سیاسی و سماجی

مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند‘ طلاق ثلاثہ انصاف بہانہ ظلم نشانہ

اسلام ایک آسمانی اور آفاقی مذہب ہے جو قیامت تک پوری دنیا اور اس میں بسنے والے تمام انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے بھیجا گیا ہے اور انسانیت کے سچے ہمدرد ،خیر خواہ ،امین وصادق کے لقب سے ملقب حضرت محمد مصطفی ؐ قیامت تک کے لئے پوری انسانیت کی طرف خدا کے پیغمبر بناکر بھیجے گئے ہیں ،اسلام کا ہر حکم ،اس کی ہر تعلیم اور پیغمبر ؐ کا ہر ارشاد اور آپ ؐ کی ہر ہدایت پوری انسانیت کے لئے آب حیات ہے ،اسلام کا ہر حکم انسانی مزاج ومذاق اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہے،اسلامی قانون اور شرعی احکامات ہر زمانے،ہر علاقے اور ہر قوم کے لئے اتناہی ضروری ہیں جتنا کے مچھلی کے لئے پانی اور جاندار کے لئے ہوا ضروری ہے ، ہر زمانہ میں ، بہت سے مقامات پر عقل وفہم کا بڑا دعویٰ کرنے والوں نے اپنی سمجھ بوجھ سے انسانوں کے لئے بہت سے قوانین وضوا بطہ بنائے اور بعض طاقتوروں نے اسے اپنی طاقت وقوت کے بل پر انسانوں پر اسے نافذ بھی کرنے کی کوشش کی مگر ہر طرح سے ناکام ونامراد رہے بالآخر انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ اسلام اور اس کے قوانین ہی دراصل انسانی زندگی کے لئے سراپا رحمت ہیں ، اسی میں انسانیت کی صلاح وفلاح اور حقیقی انصاف مضمر ہے ، پیغمبر حضرت محمد مصطفیؐ نے خدائی احکامات وفرمودات ،دینی اصول وضوابط اور شرعی احکام و قوانین کو نہ صرف واضح طور پر نہایت صاف طریقہ سے اور بے حد دلنشین انداز میں انسانوں بتایا بلکہ اس پر عمل کرکے بتایا ، آپ ؐ نے خدا کی طرف سے انسانیت کو ایسا مناسب، منظم،مستحکم ، مضبوط اور ایک ایسا منصفانہ قانون دیا جس کے اندر ہر دور اور ہر علاقہ کے انسانوں کی ہر طرح کی رہنمائی کی بھر پور صلاحیت موجود ہے،یہ وہ دنیوی قانون نہیں کہ دس بیس سال بعد جس میں ترمیم وتبدیلی کی ضرورت پیش ہو ،یہ ایسا دستور نہیں کہ جس میں زمانہ وحالات کے لحاظ سے کسی اصلاح کی ضرورت واقع ہو بلکہ یہ تو ربانی اور الٰہی قانون ہے جو اپنے اندر انسانی مزاج ومذاق کی مکمل رعایت رکھتا ہے ،اس نے انسانوں کو ایک دوسرے کے لئے جو حقوق عطا کئے ہیں وہ لاجواب اور بے مثال ہیں ،آپسی نزاعات میں اس کا فیصلہ عدل وانصاف پر مبنی ہوتا ہے ،جس کی نظیر ومثال پیش کرنے سے دنیا عاجز وقاصر ہے،آج سے تقریبا ً چودہ صدی قبل پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ؐ نے خدائی احکامات اور آسمانی شریعت کا جوقانون پیش کیا دنیا کے بڑے بڑے ماہرین علم وفن اور عقل و دانشور مل کر بھی اس میں نقص نہ نکال سکے اور نہ ہی قیامت تک نکال سکیں گے ،جب ان کی تمام تر کوششیں ناکام ہوئیں تو بالآخر مجبور ہوکر انہیں یہ کہنا پڑا کہ انسانی فطرت وطبیعت کو جس قانون کی ضرورت ہے بلاشبہ وہ اسلامی قانون میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
انسان کتنا بڑا ظالم وجابر ہے اورکس قدر ہٹ دھرم اور انا پرست ہے، جانتے ہوئے انجان بنتا ہے اور اپنی انا کی خاطر حقیقت سے منہ موڑ تا ہے اور رات کی تاریکی میں سفر کرکے منزل پر پہنچنے کے خواب دیکھتا ہے ،ایسے لوگ ہر زمانہ ، ہر علاقہ اور ہر دور میں پائے جاتے ہیں جن کا مقصد زندگی ہی ہر کام میں ٹانگ اڑانا،راستہ میں رُوڑے اٹکانا اور درست کام میں نقص نکالنا رہا ہے ، چاہے اس کا تعلق مذہب سے ہو یاسیاست سے ، وہ اس میں ضرور کود پڑیں گے اور دیوانے پن کا مظاہرہ کریں گے ،ہمارے ملک میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے ، بس ذراموقع مل جائے تو بے دھڑک کود پڑتے ہیں ،اس وقت ملک کے طول وعرض میں پھر ایک بار طلاق ثلاثہ پر ایک شور مچا ہوا ہے ، ابھی چند روز قبل دنیا کے عظیم جمہوری ملک کے ایون بالا(لوک سبھا) میں موجودہ حکومت نے مسلم خواتین سے ہمدردی کے نام پر طلاق ثلاثہ بل پیش کر کے پاس کیا تھا ،اب راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا جسے بالآخر کامیابی حاصل ہوگئی ،موجودہ حکومت اور طلاق ثلاثہ بل کی حمایت کرنے والے اراکین خوش ہیں کہ انہیں نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے ،الکٹرانک میڈیا میں ہر جگہ اسی بل کی گونج سنائی دے رہی ہے ،اس بل پر لوگ اپنے اپنے تبصرے دے رہے ہیں ،کوئی اسے خواتین کے حق میں بڑی کامیابی قرار دے رہا ہے تو کوئی کہہ رہا ہے عورتوں کو بہت بڑا انصاف مل گیا ہے تو کوئی کہہ رہا ہے کہ اب خواتین ظلم کا شکار نہیں ہوں گی ،غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہو رہی ہیں ،اس بل پر وہ لوگ بھی مینڈک کی طرح ٹراتے ہوئے نظر آرہے ہیں جو اسلامی احکامات اور شرعی قوانین سے بالکل نابلد ہیں ،کوئی کہہ رہا ہے طلاق ثلاثہ ظلم ہے ،کوئی کہہ رہا ہے یہ صنف نازک کے ساتھ ایک طرح کا مذاق ہے اور کوئی تو یہاں تک کہہ رہا ہے کہ عورت کو بھی طلاق کا حق ملنا چاہیے ،درحقیقت جتنے لوگ طلاق ثلاثہ بل پر تبصرے کرتے ہوئے اس کی تائید میں بات کر رہے ہیں ان میں سے اکثر تو سرے سے طلاق ثلاثہ بل اور اس کے ضرر سے واقف ہی نہیں ہیں بس صرف ہاں میں ہاں ملانے میں لگے ہوئے ہیں ،بعض اپنے مفاد کی خاطر اس کی تائید میں جٹے ہوئے ہیں اور بعض لوگ اسلام اور مسلمان دشمنی کی وجہ سے اس کی حمایت میں لگے ہیں ،بعض نام نہاد یا پھر بھولی بھالی مسلم خواتین بھی بل کی تائید کر رہی ہیں ،اس کے نقصانات کا انہیں ذرہ برابر علم نہیں ہے ، طلاق ثلاثہ بل پر اگر باریک بینی سے نظر ڈالی جائے جیسا کہ ہمارے اکابر ،دینی رہنما ء ، دور اندیش سیاسی قائدین اور جمہوریت پسند حضرات نے نظر ڈالی ہے وہ بخوبی جانتے ہیں جس کی وجہ سے پوری قوت کے ساتھ اس کی مخالفت کر رہے ہیں اس بل کے ذریعہ خواتین کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اور بڑھ جائیں گے ۔
پہلی بات یہ ہے جو بل میں پیش کی گئی ہے کہ طلاق ثلاثہ کالعدم ہے ،اگر کوئی بیک وقت تین طلاق دیتا ہے تو طلاق واقع ہی نہیں ہوگی ،یہ شریعت کے بالکل خلاف ہے اور قانون شریعت میں صریح مداخلت ہے بلکہ ملک کے آئین کے بھی خلاف ہے کیونکہ آئین ہند یہاں رہنے والے ہر شہری کو اپنے مذہبی قوانین پر عمل کی کھلی آزادی دیتا ہے ،دوسری بات جو اس بل میں ذکر کی گئی ہے کہ وہ یہ کہ بیک وقت تین طلاق دینے والے کو تین سال جیل کی سزا ہوگی ،وہ تین سال تک بیوی بچوں سے دور رہے گا ،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب طلاق ہی واقع نہیں ہوئی تو پھر سزا کس بات کی دی جارہی ہے اور جتنے عرصے وہ حوالات میں مقید رہے گا اتنے عرصے اس کی بیوی اور بچوں کی کفالت کون کرے گا؟ اور کہاں سے ان کے کھانے پینے کا نظم کیا جائے گا ؟، اگر اس کی ذمہ داری شوہر پر ہے جیسا کہ بل میں کہا گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ جیل جانے والا کہاں سے یہ رقم دے گا اور جب اسے جیل بھیجا جارہا ہے تو کیا پھر بھی وہ کفالت کی رقم دینے پر راضی ہوگا ؟،پھر سوال یہ ہوتا ہے کہ تین سال قید بامشقت گزارنے کے بعد کیا وہ شوہر پھر سے اسی عورت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہے گا جس نے اسے تین سال کی سزا دلوائی ہے ؟ ،یہ بل کسی بھی زاوئیے سے عورت کو انصاف دلاتا ہوا نظر نہیں آتا ہے بلکہ اُلٹا عورت کو مزید مشقت اور دشواریوں میں گھیر تا دکھائی دے رہا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ اس بل کے پاس ہونے کے بعد خواتین کے مسائل مزید سنگین ہو جائیں گے اور وہ ایک نئی مصیبت میں گھِر جائیں گی ، پھر ایک سوال یہ ہے کہ کیا طلاق ثلاثہ بل کے بعد خواتین کے جملہ مسائل حل ہوجائیں گے ؟ انہیں مکمل سکون واطمینان حاصل ہو جائے گا؟ کیا یہ ایک ہی مسئلہ تھا جس کی وجہ سے خواتین پریشان تھیں ؟کیا اس کے علاوہ اور بھی مسائل ہیں جس کی طرف فی الفور توجہ کی ضرورت ہے ؟ اگر اس کے علاوہ مسائل ہیں تو کیا طلاق ثلاثہ اہم تھا یا اس سے اہم مسائل بھی موجود ہیں؟کیا صرف مسلم خواتین ہی ظلم کا شکار ہیں یا دیگر مذاہب کی ماننے والی خواتین بھی شوہروں کے ظلم کا شکار ہیں ؟ اگر مسلم خواتین طلاق ثلاثہ کی وجہ سے بہت زیادہ ظلم کا شکار ہورہی تھیں تو ان میں طلاق کی شرح کتنی ہے ؟ ،جولوگ شادی کے باوجود اپنی بیویوں سے علاحدہ رہ رہے ہیں کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ جہیز کی عدم ادائیگی پر جو خواتین ظلم کا شکار ہیں کیا وہ مظلوم نہیں ہیں؟ عصمت ریزی کا شکار خواتین کو انصاف کب اور کیسے ملے گا اور عصمت ریزی کرنے والے کے لئے کیا سزا تجویز کی گئی ہے؟ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے سوالات ہیںجس کا ان کے پاس کوئی تشفی بخش جواب نہیں ہے ،ایسے بہت سے حساس مسائل ہیں جس پر پردہ ڈال کر صرف اور صرف طلاق ثلاثہ کا ھوا کھڑا کیا گیا ہے ،اس کے پیچھے گہری سازشیں ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ آشکار ہوتی جائیں گی ،مگر جن لوگوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس بل کو پاس کروایا ہے وہ اس کی حقیقت کو چھپاکر بڑی بے حیائی کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے بہو بیٹیوں کو ظلم وستم سے بچایا ہے ، یہ لوگ بولتے وقت کچھ دیر کے لئے اس بلی کی طرح ہوجاتے ہیں جو دودھ پیتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے اور خیال کرتی ہے کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔
آج جتنے لوگ طلاق ثلاثہ بل پیش کر کے خوش ہیں کبھی ان لوگوں نے عورتوں کے جائز حقوق اور ان کے تحفظ کے سلسلہ میں آواز اُٹھائی ہے ؟معاشرہ سے جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کی پُر زور وکالت کی ہے؟ کسی بہن بیٹی کی عزت و عصمت لوٹی جانے کے واقعہ پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے؟ اور درندہ صفت کو کیفر کردار تک پہنچانے کا پُر زور مطالبہ کیا ہے ؟ ملک کے طول وعرض میں روزانہ لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے بیسیوں واقعات سامنے آتے ہیں کیا اس پر کبھی غور فکر بھی کیا ہے اور اس مذموم حرکات کے خاتمہ کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا ہے؟ یہ اس وقت کہاں رہ جاتے ہیں ،کیا اس وقت یہ نظر نہ آنے والی عینک لگالیتے ہیں ؟کیا پھر جان کر بھی انجان بن جاتے ہیں ؟ کیا ان کی نظر میں یہ ظلم نہیں ہے؟ یا پھر ان کے دل انسانیت سے خالی ہوچکے ہیں؟ ، فسادات میں جلائے گئے ،کاٹے گئے اور عصمتیں لوٹ کر موت کے گھاٹ اُتارے گئے سینکڑوں ماؤں ،بہنوں ،بہوؤں اور بیٹیوں کی روحیں تڑپ رہی ہیں اور ظالم آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں اور ان کے مظلوم ومجبور اہل خانہ انصاف کو ترس رہے ہیں بالآخر ان کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں،کیا ایسے حساس مسائل پر توجہ دینی کی ضرورت نہیں ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ان حساس مسائل سے نظریں چراکر صرف طلاق ثلاثہ کا بہانا بناکر شرعی قوانین میں مداخلت چاہتے ہیں ،مسلمانوں کو ان کی شریعت سے دور کرنا چاہتے ہیں اور اس کے نام پر مسلمانوں کو مزید پریشان کرنا چاہتے ہیں اور ملک کو یکساں سیول کوڈ کی طرف ڈھکیلنے کی پر زور کوشش کر رہے ہیں جس کا انہوں نے ستر سال قبل خواب دیکھا تھا ، لیکن ہند کے جمہوریت پسند اور امن پسند مسلمان اور سنجیدہ حضرات کبھی اسے پورا ہونے نہیں دیں گے،ان شاء اللہ۔
طلاق ثلاثہ بل کے پاس ہونے کے بعد کسی مدبر نے سچ کہا ہے کہ ’’ طلاق ثلاثہ بل کی منظوری دراصل مسلمانوں کو اپنے مذہبی رہنما ؤں اور شرعی عدالتوں سے قریب کرنے کا خدائی نظام ہے‘‘اب مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مسائل اور خاص کر عائلی مسائل میں شرعی عدالتوں سے رجوع ہوکر اس کے فیصلہ کے مطابق عمل کریں ، مسلمان خود کو شریعت کا پابند بناکر زندگی گزاریں اور لاشعوری طور پر اور جذبات میں آکر کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے مسائل کھڑے ہو جائیں اور خود کو دنیا میں ذلیل اور آخرت میں مجرم نہ بنائیں ،قانون چاہے جتنے بنالئے جائیں جب تک مسلمان خود رجوع نہیں ہوں گے کوئی اسے ان پر نافذ نہیں کر سکتا ،شریعت کے خلاف اور ظلم پر مبنی اس قانون کو صرف کاغذ ی تحریر تک محدود رکھنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ، کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے شریعت کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اگر کبھی ان مسائل سے دوچار ہوجائیں تو اس کے حل کے لئے شرعی عدالتوں اور دارالافتاء والقضاء سے رجوع ہوکر مسائل حل کریں ، خاص کر خواتین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان حلات میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں ، گھر کے ذمہ دار افراد سے مشورہ لے کر علماء کرام سے رجوع ہوں اور خدا کی خوشنودی کی خاطر شرعی فیصلہ کو قبول کرتے ہوئے اپنی دنیا کو پر سکون اور آخرت کو کامیاب بنائیں ،یقینا اس سے نہ صرف دشمنوں کے دانت کھٹے ہوں گے بلکہ ان کی ہمت جواب دے گی اور وہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی طرح کی سازشیں رچنے سے پہلے متعدد بار غور فکر کریں گے ،یاد رکھیں اگر مسلمان شریعت کے پابند ہوں جائیں اور ثابت قدمی سے اس پر جم جائیں تو پھر کوئی قانون انہیں جھکا نہیں سکتا ہے ،قوانین بنتے رہیں گے اور مٹتے رہیں گے مگر دین اسلام مکمل ہوچکا ہے اور اس کے قوانین قیامت تک کے لئے ہیں جس کا اعلان چودہ سوسال پہلے کیا جا چکا ہے ، ارشاد الٰہی ہے: اَلۡیَوۡمَ أَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَیۡۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الإِسۡلاَمَ دِیۡنًا (المائدہ:۳)’’آج میں نے (ائے مسلمانو)تمہارے لئے دین( اسلام) کومکمل کر دیااور تم پر (دین اسلام کے ذریعہ) اپنا انعام بھر پور کر دیااور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا‘‘، قیامت تک اب اس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی ممکن نہیں ، یہ صرف مسلمانوں کو الجھانے ،معصوموں کو لبھانے ، ان میں شریعت کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرانے اور انہیں شریعت سے ہٹانے کی سازش کا ایک حصہ ہے ،مگر اہل ایمان، دین اسلام اور اس کے تمام احکامات پر مکمل ایمان رکھتے ہیں ،ایسے حالات سے وہ ڈر نے والے نہیں بلکہ اس سے تو ان کی جرأت ایمانی اور حرارت ایمانی میں اضافہ ہوتا ہے ،مومن تو احکامات الٰہی کا پابند ہے اور ربانی حکم پر زندگی گزارتا ہے اور اسی پر اپنی جان دیتا ہے اور یہی اس کی معراج ہے ؎
تقدیر کے پابند نباتات وجمادات

مومن فقط احکام ِ الٰہی کا ہے پابند

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×