شخصیات

علم وعمل کے نیر تاباں محدث جلیل استاذ العلماء مولانا ریاست علی ظفر ؔبجنوری ؒ

حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے جس میں رسول اللہ ؐ نے قرب قیامت کی علامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :یتقارب الزمان ویقبض العلم وتظھر الفتن ویلقی الشح ویکثر الھرج قالوا وما الھرج؟ قال القتل (صحیح مسلم:۶۹۶۴) ’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ (قیامت کے قرب) زمانہ قریب قریب ہوجائے گا،اور علم اُٹھا لیا جائے گا،اور فتنے نمودار ہوں گے ،اور (انسان کے دلوں میں) بخل ڈال دیا جائے گا اور بہت ہوگا ہرج،صحابہؓ نے عر کیا کہ ہرج کا کیامطلب ہے؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا (اس کا مطلب ہے) کشت وخون‘‘،اس حدیث شریف میں آپؐ نے قرب قیامت کی جن پانچ نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے ایک ’’علم کا اُٹھالیا جاناہے‘‘ حضر ات محدثین ؒ اور علماء ربانین ؒ نے اس سے و ارثین انبیاء علماء کرام مراد لیا ہے ،یعنی قیامت کے قریب علماء ربانی جو علم نبوت کے وارث وامین ہیں ایک ایک کرکے اُٹھا لئے جائیں گے ،گرچہ جگہ جگہ کتب خانے موجود رہیں گے اور گلی گلی پیشہ ورعالموں سے بھری رہیں گی لیکن علمائے ربانی جو علم نبوت کے وارث ،علم وعمل کے پیکر اور انسانی ہدایت کے مینارۂ نور ہیں ان سے دنیا خالی ہوتی جائے گی ۔
اس حدیث شریف کا اگر دور حاضر سے موازنہ کیا جائے تو آپ ؐ کی بات لفظ بہ لفظ ، حرف بہ حرف اور نقطہ بہ نقطہ پوری ہوتی نظر آرہی ہے ،جبال علم ،پیکر علم وعمل اور وارثین انبیاء ایک ایک کرکے دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرتے جارہے ہیں اور ان کے چلے جانے کے بعد ان کی جگہ لینے والا دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے ،ام المدارس دار العلوم دیوبند جو علوم نبوت کا نگہبان و پاسبان اور دینی علوم کی اشاعت کا عظیم ادارہ ہے ، پچھلے دوتین سالوں میں اپنے تین عظیم سپوت اور مایہ ناز اساتذہ سے محروم ہو گیا ہے ، حضرت مولانا شیخ عبدالحق اعظمی ؒ ، حضرت مولانا ریاست علی صاحب ظفر بجنوریؒ اور حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈھویؒ ،اپنے ان مشفق ومہربان ، ملت اسلامیہ کے سرمایہ افتخار اور عبقری شخصیات کو’’ رحمہ اللہ‘‘ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہاہے ،آنکھیں آنسوں بہا رہی ہیں اور دل بیٹھا جا رہا ہے ، بہت سی خوبیاں بہت کم لو گوں میں پائی جاتی ہیں ،بلکہ ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک ، اپنے اندر فولادی روحانی قوت رکھنے والے اور اپنے آپ میں منظم جماعت اور متحرک تنظیم کی سی صلاحیت رکھنے والے لاکھوں میں ایک اور سالہا سال میں ایک پیدا ہوتے ہیں ،ان کے ذریعہ نہایت قلیل مدت میں وہ نمایاں کارنامے انجام پاتے ہیں جسے انجام دینے کے لئے کسی فعال جماعت کو بھی کئی کئی سال لگ جاتے ہیں،یہ محض نظام خداوندی ہے کہ جب کبھی اور جس دور میں بھی جس صلاحیت کے حامل کی ضرورت ہوتی ہے تو اسی لحاظ سے من جانب اللہ اسی صلاحیت مند کا انتخاب ہوتا ہے ، یقینا یہ حضرات اس دور میں اس امت کے لئے قیمتی اثاثہ اور خدا کا قیمتی انعام تھے ،سو اس نعمت سے امت اب محروم ہوچکی ہے ان کی وفات سے نہ یہ کہ صرف دار العلوم دیوبند اور اس کے فضلاء رنج والم میں مبتلا ہیں بلکہ ملت اسلامیہ کا ہر فرد مغموم ہے اور اپنے درمیان ایک قسم کا خلاء محسوس کر رہا ہے ،ان شخصیات کی وفات ملت کا بہت بڑا خسا رہ اور ایسا عظیم علمی خلا ء ہے جس کا پُر ہونا دور قحط الرجال میں بہت مشکل معلوم ہوتا ہے ۔
ان مایا ناز شخصیتوں میں سے ایک استاذ محترم حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوری ؒ تھے جن کی ولادت۹ ؍مارچ ۱۹۴۰ء کو شہر علی گڑ ھ کے محلہ سرائے کے ایک معزز ومحترم شخصیت فراست علی کے گھر میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم کے بعد آپ ؒ نے علوم دینیہ اور درس نظامی کی تکمیل کے لئے ازہر الہند دار العلوم دیوبند کا رخ کیا ، تعلیمی شغف ،علمی انہماک اور اساتذہ سے والہانہ تعلق کے ساتھ آپ علمی پیاس بجھانے میں ہمہ تن مصروف رہے ، شبانہ روز کی محنتیں رنگ لائی ،من جد وجد کا نتیجہ سامنے آیا اور من طلب العلیٰ سحر اللیالی کی عملی صورت سامنے تھی ، دارالعلوم کے سالانہ امتحانات کے نتیجہ کا سینکڑوں طلبہ بے صبری سے انتظار کر رہے تھے ، دورہ ٔ حدیث کا نتیجہ سامنے آیا جس میں آپ نے سب سے زیادہ نمبرات حاصل کرکے اول پوزیشن حاصل کی ،اس طرح آپ نے ۱۹۵۸ء میں اول پوزیشن کے ساتھ فضیلت کی تکمیل فرمائی ،آپ نے بخاری شریف محدث جلیل ،فخر المحدثین علامہ سید فخر الدین ؒ سے پڑھی ، اور فضیلت کی تکمیل کے بعد استاذ محترم ہی کے دامن شفقت سے وابستہ ہوکر کئی سال ان کی علمی مجالس سے مستفید ہو کر علمی تشنگی حاصل کرتے رہے ، آپؒسن ۱۳۹۱ھ میں مادر علمی سے وابستہ ہوئے اور بحیثیت استاذ مقرر کئے گئے ، درس وتدریس کی علاوہ انشاء پردازی کا کافی ستھرا ذوق رکھتے تھے چنانچہ اسی کے پیش نظر سن ۱۴۰۲ھ آپ کو ماہانہ دارلعلوم کا مدیر مسؤل مقرر کیا گیا ،پھر ارباب دارالعلوم کے سامنے جیسے جیسے آپ ؒ کی پوشیدہ صلاحیتیں نکھر کر سامنے آنے لگیں اسی لحاظ سے بڑی بڑی ذمہ داریاں بھی آپ کو سپرد کی جانیں لگیں ،۱۴۰۵ھ میں ناظم مجلس تعلیمی مقرر ہوئے ،۱۴۰۸ھ میں شیخ الہند اکیڈمی کے نگران منتخب ہوئے اور ۱۴۱۲ھ میں آپ کو دارالعلوم کا نائب مہتمم بنایا گیا ، نیز آپ ؒ ملک کی سب سے عظیم وقدیم جماعت ’’جمعیۃ علماء ہند ‘‘ کے کلیدی عہدوں خاص کر قومی نائب صدر کے عہدہ پر بھی فائز رہ کر بے شمار خدمات انجام دئیے اور اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جمعیۃ علماء کے پرچم تلے ملک کے چپہ چپہ میں ملک کی سلامتی،اقلیتوں کے تحفظ اورانسانی بنیادوں پر پوری قوم کو متحد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ،اللہ تعالیٰ نے آپ ؒ کو بڑی ذہنی وفکری صلاحیتوں سے نوازا تھا،بڑے بڑے دینی ورفاہی اداروں نے آپ کو اپنا سرپرست بنایا تھا اور آپ سے قیمتی مشورے لے کر ہی اپنے بڑے بڑے اور اہم کام کامیابی کے ساتھ انجام دیتے تھے،غرض جوبھی کام کرتے اس میں اپنی بھر پور صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ،ہر کام کو بڑے انہماک اور نہایت سلیقے سے انجام دیتے تھے ،کبھی محسوس ہونے نہیں دیتے تھے کہ یہ کام نیا ہے اور اس کو اول مرتبہ انجام دے رہے ہیں ،شیخ الہند اکیڈمی کے بحیثیت نگران مقرر ہونے کے بعد آپ نے اس کے ذریعہ متعدد علمی ،ادبی اور نایاب کتابیں شائع فرمائی ،جب آپ ناظم مجلس تعلیمی مقرر ہوئے تو اس شعبہ میں بہت سی قابل قدر تبدیلیاں فرمائی مثلاًداخلہ امتحان کو تقریری کے بجائے تحریری بنایا،امتحانات میں امید واروں کے لئے رول نمبر جاری کیا اور امتحان سالانہ کی طرح امتحان ششماہی کو بھی مسلم حیثیت عطا کی، تدریسی ، تعلیمی ،تصنیفی اور تالیفی مصروفیات سے ہٹ کر انتظامی کام کا بوجھ بڑھا تو آپ کی صحت میں بھی نمایاں فرق محسوس کیا جانے لگا ،چنانچہ ناسازگی صحت کی بناپر دیگر عہدوں سے سبکدوش ہوکر اپنے آپ کو مکمل درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کے لئے وقف کر دیا۔
ویسے تو ہر کام کے لئے آدمی کو اپنی توانائی کا وافر حصہ صرف کرنا پڑتا ہے لیکن درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کا معاملہ کچھ اور ہے، اسے انجام دینے کے لئے مکمل توانائی کے ساتھ مکمل ذہنی حاضری کی بھی ضرورت ہوتی ہے ، گویا پڑھانے والا ناہموار زمین کو قابل کاشت بناتا ہے ،وہ محنت شاقہ کے ذریعہ علمی قطرے تیار کرتا ہے اور درسگاہ میں جاکر طلبہ کوپلاتا ہے تب جاکر ان کی علمی پیاس بجھتی ہے، یہی حال تصنیف وتحریر کابھی ہے ،دراصل ایک محرر اپنے خون جگر کی روشنائی سے قاری کو علمی قوت عطا کرتا رہتا ہے،یہی وجہ ہے کہ دیگر شعبوں پر تدریس وتصنیف کے شعبوں کو برتری حاصل ہے،آپ ؒ نے بھی ان دونوں شعبوں کے ذریعہ وہ نمایاں خدمات انجام دیں ہیں کہ جنہیں الفاظ کے سانچے میں ڈھالنا بہت دشوار ہے ، آپ ؒ دارالعلوم کے صف اول اساتذہ میں شمار ہوتے تھے،سادگی ،ملنساری،محبت ،شفقت اور اپنائیت کی اپنی مثال آپ تھے، آپ ؒ جس فن کی بھی کتاب پڑھاتے تو اس کا پورا پورا حق ادا کرتے تھے،الفاظ کی بندش ، انداز بلاغت،مترادفات کا استعمال اور گفتگو کی حلاوت یہ وہ درسی خصوصیات ہیں جس نے آپ کو صف اول کے مدرسین میں لاکر کھڑا کر دیا تھا،راقم کو بھی آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا شرف حاصل رہا ہے، سن ۲۰۰۰ء میں حدیث کی مشہور کتاب’’ابن ماجہ‘‘ آپ سے پڑھنے کا موقع نصیب ہوا، دوران تعلیم متعدد بار بعد عصر آپ کے دولت خانہ میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ، ہر آنے والے کے ساتھ نہایت شفقت فرماتے ،ان کی تواضع فرماتے ، ان سے مشفقانہ گفتگو فرماتے اور حسب موقع اپنے قیمتی پند ونصائح کے ساتھ علمی ذوق بڑھانے کے لئے اکابرین کے واقعات بھی سنایا کرتے تھے۔
آپ ؒ جہاں ایک کامیاب استاذ ،فعال منتظم اور عظیم مفکر تھے وہیں ایک باکمال مصنف ، بلند پایا شاعر اور ماہر انشاء پرداز بھی تھے،آپ ؒ کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ’’ ایضاح البخاری ‘‘ ہے ،جس نے آپ کو شارحین بخاری کی صف میں لاکھڑا کر دیا ،ایضاح البخاری دراصل آپ کے استاذ فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الدین ؒ کے درسی افادات کا مجموعہ ہے جسے آپ نے سالہا سال کی محنت شاقہ کے ذریعہ منظر عام پر لا کر علمی دنیا پر احسان عظیم فرمایا ہے ،’’شوریٰ کی شرعی حیثیت‘‘ یہ بھی آپ کی عظیم تصنیف ہے ،اس کتاب کے متعلق سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا شیخ نصیر احمد خان ؒ فرماتے ہیں کہ ’’مولانا ریاست علی نے شوری کی شرعی حیثیت لکھ کر اپنی تبحر علمی کا ثبوت دیا ہے ،یہ کتاب شوری کے ذریعہ نظام چلانے والوں کے لئے دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے‘‘ تصنیف وتالیف کے ساتھ آپ ؒ کو شعر واب پر بھی کافی عبور حاصل تھا ،آپ کا شعری مجموعہ ’’ نغمہ ٔ سحر‘‘ کے نام سے شائع ہو ا ہے جسے بے حد مقبولیت حاصل ہوئی ،دارالعلوم کا ترانہ ’’ یہ علم وہنر کا گہوارہ تاریخ کا وہ شہ پارہ ہے‘‘ آپ ہی کے قلم کا عظیم شاہکار ہے ،اسی طرح جمعیۃ علماء ہند کا بھی مشہور ترانہ ’’یہ اہل یقیں کی جمعیت گلبانگِ بہار ِ گلشن ہے ‘‘ آپ ہی کے نوک قلم سے تحریر کیا ہوا ہے ، ان دونوں ترانوں سے ادب وتاریخ کے ساتھ اخلاص وللہیت اور والہانہ محبت وعقیدت کی مہک آتی ہے ۔
آپؒ نے اپنی عمر کی تقریبا ً پینتالیس ،چھیالیس بہاریں گلشن درس وتدریس کی آبیاری میں لگاکر ہفتہ 20 مئی 2017 ،صبح کی اولین ساعتوں میں ملک وبیرون ملک میں پھیلے ہوئے اپنے ہزاروں شاگردوں اور آپ سے علمی ،اصلاحی فیض حاصل کرنے والے ان گنت لوگوں کو روتا ،بلکتا ہوا چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے ،انا للہ وانا الیہ راجعون ،آپ ؒ کی زندگی کی ہر ادا ہر عام وخاص کے لئے مشعل راہ ہے ،درحقیقت ایسے باکمال مرتے نہیں ہیں بلکہ اپنے کارناموں ،باقیات صالحات اور فیض رسانی کے ذریعہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×