے بھی اپنی زمینوں اور فصلوں کو لے کر پریشان رہتے ہیں ،انہیں اس بل کے ذریعہ مزید پریشانی میں ڈال دیا گیا ،کسان سڑکوں پر نکل آئے اور اس بل کی مخالفت کرنے لگے ،تقریبا ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا ہے ہزاروں کی تعداد میں کسان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور حکومت وقت سے بل کے واپس لینے اور ان کے ساتھ ظلم بند کرتے ہوئے انصاف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ، اس وقت سخت سردی میں ہزاروں کسان جن میں مرد ،عورتیں ،بچے اور بوڑھے ہیں سرکوں پر شب بسری کر رہے ہیں مگر حکومت ہے کہ ظالم وجابر بنی بیٹھی ہے ، اس بل کا مقصد کیا ہے ہر صاحب سمجھ جانتا ہے پھر بھی حکومت اس کے فوائد بتانے میں لگی ہوئی ہے اور اس کے ذریعہ لاکھوں کسانوں کو ان کی محنت کے بعد ان کے جائز منافع سے محروم کرنے میں لگی ہوئی ہے ،وہ اس کے ذریعہ راست طور پر سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے جو انتہائی گھٹیا حرکت ہے اور ظلم وبربریت کی انتہاء ہے۔
حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ان حکمرانوں کو عوام ہی نے اپنے وؤٹ کے ذریعہ حکمرانی عطا کی ہے ،یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ جنہوں نے انہیں کرسی پر بٹھا ہے یہ حکمران اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر ظلم کر رہے ہیں ،حکمرانوں کی ہٹ دھرمی دیکھئے اپنی ہی عوام وعایا سے بات تک کرنے تیار نہیں ہیں ،الٹا بڑی بے حیائی سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنے موقف سے ٹلنے والے نہیں ہیں ،کس قدر شرم کی بات ہے کہ جو چیز عوام نہیں چاہتی ہے اسے جبراً ان پر نافذ کرنا چاہتے ہیں ،شاید ان کے ظلم وستم اور ہٹ دھرمی کو دیکھ کر ظلم بھی اندر ہی اندر پشیمان ہو رہا ہوگا ، حکمران تو عوامی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں مگر یہ ہیں ان سے تحفظ چھیننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ، مگر یاد رکھیںظلم تو آخر ظلم ہے جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ ظالم کو لے کر ڈوبتا ہے ، یہ حکمرانوں کے ذہن میں رہنا چاہئے نہ وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور نہ ہی ان کی کرسی ہمیشہ سلامت رہے گی ، جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو پھر مٹ جاتا ہے ؎ ٓٓتے کو یاد طرح کے حکمروں نے نام
ظلم کی انتہا ہوگئی ،ستم گر رہنما ہوگئے
صدائیں گونجتی رہ گئی اور ہم بے زباں ہوگئے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×