سیاسی و سماجی

سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو

پوری دنیا جانتی ہے کہ پندرہ اگست ہندوستان کی تاریخ کا اہم ترین ،یادگار ،پُر مسرت اور تاریخی دن ہے، اسی دن ۱۹۴۷ کو طویل جدجہد اور بلا لحاظ مذہب وملت لاکھوں ہندوستانیوں کی جانوں کے نذرانے کے بعد تب کہیں جاکر ملک کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور ملک کو غاصب وقابض ،دھوکہ باز ومکار گوروں کے ظلم وستم سے نجات حاصل ہوئی ،یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ انتہائی چالاک وسفاک اور مضبوط و طاقتور انگریزوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ ملک پر غاصبانہ قبضہ چھوڑ کر واپس چلے جائیں ، اپنا پرچم لال قلعہ سے اتار کر لپیٹ دیں اور اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ان لوگوں کے سامنے ہتھیار ڈالدیں جنہوں نے قوت وطاقت اور اسلحہ و سامان حرب کے زور پر کامیابی حاصل نہیں کی تھی بلکہ ملک کی محبت والفت ، جد مسلسل ،عزم وحوصلہ اور آپسی اتحاد واتفاق کی قوت سے ملک کو فتح کیا تھا ،قابل تعریف ہیں وہ لوگ جنہوں نے مختلف دین و مذہب اور مسلک و مشرب سے جڑے ہونے کے باوجود ملکی اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے پے درپے انگریزوں پر حملے کرتے ہوئے انہیں ملک چھوڑ نے پر مجبور کیا تھا ،ان کی جرأت وبے باکی اور جانبازی وثابت قدمی نے انگریزوں کے ہوش اُڑادئے تھے ، ان کے بلند حوصلوں کے مقابلہ کی تاب نہ لاتے ہوئے بالآخر اُن کے حوصلے پست ہو گئے اور وہ ملک چھوڑ کر چلتے بنے ،سلام ہو آزادی کے ان جیالوں پر جنہوں نے اپنے خون کے آخری قطرے تک اور زندگی کی آخری سانس تک وطن کے لئے قربانی د ے کر اسے آزاد ی دلائی ،جن کی قربانیاں اور ناقابل فراموش کردار کو تاریخ ہند کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔
تاریخ ہند گواہ ہے کہ ان سچے محب وطن اور آزادی کے متوالوں نے غاصب انگریزوں کا ہر محاذ پر دیوانہ وار بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا تھا اور ہر موڑ پر ان کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا دیا تھا ، ان غیرت مند آزادی کے دیوانوں نے وطن عزیز کی محبت میں کبھی پھانسی کے پھندے کو چوما تھا تو کبھی بندوق کی تیز وطرّار گولی کھا کر منزل کا پتہ معلوم کیا تھا تو کبھی تلوار کی دھار پر سر رکھ کر آزادی کا نعرہ بلند کیا تھا تو کبھی جلتے ہوئے تنور میں کود کر آزادی کے شعلے بھڑکائے تھے تو کبھی توپ کے سامنے سینہ تان کر آزادی کیلئے جان کا نذرانہ پیش کیا تھا تو کبھی جیل کی اندھیری کوٹھریوں میں آزادی کے نغمے گنگنائے تھے ، غرض ان دیوانوں نے ہر راہ سے گذر کر منزل مقصود تک پہنچنے کی کوشش کی تھیں اور پہنچ کر ہی دم لیا تھا، جس وقت انگریز وں نے اپنی مکاری کے ذریعہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم کر لی تھی اور اس کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ ’’ خلق خدا کی ،ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘ تو اس وقت جنت نشاں ہندوستان مکمل طور پر انگریزوں کے قبضہ میں آچکا تھا ،ملک پر انگریزوں کا مکمل تسلط قائم ہو چکا تھا اور ملک کا ہر شہری غلامی کی زنجیر میں جکڑ چکا تھا ،ہر طرف بے چینی اور خوف کا ماحول تھا ،ہر ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہا تھا،بعض لوگ حواس باختہ تھے تو بعض مارے ڈر کے سہمے ہوئے تھے تو بعض غلامی پر راضی اور خوش تھے اور انگریزوں کے آلاء کار بن کر بزدلی وکم ہمتی کی فضا ء قائم کرنے میں لگے ہوئے تھے ،تاریخ ہند ان سب کو جانتی اور پہچانتی ہے جنہوں نے ملک کے مفاد میں گردن کٹائی تھی یا اپنے ذاتی مفاد کے لئے گردن جھکائی تھی ،ان نازک ترین حالات میں باشندگان ہند کو تسلی دیتے ہوئے ،ان میں جوش جہاد پیدا کرتے ہوئے ،ان کی پژمردگی دور کرتے ہوئے اور ان کی جان میں نئی جان ڈالتے ہوئے قائدانہ رول ادا کرتے ہوئے سر پہ کفن باند کر ،دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت گرجدار آواز میں جہاد کا فتویٰ جاری تھا جس سے انگریزوں کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی تھی اور انہیں ٹھنڈی چھاؤں میں پسینہ آنے لگا تھا ،وہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ مسلمانوں کے عظیم دینی وعلمی رہنماء ، محدث جلیل امیر الہند نازش وطن شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ تھے ،یہ ملک کی آزادی کیلئے جہاد کا سب سے پہلا فتویٰ تھا ، تاریخ ہند گواہ ہے کہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے فتوے نے پورے ملک میں زبردست ہلچل مچادی تھی ، شہر شہر ،قریہ قریہ ،گلی گلی آزادی کے نعروں سے گونج اُٹھا تھا ،ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے تھے ،آزادی کے پرچم لہرانے لگے تھے ،اس فتوے نے انگریز افسروں کی چین اُڑادی تھی اور ان نیند حرام کردی تھی ،یہ فتویٰ ان پر بجلی بن کر گر پڑا تھا ،اس کے بعد ہی علماء ہند نے جہد مسلسل کے ذریعہ ہر جگہ آزادی کی تحریک شروع کرتے ہوئے لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جنگ کے لئے میدان میں اتارا تھا ، تاریخ ہند کے اوراق گواہ ہیں کہ سب سے پہلے آزادی کی تحریک کی شمع علماء ہی نے جلائی تھی چنانچہ ۱۸۵۷ء؁ کی تحریک میں بے شمار علماء نے اپنی جانبازی کے جوہر دکھائے اور مغرور انگریز وں کے غرور کو خاک میں ملا کر رکھ دیا تھا ،اس تحریک میں بانی دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، عالمِ ربانی فقیہ ہند مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ سرپرست دارالعلوم دیوبند ،مولانا مملوک علی دیوبندی،حافظ ضامن شہیدؒاورمولانا جعفر تھا نیسری ؒ نے قائدانہ کردار نگھایا تھا ،اسی تحریک کے بعد انگریز افسروں نے اس میں شریک علماء اور محبان وطن پر انتقامی کاروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے ان کے ساتھ وہ ظلم وبربریت کا مظاہرہ کیا تھا اور ایسا دل ہلا دینے والا برتاو کیا تھا جسے سن کر دل دہل جاتا ہے اور درندے بھی کانپ جاتے ہیں ۔
مشہور انگریز مصنف سر ایڈ وڈ ٹامسن اپنی مشہور کتاب ــ’’ دی اَوورسائڈ آف دی ماڈل ‘‘ میں جنگ آزادی میں شریک ہونے والے علماء کرام کے خلاف انگریزوں کی جانب سے کی گئی سفاکانہ ،ظالمانہ اور درندہ صفت کاروایوں کو نہایت تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ،جسے پڑھ کر آنکھیں نم اور جسم لرزہ بر اندام ہوجاتا ہے ،مسٹر ٹامسن دہلی اور اس کے اطراف واکناف کے حالات کچھ اس طرح لکھتا ہے کہ’’ دہلی اور دہلی کے باہر درختوں کی شاخوں سے پھانسی کے پھندے لٹکادئے جاتے تھے اور معزز علماء کو لاکر ہاتھی پر بٹھا کر درخت کے نیچے لایا جاتا تھا اور پھندے ان کے گردن میں ڈال کر ہاتھی کو آگے بڑھا دیا جاتا تھا ،لاش پھندے میں جھول جاتی ،آنکھیں اُبل پڑتیں ،زبان باہر نکل جاتی ، اس وقت ذبح کئے ہوئے مرغ کی طرح جانکنی کا ہیبت ناک منظر سامنے ہوتا تھا ، اسی طرح تحریک آزادی کے درد ناک اور کربناک حالات کو ایک انگریز عورت نے اپنی ڈائری میں کچھ اس طرح لکھا ہے کہ بسا اوقات ان پھا نسیوں پر لٹکائے جانے والوں کی لاشیں تڑپ تڑپ کر انگریزی ہندسے 8 بن جاتی تھیں ، مسٹر ٹامسن آگے لکھتا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے جامع مسجد کے پاس کسی کے جلنے کی بو محسوس کی تو تحقیق حال کیلئے پیچھے گیا تو کیا دیکھا کہ بڑی بڑی دیگیں چولہوں پر چڑھائی گئی ہیں اور اس میں گرم پانی کھول رہا ہے اور قریب بڑی تعداد میں علماء کھڑے ہیں ان میں سے ایک ایک کو باری باری لایا جارہا ہے اور ان سے کہا جارہا ہے کہ صرف اتنا کہدو کہ تم ۱۸۵۷ء کی جنگ میں شریک نہیں تھے تمہیں چھوڑ دیا جائے گا ورنہ تمہیں اس کھولتے ہوئے پانی میں ڈالدیا جائے گا ،مسٹر ٹامسن کہتا ہے کہ مجھے پیدا کرنے والے کی قسم سبھوں نے گرم پانی میں جل کر جان دیدی مگر کسی ایک نے بھی انکار نہیں کیا ،مسٹر ٹامسن آگے مزید لکھتا ہے کہ ان میں سے بعضوں کو رسیوں سے جکڑ کر باندھ دیا جاتا اور ان پر توپ داغ دی جاتی جس کے نتیجہ میں جسم کا گوشت بوٹی بوٹی ہوکر فضا میں بکھر جاتا اور زمین پر ان کے خون کی بارش ہونے لگتی تھی‘‘ ۔
اس قدر سخت ترین اور ناقابل بیاں مصائب وآلام کے باوجود ان علماء کے پائے اقدس میں ذراسی جنبش نہیں آئی بلکہ وہ استقامت کا پہاڑ بن کر آزادی کی جد وجہد کرتے رہے ،عظیم مجاہد آزادی تحر یک ریشمی رومال کے بانی دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم اور اولین صدر المدرسین مولانا محمود حسن دیوبندی المعروف شیخ الہندؒ نے اپنی عالی ذہانت ، مدبرانہ سیاست اور قائدانہ قیادت کے ذریعہ تحریک آزادی کو ایک نئی جہت عطا کی آپؒ نے ریشمی رومال کے نام سے ایک عظیم تحریک چلائی اور جمعیۃ الانصار کے نام سے پورے ہندوستان کا ایک خاکہ مرتب کیا ،شیخ الہند کے ساتھ آپ کے شاگر د رشید شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند اور دیگر تلامذہ نے پوری قوت کے ساتھ ملک میں آزادی کی تحریک چلائی اور اسی جرم کی پاداش میں کئی سال مالٹا (کالاپانی) اور دیگر جیلوں کی کوٹھریوں میں گذاردئے ،شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ نے ہندوستان چھوڑ دوتحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انگریز فوج میں مسلمانوںکی بھر تی کو حرام ہونے کا فتویٰ دیا اور باوجود گرفتاری وارنٹ کے کراچی میں تحریک آزادی کے جلسہ میں سر پر کفن باندھ کر شرکت فرمائی اور خطاب کے دوران یہ شعر پڑھا ؎
لئے پھر تی ہے بلبل چونچ میں گل

شہید ناز کی تربت کہاں ہے؟
معروف مجاہد آزادی اورمشہور عالم دین مولانا جعفر تھانیسریؒکو انبالہ سازش کیس میں کالا پانی بھیج دیا گیا تھا آپ ؒ کم وبیش بیس سال گذار کر وطن واپس ہوئے ،مولانا فضل حق خیر آبادی علمی دنیا کے بادشاہ مانے جاتے تھے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے کے جرم میں گرفتار کرکے جزیرۂ انڈومان بھیج دیا گیا چنانچہ آپ ؒ نے وہاں پر قید وبند کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے اسی جزیرہ میں جان ِ عزیز وطن عزیز کیلئے قربان کردی اور وہیں پیوند خاک ہوئے،مولانا یحییٰ علی ؒ کو بھی انبالہ سازش کیس میں کالے پانی کی سزا ہوئی آپؒ لاہور ،کراچی،ممبئی کی جیلوں میں منتقل ہوتے رہے ،آخر میں جزیرۂ انڈومان منتقل ہوئے یہاں پر دوسال ایک ماہ گذار کر آپ نے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی اور وہیں پر سپرد خاک ہوئے ، مولانا عبید اللہ سندھی ؒ شیخ الہند کے شاگر د رشید اور تحریک ریشمی رومال کے علمبردار تھے ،آپ ؒ نے پوری زندگی جلاوطنی میں گذار دی ،آزادی کیلئے ہزاروں مصیبتوں کو برداشت کیا ،افغانستان ،ترکی ،روس ،عرب اور ایران جاکر تحریک آزادی کی کامیابی کیلئے راہیں تلاش کرتے رہے ،مولانا احمد علی لاہوری ؒ فن تفسیر میں اپنی مثال آپ تھے ،آپ ؒ تحریک آزادی میں حضرت شیخ الہند کے ساتھ وابستہ رہے ،سرکاری فائل میں جو ریشمی رومال تحریک سے متعلق ہے سب سے پہلے نام آپ ہی کا ہے ۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاری ؒ نیشنلسٹ مسلمانوں کے مجاہدِ اعظم ،شعلہ بیاں مقرر اور آتشِ نوا خطیب تھے مسلمانوں کے انتہائی طاقتور لیڈر جانے جاتے تھے ،گاندھی ،پنڈت جواہر لال نہرو کے معتمد اور کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبر بھی تھے ،تحریک آزادی میں آپ کی بے مثال قربانیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو کتاب آزادی کے ہر صفحہ پر موجود ہے ،آزادی کے بعد آگ وخون کی بارش میں آپ نے ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں کی عظیم الشان خدمت انجام دی ہے،مسلمانوں نے اپنے اس عظیم قائد کو مجاہد ملت کا خطاب دیا تھا۔مولانا ابوالکلام آزادؒ ہندوستان اور کانگریس کے بلند پایہ لیڈر تھے ،خدا داد صلاحیتوں کے مالک اور مفسر ،محدث ،شعلہ بیاں مقرر اور مایہ ناز صاحب ِ قلم تھے ،آپ کی تقریریں انگریزوں پر بم سے زیادہ خطر ناک ثابت ہوتی تھیں ،پوری زندگی انگریزی حکومت واقتدار کے خلاف جہاد میں گذار دی ،ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد نوسال تک مرکزی حکومت میں ویز تعلیم رہے ،مولانا سید محمد میاں ؒ مشہور عالم دین اور جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں حدیث کے استاذ تھے ،آپ کو انگریزوں سے گویا ازلی دشمنی تھی ،آپ نے کئی بار برطانوی جیلوں کی سیر کی ،آپ کی اہم تصنیف’’علماء ہند کا شاندار ماضی‘‘پانچ جلدوں پر مشتمل ہے ،تحریک آزادی کے یہ چند سرخیل ہیں جنکے کارناموں کا سرسری تذکرہ کیا گیا ہے ،ان کے علاوہ اور بے شمار علماء مجاہد آزادی ہیں جنکی تفصیلات تاریخ کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ان میں سے چند یہ ہیں مولانا محمد علی جوہر ،مولانا حسرت موہانی ،مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ،مفتی کفایت اللہ دہلوی،مولانا احمد سعید دہلوی،مولانا عطا ء للہ شاہ بخاری اور علامہ انور صابری رحمہم اللہ ۔
حقیقت نگاہی سے تحریک آزادی کی صحیح تصویر پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے آزادی کیلئے جگانے والے ،مایوس اور شکستہ دلوں کو بیدار کرنے والے، جسم ِ ناتواں میں توانائی ڈالنے والے اور قوم کو وطن پرستی کا پاٹ پڑھاکر سفاک وچالاک اور ظالم وغاصب قوم سے لڑنے کا حوصلہ دلانے والے کوئی اور نہیں بلکہ علماء ہند ہی تھے ،غرض ان ہی حضرات نے تحریک آزادی کا آغاز بھی کیا اور تقریبا ً نصف صدی تک تن تنہا اس تحریک کو جاری بھی رکھا اور اس طویل مدت میں کبھی بھی انگریزوں کو تخت غاصب پر چین سے بیٹھنے نہیں دیا ،سچ یہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی میں جتنا مسلمانوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں یعنی علماء نے خون بہایا اتنا کسی دوسروں نے اپنا پسینہ بھی نہیں بہایا ؎
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
مگر افسوس ہے ان متعصب مؤرخین پر جنہوں نے تحریک آزادی کے سنہرے واقعات کو تحریر کرنے میں تعصب کا مظاہرہ کیا جس پر انہیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی ،یہ انکی علماء اور مسلمان دشمنی نہیں بلکہ تحریک آزادی کے ہیروں سے دشمنی ہے اور آزادی کے جانبازوں سے دشمنی ملک سے دشمنی کے مترادف ہے، آزادی کی تاریخ مسخ کرنے والے نئی نسل کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ملک کی تحریک آزادی میں مسلمانان ہند اور ان کے مذہبی علماء کا کوئی کردار نہیں رہا ہے بلکہ آزادی ہند صرف غیر مسلموں کی دین ہے ، یہ تعصبیت ، مذہبی دشمنی اور شخصی مفادات کے حصول کے لئے اوچھی حرکتیں ہیں ،جب سے ملک آزاد ہوا ہے تب سے کچھ لوگ مسلسل اسی کام میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے زبان وبیان سے مسلمانوں کے تئیں نفرت کے بیج بورہے ہیں اور مذہبی منافرت کو ہوا دیتے ہوئے اپنے مفادات کے حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،سب سے پہلے انہوں نے تاریخ آزادی سے مسلمانان اور علماء کرام کی ناقابل فراموش قربانیوں کو حذف کرنا شروع کیا ،پھر یوم آزادی ویوم جمہوریہ کے جلسوں سے ان لوگوں کے ناموں کو ہٹایا اور صرف مخصوص مجاہدین آزادی کا تذکرہ کرتے رہے تاکہ نئی نسل کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جائے کہ آزادی ہند کے لئے صرف ان لوگوں ہی نے قربانیاں دی ہیں ،پھر دھیرے دھیرے انہوں نے نصابی کتابوں سے ان کے تذکرے ہٹادئے اور اب بڑی جرأت کے ساتھ عوامی جلسوں میں جھوٹ بول رہے ہیں کہ آزادی صرف انہیں کے آباواجداد نے دلائی ہے ، لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح سورج کی روشنی کو چھپا یا نہیں جا سکتا اسی طرح ہندوستان کی تاریخ تحریک آزادی سے علماء اور مسلمانوں کی قربانیوں کو مٹایا نہیں جاسکتا ، تعصبیت ،نفرت اور منافرت کے اس دور میں ہم کو متحدہ طور پر اس منظم سازش کو بے نقاب کرنے اور منافرت پھیلانے والوں کے ناپاک عزائم کو ناکام کرناہوگا ، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ زبان وقلم کا سہارا لے کر اور سوشل میڈیا کے ذریعہ صحیح تاریخ آزادی کو باشندگان ہند تک پہنچائیں اور اس کے ذریعہ حقیقت کو سامنے لاتے ہوئے منافرت پھیلانے والوں کا مکروہ چہرہ بے نقاب کریں ،دوسرے نئی نسل کو اپنے آباء واجداد کی تاریخ سے واقف کرائیں ،تیسرے متمول مسلمان ،دینی ورفاہی تنظیموں کے ذمہ داران مجاہدین آزادی کے نام سے اداروں کو موسوم کریں ، ان کے ناموں سے پروگرام منعقد کریں اور انعامی ایوارڈ کے ذریعہ ان کے ناموں کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں ،یقینا اس طرح کو کوششوں سے تاریخ کی حفاظت بھی ہو گی، سچائی سامنے آئے گی،جس سے نفرتیں کم ہوں گی اور بدگمانیاں کا خاتمہ ہوگا اور سب سے بڑھ کر ان کی قربانیوں کے تذکروں سے نئی قوت حاصل ہوگی اور حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ملے گا اور منزل ِ مقصود تک پہنچنے میں مدد ملے گی ،عام طور سے ہماری نئی نسل اپنے آبا ء واجداد کے عظیم الشان اور بے مثال تاریخی کار ناموں سے ناواقف ہوتی جارہی ہے جس کے نتیجہ میں جب کبھی آزادی کے ہیرؤں کا نام آتا ہے تو مسلمانوں میں سے صرف مولانا ابوالکلام آزادؒ ہی کو ہیرو سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایک دو نہیں بلکہ مسلمانوں کی طرف سے لاکھوں ابوالکلام آزاد ہیں جنہوں نے ملک کی آزادی کیلئے اپنی جانوںکا نذرانہ پیش کیا ہے اور اس پر ملک کا چپہ چپہ گواہ ہے ،یاد رکھیں آباء واجداد کی تاریخ صرف فخر کے لئے یاد نہیں رکھی جاتی بلکہ تحریک اور حالات سے مقابلہ کرنے اور راہ پُر خطر میں حوصلہ بڑھانے کے لئے ہوتی ہے ،اس وقت ہم مسلمانان ہند کو زیادہ ضرورت ہے کہ ہم زبانی نام لیوا بننے کے بجائے عملی پیروی کرکے دکھائیں ،کیونکہ اس وقت ہماری زندگیاں آباء واجداد کے حوصلوں ،بلند ہمتی ،قربانیوں اور سرفروشی کی تمنا سے خالی نظر آرہی ہیں ،ہم کو اپنے ان اکابرین اور محبان وطن اور دین متین کے محافظین کے حالات پڑھنا بھی ہے ،انہیں دوسروں تک پہنچانا بھی ہے اور ان کی مبارک ومجاہدانہ زندگیوں سے تحریک لیتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کی اپنی اندر قوت بھی پیدا کرنا ہے ،جس طرح ہمارے علماء وبزرگان دین نے ملک وملت کی خدمت کی تھی اور اسے سنوار نے کے لئے متحدہ کوششیں کی تھیں ،آج ہم کو بھی حکمت ودانائی اور عزم وحوصلے کیساتھ یہ کام کرنا ہے ،حالات بدلتے نہیں اسے تبدیل کرنا پڑتا ہے اور یہ عزم وحوصلہ اور قبانی کے بغیر ناممکن ہے ،اللہ کی مدد غافلین کے ساتھ نہیں بلکہ جدجہد کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے ، ؎
سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو

یہ اہل جنوں بتلائیں گے ،کیا ہم نے دیا ہے عالم کو

٭٭٭٭٭٭

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×