سیاسی و سماجی

عجیب دیش ہے ہمارا!

عجیب دیش ہے ہمارا، جہاں خردکانام جنوں اورجنوں کانام خردرکھ دیاجاتاہے، جہاں معززلوگوں کوذلت کاسامناکرناپڑتاہے اورذلیل لوگوں کوعزت کی چوکی پربٹھایا جاتاہے، جہاں قاتل کومنصف اورمنصف کوقاتل کہاجاتاہے، جہاں غنڈے موالی مسندنشین ہوتے ہیں اورمسندنشینی کے لائق افرادسڑک ناپنے پرمجبورہوتے ہیں، جہاں بے قصور لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلے جاتے ہیں اورمجرمین آوارہ سانڈکی طرح پھرتے رہتے ہیں، جہاں سچ بولنے والاسزاکامستحق قرارپاتاہے اورجھوٹ بولنے والے کوایوارڈسے نوازاجاتاہے، جہاں دیش کے غداروں کودیش بھگت کہاجاتاہے اورحقیقی دیش بھگتوں کوغداربتایاجاتاہے، جہاں باہرکے لوگوں کوشہریت دئے جانے کی بات کی جاتی ہے اور دیش کے رہنے والوں سے شہریت چھیننے کے مشورے ہوتے ہیں، جہاں شراب کی دوکانوں کی بھیڑسے کورونانہیں پھیلتا؛ لیکن عبادت گاہوں اورتعلیم گاہوں کی بھیڑسے کوروناپھیل جاتاہے، جہاں اس چیزکی طرف بھر پور توجہ دی جاتی ہے، جس کی طرف توجہ نہیں دی جانی چاہئے اوراس چیزسے نظرپھیرلی جاتی ہے، جس کی طرف پوری توجہ ہونی چاہئے، ہے ناعجیب دیش ہمارا؟!
ویسے تواس طرح کی عجیب وغریب باتوں سے یہ ملک بھراہواہے؛ لیکن یہاں جس پر بات کرنی ہے ، وہ ’’ہتھنی کی موت‘‘ہے، بلاشبہ جانوربھی رحم کے اسی طرح مستحق ہوتے ہیں، جس طرح انسان؛ بل کہ جانوراس سے زیادہ مستحق ہے؛ کیوں کہ وہ بے زبان ہے،بے عقل ہے، بے شعورہے، زبان والااپنے دردکوبیان کرسکتاہے، بے زبان نہیں کرسکتا، عقل والابھلے برے کی تمیزکرسکتاہے، بے عقل ایسانہیں کرسکتا، شعور والااچھے اوربرے کوسمجھ سکتاہے، بے شعورنہیں سمجھ سکتا؛ اس لئے جانوررحم کا مستحق ہے؛ لیکن اس کاایک دوسراپہلوبھی ہے، وہ یہ کہ جانوروں کواس لئے پیداکیاگیا؛ تاکہ انسان اس سے اپناکام لے، خواہ یہ کام باربرداری کاہویاخوراک بنائے جانے کا، یاپھرلباس پوشاک بنائے جانے کا؛ لیکن اپنی ذات کے اعتبارسے وہ ہے انسان کے فائدہ کے لئے۔
لیکن فائدہ اٹھانے میں بھی اس بات کاخاص خیال رکھاگیاہے کہ اسے تکلیف نہیں ہونی چاہئے، اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام نہیں لیناچاہئے، اس کی جسمانی صحت سے زیادہ اس پربوجھ نہیں ڈالناچاہئے، اسے بھرپیٹ کھانادیاجاناچاہئے، اگر خوارک بناناہوتوتیزدھارچھری سے اسے ذبح کرناچاہئے، اس کاخیال رکھنے کے لئے ہی یہ بھی کہاگیاہے کہ اسے جلاکرنہیں مارناچاہئے، ان تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کی بات کی گئی ہے؛ البتہ کچھ جانورایسے ہوتے ہیں، جوانسان کے لئے تکلیف کاباعث ہوتے ہیں، ان سے انسان ہروقت خطرہ محسوس کرتاہے، ایسی صورت میں اس کے حملہ آورہونے سے پہلے ہی اسے قتل کردینے کی بھی اجازت دی گئی ہے، مثال کے طورپرآپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک بچھوہے، جوڈنک مارنے کے لئے تنتناتے ہوئے آپ کی طرف بڑھ رہاہے، ظاہرہے کہ ایسی صورت میں اس کے اپنے تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم کرنے کی اجازت ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے کیرلامیں ایک ہتھنی کی موت ہوئی، اس کی موت دردناک تھی، ایک ایسے انناس کھالینے کی وجہ سے ہوئی، جس میں بارودبھراتھا؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بارودبھراانناس اس ہتھنی کے لئے نہیں تھا؛ بل کہ یہ ان سوروں کے لئے تھا، جوجنگل سے آکرکھیت میں لگی فصلوں کوتباہ وبربادکردیتے تھے، ایسانہیں ہے کہ کھیت سے دوررکھنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی حربہ نہیں اختیارنہیں کیاگیاہو؛ کیوں کہ یہ پہلی بارکاواقعہ نہیں ہے؛ بل کہ اوربھی طریقے اختیارکئے گئے ہوں گے؛ لیکن ایک یہ طریقہ بھی اختیارکیاگیا؛ حالاں کہ یہ طریقہ خطرناک بھی ہے، اس سے خودانسانی جان کے جانے کابھی اندیشہ ہے کہ کوئی خالص انناس کے دھوکہ میں بھی لے سکتا تھا اوراس سے اس کی بھی موت ہوسکتی تھی؛ لیکن بہرحال! زچ ہوکراٹھایاگیایہ ایک قدم تھا، جس کی زدمیں ہتھنی آگئی اوراس کواپنی جان سے ہاتھ دھوناپڑا، خبروں کے مطابق یہ ہتھنی حاملہ بھی تھی۔
ہتھنی کی موت سے میڈیامیں زلزلہ برپاہوگیا، لوکل اورنیشنل ہرنیوزچینل نے اسے کورکیا، اس کو’’چرچاکاوشے ‘‘قراردے کرچرچاکیاگیااوراس اندازمیں کیاگیاکہ محسوس ہونے لگاکہ ہمارادیش بہت زیادہ رحم دل ہے، اس دیش کے روئیں روئیں میں رحم دلی بھری ہوئی ہے، ہونابھی چاہئے کہ جانوربھی ایک مخلوق ہے اورہمارے لئے نفع بخش ہے، اس کے اندربھی جان ہوتی ہے، اسے بھی دردہوتاہے؛ اس لئے ایسے دردناک موت پرافسوس ظاہرکرنادل کے حساس ہونے کی علامت ہے؛ لیکن افسوس اس وقت ہوتاہے، جب کسی انسان کی دردناک موت ہوتی ہے اوروہ’’چرچے کاوشے‘‘ قرارنہیں دیاجاتا، اس پربات نہیں ہوتی، اسے میڈیاکوریج نہیں کرتی۔
بہت دورجانے کی ضرورت نہیں، جس وقت ہتھنی کی موت ہوئی، ٹھیک انھیں دنوں بہارمیں ایک انسان کی لنچنگ کی گئی اوریہ لنچنگ اس لئے کی گئی کہ وہ ’’جے شری رام‘‘ کانعرہ نہیں لگارہاتھا، اس کی لنچنگ بھی قابل افسوس ہے اورہتھنی سے زیادہ قابل افسوس ہے کہ یہ ایک انسان ہے، ہتھنی بہرحال جانورہے، جوانسان کے کام کے لئے بنائی گئی ہے؛ لیکن اایک انسان کی لنچنگ پرمیڈیابرادری خاموش(اکادکاکوچھوڑکر)، یہ خاموشی کیوں؟ کیااس ملک میں انسان کی حیثیت جانورسے بھی کم ہے؟ جانورکی موت پرواویلا، جانورکی موت پراس انسان کی گرفتاری، جس نے بارودبھراانناس رکھاتھا؛ لیکن لنچنگ کرنے والے پرکارروائی نہیں، ہے ناعجیب دیش ہمارا؟!
یہاں ایک سوال یہ ہوتاہے کہ کچھ لوگ پچھلے پانچ چھ برسوں سے اس طرح کی حرکتیں کچھ زیادہ ہی کررہے ہیں؛ لیکن ان پرکوئی کارروائی نہیں ہوتی، یاہوتی ہے ؛ مگرروئی کے گالوں کی طرح ہلکی پھلکی، جسے عدالت پھونک مارکراڑادیتی ہے اورانھیں کسی قسم کی سزانہیں ہوتی، یاپھرسزاایسے لوگوں کودی جاتی ہے، جودرحقیقت اصل مجرم نہیں ہوتے؛ بل کہ اصل مجرم اور ماسٹرمائنڈ کے کرتادھرتاہوتے ہیں، اس کی تازہ مثال دہلی فسادکی کارروائی ہے، پھر’’جے شری رام‘‘کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں؟ کیاپورے ملک میں یہ نافذ کی جانے والی تسبیح ہے؟ اگرہے توان علاقوں میں جاکربھی یہ تسبیخ پڑھیں، جہاں رام کو دشمن اورراون کوبھگوان یااس کے اوتارکے روپ میں مانا جاتا ہے، جب آپ کے ہی تمام لوگ خودرام کے بھگت نہیں ہیں تو پھربلاوجہ ہرایک سے یہ کہناکہ ’’جے شری رام‘‘کے نعرہ لگاؤ اورنہ لگانے کی صورت میں اس کی لنچنگ کردی جائے، کسی طورایک جمہوری ملک میں درست نہیں ہے؛ لیکن عقل سے پیدل والوں کو سمجھائے کون؟
ہتھنی کی موت پرجس طرح ملک کے اندرماحول بنایاگیا اوراس ماحول کے نتیجہ میں گویاپوراملک سوگوارہوا، اسی طرح کسی انسان کی لنچنگ پرماحول کیوں نہیں بنایا
جاتا اورپورے ملک میں سوگواری کیوں نہیں کی جاتی؟ انسان کی جان کی قیمت بہرحال جانورکی جان کی قیمت سے زیادہ ہی ہے، پھرہرایک کویہ سوچناچاہئے کہ اگریہ لنچنگ خود اس کے ساتھ ہوجائے یااس کے اپنے کسی خاص کے ساتھ ہوجائے توپھرکیاہوگا؟کیوں کہ جب کسی چیزمیں شدت آجاتی ہے توپھراپنے اورغیرکے مابین تمیزباقی نہیں ہوتی، پال گھراس کی زندہ مثال ہے، پھریہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ ہرانسان کی فطری خواہش زندہ رہنے کی ہوتی ہے اوراس خواہش کی تکمیل کے لئے آخری درجہ تک کوشش کرتاہے اوریہ آخری کوشش کبھی کامیاب بھی ہوجاتی ہے تواگرلنچنگ کے وقت ایسی کوششیں شروع ہوگئیں توپھرملک کاکیاہوگا؟ اس لئے وقت رہتے ہی حکومتوں کو لنچنگ پرقابوپانے کی کوشش کرلینی چاہئے اوران لوگوں کی سزا کویقینی بنانا چاہئے، جو ایسی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
jamiljh04@gmail.com / Mob:8292017888

 

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×