سیاسی و سماجی

حواء کی بیٹی! ترے حوصلہ کو سلام

اللہ تعالیٰ نے صنف نازک میں فطری طور پر بلا کی قوت ارادی رکھی ہے ،وہ جسمانی طور پر کمزور ضرور ہیں لیکن ارادہ کے لحاظ سے نہایت مضبوط ہیں ،اگر مردوں نے قوت بازو کا مظاہرہ کرکے تاریخ میں ان منٹ نقوش چھوڑے ہیں تو عورتوں نے بھی اپنے قوت ارادی کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے خوابوں کو شرمندہ ٔ تعبیر کرکے تاریخ میں اپنا مقام بنایا ہے ، صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر محاز پر مردوں اور عورتوں نے مل کر ہی کامیابی وترقی حاصل کی ہے ، کبھی اس کے ساتھ رہ کر یا کبھی اپنی قوت ارادی کا سہارا دے کر مردوں کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے ،عورتوں کی جرأت ،حوصلہ مندی ،استقلال اور قوت ارادی کو دیکھ کر کہنے والوں نے یہاں تک کہا ہے کہ ’’مردوں کی کامیابی کا راز عورتوں کی حوصلہ مندی میں مضمر ہے‘‘بساواقات مرد ہمت ہار جاتے ہیں اور تھک ہار کر حوصلہ توڑ دیتے ہیں تو عورتیں ہی حوصلہ بڑھاکر ان کے حوصلوں کو نئی جہت عطا کرتی ہیں جس کے نتیجہ میں مرد تازہ دم ہوکر کامیابی کی طرف اُڑان بھر تے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس بلند وبالا مقام تک پہنچ جاتے ہیں جہاں سے ناقدین چھوٹے نظر آ نے لگتے ہیں،اور کہنے والوں نے تو یہاں تک کہدیا ہے کہ اگر مرد چراغ ہے تو عورت اس کی روشنی ہے اور اگر مرد کامیابی کی منزل ہے تو عورت اس کا زینہ ہے، تاریخ میں قوموں کے فتوحات اور انقلابی کارناموں کے ان گنت واقعات درج ہیںجن کا مطالعہ اور گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ان کی کامیابیوں کے پیچھے ایک طرف مردوں کی قوت وطاقت اور جہد مسلسل کا دخل تھا تو دوسری طرف عورتوں کی تحریک وتشکیل اور جرأ وہمت کا کافی اثر تھا ،اور یہ بات مسلم ہے کہ عورتوں کے حوصلہ بڑھانے اور ہمت دلانے کے بعد مردوں میں ایک نئی جان پیدا ہوجاتی ہے اور وہ خود کو تنہااور کمزور محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ عورتوں کے حوصلے انہیں پرواز کرنا سکھاتے ہیںاور صحرا میں منزل کا پتہ دیتے ہیں ۔
اس وقت وطن عزیز ہندوستان جس نازک صورت حال سے گزر رہا ہے وہ سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے ،ایک مخصوص طبقہ ایک مخصوص قانون کے تحت ہندوستانیوں کو بانٹنے ،مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے ، برسوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو مٹانے اور باشندگان ہند سے ان کا حق شہریت چھینے کی کوشش میں ہے ، سی اے اے ،ین آر سی اور ین پی آر اسی خطرناک سازش کا حصہ ہے جس کے خلاف پورے ملک میں اور چپہ چپہ میں صدائے احتجاج بلند کیا جارہا ہے ، سبھی ہندوستانی ایک ہوکر سڑکوں پر نکل چکے ہیں اور بڑی قوت وطاقت اور بلند حوصلوں کے ساتھ آواز حق بلند کر رہے ہیں ، متحدہ طور سبھی مذاہب کے لوگوں کو ایک ساتھ ،بیک آواز، کندھوں سے کندھے ملائے احتجاجی نعرہ لگاتے ہوئے دیکھ کر آنکھیں اشک برسارہی ہیں ،کیونکہ آزادی کے بعد سے اس طرح منظم اور متحد انداز میں تمام باشندگان ہند کو مل جل کر ملک کے لئے آواز اٹھاتے ہوئے دیکھنے کا پہلی مرتبہ موقع ملا ہے ،تحریک آزادی میں برادران وطن کو ساتھ لے کر الگ الگ جسم اور یک جان ہوکر ظالم وجابر انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوتے ہوئے یا تو سنا تھا یا پھر تاریخ کی کتابوں میں پڑھنے کا موقع ملا تھا ،ان پروٹس اور احتجاجی ریلیوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے باشندگان کے دلوں میں وطن سے کس قدر غیر معمولی اور جذباتی محبت ہے ،احتجاجیوں میں ایک بڑی تعداد خواتین اور دوشیزاؤں کی بھی ہے ،ان احتجاجیوں میں شریک ہونے والوں میں چار مہینوں کی معصوم بچیوں سے لے کر اَسی ،نوے ،سو اور ایک سو چار سالہ معمر اور ضعیف خواتین بھی شامل ہیں، ان کے حوصلے چٹان جیسے نظر آتے ہیں ،ان کی استقامت پہاڑ کے مثل دکھائی دیتی ہے اور ان کی قوت سمندری لہروں کی مانند معلوم ہوتی ہیں ،بلا شبہ ان کی ہمت وجرأت کو زمین و آسمان بھی سلام پیش کر رہے ہوں گے۔
اس وقت ملک کے کونوں اور چپوں میں اس سیاہ ،منحوس ،عوام مخالف ، جمہوریت دشمن اور مردود بل کے خلاف جہاں کہیں بھی خواتین کی طرف سے احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں ان سب میں شاہین باغ (دہلی) کو مرکزیت حاصل ہے ،جہاں تقریبا پچاس دن سے مسلسل دختران ہند بلا لحاظ مذہب وملت سخت ترین سردی کے باوجود مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں اور موجودہ حکومت کو آئینہ دکھانے میں مصروف ہیں ، الکٹرانک وپرنٹ میڈیا ،سوشل میڈیا اور عینی شاہدین کی اطلاع کے مطابق شاہین باغ میں یوم جمہوریہ کے موقع پر تقریبا دس لاکھ خواتین نے شرکت کرکے سی اے اے ،ین آر سی اور ین پی آر کے خلاف اپنا احتجاج درج کیا ،سخت ترین سردی کے باوجود ان کا جوش وجذبہ قابل دید تھا ،وہ اپنے گودوں معصوم بچے لئے ہوئے ،ہاتھوں میں ملک کا پرچم تھا مے اور سیاہ قانون کے خلاف بیانر لے کر جمہوریت بچاؤ اور دیش بچاؤ کے نعرہ لگارہے تھے ،ان کی آواز سے دارالحکومت گونج اٹھا تھا ،ان کے احتجاج میں غضب کی طاقت ،بلا کا جوش اور ملک سے غیر معمولی محبت وپیار جھلک رہا تھا ، یوم جمہوریہ کے موقع پر پروہت وملا کی والدہ رادھیکا نے قومی پرچم کشائی کی ،ان کے ہمراہ تین دادیاں معمر خواتین بھی موجود تھیں ، سخت ترین سردی کے باوجود ان کے ماتھوں پر پسینے کی بوند یں نظر آرہی تھیں ، پُر نم آنکھیں اور درد بھری آواز کے ساتھ وہ ملک اور اس کے دستور کی حفاظت کا عہد لے رہی تھیں،موجودہ حکومت کے الزامات کی پرواہ کئے بغیر ان کی ثابت قدمی ،جوش وخروش اور استقامت قابل رشک بلکہ نیک شگون معلوم ہوتا ہے ،انہوں نے جذبات ، بلند حوصلوں اور جبل استقامت دکھا کر تحریک آزادی کی یاد تازہ کردی ہے،تاریخ بتاتی ہے کہ تحریک آزادی میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین بھی شریک ہوئی تھیں ،ہزاروں خواتین تحریک آزادی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا ،یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے نوجوان بچوں ،بھائیوں اور شوہروں کی شہادت پر غم نہیں بلکہ فخر کیا تھا ،بعض خواتین کے تاریخی الفاظ تاریخ تحریک آزادی میں سنہرے الفاظ سے لکھے گئے ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹوں کی شہادت پر کہا تھا ،ایک بلند حوصلہ ماں نے کہا تھا کہ ’’ مجھے دوہی بچے تھے اگر دس ہوتے تو میں ان سب کو وطن کی آزادی کے لئے قربان کر دیتی ‘‘مولانا محمد علی جوہر ؒ کی والدہ محترمہ نے کچھ ایسے ہی جملے اداکئے تھے،تحریک آزادی میں جو خواتین سر گرم عمل رہیں تھی ان کی ایک طویل فہرست ہے ،اس موقع پر دستور بچاؤ ، جمہوریت بچاؤ اور ظالمانہ بل ہٹاؤ تحریک کو مضبوط کر نے ، ان میں جوش وجذبہ پروان چڑھانے کی غرض سے تحریک آزادی میں مردانہ جوہر دکھانے والی باہمت ،باحوصلہ اور سرفروشانہ خدمات انجام دینے والی عظیم خواتین کے نام اور ان کے مختصر حالات درج کئے جارہے ہیں ۔
تحریک آزادی میں نمایاں کردار اداکرنے والی خواتین میں سر فہرست بیگم حضر ت محل کا نام لیا جاتا ہے،1857 ،1858 کی جنگ آزادی میں صوبہ اودھ سے حضرت محل کی ناقابل فراموش جد و جہد تاریخ کے صفحات میں سنہری الفاظ میں درج ہیں ،بیگم حضرت محل نواب واجد علی شاہ کے ازواج میں شامل تھیں ،صنف نازک ہوتے ہوئے بھی انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے لوہا لیا اور آخری سانس تک لڑتی رہی ،بی اماں یعنی عابدہ بیگم زوجہ عبدالعلی خان ،تحریک آزادی میں شریک رہیں اور کارہائے نمایاں انجام دئے ، مولانا محمد علی جوہرؒ اور مولانا شوکت علیؒ یہ دونوں آپ ہی کے سپوت تھے ،1917 کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں بی اماں کی تقریر نے سامعین کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا ،گاندھی جی نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ بی اماں ایک بزرگ خاتون ہیں مگر ان کا حوصلہ جوان ہے،امجدی بیگم زوجہ مولانا محمد علی جوہرؒ جس وقت تحریک خلافت کے سلسلہ میں مولانا کو جیل بھیج دیا گیا تھا اس وقت انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لیاتھا ،مولانا کے انتقال کے بعد سیاسی میدان میں آپ کی نیابت کی اور ستیہ گرہ اور خلافت فنڈ کے لئے روپئے بھی جمع کیا تھا، نشاط النساء زوجہ مولانا حسرت موہانیؒ ایک پرعزم خاتون تھیں ،تحریک آزادی کی فعال رکن تھیں ،مولانا کے جیل میں جانے کے بعد انگریزی عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کی ،تحریک آزادی کے لئے بڑی صعوبتیں برداشت کی ،بیگم زلیخا زوجہ مولانا ابوالکلام آزادؒ بہت باحوصلہ خاتون تھیں ،تمام مصائب برداشت کرنے کے باوجود اپنے شوہر کا دست و بازوبنی رہیں ،1942 میں جب مولانا کو ایک سال کی سزا ہوئی تو انہوں نے گاندھی جی کو لکھا تھا کہ’’ میرے شوہر کو محض ایک سال کی سزا ہوئی ہے جو ہماری امیدوں سے بہت کم ہے اگر ملک وقوم سے محبت کے نتیجے میں یہ سزا ہے تو اس کو انصاف نہیں کہا جائے گا ،یہ ان کی اہلیت کے لئے بہت کم ہے ،آج سے میں بنگال کمیٹی کا پورا کام دیکھوں گی،منی کر نیکا ( المعروف جھانسی کی رانی) زوجہ راجہ گنگا دھر راؤ،1857 میں جنگ آزادی کا معرکہ گرم ہوا تو انگریزوں کی بدمعاملگی سے ناراض ہوکر ان کے خلاف اعلان جنگ کیا ،یہ وہی بہادر خاتون ہے جس نے انگریزوں سے مقابلہ کے لئے عورتوں کا لباس اتار کر مردوں کا لباس پہن لیا اور انگریزوں سے لڑتے لڑتے جان دے دی مگر سر نہیں جھکایا،کملا نہرو زوجہ جوہر لال نہرو ،ایک باہمت خاتون تھیں پنڈت جی کے زمانہ اسیری میں جس صبر وبرداشت کا مظاہرہ کیا وہ مشرقی خواتین کا طرہ ٔ امتیاز ہے،کماری پریتی لتا دادیکر (بنگال) جس نے تیسری دہائی میں سر جیہ سین کی قیادت میں چاٹگام پر انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور آخر میں گرفتاری کے بجائے خود کشی کو ترجیح دی ،ان کے علاہ سینکڑوں ایسی خواتین ہیں جنہوں نے کبھی بھی گھر کی چہار دیواریوں سے باہر قدم نہیں رکھا تھا مگر تحریک آزادی میں ان شیر دل خواتین نے اپنے خون کی سر خی سے سرفروشی کی تاریخ رقم کر دی۔
اس وقت ملک کے طول وعرض میں سیاہ بل کے خلاف جو منظم احتجاج کیا جارہا ہے ا س سے ملک ،دستور ملک اور آپسی پیار ومحبت کا والہانہ اظہار ہوتا ہے ،خصوصاً خواتین کا جذبہ لائق قدر ہی نہیں بلکہ قابل تقلید ہے ،انہوں نے دستور کے تحفظ کے لئے آواز اٹھا کر تحریک آزادی کے جانباز ،سر بکف اور مجاہدات کی یاد تازہ کردی ہے ،وہ جان چکی ہیں کہ جس طرح ملک کی آزادی کے لئے اکائی بن کر ہی آزادی حاصل کی گئی تھی اس طرح آج بھی اکائی بن کر ہی دستور اور آئین ہند کی حفاظت ممکن ہے ، فی الوقت حکومت جن کے ہاتھوں میں ہے ان کے ارادے انتہائی خطرناک اور ان کا انداز انتہائی ظالمانہ ہے ، بعض بے لگام لیڈران پُر امن احتجاج کرنے والی ماؤں اور بہو بیٹیوں کے خلاف ایسے نازیبا الفاظ استعمال کر رہے ہیں جسے سن کر شرم آتی ہے اور تعجب ہوتا ہے یہ وہی ملک ہے جہاں ایک جانور کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے ،تو کیا ملک کی مائیں اور بہنیں اس سے بھی نیچے درجے کی ہیں ،یہ ملک کے ہر ماں، ہربہن اور ہر ایک بہو بیٹی کی توہین ہے ، یاد رکھیں ظلم ظلم ہی ہوتا ہے اور اس کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے ،یہ ظالم بھگوان کے نام پر نعرہ لگا کر اسی کی آتما کو شرمسار کر رہے ہیں ،مذہب نفرت کا نام نہیں بلکہ محبت کی علامت ہوتا ہے ،مذہب کے نام پر تفریق پیدا کرنا اور نفرتوں کو پروان چڑھانا خود مذہب کی توہین ہے ،ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں مذہب کے نام پر کبھی بھی لوگوں کو باٹا نہیں گیا اور نہ ہی مذہب کی بنیاد پر آزادی کی لڑائی لڑی گئی بلکہ سبھوں نے مل کر بیک آواز اور بیک صف ہوکر وطن کی محبت میں جان عزیز کو قربان کیا تاکہ آنے والی نسلیں سکون وچین کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں ،اسی کے لئے دستور بنایا گیا اور اس میں تمام طبقات اور جملہ مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق دئے گئے ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہندوستان مذہب کی بنیادوں پر نہیں بلکہ جمہوری بنیادوں پر قائم ہے اور دستور اس کی روح اور جان ہے ،جس سیاہ بل کے خلاف سبھی باشندگان مذہب وملت سے بالاتر ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں دراصل وہ دستور اور اس کی بنیاد کی خلاف ہے ،یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اس کا شکار ہر شہری ہونے والا ہے ،گرچہ تیر کسی کی جانب ہے مگر اصلاً نشانے پر سبھی ہیں ، اگر ملک کو بچانا ہے تو اس کے لئے اس کے دستور کو بچانا ہوگا اور اس کی حفاظت کرنی ہوگی ،دستور کے تحفظ کے بغیر ملک کی سلامتی اور اس کی جمہوریت اور ہر شہری کا حق محفوظ نہیں رہ سکتا ، سلام ہے دختران ہند پر اور ان کے حوصلوں پر کہ وہ دستور کے تحفظ کے لئے گھر سے باہر نکل آئیں ہیں اور اپنا حوصلہ دکھا رہی ہیں اور مردوں سے کہہ رہی ہیں کہ جس طرح مرد وعورت کے ملنے سے گھر گھر بنتا ہے اسی طرح مرد وں اور عورتوں کے اتحاد ہی سے دستور کا تحفظ ممکن ہے،جس طرح ہمہ اقسام کے پھولوں سے گلدستہ خوبصورت بنتا ہے اسی طرح ہندو ،مسلم ،سکھ اور عیسائی کے اتحاد ہی سے ملک خوشحال اور اس کا مستقبل تابناک بن سکتا ہے ، عوام حکومت کو بتانا چاہتی ہے جمہوریت میں حکمران بادشاہ نہیں بلکہ خادم ہوتے ہیں ،بادشاہ تو عوام ہوتی ہے ،وہ جس طرح بٹھا نا جانتی ہے اسی طرح اٹھانا بھی جانتی ہے ،سیاہ بل سے دست برداری ملک اور اس کی عوام کے حق میں مفید ہے ورنہ ملک کی سالمیت خطرہ میں ہے ۔

ٓٓزادی اور ملک کی خاطر کے اور جن میں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×