سیاسی و سماجی

معیشت کی بدحالی : ذمہ دارکون؟

ابھی تک لوگ بول رہے تھے، اب رپورٹیں آگاہ کررہی ہیں، بعض امانت دارنیوز اینکرس نے چتاؤنی بھی دی ہے کہ اگراب بھی نہ جاگے توپھرکہیںکے نہیں رہوگے، حکومت بولے چاہے نہیں بولے؛ لیکن کچھ ایسے کررہی ہے، جس سے اندازہ بھی ہورہاہے، تمام وزا رتوں میں نئی بحالی پرپابندی لگادی گئی ہے، جس کے لئے وزارت خزانہ کی طرف سے تمام محکموں، ڈپارٹ منٹ،ڈویژن اورخودمختارباڈیزکواحکامات جاری کردئے گئے ہیں، امپورٹیڈ پیپرپرچھپائی نہیں ہوگی، کتابوں کی پرنٹنگ نہیں کی جائے گی، یوم تاسیس جیسی تقریبات پرخرچ نہیں کیاجائے گا، اگرضروری ہوتوکم خرچ میں کام چلایاجائے گا، پروگراموں میں دئے جانے والے بیگ اورمومنٹووغیرہ بندکردئے جائیں گے، مرکزنے کہاہے کہ سبھی وزارتوں اورمحکمے کومقررکنسلٹنٹ کاجائزہ لیناچاہئے، کنسلٹنٹس کی تعدادکم کی جائے، ان کودی جانے والی تنخواہ کم سے کم رکھی جانی چاہئے، نئے عہدے پربحالی وزارت خزانہ کی منظوری کے بغیرنہیں ہوگی، یہ بھی کہاگیاہے کہ اگریکم جولائی 2020کے بعدکوئی عہدہ تشکیل دیاگیاہے؛ لیکن وزارت خزانہ کے محکمہ اخراجات سے منظوری نہیں لی گئی ہے توپھراس عہدہ پرتقرری ممنوع ہوگی، یہ تمام اقدامات مرکزی حکومت کی جانب سے کئے گئے ہیں(روزنامہ سالار: ۵؍ستمبر۲۰۲۰)، ان اقدامات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت کی چولیں اندرسے ہل چکی ہیں؛ لیکن اپنی عزت کوبچانے کے لئے بڑبولابن رہی ہے۔

آج ہندوستان کی معیشت 23.9%نگیٹیوپرپہنچی ہوئی ہے، اس پرگھیرابندی کے جواب میں حکومت کے پاس بالکل ویساہی جواب تیارملا، جیساکہ پیاز مہنگی ہونے پروزیر خزانہ کی طرف سے ملاتھاکہ’’میں پیاز نہیں کھاتی‘‘، یہاں بھی جواب بالکل ریڈی میٹ تیارکہ ’’ یہ سب اوپروالے نے کیاہے‘‘، یہ توبالکل صحیح بات ہے کہ اوپروالے نے کیاہے، جوکچھ دنیامیں ہوتاہے، اوپروالاہی کرتاہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ اس نے ایساکیوں کیا؟ اس سے پہلے تواس نے ایسانہیں کیاتھا؟ آزادی کے چوہترسال گزرگئے، ملک کی معیشت پہلی بار اس قدرنگیٹیو میں گئی ہے، اس سے پہلے توایسا نہیں ہوا، اگراوپروالے نے ایساکیاتواس کاصاف مطلب ہے کہ اوپروالا تمہیں پسند نہیں کرتا، اگر پسند کرتا تو ایسا نہیں کرتا، تم نے تومسجدکی جگہ پرمندرکی پنیادبھی رکھ دی، تم نے تومسلم عورتوں کے حقوق کی بحالی کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ بل کوہزاروں احتجاجات کے باجود پاس کردیا، تم نے تواس ملک سے مسلمانوں کونکالنے کی غرض سے CAA بھی بنادیا، تم نے تورام بھگوان کوخوش کرنے کے لئے ’’جے شری رام‘‘کے نعرہ پرسیکڑوں لوگوں کا بلی دان دے دیا،تم نے توگئوماتا کے نام پربھی سیکڑوں کی بھینٹ چڑھادی، تم نے کوروناکے نام پرتالی ، تھالی بھی بجوادی اوردیابھی روشن کروادیا، اتنے سارے پرن کے کام تم نے کئے ، پھرایسا کیوں ہوگیا؟ تمہارے پرن کے کاموں سے تواوپروالے کوخوش ہوناچاہئے؛ لیکن وہ ناخوش ہوگیا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ تمہارے سارے کام، تمہارے سارے فیصلے اورتمہارے سارے اعمال اسے ناپسند ہیں، تبھی تووہ تمہیں سزادے رہاہے، اوریہ تومشہورہی ہے کہ ’’جیساکروگے، ویسابھروگے‘‘۔

جب منموہن حکومت نے ملک آپ کے حوالہ کیاتھا، اس وقت ملک کی جی ڈی پی +.9تھی، آپ نے توگروتھ کا دعوی کیاتھا، اس دعوی کاکیاہوا؟ آپ اقتدارپرآئے ہی تھے ترقی اورگروتھ کے نام پر، نوکری کے نام پر، ترقی تومعکوسیت کاشکارہوگئی اورنوکریوں کوگہن لگ گیا، جونوکری میں تھے، ان کی نوکریاں بھی چھوٹ گئیں، کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے ایک کانفرس میں بتایاکہ آئی ایل اوکی رپورٹ کے مطابق 40 کروڑ ہندوستانیوں کوخط افلاس سے نیچے دھکیلاجارہاہے، 80لاکھ افرااپریل تاجولائی2020کے دوران اپنے ای بی ایف اوکھاتوں سے 30ہزارکروڑروپے نکالنے پرمجبورہوگئے، 2کروڑتنخواہ یاب ملازمین اپنی ملازمتوں سے محروم ہوگئے، غیرمنظم شعبہ میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے 10کروڑملازمتیں ختم ہوگئیں(منصف،4؍ ستمبر2020)، یہ سب آنکڑے ملکی معیشت کی تباہی کوواضح کرتے ہیں، یہاں رک کراس بات پرغورکرناہے کہ معیشت کی یہ تباہی کیاواقعی کوروناکی وجہ سے ہی آئی ہوئی ہے، یاپھرکچھ اورہے؟

یہ توہرشخص مان رہاہے کہ کوروناکی وجہ سے پوری دنیامیں تباہی آئی ہوئی ہے؛ لیکن ہندوستان میں کورونا سے کم، غلط پالیسیوں کی وجہ سے زیادہ نقصان ہواہے، پھرمعیشت کی تباہی مابعد کورونا نہیں ہے؛ بل کہ اس کی ابتدابی جے پی کے برسراقتدارآنے کے بعدسے ہی شروع ہوگئی تھی، یہی وجہ ہے کہ جب اس کی پہلی میعادختم ہوئی، اس وقت ملک کی جی ڈی پی +.4 میں آگئی تھی، اس کامطلب یہ ہے کہ ملک کی معیشت کی تباہی ماقبل کوروناسے ہی ہے، بی جے حکومت میں اس میں ترقی توبالکل بھی نہیں ہوئی ہے، اورترقی ہوبھی کیسے؟  وزارتوں میں وہ لوگ ہیں، جن کواس قلم دان سے ادنیٰ نسبت نہیں ہوتی، ایجوکیشن منسٹراسے بنایاجاتاہے، جومیٹرک فیل ہے، تونتیجہ کیاآئے گا؟ موجودہ وزیرخزانہ اگرچہ معاشیات پرڈاکٹریٹ ہیں؛ لیکن ان کے جوڑگھٹاؤ سے ایسالگتا نہیں کہ وہ واقعی معاشیات کی طالبہ رہی ہیں، ورنہ اتنی زیادہ معاشی تباہی نہیں آتی، پھراس بات کو مد نظر رکھناچاہئے کہ وزیراعظم جب پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے توپوری دنیاگھومنے کابھوت سوارہوا، وہاں بھی گئے جہاں بلایاگیااوروہاں بھی پہنچے ، جہاں نہیں بلایاگیا اوران اسفار میں ایک رپورٹ کے مطابق تقریباًساڑھے چارسو کروڑروپے خرچ ہوئے ہیں، ان میں جہازوں کی دیکھ بھال والے اخراجات شامل نہیں، جوبہت زیادہ ہوتے ہیں، اتنے روپے اگرملک کی ترقی کے لئے لگائے جاتے توگی جی ڈی پی کیوں گھٹتی؟

پھرجی ایس ٹی اورنوٹ بندی نے معیشت کوچرمرادیا، اس کے باوجود ملک کی معیشت کی طرف دھیان نہیں دیاگیا، CAAکی وجہ سے بھی کافی مالی نقصان ہوا ہے؛ کیوں کہ اس دوران سیاح کی تعدادبالکل گھٹ گئی تھی، جوملک کی معیشت کی ترقی میں اہم کرداراداکرتے ہیں، پھر370نے بھی نقصان پہنچایا، وہاں زندگی بالکل مفلوج ہوکررہ گئی تھی، وہ ایک سیاحتی مقام ہے، جہاں کانظام درہم برہم ہونے کی وجہ سے سیاحوں کے آنے جانے کاسلسلہ بندہوگیا،پھرکوروناکادورشروع ہوااوراس دورمیں بھی غلط پالیسی اختیارکی گئی، اس وقت ملک کوبندکردیاگیا، جس وقت لاک ڈاؤن نہیں ہوناچاہئے تھا، پھرلاک ڈاؤن بھی ایساکہ بقول آکسفورڈ یونیورسٹی: دنیانے ایساسخت لاک  ڈاؤن کسی اور ملک میں نہیں دیکھا‘‘، اس کے باوجودآج کوروناکے 80ہزاریومیہ سے پارکیسیزہیں، آج ایک طرف کوروناکے کیسیز میں بڑھوتری بھی دکھائی جارہی ہے اوردوسری طرف ملک ان لاک 4 میں بھی داخل ہوچکاہے، یہ فلسفہ سمجھ سے باہرہے۔

معیشت کی تباہی میں ان تمام چیزوں کاہاتھ ہے اورجب تک بی جے پی برسراقتداررہے گی، ملک کی معیشت میں سدھارممکن معلوم نہیں ہوتا، وجہ اس کی غلط پالیسیاں ہیں، جوچیزیں ملک کی ترقی میں روکاوٹ بن سکتی ہیں، ان چیزوں پراس کافوکس زیادہ رہتاہے اورجوچیزیں ملک کی ترقی میں کارآمدہوسکتی ہیں، ان سے صرف نظرکیاجاتاہے، اوریہ صرف کرسی بچانے کے چکرمیں ہوتاہے، بی جے پی کے برسراقتدارآنے کے بعدکے فیصلوں پرایک سرسری نظرڈالنے سے یہ بات معلوم ہوجائے گی؛ لیکن ظاہرہے کہ صرف کرسی سے ملک نہیں چلتا، ملک چلنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس دولت بھی ہو۔

معیشت کی تباہی کانقشہ بہت بھیانک ہے، جس کوسن کرہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں؛ لیکن افسوس ان ذرائع پرہے، جوصحیح معنوں میں’’گودی‘‘ بن چکے ہیں، اس پر اس طرح ڈبیٹ نہیں کرتے، جس طرح تبلیغی جماعت پرانھوں نے ڈبیٹ کیا، اس کانقشہ اس طرح کھینچ کرنہیں دکھاتے، جس طرح شاہین باغ اورتبلیغی جماعت کانقشہ انھوں نے کھینچا اورلوگوں میں نفرت پھیلائی، یہ حالت توایسے ہیں کہ چوبیس گھنٹے نیوز میں دکھائے جاتے؛ تاکہ لوگوں کوخطرہ کااحساس ہوتا؛ لیکن ایساکچھ بھی نہیں؛ بل کہ افسوس بعض اندھ بھگتوں پرہوتاہے، ایسے وقت میں بھی وہ یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ ’’سب ٹھیک ہے‘‘، ’’اچھے دن ‘‘آنے والے ہیں، اس وقت توملک معاشی اعتبارسے خطرہ کے نشان سے بہت آگے بڑھ گیاہے، جس سے نمٹنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی لائحۂ عمل نہیں ہے، میڈیاکوصحیح صورت حال سے لوگوں کوباخبرکرناچاہئے، یہ ملک کے بقاکی بات ہے، ورنہ کہیں ملک کوہی گروی نہ رکھناپڑجائے اورایساممکن بھی ہے کہ ’’مودی ہے توممکن ہے‘‘۔

معیشت کی اس تباہ حالی سے یہ خدشہ بھی پیداہوگیاہے(اللہ نہ کرے) کہ یہ حکومت کہیں ملک میں معاشی ایمرجنسی لاگونہ کردے، ایسے میں لوگ بے موت مارے جائیں گے، ویسے بھی معاشی بحران کے شکار ہوکر ہرروزسیکڑوں کی تعدادمیں لوگ مررہے ہیں؛ لیکن کمال عیاری کے ساتھ میڈان چیزوں کوچھپادیتی ہے، معاشی ایمرجنسی کاصاف مطلب یہ ہے کہ آپ کی دولت حکومت کی ہوجائے گی، وہ جب چاہے، جیسے چاہے، اس میں تصرف کرسکتی ہے، سالوں کی کمائی، گاڑھے پسینے کی کمائی، سب پانی میں چلاجائے گا، حکومت توموج کرے گی، جیسے کہ آج کررہی ہے، پریشان آپ ہوں گے، جیسے آج ہورہے ہیں۔

ایسے وقت میں حکومت کوفکریہ کرنی چاہئے کہ معیشت کی یہ تباہی کیسے درست ہو؟ لیکن حکومت اب بھی غلط پالیسی اختیارکرہی ہے، وہ معیشت پرتوجہ دینے کی بجائے ہتھیار پردھیان دے رہی ہے، جس وقت لوگوں کوروٹی کی ضرورت ہے، اس وقت حکومت ہتھیارخریدرہی ہے، ظاہرہے کہ یہ بھی غلط پالیسی ہی ہے، پھراس وقت ہرچیزمہنگی ہوگئی ہے، جب کہ حکومت کوچاہئے کہ چیزیں سستی ہوں؛ کیوں کہ پانچ مہینے سے لوگ گھروں میں بے روزگاربیٹھے ہیں، ان کے پاس پیسے کہاں سے آئیں گے؟ اقتدارملنے کامطلب  یہ نہیں ہے کہ من مانی کرکے ملک کوتباہ کردیاجائے، ایسے میں یہاں کی عوام کوسوچنے کی ضرورت ہے کہ اب آگے کیاکرناہے؟ حکومت پرتوبھروسہ بے کارہے؛ لیکن بے بھروسہ حکومت کافائدہ بھی کیا؟ سوچئے اورخوب سوچئے اورکسی بھی حالت سے دوچاررہنے کے لئے تیاررہئے، ابھی تیاررہیں گے توتکلیف کم ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×