لو-جہاد: حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کاایک شوشہ
گھرگھرہستی کے لئے ایک منتظم کی ضرورت پڑتی ہے، اگرگھرمیں کوئی منتظم نہ ہویاہو؛ لیکن وہ نااہل ہو، الل ٹپ فیصلے گھرکے افراد پرتھوپنے کی کوشش کرتا ہو تو گھر کا نظام درہم برہم ہوکررہ جاتاہے اورآہستہ آہستہ گھرکے تمام افرادذہنی انتشارکے شکارہوجاتے ہیں، پھرجب یہ انتشاربڑھ جاتاہے تومنتظم کی بات سننے اورماننے سے انکارکرتے دیتے ہیں اورایک دن انتظام وانصرام کی رسی اس سے چھین کرگھرکے اس فردکے حوالہ کردیتے ہیں، جوواقعتا اہل ہواورگھرکے نظام کوڈھنگ سے چلاسکتا ہو،یہی حال ملک کے تعلق سے بھی ہوتاہے، ماضی میں اس کی کئی مثالیں ہمیں ملتی ہیں؛ بل کہ عصرحاضرمیں بھی ہماری آنکھوں نے دیکھا اور ہمارے کانوں نے سناہے، دوچار سال پہلے کی ہی توبات ہے، جب عالم عرب کے کئی علاقوں میں ایساہواکہ جب لوگوں کی برداشت کا پیمانہ لبالب بھرگیا توملک کے اندرخانہ جنگی شروع ہوگئی اورپھرعوام نے برسر اقتدار حکومتوں کوبے دخل کرکے ہی دم لیا۔
اس وقت ہمارے ملک بھارت کی بھی حالت دیگرگوں ہے، حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے عوام پریشانی کی شکارہیں، بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے، جی ڈی پی کی شرح گرگئی ہے، حکومتی شعبہ جات کوعوامی کیا جارہاہے، جس کانقصان عوام کوہوگا اورفائدہ کارپوریٹ کمپنیوں کو، حکومتیں عوام کی راحت رسانی کا کام انجام دیتی ہیں؛ لیکن یہاں کی حکومت راحت چھیننے کاکام کررہی ہے، غریبوں کا جینا دوبھر ہوچکا ہے، جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، برسراقتدارپارٹی کے اصل نشانہ توبہ ظاہرمسلم ہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نشانہ پوراملک اورسارے غیربرہمن ہیں، ہندوراشٹربنانے کانعرہ ایک فریب ہے، بالکل اسی طرح، جس طرح مغرب نے آزادیٔ نسواں کانعرہ لگایااورعورتوں کی عزتوں کو سرعام نیلام کردیا۔
حکومت کی اصل منشاء ’’برہمن راشٹر‘‘ کاوجود ہے، جس میں راج برہمن کریں گے، بقیہ افرادان کے غلام ہوں گے، وہ سانس بھی ان سے پوچھ کر لیں گے، اس وقت میرے ذہن میں والدصاحب کابتا یا ہوا ایک واقعہ گردش کررہاہے، جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں، ہمارے علاقہ میں ایک راجہ ہواکرتے تھے ، ایک دن وہ اپنے راج محل کے سامنے براجمان تھے کہ سامنے سے ایک آدمی جوتاپہن کرپاس ہوا، فوراً راجہ نے اپنے ہرکارے بھیجے اوراسے پکڑواکراپنے سامنے حاضرکروایا، کڑک دارآواز میں بولے: تمہاری یہ مجال کہ میرے سامنے سے جوتے پہن کرجاؤ، نکالوجوتے، اسی جوتے کو اس کے سرپر رسید کیا اورغالباً تھوک کرچٹوایابھی، پھرجوتے سرپررکھ واکرواپس بھیجا۔
یہاں بھی اسی قسم کے راشٹرکاوجودچاہئے، جس میں کوئی چوں چرانہ کرسکے، کوئی حکومت کے غلط فیصلوں پرروک ٹوک نہ کرسکے، روک ٹوک کرنے والے کے لئے مصیبت ہے، گوری لنگیش نے آواز اٹھائی، اس کی آواز ہمیشہ کے لئے دبادی گئی،کتنے نیوز اینکرایسے ہیں، جنھیں اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھوناپڑا، قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹرظفراللہ خان نے آواز بلندکی توان پردیش دروہی کاالزام لگا دیا گیا، ان کے دفترپرچھاپہ مروایاگیا، جے این یوکی روایت پرحملہ کے خلاف آواز بلند کرنے والے طلبہ پرنہ صرف یہ کہ ڈنڈے برسائے گئے؛ بل کہ ان میں سے بہت ساروں کوگرفتارکرکے کے پس دیوارزنداں ڈال دیاگیا، بنارس ہندو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پربھی ظلم ڈھائے گئے، سی اے اے کے خلاف آواز بلند کرنے والوں پربھی دیش دروہی کامقدمہ قائم کیا گیا اوربہت ساروں کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا، زرعی قوانین کے خلاف جب کسانوں نے آواز بلند کی توان کوروکنے کے لئے سڑکوں تک کو کھدوا دیا گیا، واٹرکین کے ذریعہ سے ان پرحملہ کیاگیا، انھیں دیش دروہ قراردیاگیا، یہ تومالک کاکرم ہے کہ ان میں ایکتا اور اتحادہے، جس کی وجہ سے کسی کی گرفتاری ابھی تک نہیں ہوئی ہے؛ لیکن آگے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
یہ ہے وہ راشٹر، جس کاخواب عوام کوشیشہ کے خوب صورت فریم میں سجاکرپیش کیاجارہاہے، جس کی سچائی تک لوگ ابھی تک پہنچ نہیں پارہے ہیں؛ بل کہ لوگوں کومذہب کاحشیش پلاکرنشہ میں چورکردیاگیاہے؛ تاکہ وہ اصل حقیقت تک پہنچ ہی نہ سکیں، اس کے لئے زعفرانی پارٹی کسی بھی حدتک جانے کے لئے تیارہے، ملک کے حقیقی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہوہٹانے کے لئے اورکسان آندولن سے عوام کے ذہن کومنتشرکرنے کے لئے لوجہادکاشوشہ پوری تیزرفتاری کے ساتھ آگے بڑھایاجارہاہے، اس سے قبل کورونا کے دورمیں بھی یہی کارڈ کھیلا گیا، اپنے اورپرالزام آنے سے قبل ہی دوسروں پرڈال دیاگیا، نمستے ٹرمپ میں سیکڑوں افراداس ملک سے آئے، جہاں کورونا اپنا جال پھیلا چکاتھا؛ لیکن اس سے کورونانہیں پھیلا، کورونا پھیلا توتبلیغی جماعت سے، اس وقت بھی کئی مرتبہ کی میٹنگیں ناکام ہوچکی ہیں، کسان قدم ہٹانے کے لئے تیارنہیں، اب لوگوں کی توجہ بٹاناہے؛ تاکہ کسان آندولن کے تعلق سے جوآتش بھڑکی ہوئی ہے، وہ کم ہوجائے، اس کے لئے منتشرمسلم قوم سے بہتراورکس کومہرا بنایا جاسکتاہے؟
اسی لئے لوجہاد کاہوا کھڑا کیا جارہاہے، زعفرانی ٹیم کے لوگ سرگرم ہیں، آج اس کا، توکل اُس کا، روز کسی نہ کسی لیڈرکا بیان اخباروں کی زینت بن رہاہے، آج ساکشی مہاراج نے اس تعلق سے ایک شوشہ چھوڑا اور کہا کہ لوتواچھاہے؛ لیکن جہادزہرہے، ساکشی جی! آپ سے صرف ایک ونتی ہے کہ آپ کے جوبڑے لیڈران ہیں، جن کوآپ بھی سیاست کے میدان میں گرومانتے ہو، ان کی لڑکیوں اوربھتیجیوں نے مسلم لڑکوں سے بیاہ رچا کر بچے بھی پیدا کئے ہوئے ہیں، سب سے پہلے ان پربات کیجئے اوران لڑکیوں کو چھڑا کرلایئے اورجن سے ان لڑکیوں نے بیاہ کیا ہواہے، ان لڑکوں کوجیل میں بند کیجئے، آپ ایساہرگزنہیں کرسکتے؛ کیوں کہ آپ لوگ ہے ہیں دورخے، ملک کی آزادی کے وقت انگریزوں کے تلوے چاٹتے تھے ، ملک کی آزادی میں ایک پیسہ بھی آپ کاحصہ نہیں ہے، آپ نے کوئی بلیدان نہیں دیاہے، آپ کا کام تواپنی روٹی سینکنا ہے اوربس۔
آپ کے بقول لوجہاد کاعمل مسجدوں اورمدرسوں کی نگرانی میں ہوتاہے، سوال یہ ہے کہ کتنے نمازیوں نے لوجہاد کیا؟ اورکتنے مدرسے کے مولویوں نے ہندولڑکیوں سے بیاہ رچایاہے؟ کیاآپ پاس اس کی لسٹ ہے؟ اگر نہیں توبلاوجہ بات مت کیجئے، اس کے برخلاف آپ کے مدرسے ہی اس میں ملوث ہیں، مسجد مدرسے کے تعلق سے الٹے سیدھے الزامات لگانا بند کیجئے اورملک کے جوحقیقی مسائل ہیں، ان پربات کیجئے؛ لیکن آپ نہیں کیجئے گا؛ کیوں کہ آپ لوگوں کا لکچھ ملک کی ترقی ہے ہی نہیں، آپ کوتو اپنی برتری کے لئے ایک پلیٹ فارم چاہئے اوراس کوبچانے کے لئے ایک شوشہ اوروہ ہے لوجہاد، اس کے سوا لوجہادکی کوئی حقیقت نہیں۔