سیاسی و سماجی

ہندوستانی منظرنامہ میں مسلمانوں کالائحۂ عمل

اس وقت ہندوستانی مسلمان عجیب کشمکش کی زندگی سے دوچار ہیں، ان کی سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ ملک کے اندرجونفرت کاماحول بن چکاہے، اسے کیسے ختم کیاجائے؟ خوداپنے بھی جداہوتے دکھ رہے ہیں، اتحادکی سب سے زیادہ جس وقت ضرورت ہے، اس وقت بھی لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ء ہیں، ایک دین اورایک فقہ کوماننے والے بھی مجتہد فیہ مسائل میں الجھتے نظرآرہے ہیں، شیعہ سنی کے نام سے توصدیوں پہلے بٹے تھے، پھربریلویت اوردیوبندیت کے نام سے الگ ہوئے، اہل حدیث کے نام پربھی جدائے گی ہوئی، مسٹر اورملا کے نام پربھی انتشارہوا، جس کی تصویرکشی شہنشاہ ظرافت اورنباض شناس شاعر اکبرالٰہ بادی نے یوں کی ہے :
ادھریہ ضدہے کہ لیمن بھی چھونہیں سکتے
اُدھریہ دھن ہے کہ ساقی صراحی مئے لا
مسلم پرسنل لاء کے ذریعہ جوڑنے کی ایک کوشش کی گئی تھی، سووہ بھی کئی دھڑوں میں بٹ چکی ہے، جمعیۃ بھی دوحصوں میں ہے، بعض بڑے مدارس بھی معمولی اختلاف کی بنیاد پر دوٹکڑوں میں بٹ گئے ، اس سے قبل صوفی ازم کے نام سے مسلمانوں کاایک دھڑا مزید جداہوا، ابھی ایک اورمسیج وائرل ہورہاہے، جس میں اصغر مہدی صاحب اپنی جماعت کے ساتھ علاحدہ ہوتے نظرآئے، قائدین کی طرف سے مکمل طورپرخاموشی، کسی طرح کی کوئی رہنمائی دکھتی نظرنہیں آرہی ہے، تنظیمیں بہت ہیں؛ لیکن کسی کی طرف سے کوئی قابل عمل سجھاؤنہیں نظرآرہاہے؛ البتہ ماحول کے اس بگاڑسے سارے لوگ پریشان ہیں، مسائل اتنے ہیں کہ وسائل کم پڑرہے ہیں، ابتداء کہاں سے ہو؟ شروع کہاں سے کیا جائے؟ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہاہے، ہم تعلیم میں بھی پیچھے ہیں، عمل بھی پیچھے ہیں، معاشی حالت بھی بہترنہیں، سیاست توہمارے لئے کیچڑمیں قدم رکھنے کے مترادف ، لہٰذااس میں بھی کہیں نہیں، اخلاقی برائیاں بھی ہم میں بہت ہے، تہذیب ہماری مٹتی جارہی ہے، شناخت ہماری ختم ہوتی جارہی ہے، ظاہرہے کہ ایسے میں آدمی سوچنے کے قابل ہی کہاں رہ سکتاہے؟ اس لئے کسی کی سمجھ میں ہی نہیں آرہاہے کہ کیاکیاجائے؟
ایک دوزخم نہیں، جسم ہے ساراچھلنی
دردبے چارہ پریشاں ہے کہاں سے نکلے
اگرایک ایک کرکے کام شروع کیاجائے توان تمام مسائل سے نمٹتے نمٹتے صدیاں بیت جائیں گی، لہٰذا کام کی ابتداچومکھی ہونی چاہئے، اس تعلق سے سب سے پہلا کام تویہ ہوناچاہئے کہ پہلے ہم ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنائیں، جس میں ساری تنظیمیں شامل ہوں، سارے مسالک کے لوگ جمع ہوں، مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی افراد ہیں، تمام کے نمائندے موجودہوں، پھرتمام کے سامنے مسلم قوم کے تمام مسائل کو سامنے رکھاجائے، ان کے سامنے حالات کی سنگینی کوواضح کیاجائے، ٹرین میں جب ہم سفرکرتے ہیں توصرف ایک قوم کی حیثیت سے رہتے ہیں، باہرجب کام کرتے ہیں توایک قوم سے آگے بڑھ کرایک ملک کے باشندے کی حیثیت سے رہتے ہیں تو پھرقوم کی کشتی کوڈوبنے سے بچانے کے لئے ایک قوم کی شکل کیوں اختیارنہیں کرسکتے؟
دوسراکام یہ ہوناچاہئے کہ مسائل کوتمام تنظیموں کے درمیان تقسیم ہوناچاہئے، ہم دیکھتے ہیں کہ بے قصورجیل میں ڈالے گئے افراد کوچھڑانے کے لئے دسیوں تنظیمیں کام کرتی ہیں، اس کے بجائے اگرہرتنظیم کے ذمہ الگ کام سونپاجائے تونہایت آسانی سے چومکھی کاموں کی ابتداء ہوسکتی ہے، جس تنظیم کے لوگ جس میدان میں زیادہ اچھے ڈھنگ سے کرسکتے ہوں، اس تنظیم کے سپردوہ کام کیاجائے اوراس سلسلہ میں ایک دوسرے کاتعاون بھی کیاجائے، اس سلسلہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ دین آسان ہے اورمجتہد فیہ مسائل میں بہت کچھ گنجائش رہتی ہے، اس گنجائش کوقبول کیاجائے، اس کی وجہ سے نزاع نہیں ہوناچاہئے، جولوگ کسی بھی نئے کام کوبدعت کہنے سے نہیں چوکتے، وہ اس پربھی غورکریں کہ کیایہ عمل کہیں مباح کے دائرہ میں تونہیں آتا؟ اگرمباح کے دائرہ میں آتاہے توپھربدعت کہنے سے بچا جائے، جان کی حفاظت کے لئے توکلمۂ کفرکی ادائے گی اور مردارکھانے کی اجازت بھی دی گئی ہے توہم بھی جان کی حفاظت اورایمان کی حفاظت کے لئے کیوں ایک نہیں ہوسکتے؟اورپھرکیوں مجتہد فیہ مسائل کی گنجائش کوقبول نہیں کرسکتے؟ پھریہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ دیوبندی حلقہ کے بڑے بزرگ مولانااشرف علی تھانوی کا تو یہاں تک قول ملتاہے کہ ’’جی چاہتاہے کہ ایک ایسی کتاب(معاملات کے تعلق سے) لکھوں کہ اگرلوگوں کے معاملات کسی بھی امام کے نزدیک جائز ہوتواسے جائزقراردیدوں‘‘، اس سے بڑھ کراورگنجائش کی بات کیاہوسکتی ہے؟ کہ ائمۂ اربعہ نہیں؛ بل کہ کسی بھی امام کے قول کوقبول کرنے کی بات کہی جارہی ہے۔
حالات کے رخ بہت بگڑچکے ہیں، بالکل اس ڈیم کی طرح، جس کاپانی لبالب بھرچکاہو، اب تب پشتہ ٹوٹنے والاہو، ایسے میں فکراس کی ہونی چاہئے کہ کسی طرح سے پانی کم ہوجائے اورپشتہ ٹوٹنے نہ پائے؛ البتہ پانی کوکم کرنے کے لئے دوسروں کو نقصان نہیں پہنچایاجائے گا، لاضررولاضرارکاواضح حکم موجودہے، اس بابت یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ ایسے میں تحمل اوربرداشت کی بہت زیادہ ضرورت ہے، اگربات ہمارے خلاف ہو؛ لیکن اس میں قوم کافائدہ ہواورشریعت میں اس کی گنجائش بھی موجود ہوتوقوم کوبچانے کے لئے اپنے خلاف بات کوقبول کرلینی چاہئے۔
صلح حدیبیہ میں کیاہوا؟ کفارمکہ کی طرف سے جوشرائط رکھے گئے، بہ ظاہروہ سب مسلمانوں کے خلاف تھے؛ لیکن آپﷺ کہہ چکے تھے کہ وہ لوگ کوئی ایسی تجویز رکھیں گے، جس میں اللہ کی حرمتوں کی پامالی نہ ہوتی ہوتومیں ضرورقبول کروں گا، لہٰذا آپ نے ان کی شرطوں کوقبول کیا؛ حالاں کہ مسلمان ان شرطوں کی وجہ سے سخت نالاں تھے، اس کے باجودآپ نے ان شرطوں کومان لیا؛ حتی کہ پہلی شرط کہ اپنے نام سے ’’رسول اللہ‘‘ کاجزء ہٹانے کوبھی قبول کرلیا،اس صلح کی شرطیں آپ خود دیکھ کراندازہ لگایئے کہ مسلمانوں نے کس طرح صبرکیاہوگا، وہ شرطیں یہ ہیں:(۱) دس سال تک حرب وضرب موقوف رہے گی۔(۲) قریش کا جومرد مسلمان ہوکراپنے اولیاء اورموالی کی اجازت کے بغیرمدینے آجائے، اُسے واپس کردیاجائے گا۔(۳) مسلمانوں میں سے جومرد(راہِ ارتداداختیارکے)مکہ آجائے، اُسے واپس نہ کیاجائے گا۔(۴) مدتِ معاہدہ میں کوئی دوسرے پرتلوارنہیں اُٹھائے گااورناہی کسی سے خیانت کرے گا۔(۵) محمداِس سال واپس چلے جائیں اورآئندہ سال مکہ میں صرف تین دن رہ کرعمرہ کرکے واپس ہوجائیں، سوائے تلواروں کے اورکوئی ہتھیارساتھ نہ ہواوروہ بھی نیام میں رہیں۔(۶) قبائل ِمتحدہ جس کے حلیف بنناچاہیں، بن سکتے ہیں، مسلمان تعداد میں بھی کم نہیں تھے، قوت میں بھی کمزورنہیں تھے، اس کے باوجودان تمام شرطورکوقبول کیا، ایساکیوں کیا؟ خیرکے لئے کیا، بھلائی کے لئے کیا، قوم کے فائدہ کے لئے کیا، پھردنیانے دیکھاکہ اس صلح کے نتیجہ میں کتنی جلد مکہ فتح ہوااورسارے کے سارے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے؟ ہمیں اپنے سامنے اس نمونہ کورکھناچاہئے۔
ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں، وہاں کی اکثریت غیروں کی ہے، وہاں کی حکومت سیکولرہونے کے باوجودغیرسیکولرہے اورآج کل کے حالات میں ان کے فیصلے کس طرح کے صادرہورہے ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ ہم یہاں پراپنی شرطیں منواکرنہیں رہ سکتے، اس کی وجہ سے بلاوجہ کاٹکراؤ ہوگا اور نقصان سوائے ہمارے اورکسی کانہیں ہوگا، ہمیں وہ راستہ اختیارکرناچاہئے، جس سے سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے، ہم اسلامی حکومت میں نہیں جی رہے ہیں کہ ہماری کوشش یہ ہوکہ سو فیصداسلامی شریعت کے مطابق حکومت چلتی رہے، یہ تو نہیں ہوسکتا؛ بل کہ وہ ملک، جوخالص اسلام کے نام پربنا، اس میں آج تک خالص اسلامی شریعت کانفاذ نہیں ہوسکاہے توہم توایک غیراسلامی سیکولرحکومت میں رہ بس رہے ہیں، ہمیں فقہ الاقلیات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، ذاتی عمل میں توہماری پوری کوشش ہوکہ سو فیصد شریعت کے مطابق زندگی گزاریں؛ لیکن معاشرتی اعتبارسے ایسی زندگی گزارنے والے کتنے ملیں گے؟ اس لئے ہمیں دین کی آسانی کواختیارکرنے کی ضرورت ہے، اسے سخت بناکرعوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، پھریہ بھی قابل غورہے کہ ہم جوکہیں، ہماراطرز عمل اس کے خلاف نہ ہو؛ کیوں کہ اس سے الٹااثرپڑتاہے۔
یہ بات توٹھیک ہے کہ اس ملک کی مٹی آج بھی ذرخیز ہے؛ لیکن صرف مٹی کا ذرخیز ہونا کافی نہیں؛ بل کہ کاشت کارکے لئے کاشت کاری کے گرجاننابھی ضروری ہے، بیج کے تعلق سے معلومات، پھرموسم کالحاظ، پھراس کی سینچائی اورسیرابی کے وقت سے واقفیت، کل ملاکہ اس کے متعلقات کی واقفیت ضروری ہے، تب جاکرذرخیز مٹی سے ہم کچھ حاصل کرسکتے ہیں، ورنہ صرف مٹی کی ذرخیزی ہمارے کسی کام کی نہیں، ہمیں اس تعلق سے بھی غورکرنے کی ضرورت ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×