سیاسی و سماجی

پیارومحبت کی کھیتی کی ضرورت

خصوصیت کے ساتھ ملک کے دوصوبوں میں سیاست کی ہلچل چل پڑی ہے، ایک بنگال میں اوردوسرے یوپی میں، اورسب سے زیادہ ہلچل اے آئی ایم آئی ایم کی وجہ سے دیکھنے کومل رہی ہے، جس کی وجہ سے اس کے صدرکئی طرح کے سوالات کے گھیرے میں ہیں، کوئی بی جے پی کاایجنٹ کہہ رہاہے، کوئی بی جے پی کی بی ٹیم بتارہی ہے اورحد تواس وقت ہوگئی، جب بی جے پی کے نیتاشاکشی مہاراج نے یہ بیان دیاکہ بھگوان اس کوطاقت دے، اس کی وجہ سے ہی ہماری جیت ہوتی ہے؛لیکن کیا حقیقت بھی ایساہی کچھ ہے؟ اس کا توکسی کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ واقعتاًاے آئی ایم آئی ایم اوربی جے کے درمیان کوئی معاہدہ ہواہے، کوئی ڈیلنگ ہوئی ہے، اگرکسی کے پاس کوئی ثبوت ہوتاتوآج تک پیش کیاجاچکاہوتا، جب کہ اس سے قبل مہاراشٹرکے الیکشن میں ایک مسلم تنظیم کی طرف سے باقاعدہ یہ اعلان کیاگیاتھا کہ اے آئی ایم آئی ایم کوووٹ نہ دیاجائے، اس کے باوجود اس کی پارٹی کے کئی امیدوار وہاں کامیاب ہوئے۔

ابھی چند مہینوں پہلے بہارکا الیکشن ہوا، وہاں بھی اے آئی ایم آئی ایم کے پانچ نمائندوں کوکامیابی ملی، اس کواے آئی ایم آئی کی بڑی کامیابی کے طورپردیکھاجاتاہے؛ لیکن دوسری طرف اس پریہ الزام بھی دیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے تقریباً پندرہ مہاکٹھ بندھن کے امیدوارہارگئے اوروہ بھی معمولی ووٹوں کے ساتھ، اگراے آئی ایم آئی ایم بہارالیکشن میں نہیں کودتی تو مہاکٹھ بندھن کی جیت یقینی تھی اوراس وقت بہارکے وزیراعلی نتیش کمارکی بجائے تیجسوی یادوہوتے، اس الزام کے لگانے میں سیاسی جماعتیں توپیش پیش ہیں ہی، بہت سارے مسلمانوں کابھی یہی مانناہے، اسی لئے بنگال الیکشن میں ان کے اترنے کو اچھی نظرسے نہیں دیکھا جارہاہے اورشاکشی مہاراج کے بیان کے بعد تو اس الزام میں شدت آگئی ہے۔

ایسی صورت میں کئی طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں، جن کاجواب اے آئی ایم آئی ایم کوہی نہیں؛ بل کہ دیگرپارٹیوں کوبھی دیناچاہئے اوران لوگوں کوبھی دینا چاہئے، جواے آئی ایم آئی ایم کوموردالزام ؛ بل کہ مجرم گردانتے ہیں، پہلاسوال تواے آئی ایم آئی ایم سے ہے کہ اس وقت ملک کی کیاصورت حال ہے؟ وہ آپ جیسے سیاست داں سے چھپی ہوئی نہیں ہے، کیاایسے وقت میں ’’پہچان‘‘ کی سیاست مناسب ہے؟ اورکیا اس کی وجہ سے خودمسلم قوم کو ہی تونقصان نہیں ہورہاہے؟ اوراس وقت اس طرح کی سیاست سے کہاں تک فائدہ ہورہاہے؟ یہ سوالات اس بنیاد پرہیں کہ سیاسی مبصرین کامانناہے کہ اس وقت ملک میں خصوصیت کے ساتھ دوپارٹیاں ’’پہچان‘‘ کی سیاست کررہی ہیں، ایک بی جے پی اوردوسری اے آئی ایم آئی ایم، ایک پارٹی ’’مسلم پہچان‘‘ کے طورپرابھررہی ہے، جب کہ دوسری پارٹی’’ہندوپہچان‘‘ بن کرسامنے کھڑی ہے۔

یہ توسب کومعلوم ہے کہ جب سے بی جے پی نے سیاست میں قدم رکھاہے، اس وقت سے ہی اس نے ’’پہچان‘‘ کی سیاست کی ہے؛ بل کہ سیاست کے میدان میں اس کی آمداسی کے لئے ہوئی ہے ، پہلے وہ یہ کہہ کرووٹ بٹوراکرتی تھی کہ اس ملک میں’’ہندوخطرہ میں ہے‘‘، اوراب یہ کہتی ہے کہ ’’ہمیں مسلمانوں سے خطرہ ہے‘‘، اس کے ثبوت کے لئے اے آئی ایم آئی ایم کے صدراوران کے بھائی کی تصویرپیش کی جاتی ہے اوران کے وہ بیانات سنائے جاتے ہیں، جن میں بی جے پی لیڈران کی آتش بیانی کے جواب کے طورپرکچھ سخت کہہ دیاگیاہے؛ لیکن اے آئی ایم آئی ایم کے تعلق سے بھی یہی بات کہی جارہی ہے کہ وہ بھی ’’پہچان‘‘ کی سیاست کررہی ہے، اب پتہ نہیں اس پارٹی کے ذہن میں بھی یہی ہے یاکچھ اور؛ لیکن اتنی بات توضرور ہے کہ اس پارٹی کو’’پہچان‘‘ کی سیاست کرنے والی پارٹی بناکرپیش کیاجاچکاہے اورگودی میڈیا؛ بل کہ بی جے پی کی آئی ٹی سیل اسی کاہوابنارہی ہے اورشاکشی مہاراج کے بیان نے توگویااس کاثبوت فراہم کرکے دیگرسیاسی پارٹیوں کے حوالہ کردیاہے، خواہ یہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہواوریقین ہے کہ یہ جھوٹ ہی ہوگا، مگرکڑواسچ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے براہ راست فائدہ بی جے پی کوضرورہورہاہے، وجہ اس کی وہی ہے ، جواوپرذکرکی گئی۔

لیکن مہاکٹھ بندھن سے بھی یہ سوال کیاجاناچاہئے کہ جب آپ دیگرپارٹیوں کوجوڑتے ہیں ، اس وقت اے آئی ایم آئی ایم کواپنے ساتھ کیوں شامل نہیں کرتے؟ اس میں کیارازچھپاہواہے؟ الیکشن کمیشن نے اس کو بھی الیکشن لڑنے کی اسی طرح اجازت دے رکھی ہے، جس طرح دیگرپارٹیوں کواجازت دی ہوئی ہے، اے آئی ایم آئی ایم کواپنے ساتھ ملانے کی کوشش سے کیانقصان ہورہاہے؟ بعض سیاسی مبصرین کاکہناہے کہ دیگرپارٹیاں بھی دراصل ’’پہچان‘‘ کی ہی سیاست کرناچاہتی ہیں؛ لیکن ان کے یہاں ایک سافٹ کارنر بھی ہے، جومسلمانوں کے ووٹ کوحاصل کرنے کے کام آتاہے، یہ وہی سافٹ کارنرہے، جس کی وجہ ملک کے باپوکوقتل کیاگیا، اے آئی ایم آئی ایم چوں کہ مسلم چہرہ بن چکی ہے اوربی جے پی نے مسلم چہرہ بنانے میں کوئی کسربھی نہیں چھوڑی ہے، اب اگراسے مہاکٹھ بندھن میں شامل کیا جاتا ہے تونام نہاد سیکولرپرحرف آئے گااور’’پہچان‘‘والوں کے ووٹ بھی بی جے پی کے کھاتے میںجائیںگے؛ اس لئے اے آئی ایم آئی ایم کواپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے اورمیدان میں اس کے کودنے کی وجہ سے ووٹوں کی ایک بڑی تعداد مہاکٹھ بندھن کا کٹ جاتاہے۔

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ جوپارٹیاں مہاکٹھ بندھن کے نام سے الیکشن لڑتی ہیں، کیاوہ پارٹیاں اے آئی ایم آئی ایم سے پہلے نہیں تھیں؟ کیاآج سے پہلے تک مسلمان ان کا ساتھ نہیں دیتے رہے؟ لیکن اس کے بدلہ میں انھوں نے کیادیا؟ بابری مسجد92میں شہید ہوئی، اس وقت مرکز میں کس کی حکومت تھی؟ اس کے اندرمورتیاں کس کی حکومت میں رکھی گئیں؟ شیلانیاس کس کی حکومت میں ہوا؟ گیان واپسی مسجد کا معاملہ کب سے چل رہاہے؟ آج تک حل کیوں نہیں ہوا؟ اس وقت کس کی حکومت تھی، جب بھاگل پور میں فساد ہو؟ جب جمشیدپورمیں فساد ہوا؟ جب جبل پورمیں فسادہوا؟ جب مرادبادمیں فساد ہوا؟ جب ہاشم پورہ فساد ہوا؟ اوران فسادات کے تعلق سے اس حکومت نے کیاایکشن لیا؟یہ سارے فسادات توسیکولر حکومت میں ہوئے؛ لیکن سیکولرحکومت نے کیا کیا؟ اورسب سے بڑاسوال یہ ہے کہ اب ان پارٹیوں کے ووٹرس کیوں کم ہورہے ہیں؟ ان پارٹیوں کواس پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے اوریہ پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ آج تک جولوگ ہمیں ووٹ دے رہے تھے، اب وہ کیوں ہماراساتھ چھوڑرہے ہیں؟ ہمارے اندرکیا خامیاں ہیں؟ ان خامیوں کودورکرنے کی کوشش کرنی چاہئے، نہ کہ اے آئی ایم آئی ایم پراپنی شکست کا ٹھیکرا پھوڑنا چاہئے، بہارالیکشن میں نتیش کمارکی سیٹیں بہت کم آئیں؛ حالاں کہ ایسانہیں ہوناچاہئے تھا، کیایہ بھی اے آئی ایم آئی ایم کی وجہ سے ہوا؟ وہ توبی جے پی کے ساتھ تھے، اس کی حکومت بھی تھی، اس کے باوجوداس کی سیٹیں کیوں کم ہوگئیں؟ اس کی طرف کسی کادھیان کیوں نہیں جاتا؟ 

ان تمام کے باوجود ملک کی سالمیت اوربقاء کے لئے ’’پہچان‘‘ کی سیاست نقصان دہ ہے اورمسلمانوں کے حق میں کچھ زیادہ ہی نقصان دہ ہے، اس لئے ایسی پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جس سے ’’پہچان‘‘ کی سیاست ختم ہوجائے اورایک جمہوری ملک میں جس طرح عمومی سیاست ہوتی ہے، سیاست اسی سمت پرآجائے، اسی میں ملک کی بھلائی ہے، اسی میں ملک کی ترقی ہے؛ کیوں کہ ’’پہچان‘‘ کی سیاست سے نفرت کی کھیتی ہوتی ہے، اوراس ملک میں نفرت کی کھیتی کی نہیں؛ بل کہ پیارومحبت کی کھیتی کی ضرورت ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×