سیاسی و سماجی

ہرجرم کی سزا معافی نہیں!

غلطی انسان سے ہوتی ہے اورغلطی ہونابری بات بھی نہیںہے کہ ہم خطاء اورنسیان کے مرکب ہیں؛ لیکن جب کوئی کام منصوبہ بندی کے ساتھ اورپری پلاننگ ہوتواسے غلطی نہیں کہاجاسکتاہے اورجب وہ غلطی ہی نہیں ہے توپھراس پر اگرکوئی معافی مانگے تومعافی کیسے درست ہوسکتی ہے؟اگرکوئی شخص پوری پلاننگ کے ساتھ کسی کوقتل کردے، پھرعدالت میں جاکرکہے کہ : جج صاحب! معاف کیجئے گا، میںنے غلطی سے اسے قتل کردیاتوکیامہذب دنیاکاکوئی فرداسے غلطی ماننے کے لئے تیارہوگا؟ ظاہرہے کہ نہیں۔
اس وقت ہماراملک دوسرے ملکوں کی طرح کورونا(Covid-19)سے جھونجھ رہاہے اورتازہ خبروںکے مطابق چھ ہزارپانچ سوستتر (6577) ایکٹیوہیں، سات سو چوہتر(774)شفایاب ہوچکے ہیں اورمرنے والوںکی تعداددوسوانچاس(249)بتائی جارہی ہے، ملک بندی کے نتیجہ میں جس طرح سوچاگیاتھاکہ معاملات میں کمی آجائے گی؛ لیکن سوچ کے مطابق ویسی کمی نہیںآئی ہے۔
ہندوستان میں کوروناکا پہلاکیس اس وقت سامنے آیا، جب ووہان سے لوٹی میڈیکل اسٹوڈینٹ کی رپورٹ ۳۰؍جنوری کوآئی، یہ طالبہ کیرالاکی تھی اورووہان میںزیر تعلیم ، یہ ۲۴؍جنوری کوبراہِ کولکاتہ کوچی پہنچی تھی، دہلی میںکوروناکاپہلاکیس روہیت دتتہ(Rohit Dutta)کاسامنے آیا، جو فروری کے لاسٹ میںویانا سے لوٹے تھے، یہ دراصل ایک چمڑے کے تاجرہیںاوروسط فروری میںاس تعلق سے اٹلی گئے تھے،ان کی خودکی ویڈیومیں اس کااعتراف ہے اوریہ بھی کہ وہ مکمل طورپر شفایاب ہوچکے ہیں، بے بی ڈول سنگرکنیکاکپور۹؍مارچ کولندن سے لوٹی تھی، ۲۰؍مارچ کومعلوم ہواکہ وہ کوروناپوزیٹیوہے، اس سے قبل ۱۳؍مارچ کووہ لکھنؤکے تاج ہوٹل میں ایک پارٹی اٹینڈ کرچکی تھی، خبروں کے مطابق یہ بھی شفایاب ہوچکی ہے، ۲۳؍مارچ کوچنڈی گڑھ کی رہنے والی ایک ۲۳؍ سالہ لڑکی لندن سے لوٹی، چانچ میںوہ ، اس کی ماں اوربھائی وغیرہ بھی کوروناپازیٹیوپائے گئے۔
مارچ کے دوسرے عشرہ میں مرکزنظام الدین میں اجتماع ہوا، جس میںملک کے علاوہ بیرون ملک سے بھی ایک معتدبہ تعدادنے شرکت کی تھی، معلوم نہیںبیرون سے آنے والے ان لوگوںکی چانچ ہوئی یانہیںاوراگرجانچ ہوئی توانھیںاس اجتماع میںشرکت کی اجازت کیسے ملی؟جب کہ اس وقت تک کوروناکادائرہ ہندوستان میںبھی پھیل چکاتھا، یہ سب تحقیق طلب امورہیں، ۲۲؍مارچ کوپورے ملک میں جنتاکرفیو لگایاگیا، پھراچانک ۲۱؍دن کے لئے ملک بندی کردی گئی، جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ مختلف جگہوں میںبھی پھنس گئے ، مندر، مسجد، گردوارہ میں پھنسنے کی طرح لوگ مرکزنظام الدین میںبھی پھنس گئے، پھرمارچ کے اخیرمیں یکایک تبلیغی مرکزپردھاوابولاگیااورنیوزچینلوں میں یہ بتایاگیاکہ مرکزنے لوگوں کوچھپاکررکھاتھا، پھراس کثرت سے نیوزپھیلائی گئی کورونااس ملک میں تبلیغیوں کی وجہ سے آیاہے کہ دیہات کے لوگ تک اس سے متأثرہوگئے،اس طرح کی نیوز تسلسل کے ساتھ چلائی گئی؛ حتی کہ بعض منسٹروں کی طرف سے یہ بات آگئی کہ جتنے بھی کوروناکے کیس ہیں، ان میں۳۰؍ فیصدتبلیغیوں کی ہے؛ لیکن انھوںنے جہاں تیس فیصد کاذکرکیا، وہیںسترفیصدکے ذکرکوگول کردیا، گویاایک پلاننگ ہوگئی مسلمانوں کوبدنام کرنے کی، میڈیاکوتوشوشہ کی ضرورت تھی، وہ منسٹرصاحب کے اس جملہ سے حاصل ہوگیا اورپھر وہ اودھم مچایاگیاکہ بس اللہ کی پناہ! پھرسوشل میڈیاکے ذریعہ نفرت کے پجاریوں نے غیرمسلم بھائیوں سے یہ مطالبہ بھی شروع کردیاکہ درگاہ پہ مت جاؤ، مورپنکھ باباکوچندہ مت دو، مومن سے پھل سبزی مت خریدو، مومن درزی سے کپڑے مت سلاؤ، مومن نائی سے بال مت کٹواؤ، مومن کی ٹیکسی یارکشہ میں مت بیٹھو، مومن کے ہوٹل میں مت کھاؤ، اورمومن پلمبر، ایلیکٹیشن اورویلڈرکوریپلیس کرو، اس کانتیجہ یہ ہے لوک ڈاؤن کی اس مہاماری میں، جب کہ پورے ملک کوایک ساتھ کھڑاہوناچاہئے، ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے، ایک دوسرے کی ضرورت کوپوری کرنی چاہئے؛ لیکن ایسے موقع سے جب کوئی مسلم کسی غیرمسلم کے دوکان میں خریداری کے لئے جاتاہے تووہ دورہی سے منع کردیتاہے، آپ تصورکیجئے کہ آپ کے گھرمیںکھانے پینے کاسامان نہ ہو، گاؤں دیہات میں ایک ہی راشن کی دوکان ہو، آپ وہاں خریداری کے لئے جائیں اورلاک ڈاؤن کے اس دورمیں آپ کوسامان دینے سے منع کردیاجائے، آپ کے پاؤں تلے سے زمین نکلے گی یانہیں؟آپ نہانے کے لئے جائیں اورآپ کے غیرمسلم دوست کہیں کہ تم اس گھاٹ میں مت نہاؤ، آپ کوتکلیف ہوگی یانہیں؟ آپ کودواکی سخت ضرورت ہواورآپ میڈیکل جائیں اورآپ کودوادینے سے منع کردیاجائے، آپ کواچھالگے گاکیا؟ ڈیلوری پیشن ہوسپٹل جارہی ہے اوراسے منع کردیاجارہاہے؛ حتی کہ راستہ ہی میں اس کی ڈیلوری ہورہی ہے، کیااس سے زیادہ بھی اذیت ہوسکتی ہے؟
ہماراجرم کیاہے؟ بس یہی کہ بعض مسلمانوں میں کوروناپا,یٹیوپایاگیاتوکیاآپ نہیں جانتے کہ کوروناکی بیماری میں غیرمسلم بھی شریک ہیں اوپرکے ڈیٹاسے آپ کواندازہ ہواہوگاکہ انھیںکے کیس پہلے دریافت ہوئے، یہ سب میڈیاکی کارستانی ہے، شایدانھیںپتہ نہیں کہ ان لوگوں نے ہمارا ذہنی ٹارچرہی نہیں کیا؛ بل کہ ایک طرح سے ہمارافیزیکلی مرڈرکیاہے، چھتیس گڑھ کی یہ نیوز آئی تھی کہ تبلیغی جماعت کے ایک سوانسٹھ (159)لوگوںکواس شبہ میں گرفتاکیاگیاکہ وہ کوروناکے مریض ہیں؛ لیکن بی بی سی ہندی نیوز کے مطابق ان میں سے ایک سوآٹھ(108)غیرمسلم تھے، پھریہ حکومتی طورپربتائی جارہی تھی، کل ہی کی بات ہے کہ زی نیوز نے اس پرمعافی مانگی کہ اس نے غلط نیوزدکھائی تھی کہ ارونانچل پردیش کے ۱۲؍ تبلیغی کوروناکے مریض ہیں، جب کہ یہ غلط ہے۔
سوال یہ ہے کہ زی نیوزکا یہ معافی مانگناکافی ہے؟ جن چینلوں نے ہمیں ذہنی اذیت پہنچائی ہے اورہمارافزیکلی مرڈرکیاہے، جس کے نتیجہ میں ہمیں کھانے پینے کے سامان تک نہیں مل پارہے ہیں، اٹھنابیٹھنادشوارہوگیاہے، راستہ چلنامشکل کردیاگیاہے، جہاںبھی جاؤ، بس ایک ہی چرچاہے کہ کورونامسلمانوں سے پھیلاہے، ظاہرہے کہ ایسی صورت میںمعافی کافی نہیں، ذہنی اذیت کوتوملکی کیا، بین الاقوامی قانون بھی جرم مانتی ہے اورجرم بھی ایساکہ جس میں ایک مذہب کوبھی نشانہ بنایاگیاہے،یہ بھی تو جرم ہے، اورمیڈیاکایہ جرم نیانہیں ہے، کئی سالوں سے اسی طرح کی الٹی سیدھی حرکتیںکررہی ہے، اگرکسی مسلم کانام کسی کیس میں آجائے تواسے ایسے پیش کیاجاتاہے کہ بس یہ ملک دودھ کی طرح دھلاہے، یہاں پربسنے والے دودھ کے دھلے ہیں،بس یہ مسلمان ہیں نا، یہی جرم کے رسیاہیں، اوریہ ہمیشہ سے مجرم ہی رہے ہیں، ابھی کاتازہ دہلی کے فسادکاواقعہ سب کے سامنے ہے، میڈیامیں بعض مسلمانوں کوہی ماسٹرمائنڈ بنایاگیا؛ حالاں کہ فسادسے پہلے جس طرح کی بیان بازی کی گئی اورایک قوم کے لوگوں کے خلاف بھڑکیاگیا، وہ کسی سے چھپی نہیں ہے، اوراسی کانتیجہ دہلی فسادہے، لیکن وہ سب پاک پوترہیں، ان بیان بازوں کے خلاف ایف آئی آرنہیں درج کی گئی، صرف اسی لئے نا کہ وہ اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں؟ اورمیڈیانے بھی اس پرکوئی سوال نہیں اٹھایا، کیوں؟ لیکن اسی واقعہ میں جب طاہرمسلمان کانام آیاتومیڈیاحرکت میں آگئی اورپورے فسادکی جڑ اسی کوقرار دیدیا، میڈیایہ رویہ ناقابل قبول ہے۔
غلط خبرپھیلاناتوجرم ہے ہی، اس کے ذریعہ سے نفرت کی دیوارکھڑی کرنااوربڑاجرم ہے، اورمیڈیاکے بعض احباب نے یہ جرم کیاہے، اورچوں کہ یہ جرم چھوٹا نہیں، بہت بڑاہے؛ اس لئے معافی سے کام چلنے والانہیں، جرم کے اعتبارسے سزاہونی چاہئے، جس طرح باربارجھوٹی خبرکے ذریعہ سے لوگوںکے ذہنوں کومسموم کیاہے، اسی طرح باربار معافی مانگ کرلوگوںکے ذہنوں سے اسے ختم بھی کرناہوگااورپھرآئندہ نہ کرنے کے لئے ان پرجرمانہ بھی ہوناچاہئے؛ بل کہ ان کے اجازت ناموں کومنسوخ بھی ہوناچاہئے اور جونیوزاینکرس اس میں ملوث ہیں، ان کوتوہمیشہ ہمیشہ کے لئے چینلوں سے دورکردیناچاہئے۔

jamiljh04@gmail.com / Mob:8292017888

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×