سیاسی و سماجی

طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے

اللہ تعالیٰ اس پوری کائنات کا تنے تنہا خالق ومالک ہیں ،وہی حاکم ہے اور وہی حقیقی حکومت کا مالک بھی ،کسی بھی چیز کی تخلیق پر وہ قادر ہے ،اس کے لئے انسے نہ کسی سے اجازت کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی کی مدد ونصرت درکار ہے ،وہ جب کسی چیز کا ارادہ کر تا ہے تو بس ’’کُن‘‘ کہتا ہے اور وہ چیز وجود میں آجاتی ہے ،قرآن کریم میں ارشاد ہے :إِنَّمَا أَمۡرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیۡۡئاً أَنۡ یَقُولَ لَہُ کُنۡ فَیَکُونُ oفَسُبۡحَانَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیۡۡئٍ وَإِلَیۡۡہِ تُرۡجَعُونَ (یٰسین:۸۲،۸۳)’’اس(زبردست طاقت رکھنے والے اللہ ) کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرلے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ ہوجا ،بس ہوجاتی ہے،غرض پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی حکومت ہے اور اسی کی طرف سب کو آخر کار لے جایا جائے گا‘‘،وہ اس قدر طاقت و قدرت رکھتا ہے کہ کسی بھی چیز کو فنا کرکے پھر سے اس کی تخلیق کر سکتا ہے ،کیونکہ پہلی مرتبہ کسی کا پیدا کرنا اس کے لئے مشکل نہیں ہے تو بھلا دوسری مرتبہ پیدا کرنا کیسے مشکل ہو سکتا ہے ، جس نے زمین وآسمان جیسی جسامت والی چیزیں پیدا کی ہیں تو ان جیسی دیگر چیزوں کو پیدا کرنا کونسا مشکل ہے بلکہ اسے اس طرح کی چیزیں پیدا کرنے پر پوری قدرت ومہارت حاصل ہے ،قرآن کریم میں ارشاد ہے: أَوَلَیۡۡسَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالۡأَرۡضَ بِقَادِرٍ عَلَی أَنۡ یَخۡلُقَ مِثۡلَہُم بَلَی وَہُوَ الۡخَلَّاقُ الۡعَلِیۡمُ (یٰسیٓن:۸۱)’’بھلا جس ذات نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ،کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو (دوبارہ) پیدا کر سکے؟کیوں نہیں ؟ جبکہ وہ سب کچھ پیدا کرنے کی پوری مہارت رکھتا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت اس قدر زبردست ہے کہ کائنات کی چیزیں تو درکنار بلکہ پوری کائنات اور اس کے نظام کو لمحہ بھر میں نیست ونابود کرکے دوسرے ہی لمحہ اس جیسی ایک نئی کائنات وجود میں لانے کی اسے قدرت وطاقت حاصل ہے اور یہ اس کے لئے ذرا بھی مشکل اور دشوار نہیں ہے ،قرآن کریم میں ارشاد ہے: أَلَمۡ تَرَ أَنَّ اللّہَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرۡضَ بِالۡحقِّ إِنۡ یَّشَأۡ یُذۡہِبۡکُمۡ وَیَأۡتِ بِخَلۡقٍ جَدِیۡدٍo وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیۡزo (ابراہیم :۱۹،۲۰)’’ کیا تمہیں یہ بات نظر نہیں آتی کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق مقصد سے پیدا کیا ہے ،اگر وہ چاہے تو تم سب کو (آن واحدمیں) فنا کردے اور (پھر آن وحد میں) ایک نئی مخلوق وجود میں لے آئے،اور یہ بات اللہ کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے‘‘،ایک حدیث میں رسول اللہ ؐ نے قدرت الٰہی کو بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جس طرح لوگوں کے لئے بچھائی گئی چادر کا پلٹنا آسان ہے اللہ کے لئے اس پوری کائنات کے نظام کو بدلنا اس سے بھی زیادہ سہل اور آسان ہے ، اس کائنات کی تخلیق ،اس میں انسانوں کا قیام ،ان کے درمیان مال ودولت، عہدہ وکرسی،طاقت وقوت اور حاکم ومحکوم کا فرق دراصل ان کے امتحان کے لئے اور فرماں بردار وں اور نافرمانوں کی پہچان کے لئے ہے ، آخرت میںفرماں برداروں کو انعام سے نوازنا اور نافرمانوں کو سزا سے دوچار کرنے کے لئے ہے ،اس لئے اللہ نے دنیوی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی بھی رکھی ہے ،اگر یہ نہ ہوتی تو پھر نیک وبد سب برابر ہوجاتے ،نہ تو فرماں برداروں کو انعام ملتا اور نہ ہی نافرمانوں کو سزادی جاتی ، دنیا میں صبح وشام ،رات ودن ،صحرا وآبادی اور خوش گوار وناگوار حالات کا دور دورہ چلتا رہتا ہے،صبح کے بعد رات کا نمودار ہونا ،صحرا کے بعد آبادی کا نظر آناجس طرح یقینی ہے اسی طرح مصیبت کے بعد راحت کا آنا اور ظلم کے بعد انصاف کا نکل کر آنا اور وہ بھی ظلمتوں کو چیر تے ہوئے بالکل یقینی ہے ، اللہ کی یہی سنت ہے کہ وہ کسی کو دے کر آزماتا ہے تو کسی سے دی ہوئی چیز لے کر آزماتا ہے، فرماں بردار اورمحبوب بندوں کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے اللہ سے راضی اور خوش رہتے ہیں ، موافق حالات میں شکر سے کام لیتے ہیں اور ناموافق حالات میں صبر وتحمل اختیار کرتے ہیں۔
قیام دنیا سے لے آج تک نہ جانے کتنے بڑے بڑے لوگ آئے اور چلے گئے اور نہ جانے کیسے قدآور لوگوں نے کس قدر شاہانہ انداز میں ہزاروں میل پھیلی ہوئی زمین پر حکومت قائم کرکے دنیا سے رخصت ہوگئے ،تاریخ کے اوراق ان کے قصوں سے بھرے ہوئے ہیں ،حالانکہ ہر باشعور انسان یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ جس طرح اس دنیا کا قیام عارضی اور وقتی ہے ، یہاں کی طاقت وقوت فانی وختم ہونے والی ہے ،اسی طرح یہاں کی حکومت وسلطنت کا نظام بھی ایک وقت مقررہ تک ہی ہے ،کوئی نہیں جانتا کہ جنہیں عارضی اقتدار ملاہے اس کا ذول کب ہے ،کس طرح ہے اور کس کے ذریعہ اسے شکست ہوگی ، جن حکمرانوں نے ذہن میں یہ بات مستحضر رہتی ہے کہ حکومت وکرسی اللہ کی عطا اور اس کا انعام ہے ،جس طرح وہ دینے پر قادر ہے اسی طرح لینے پر بھی قادر ہے اور کل اس سے بازپرس بھی ہوگی ،یہ لوگ عدل وانصاف کا مطاہرہ کرتے ہیں اور اپنے کو حاکم نہیں بلکہ خادم سمجھتے ہیں، جن کے ذہن اس طرح کے تصور سے خالی ہوتے ہیں تووہ عارضی طاقت وقوت کے نشے میں چور ہوکر ان حقیقتوں کو بھول جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانیت کی راہ اور عدل وانصاف کی ڈگر سے ہٹ کر ظلم وبربریت کے ذریعہ اپنا نام ظالموں میں شمار کر لیتے ہیں ،قرآن کریم نے جن قوموں ، جن بادشاہوں اور جن ظالموں کا ذکر کیا ہے وہ صداقت وسچائی میں اپنی مثال آپ ہے ،وہ کوئی انسانوں کی بنائی ہوئی تاریخی واقعات اور کہانیاں نہیں ہیں بلکہ گزشتہ زمانوں میں واقع ہوئے سچی واقعات ہیں جن میں انسانوں کے لئے حکمت وموعظت اور عبرت ونصیحت ہے ،قوم عاد ،قوم ثمود ،قوم فرعون اور ان جیسی بہت سی طاقتور قومیں تھی جنہیں اپنی طاقت وقوت ،فن ومہارت اور پائیدار حکومت پر ناز تھا ،وہ اپنے علاوہ کسی کو خاطر میں لانے کے لئے تیار ہی نہیں تھے ،بلکہ بڑے فخریہ انداز میں کہا کرتے تھے کون ہے ہم سے زیادہ طاقتور ؟ ، وہ عارضی طاقت وحکومت کے نشے میں بھول گئے تھے کہ جس خدا نے انہیں پیدا کیا ہے ،زمین پر بسایا ہے ،معمولی طاقت وقوت سے نوازا ہے اور ایک وقت مقررہ تک کے لئے کرسی پر بٹھایا ہے وہ ان سے کہیں زیادہ طاقت وقوت رکھتا ہے بلکہ وہ طاقت وقوت کا مالک ہے ،قرآن کریم میں قوم عاد کے اس متکبرانہ انداز کو بیان کرنے کے بعد انہیں خدا کی طاقت وقوت یاد دلائی ہے ،ارشاد ہے : فَأَمَّا عَادٌ فَاسۡتَکۡبَرُوۡا فِیۡ الۡأَرۡضِ بِغَیۡۡرِ الۡحَقِّ وَقَالُوۡا مَنۡ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً أَوَلَمۡ یَرَوۡا أَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَہُمۡ ہُوَ أَشَدُّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً وَّکَانُوۡا بِآیَاتِنَا یَجۡحَدُوۡنَ(فصلت:۱۵)’’پھر عاد کا قصہ تو یہ ہے کہ انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کا رویہ اختیار کیا ،اور کہا کہ کون ہے جو طاقت میں ہم سے زیادہ ہو، بھلا کیا ان کو یہ نہیں سوجھا کہ جس اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے وہ طاقت میں ان سے کہیں زیادہ ہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے‘‘، اللہ نے انہیں مہلت دی جیسا کہ سنت اللہ ہے ،تاکہ یا تو وہ اپنے ظلم وستم سے باز آجائیں یا پھر حجت تمام ہوجائے ،لیکن عموماً ظالمین کا ظلم وقت کی رفتار کے بڑھتا ہی جاتا ہے ،وہ اپنی طاقت وحکومت کے نشے میں اندھے بن جاتے ہیں اور ان کی عقلیں ماؤف ہوجاتی ہیں ،جب پانی سر سے اونچا ہوتا ہے تو پھر اللہ کا قہر نازل ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دردناک عذاب میں مبتلا ہوکر عبرت کا نشان بن جاتے ہیں ،چنانچہ قوم عاد کا تکبر وجبر اور ظلم وجور حد سے آگے بڑھنے لگا اور انہوں نے ظلم کے تمام حدود پار کر دی تو پھر ان پر اللہ کا خطرناک عذاب آیا جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے ارشاد ہے: فَأَرۡسَلۡنَا عَلَیۡۡہِمۡ رِیۡحاً صَرۡصَراً فِیۡ أَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیۡقَہُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡیِ فِیۡ الۡحَیَاۃِ الدُّنۡیَا وَلَعَذَابُ الۡآخِرَۃِ أَخۡزَی وَہُمۡ لَا یُنصَرُونَ (فصلت:۱۶)’’چنانچہ ہم نے کچھ منحوس دنوں میں ان پر آندھی کی شکل میں ہوا بھیجی تاکہ انہیں دنیوی زندگی میں رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھیائیں اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ رسوا کرنے والا ہے اور ان کو کوئی مددد میسر نہیں آئے گی‘‘یہاں منحوس دنوں سے مفسرین نے یہ مطلب لیا ہے کہ یہ دن ان کے کے لئے منحوس ثابت ہوئے ،یہ تو ایک مثال ہے اور بھی قوموں پر نازل کئے گئے دردناک وعبرت ناک عذاب کے تذکرہ قرآن کریم کی دوسری آیات میں موجود ہیں ،تاکہ اسے پڑھ کر اور سن کر وہ لوگ جنہیں خدا نے اپنی مصلحت سے جو کچھ طاقت وقوت اور حکومت واقتدار عطا کیا ہے اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں اور عارضی طاقت کے نشے میں آکر ظلم ستم کا بازار گرم نہ کریں ۔
یہ تو ان قوموں کا تذکرہ ہے جن کا ذکر قرآن کریم میں مذکور ہے،ان کے علاوہ تاریخ اور بالخصوص اسلامی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں جب ظالم کمزور وناتواں اور کم عدد و کمزورطاقت رکھنے والوں کو اپنے ظلم وستم کا شکار بنانے لگے اور ان پر جبر وتشدد کے تودے گرانے لگے تو خدا نے طاقتور ترین اور وسائل سے بھر پور قوم کے مقابلہ میں ان کمزروں کی مدد ونصرت فرمائی ، انہیں حکم دیا گیا کہ و ہ پو ری قوت کے ساتھ ،مجتمع ہوکر ، قلیل وسائل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ذات الٰہی پر بھروسہ رکھتے ہوئے ان کا مقابلہ کریں اور جب انہوں نے ظالموں کا مقابلہ کیا تو خدا کی مدد ونصرت سے دشمنوں کو زیر وزبر کرکے رکھ دیا ،ان کی ساری تدبیریں خاک میں مل گئی اور ان کا غرور انہیں کے پیروں تلے دب کر اپنی موت آپ مر گیا ،غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ خندق اور دیگر غزوات وسرائے اس کی منہ بولتی تصویر ہیں ۔
یہ سلسلہ یہی پر ختم نہیں ہوا اور نہ ہی دوچار صدی کے بعد جاکر اختتام کو پہنچا بلکہ یہ کشمکش اور حق وباطل کا مقابلہ ہر دور میں جاری رہا اور قیامت تک رہے گا ،باطل پوری قوت کے ساتھ حق کو مٹانے کے لئے آئے گا مگر خود ہی مٹ کر رہ جائے گا ،حق پر قائم رہنے والوں کے لئے ہر حال میں خوشخبری ہے کامیابی تو کامیابی ہے اگر ناکامی ہوجائے تو بھی کامیابی ہے ،کیونکہ حق کی خاطر لٹ جانا اور اپنے کو اس کے لئے قربان کر دینا یہ بھی عظیم کامیابی ہے ، حق کے لئے لڑنا ہی حق ہے اور وہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے ،نبوی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لئے، انسانیت کے لئے ،امن امان کے لئے ،محبت وپیار کے لئے ،عدل وانصاف کے لئے اور زندگی کو پرامن طریقے سے گزارنے کے لئے لڑنا ہے ،اس کے مقابلہ میں باطل انانیت کے لئے ،اپنی اجارہ داری کے لئے ،خود کی برتری کے لئے ،نفرت بھڑکانے کے لئے اور خود کی مرضی چلانے کے لئے کوششیں کرتا ہے ،تاریخ میں ایسے بہت سے نام ہیں جنہوں نے محض اپنی انا کی تسکین کی خاطر اور اپنی مرضی کو دوسروں پر جبراً نافذ کرنے کی خاطر درندے بن کر محبت بھری انسانی کھیتیوں میں نفرت کے ہل چلا کر تہس نہس کئے تھے ، مگر وہ زیادہ دن نہیں چلا سکے تھے ،کیونکہ خدا کا دستور ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو اس کی سر کوبی کے لئے کوئی نہ کوئی ضرور پیدا ہوتا ہے ،اس وقت مادیت کے غبارہ میں اُڑھتی ہوئی دنیا اور وسائل سے بھر پور بعض ممالک اور بالخصوص وطن عزیز ہندوستان میں کچھ ایسے مزاج رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں جن کا مقصد ہی نفرت و عداوت اور دھرم و مذہب کے نام پر آپس میں نفرت کی دیوار کھڑا کرنا ہے اور ایک دوسرے کو لڑا کر اپنے ناپاک عزائم میں کامیابی حاصل کرنا ہے ،وہ لوگ اس وقت اپنی طاقت وقوت اور مال ودولت کا جال بچھا کر معصوموں کا شکار کر رہے ہیں ، در حقیقت اس طرح کا گھٹیا کام کرنے والے اور منفی سوچ رکھنے والے بہت کم بلکہ مٹھی بھر ہیں ،اس ملک کی بدقسمتی کہئے کہ فی الوقت اقتدار پر انہیں کا قبضہ ہے ،یہ لوگ ان ظالموں اور جابروں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جنہوں نے وطن عزیز پر غاصبانہ قبضہ کرکے ظالمان انداز سے حکومت کی تھی ،متحدہ طویل جدجہد کے بعد جب انہیں نہایت رسوائی کے ساتھ یہاں سے بھگایا گیاتھا تو اسی وقت انہوں نے اس کا بدلہ لینے کی ٹھان لی تھی اور نہایت شاطرانہ وعیاران انداز سے یہاں کی عوام میں مذہب وملت کی چنگاری لگاکر رخصت ہوئے تھے ، اس وقت کے بعض ڈرے سہمے ہوئے بزدل قسم کے کچھ لوگ تھے جوان عیاروں کے جوتے سیدھے کرنے میں لگے ہوئے تھے چنانچہ ان کا اس طرح کا ذہن بنایا گیا تھا ،تب سے لے کر آج تک وہ اسی غلامی کی سوچ لئے بیٹھے ہیں بلکہ اس ناپاک مقصد کی تکمیل میں جٹے ہوئے ہیں ،یہ مٹھی بھر چند شر پسند عناصر ،خود غرض ،مفاد پرست ، انسانیت کے دشمن وطن پر خود کی اجارہ داری قائم کرنے کی غرض سے اسی کا سہارا لے کر ملک میں بد امنی ،بے چینی پھیلا رہے ہیں اور اس کے جمہوری اقدار سے کھلواڑ کرنے میں لگے ہوئے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے رات رات حکومت قائم کی ہو بلکہ انہوں نے عوامی تحریکوں میں شامل ہوکر اور عوامی بھلائی کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ دکھا کر دھیرے دھیرے اس مقام تک پہنچے ہیں ،اب جب کے انہیں اقتدار حاصل ہو چکا ہے ،یہ اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے لئے نت نئے طریقے اپنانے لگے ہیں ، کہاجاتا ہے کہ جھوٹ کا بھانڈا ایک نہ ایک دن پھوٹ ہی جاتا ہے ،نقاب پوش کا چہرہ سامنے آہی جاتا ہے اور جب ظلم کی انتہا ہوتی ہے تو پھر مظلوم کے لئے بنایا گیا پھندا خود ظالم کو اپنی طرف کھینچتا ہے ، خدا کا شکر ہے کہ ملک کی باشعور عوام جن میں ہر مذہب ومسلک کے ماننے والے ہیں ،بچے ، عورتیں اور پیر وجوان سب شامل ہیں ،ان کے ناپاک عزائم جان چکے ہیں ،ان کے مقاصد رذیلہ سے خوب واقف ہو چکے ہیں ،چنانچہ ہر طرف سے انصاف کے نعرہ بلند کئے جارہے ہیں اور منظم ومتحد احتجاج کے ذریعہ اپنے غم وغصہ کا اظہار کر رہے ہیں اور کرنا بھی چاہیے کیونکہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا حق پر واجب ہے اور ظلم پر خاموش رہنا ظلم کی تائید کے مترادف ہے ،حکومت کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بڑی عیاری کے ساتھ جدید قوانین جو کہ جمہوری ملک کے آئین کے بالکل خلاف ہیں عوام پر جبراًنافذ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے طاقت کا سہارا لیا جارہا ہے ،مگر یاد رکھیں انصاف کو ڈنڈوں سے کچلا نہیں جاسکتا ،انصاف وہ سمندر ہے جس میں ظلم کی ہزاروں ندیاں ڈوب جاتی ہیں،اس سیاہ قانون کے ذریعہ وہ باشندگان ہند کو باری باری ملک بدر کرنے ،ان سے حق شہریت جیسی عظیم نعمت چھیننے اور قید خانوں میں ڈال کر غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور نے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ،اصل میں ان کا منشا کچھ اور ہے اور فی الحال نشانہ کسی اور لگارہے ہیں ،یہ ایک خاص طبقہ کا ہندوستان بنانا چاہتے ہیں اور ان کے علاوہ کو دوسرے نمبر کا شہری بناکر انہیں اپنا خادم بنانے کی سوچ رہے ہیں ،یہ کیا ظلم ہے کہ جن کے آباواجداد نے ملک کے لئے خون بہایا ہے ،اس کی خون پسینے سے خدمت کی ہے اور اسی خاک کا پیوند ہونا پسند کیا اور اسی میں دفن ہوگئے انہیں کی اولاد سے شہریت کا ثبوت مانگا جارہا ہے ،اس سے بھی زیادہ نامعقول بات یہ ہے کہ مقامی باشندگان سے شہریت ثابت کرنے کو کہا جارہا ہے جب کہ وہ صدیوں سے یہاں مقیم ہین اور غیر مقامی لوگوں کو مفت میںشہریت دی جارہی ہے جب کہ ان کا اس ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
موجود حالات پیدا کرنے والوں کا ملک کی عوام الناس شکریہ ادا کرتی ہے کہ ان کے ناپاک عزائم نے تمام باشندگان ہند کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کر دیا ، ہمارا ملک ہندوستان صدیوں سے گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار رہا ہے ، یہاں کی آپسی محبتیں مثالی ہیں ،دیگر ملکوں میں اس کی مثال دی جاتی ہے ،گر چہ یہاں کے لوگوں کے مذاہب الگ الگ ہیں مگر سب کے دل ملک کی محبت میں ڈوبے ہوئے اور انسانیت کی خیر خواہی سے لبریز ہیں ،ایک ہی علاقے میں ایک ہی وقت میں مختلف عبادت گاہوں سے اپنی اپنی عبادتوں کی صدائیں گونجتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ باغ بہار میں پرندے چہچہا رہے ہیں۔ یہ ملک سب کا ہے اور اس ملک کی آزادی میں سبھوں نے مل کراپنا اپنا کردار نبھایا تھا اور ہمارے بزرگوں نے اس کے لئے ایسے قوانین بنائے تھے جس میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو کھل کر اپنے مذہب عمل پیرا ہونے کی آزادی حاصل ہے،ملک کا دستور کی خصوصیت ہے جو آپس میں ایک دوسرے کو جوڑے ہوئے ہے ،جو اس دستور کو توڑ نے کی کوشش کرے گا یہاں لوگ اسے توڑ کر رہ دیں گے اور موجودہ حالات میں جو تحریکیں چل رہی ہیں اور مل جل کر جو کچھ کوششیں ہو رہی ہیں ان سب کا مقصد ملک کے آئین کی حفاظت ،دستور ہند کا تحفظ اور یہاں کے باشندگان کے ساتھ انصاف ہے،اس موقع پر ہم سب باشندگان ہند کو متحد ہوکر جد جہد کر نے کی ضرورت ہے ،کیونکہ یہ معاملہ کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کا نہیں ہے بلکہ ہر شہری کا ہے اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رکھنا ہے جب تک کے انصاف کا بول بالا نہیں ہوجاتا اور ظلم مرنہیں جاتا ۔
بحیثیت ہندوستانی ہم سب کی وطنی ذمہ داری ہے کہ متحد ہوکر آئین حفاظت اور حق شہریت کے لئے جدجہد کریں ، ظلم کا مقابلہ کریں اور حالات سے نہ گھبرائیں بلکہ پچھلی تاریخ ذہن میں رکھیں کہ کس طرح زخموں پر زخم کھاکر ،قید وبند کی صعوبتیں اٹھا کر ،جان عزیز لُٹا کر ہمارے بزرگوں نے ملک اور اس کے اقدار کی حفاظت کی تھی ، انہوں نے خاک میں دفن ہوکر نئی نسل کے لئے آزاد ہندوستان بنایا تھا ،آج ان کی روحیں بے چین ہیں اور ہم سے جمہوریت کے حفاظت کے لئے فریاد کر رہی ہیں،جس طرح ہم ایک ہندوستانی ہیں اسی طرح ہم ایک مسلمان بھی ہیں ،ہمارا مذہب ہمیں دین پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے اسی طرح ملک سے بے لوث محبت والفت کی تعلیم بھی دیتا ہے ،بلکہ دین اسلام میں وطن سے محبت کو اسلامی تعلیمات کا حصہ قرار دیا گیا ہے،اس لئے ہم پر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے،یاد رکھیں مسلمان نہ گھبراتا ہے،نہ مایوس ہوتا ہے ،نہ بزدلی دکھاتا ہے بلکہ وہ جرأت وہمت کا مظاہرہ کرتا ہے ،وہ جانتا ہے کہ ہر اچھے کام کے لئے زندگی لگانا اور زندگی دینا دونوں ہی سعادت کی بات ہے ،وہ حکم اسلام کے مطابق حتی المقدور وسائل کا سہارا بھی لیتا ہے مگر کامیابی کا کلی مدار خدا کی مدد ونصرت پر رکھتا ہے ،اسے یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ کامیابی طاقت سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ نصرت الٰہی سے حاصل ہوتی ہے ،اگر نصرت خداوندی حاصل ہوجائے تو پھر معمولی وسائل بھی غیر معمولی نظر آتے ہیں اور اگر وسائل کا انبار ہو مگر خدا کی مدد شامل حال نہ ہو
تو پھر وسائل را کھ کا ڈھیر ثابت ہوتے ہیں ،اس لئے دین اسلام کی حفاظت، وطن عزیز کی محبت ،اس کے تحفظ ، مظلوموں کی نصرت ،ظالم کو ظلم سے روکنے ،جمہوریت کی حفاظت ،گنگا جمنی تہذیب کی بقا اور آئندہ نسل کو ذلت ورسوائی سے بچانے کے لئے منظم ،متحد اور مستقل کوششیں ناگزیر ہیں ،سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خدا کی مدد ونصرت حق پرستوں ،مظلوموں اور اہل ایمان کے ساتھ ہوتی ہے ،یہ یقین رکھیں کہ اگر اُن کے پاس طاقت ہے تو ہمارے پاس خدا کی مدد ہے،ہم اسی کو پکار تے ہیں ،وہی سنتا ہے اور وہی ہمارے لئے کافی ہے اور اگر وہ ہم سے غلامی چاہتے ہیں تو پھر ہمارا فیصلہ وہی ہے جو بوقت آزادی ہمارے بزرگوں کا تھا ،موجودہ حالات کے تناظر میں شاعر انقلاب منظر بھوپالی کے یہ اشعار حوصلہ بڑھانے کے لئے کافی ہیں ؎

طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے

عکس پر نہ اِتراؤ آئینہ ہمارا ہے
آپ کی غلامی کا بوجھ ہم نہ ڈھوئیں گے

آبرو سے مرنے کا فیصلہ ہمارا ہے
٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×