شخصیات

شمعِ حرِیّت سید عطاءاللہ شاہ بخارى⁦ؒہند کے نگہبانوں کی نظر میں

22اگست1961ء تین بجے بعدنمازظہر جنازہ اٹھایا گیا،جنازے کے چاروں طرف آٹھ بانس لگا دیے گئے کہ ہر شخص کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا،
آہستہ آہستہ تمام سڑکیں، میدان، گلیاں، مکان اور چھتیں لوگوں سے اٹی ہوئی تھیں، ایک میل لمبا جنازہ کا جلوس تھا، تقریبا دو لاکھ آدمی شریک تھے، بیٹے نے شام پانچ بجے نمازِ جنازہ پڑھائی اور تقریبا چھ بجے شام انسانی عظمتوں اور شرافتوں کا یہ پیکر اپنے شہر "جلال باقری” کے مشہور قبرستان میں ابدی نیند سوگیا_
غیر منقسم ہندکا یہ ہیرو سال کے 365 دنوں میں سے رمضان کے تیس یا انتیس دن اورعید وبقرعید کے ایام چھوڑ کر باقی تین سو دن  اس طرح گزارے ہیں کہ چالیس برس تک  خطابت کی دشت پیمائی میں بسر کیے، اگر  قید وسلاسل کے نو یا دس سال نکال دیں تو ان تیس بتیس برس میں اس بطلِ حریت نے جو کچھ کہا ہے اس سےکئی دفتر مرتب ہو سکتے ہیں…ع
چراغ خونِ جگر سے جلائے ہیں ہم نے
  تیس سالہ شبابی زندگی کی ننانوے فیصد راتیں  عوام سے مخاطبت میں بسر کیں، مذہب، سیاست اور زبان تینوں کی خدمت کی۔
 وہ خود کہتے ہیں
 "زندگی ہی کیا ہے تین چوتھائی ریل میں کٹ گئی ایک چوتھائی جیل میں”۔۔۔ع
دن کہیں، صبح کہیں، شام کہیں، رات کہیں
ہندوپاک کے اس محسن کو ہندوستانی سورماؤں نے اس طرح تمغہ عظیم عطا کیا۔
 علامہ اقبال ؒ:
شاہ جی اسلام کی چلتی پھرتی تلوار ہیں
 مولانا ابوالکلام آزادؒ:
  شاہ جی کا اردو خطابت میں وہی مقام ہے جو اردو شاعری میں میر انیس کا درجہ ہے
 مولانا محمد علی جوہرؒ:
 آپ سب کو مرغ بریانی (آپ کی تقریریں) کھلائیں گے تو ہمارے ساگ ستو(ہماری تقریریں) کون پوچھےگا
مولانا ظفر علی خان مرحوم: اردو میں شاہ جی سے بڑا خطیب پیدا نہیں ہوا اور آئندہ بھی کئی نسلیں اتنا بڑا خطیب پیدا نہیں کرسکے گی
 مولانا شوکت علی مرحوم
:
 شاہ جی بولتے نہیں موتی رولتے ہیں ان کا وجود چشمہ صافی ہے
 مولانا مودودی مرحوم:
 وہ اپنے دور کے سب سے بڑے خطیب تھے
 مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ:
ان کی باتیں عطائے الہی ہوتی ہیں
علامہ انور شاہ کاشمیریؒ:
 عطا اللہ عہد نبوت میں ہوتے تو ناقہ رسالت کے حدی خواں ہوتے، وہ یگانہ روزگار خطیب ہیں٠
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ:
اس قسم کےنابغہ لوگ روزبروز نہیں ہوتے ہیں، وہ روزمرہ کی زبان میں دین کے بڑے بڑے مسئلے حل کر جاتے ہیں
 مولانا مدنی علیہ الرحمہ:
 اس زمانے میں اسلام کی زبان قرار دیا
مولانا احمدعلی لاہوریؒ: شاہ جی اسلام کے شمشیر برہنہ ہیں
پنڈت جواہر لال نہرو:  اردو خطابت کا تاج محل ڈھے گیا ہے، اور زمانہ ایک ایسی اہم شخصیت سے محروم ہو گیا جس کا وجود اس بر عظیم کے لئے ایک عظیم عطیہ تھا
اور سب سے تاریخی جملہ مہاتماگاندھی کا تھا وہ شاہ جی اب بھی چھ گھنٹے بولتے ہیں  وہی کَس بَل ہے کیا انہیں معلوم نہیں کہ دنیا مختصر ہوگئی ہے شاہ جی آگ ہے جو دشمنوں کے نشیمن پھونکتی اور دوستوں کے چولہے جلاتی ہے
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان:
 سید عطاءاللہ شاہ بخاری جنگِ آزادی اور اسلام کے زبردست مجاہد تھے
مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع علیہ الرحمہ دیوبندی:
 مولانا کی وفات سے علماء کی صف میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ عرصہ تک پُر نہ ہوسکے گا
ہم آپ کے غم میں پورے طور پر شریک ہیں۔
شاہ جی کے دو دشمن انگریز اور ان کا پِلّا
میں ایک سپاہی ہوں تمام عمر انگریزوں سے لڑتا رہا اور لڑتا رہوں گا اگر اس مہم میں سور بھی میری مدد کرے تو میں ان کا منھ چوم لوں گا میں تو انگریزوں کو کاٹ کھانے والی چیونٹیوں کو بھی شکر کھلانے کو تیار ہوں خدا کی قسم میرا ایک ہی دشمن ہے انگریز اس ظالم نے نہ صرف مسلمان ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی ہمیں غلام رکھا اور مقبوضات پیدا کیے بلکہ خیرہ چشمی کی حد ہوگئی کہ قرآن حکیم میں تحریف کے لیے جعلی نبی پیدا کیا، پھر اس خود کاشتہ پودے کی آبیاری کی اور اب اس کو چہیتے بچے کی طرح پال رہا ہے
شاہ جی کی رحلت پر ماہنامہ "تبصرہ”لاہور نے اس طرح تبصرہ کیا تھا
21 اگست کی شام تاریخِ عالم کا ایک مستقل عنوان بن گئی، جب حضرت امیر شریعت رحمۃ اللہ علیہ نے اس جہانِ فانی کی بے اعتنائیوں سے اُکتاکر عالم جاوِدانی کی راہ لی اور اپنے گریبان کی پریشان دھجیاں لئے اس سفر پر چل دیے جہاں نہ کوئی موڑ آتا ہے اور نہ ہی کوئی منزل کے رہنمائی کرتا ہے، اس راہ کی ہر شئی ان کے لیے اجنبی ہوگی، لیکن شاہ جی کسی کے لیے غیر نہیں ہوں گے وہ اُس جہان کی بھی ہر مخلوق کے لئے جانے پہچانے ہیں، پروردگار عالم کے حضور حاضری سے پیشتر یقینا سب کا سلام لیں گے اور خاتم الانبیاء علیہ صلاۃ و سلام شاہ جی کی روح پاک کو فرشتوں کے دوش پر حوضِ کوثر بلائیں گے، تاکہ زندگی کے طویل سفر کی تھکان سے دل کو تسکین ہو سکے ،
 ایسے لوگوں سے ایسا ہی سلوک ہوتا ہے
ولنجزينهم باحسن ماكانوايعملون” ہم ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے”
ادا کرکے قرض اپنی خدمات کا
 سحر دم وہ جاگا ہوا رات کا
 ابد کے نگر کو روانہ ہوا
 مکمل سفر کا فسانہ ہوا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×