سیاسی و سماجی

سچ کو تمیز ہی نہیں ہے بات کرنے کی

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جن عظیم اور غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک قوت گویائی اور تکلم کی صلاحیت بھی ہے ،گر چہ زبان تو ہر جاندا ر کے پاس ہوتی ہے لیکن جس زبان کے ذریعہ انسان گفتگو کرتا ہے اور اپنی مافی الضمیر کو لفظوں کی مالا پہناکر زبان کے طشت پر رکھ کر گویائی کے جوہر بکھیر تا ہے ، اسی گویائی کی صلاحیت اور تکلم کی جادوئی صفت نے اسے حیوان سے حیو ان ناطق بنادیا ہے ،زبان تو ہر ایک کے پاس ہوتی ہے ،بس گویائی اور تکلم کا فرق ہوتا ہے ،جس کے الفاظ نرم ونازک ،میٹھے و شیریں اورشائستہ وشگفتہ ہوتے ہیں وہ خوش کلامی کی نعمت سے مالامال ہوجاتا ہے اور جس کے الفاظ میں ترشی وسختی ،تلخی وکڑواہٹ اور جھوٹ کی آمیزش ہوتی ہے تو اسے یہ صفت مفلس بنادیتی ہے اور وہ سب کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اجنبی کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ خوش کلامی کو خوشبو اور بدکلامی کو بدبو سے تعبیر کیا گیا ہے ،زبان کی نرمی وشائستگی انسان کو باوزن بنادیتی ہے اور تلخ کلامی وبدکلامی آدمی کو بے وزن بنادیتی ہے،زبان کی نرمی قابل ستائش ہے اور سخت کلامی قابل مذمت ہے،بڑے بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ ’’ بولتے رہنا کمال نہیں ہے بلکہ درست اور برموقع بولنا کمال ہے ،بعض لوگ بولنے کے بعد الفاظ پر غور کرتے ہیں اور بعض لوگ بولنے سے پہلے غور فکر کرتے ہیں ، وہ لوگ جو سوچ کر بولتے ہیں کبھی شرمندگی سے دوچار نہیں ہوتے برخلاف جو بول کر سوچتے ہیں وہ ہمیشہ رسوائی اٹھاتے ہیں ،اسی لئے کہنے والے نے بہت سچ کہا ہے کہ ’’ پہلے تولو ،پھر بولو، کیونکہ تول کر بولنا عقلمندوں کی علامت ہے اور بول کر تولنا کم عقلوں کی پہنچان ہے ،ایک بول انسان کو ایک دوسرے کا دوست بنادیتا ہے اور ایک ہی بول برسوں کی نزدیکی پر پانی پھیر دیتا ہے،ایک لفظ سے آدمی تاریکی سے نکل کر روشنی میں اور صحراء سے نکل کر منزل مقصود کی جانب نکل پڑتا ہے اور تنہا ایک لفظ سے انسان ہمیشہ ہمیشہ کی گمنامی اور دائمی ذلت ورسوئی کے گڑھے میں جاگرتا ہے ، کلمہ ٔ ایمان آدمی کو دائمی نجات دلاتا ہے تو کلمہ ٔ کفر آدمی کو ہمیشہ کی ذلت سے دوچار کر دیتا ہے ۔
مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو سچائی وصداقت کے ساتھ رفق ونرمی کی بھی تعلیم دی ہے، نرم بات اور میٹھی گفتگو سے آدمی سامنے والے پر اپنا گہرا اثر چھوڑ سکتا ہے ،سامع اس کی شیریں اور نرم باتوں سے متاثر ہو جاتا ہے اور نرمی وہ کمال دکھا تی ہے جو طاقت وقوت اور جبر وتشدد نہیں دکھا سکتا ،رسول اللہ ؐ شیریں بیانی اور بات کی نرمی وحلاوت میں اپنی مثال آپ تھے، آپؐ کے اخلاق فاضلہ ،صدق وامانت ،مزاج ومذاق کی نرمی اور شیریں گفتگو کی وجہ سے لوگ اعلان نبوت سے قبل بھی آپ کے گرویدہ تھے ،اعلان نبوت کے بعد گرچہ لوگ توحید ورسالت کی دعوت کی وجہ سے آپ ؐ کے سخت مخالف ہوگئے تھے لیکن دشمنی کے باوجود بھی آپ کی صداقت وعدالت اور رفق ونرمی کے قائل تھے ،دشمن بھی آپ کی باتیں سن کر اشک بار ہوجاتا تھا اور اس کے دلی کیفیت میں نمایاں تبدیلی آجاتی تھی،بہت سے لوگ صرف آپ کی شیریں بیانی اور نرم کلامی سے متاثر ہوکر داخل اسلام ہوئے ،ان کہنا تھا کہ جو شخص ایسے عظیم اخلاق کا حامل ہو، جس کی زبان سے پھول جھڑتے ہوں،جس کے الفاظ موتی بن کر نکلتے ہوں اور جس کی شیریں بیانی سے سامع پر رقت طاری ہوجاتی ہے وہ ہرگز نہ جھوٹا ہوسکتا ہے اور نہ اس کا لایا ہوا دین غلط ہو سکتا ہے ، یقینا بھلائی نرمی ہی سے پیدا ہوتی ہے ،جس کے مزاج میں نرمی ہوگی ضرور اس میں بھلائی کی خوبی بھی ہوگی ،رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: من یحرم الرفق یحرم الخیر کلہ( مسلم) ’’جو نرمی سے محروم ہوا وہ بھلائی سے ہاتھ دھو بیٹھا‘‘ اور ایک حدیث میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا :ان اللہ رفیق و یعطی علی الرفق (مسلم) ’’ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر شفقت کرنے والے ہیں اور نرمی ہی کی وجہ سے ثواب عنایت فرماتے ہیں ‘‘ ،چنانچہ ایک موقع پر یہودیوں کا ایک چھوٹا سا گروہ رسول اللہ ؐ کے پاس آیا اور ان الفاظ کے ذریعہ آپ کو اپنی طرف متوجہ کیا ا،نہوں نے کہا:آپ پر موت ہو(نعوذ باللہ)،ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میں سمجھ گئی اور جواب میں کہا :تم پر موت واقع ہو اور لعنت بھی،یہ سن کر رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا :ٹہر جاؤ عائشہ! یقینا اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے ،میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ؐ آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا؟ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’بے شک میں نے کہا تھا اور تم پر بھی ہو(موت)،ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ؐ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا :یا عائشۃ ان اللہ رفیق یحب الرفق ویعطی علی الرفق مالا یعطی علی العنف ومالا یعطی علی ماسواہ(مسلم)’’ بے شک اللہ تعالیٰ نرم ہیں اوروہ نرمی کو پسند کر تے ہیں اور نرمی پر جو دیتے ہیں وہ سختی اور دیگر چیزوں پر نہیں دیتے‘‘۔
عمومی حالات اور اکثر معاملات میں نرمی اور شیریں زبانی ہی کام آتی ہے ،بسااواقات سخت کلامی اور گرم مزاجی سے بھی کام لینا پڑتا ہے مگر کبھی کبھی اور وہ بھی کسی خاص موقع پر ،عقل مند ،ہوش مند اور معاملہ فہم وہ شخص کہلاتا ہے جو نرمی وسختی کے موقع کی پہنچان رکھتا ہے اور اپنی قابلیت اور بصیرت سے معاملہ کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتا ہے ،اگر کسی میں اس طرح کی صلاحیت نہ ہو اور اسے حالات کا درست ادراک نہ ہو تو اسے نرمی ہی سے کام لینا چاہیے کیونکہ اکثر اوقات نرمی ہی سے معاملہ درست ہوتا ہے اور نرمی خوبصورتی پیدا کرتی ہے ، اس سے منٹوں میں معاملہ سلجھ جاتا ہے اور شدید ترین اختلاف اتفاق میں بدل جاتا ہے ،رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے : ان الرفق لایکون فی شیی الا زانہ ولاینزع من شیی الا شانہ(مسلم) ’’نرمی جس چیز میں بھی ہو تی ہے اسے خوبصورت کر دیتی ہے اور جس چیز سے نکال لی جاتی ہے اسے عیب دار بنادیتی ہے‘‘۔
نرم مزاجی اور نرم کلامی ہر شخص کے لئے ضروری ہے ،یہ شخصیت کی پہنچان ہوتی ہے ،اس کا تعارف کراتی ہے اور اس کے با اخلاق ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے،مال ودولت ،عزت وشہرت اور عہدہ و منصب سے آدمی بااخلاق نہیں بنتا بلکہ نرم مزاجی ، شیریں کلامی ،صبر تحمل اور عفو ودرگز اسے بااخلاق بناتے ہیں اور یہ ایسے اوصاف ہیں جن پر جاہ وحشمت ،مال ودولت اور طاقت وقوت سب قربان ہیں ،خصوصاً داعی میں یہ صفات بدجہ اتم ہونا ضروری ہے ،انہیں صفات حمیدہ سے متصف شخص ایک اچھا داعی ،مبلغ اور عمدہ معلم بن سکتا ہے،قرآن مجید میں حضرت لقمانؑ کی نصیحتوں کو نوٹ کیا گیا ہے جو انہوں نے اپنے فرزند کو کی تھیں ،ان میں سے ایک نصیحت گفتار ورفتار کے متعلق ہے ،ارشاد ہے: وَاقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ وَاغۡضُضۡ مِن صَوۡتِکَ إِنَّ أَنکَرَ الۡأَصۡوَاتِ لَصَوۡتُ الۡحَمِیۡرِ (القمان: ۱۹) ’’اور اپنی چال میں اعتدال اختیار کرو اور اپنی آواز آہستہ رکھو ،بے شک سب سے بُری آواز گدھوں کی آوازہے، اس ایت مبارکہ میں حضرت لقمان ؑ کی نصیحت دراصل اپنے بیٹے کے واسطے سے قیامت تک نسل انسانی کے لئے ہے اور خصوصیت کے ساتھ اہل ایمان کے لئے، تب ہی تو اسے قرآن مجید کا حصہ بنایا گیا ہے تاکہ لوگ اپنے چال چلن اور گفتار وکلام میں اعتدال پیدا کر سکیں اور اس عمدہ صفت سے اپنے کو آراستہ کر سکیں ۔
اللہ تعالیٰ نے جب جلیل القدر پیغمبر سیدنا موسیٰ ؑ کو مصر کے بادشاہ فرعون کے پاس اپنا فرمان دے کر بھیجاتھا ،وہ فرعون جس نے ساری حدوں کو پار کر چکا تھا ،بادشاہت اور تخت وکرسی کے نشے میں چور ہوکر اپنے اوقات بھول چکا تھا اور خود کو خدا بنالیا تھا ،تو اس موقع پر سیدنا موسیٰ ؑ سے یہ فرمایا تھا: اذۡہَبَا إِلَی فِرۡعَوۡنَ إِنَّہُ طَغَی o فَقُولَا لَہُ قَوۡلاً لَّیِّناً لَّعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوۡ یَخۡشَی(طہ:۴۳،۴۴)دونوں (موسیٰ ؑ اور ہارونؑ) فرعون کے پاس جاؤ وہ حد سے آگے نکل چکا ہے ، ( وہاں )جاکر دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرے یا(اللہ سے) ڈرجائے، اس ارشاد الٰہی کے ذریعہ قیامت تک اسلام کی طرف بلانے والے داعی حضرات کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ دعوت دین کے معاملہ میں نرمی اختیار کریں ،جب کسی کے سامنے دین کی بات کریں تو گفتگو میں اعتدال پیدا کریں اور خوش کلامی سے پیش آئیں ،اس انداز سے بات چیت نہ صرف جلد اثر کر ہے بلکہ دل میں اتر جاتی ہے ،اگر بالفرض اس کے مقدر میں ہدایت نہیں ہے تو کم از کم اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ دین اور اصحاب دین کی مخالفت سے دور رہے گا۔
مسلمانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ آخری نبی کی امت ہیں ، ایک داعی قوم ہیں،ان کے سر پر دعوت کی محنت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ،وہ پوری انسانیت کے لئے ایک مثال ہیں،ان کے اخلاق وکردار ،گفتار ورفتار اور لوگوں سے میل جول میں اعتدال اور میانہ روی ہونی چاہیے ،اس خوبی کے ذریعہ وہ فاصلے اور دوریاں نزدیکی میں بدل سکتے ہیں ،غیروں کو اپنا بناسکتے ہیں اور دشمن کے دل میں محبت کا بیج بو سکتے ہیں ، یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ آج ہم میں کا ایک اچھا خاصہ طبقہ گفتار وکردار اور اخلاقی حیثیت سے بہت پیچھے ہو چکا ہے ، کبھی قوموں میں اپنی ایک پہنچان تھی ،لوگوں میں ایک شناخت رکھتے تھے اور لوگ انہیں اوصاف سے یاد کرتے تھے،وہ ہماری نقل اتار نے کو اپنے لئے باعث شرف محسوس کرتے تھے،لیکن ہماری دین سے دوری ،علم دین سے محرومی اور حرص وہوس ،دنیاطلبی ، سستی وکاہلی ،خرافات وآپسی نزاعات اور آخرت سے غفلت نے کہیں کا نہیں چھوڑا ہے ،اس وقت امت ایک ایسے چوراہے پر کھڑی ہے جہاں چوطرف سے اس پر حملے ہورہے ہیں ،ان کی تن آسانی، وقت کی ناقدری ، حالات سے بے خبری ،اخلاقی گراوٹ اور سب سے بڑھ کر دین بیزاری نے انہیں یہاں تک پہنچادیا ہے ،تاریخ پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ہمارے آباواجداد کیا تھے اور ہم کیا ہیں ، انہوں نے کن بلند یوں کا سفر کیا تھا اور ہم کس قدر پستی کی طرف جارہے ہیں ،اللہ بھلاکرے دین کا درد اور امت کا غم رکھنے والے حضرات کا جو مسلسل کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور نامساعد حالات میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مشکل حالات کو اعتدال پر لانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، مسلمان اپنے اندر احساس پیداکریں ،حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیں ،اپنے طور طریق میں تبدیلی لائیں ،اپنے اخلاق وکردار کو درست کریں ،ہر شخص تنقید کے بجائے تعمیر کا مزاج بنائے اور خود کو اصلاح کا محتاج سمجھیں ،نفرتوں کی دیوار گرائیں اور محبتوں کے پل تعمیر کریں،سچائی اور صداقت کے پیکر بننے کی فکر کریں ،بات میں نرمی لانے اور اخلاق کا عمدہ نمونہ بننے کوشش کریں،اپنے اللہ سے رشتہ مضبوط کریں ،اس کی رسی کو مضبوط پکڑلیں ، توبہ واستغفار کے ذریعہ اللہ سے صلح کریں یقینا دنیا آپ سے صلح کرنے پر مجبور ہوگی،صرف گفتار کے نہیں بلکہ کردار کے غازی بن کر دکھائیں ،محبت کی فضا ء عام کریں ،برادران وطن تک دین کے پیغام کو احسن طریقہ پر اور اپنی بساط کے مطابق پہنچائیں ،اپنی انا کو قربان کریں ،ٹکڑیوں میں بٹ کر ،بحث ومباحثہ میں پڑکر خود کو کمزور نہ کریں ،مسالک اپنی جگہ ،اختلاف اپنے مقام پر مگر اس میں پڑ کر ایک دوسرے پر تنقیدیں نہ کریں ،رسول اللہ ؐ نے وحدت امت کا نعرہ دیا ہے ،ایک مسلمان کو دوسرے کا بھائی قرار دیاہے،بلکہ انسانی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد کی تعلیم وتلقین فرمائی ہے اور صحابہ ؓ کی جماعت تیار کرکے امت کو عملی نمونہ پیش کیا ہے ،آج ان کے نقش قدم پر چلنے کی اور ان حضرات کے مبارک عمل کو زندگی میں جاری وساری کرنے کی ضرور کوشش کریں ،سچ یہ ہے کہ ہماری آپسی تلخی،انتشار ، سخت دلی اور اناپرستی ہم کو اوندھے منہ گراچکی ہے اور غیروں کی دور اندیشی،اتحاد اور ایک دوسرے کا تعاون انہیں آگے کا راستہ دکھارہا ہے،بات یہ ہے کہ ہمارا دین سچا،احکام سچے اور خدا ورسول کا فرمان سچا مگر ہماری رب رحیم ،رحمت للعالمینؐ سے بے تعلقی، بے تمیزی اور بدزبانی نے ہمیں یہاں تک پہنچادیا ہے اور ان کا دین باطل، ان کے احکام بے سروپا اور عبادات رسمی مگر جھوٹ کی مٹھاس اور قوت کی طاقت نے انہیں یہاں کھڑا کیا ہے ،جہاں وہ سینہ تان کر کھڑے ہیں اور ہم اپنی نادانیوں کی وجہ سے اس وقت جد جہد سے دوچار ہیں ، کسی نے سچ کہا ہے کہ ؎

سچ کو تمیز ہی نہیں ہے بات کرنے کی

جھوٹ کو دیکھو کتنا میٹھا بولتا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×