شخصیات

معروف داعی واجد علی صاحبؒ کی زندگی کے نقوش وتاثرات

عادلہ آباد کے معروف ومقبول داعی الی الخیر جناب واجد علی صاحب وفات پاگئے،إنَّ لله ما أخَذَ ولَه ما أعْطَی وعَمَل کل شيء عنده بِأجَلٍ مُسَمّی. (بخاری شریف: ۵۳۳۱) موصوف اپنی ملنساری کی بناء پر پورے علاقہ کے عوام وخواص کے سبھی حلقوں میں ہر دل عزیزی کا مقام رکھتے تھے، آپ مختلف خوبیوں اور صفات کے حامل تھے، دعوت وتبلیغ کے پرانوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔
ایک خوبی یہ تھی کہ مرحوم جسم کے بھاری بھرکم ہونے اور اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے کی دشواریوں کے باوجود اجتماعات میں شرکت کرتے تھے، اسفار کرکے تبلیغی پروگراموں میں ، مشوروں میں شرکت کرتے تھے، آپ کے خصوصی نشستوں میں بیانات ہوتےتھے، حتی کہ بعض دفعہ علماء کی نشستوں میں بھی مرکز نظام الدین سے آئے ہوئے بزرگوں سے پہلے آپ کی بات ہوتی تھی۔
متعارف علماء بڑے شوق سے سامنے بیٹھتے تھے، مائک کے پاس رُک کر تواضع سے کھڑے ہوکر اجازت لیتے، پھر فرماتے بھائی مجھے کچھ نہیں آتا، بڑوں کا حکم ہے اس لئے سامنے کھڑا ہوں، اجازت ہو تو بیٹھوں، پھر اپنی بات درد سے پیش کرتے۔
کام آپ کا ہے، علماء اصل اس کام کے اہل ہیں، ہم جاہلوں سے کام خراب ہوگا، اصل انبیاء کے وارثین آپ ہیں، قرآن کا پیغام ہی ہمارا مشن ہے، ساری امت اللہ کے احکام اور حضورﷺ کے طریقہ پر آجائے یہ ہمارا مقصد ہے، پورا دین پوری دنیا میں دین عام ہوجائے، اسی کی فکر ہے اور یہی ہماری تمنا ہے کہ موت بھی ہماری اسی کام کو کرتے کرتے آئے؎
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
اس طرح اپنی بات شروع فرماتے، سادہ اور داعیانہ انداز میں سیرت اور بڑوں کے حوالہ سے گفتگو فرماتے، محسوس کرنے والوں کو صاف اندازہ ہوجاتا کہ یہ قربانیوں والا اورصفات والا شخص بات کررہا ہے، بیان میں خاص اثر ہوتا، خود بھی روتے، مجمع کو بھی رلاتے، سارا بیان آنکھوں پر آنسوؤں کی لڑی جاری رہتی، مجمع بھی روتا رہتا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑا نرالہ انداز عطا فرمایا تھا، سننے والے سنتے رہتے، گھنٹوں مستفید ہوتے، ذرہ برابر بھی اکتاہٹ کا اظہار نہ کرتے، ایک اور خوبی یہ تھی کہ تواضع کے پیکر تھے، سلام میں پہل کرتے تھے، ہر چھوٹے بڑے سے عاجزی سے ملاقات کرتے تھے، کوئی خیریت پوچھتا تو اپنے مخصوص انداز سے خیرت پوچھنے والے کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہتے: الحمد للہ صاحب! اللہ کا کرم ہے، مخصوص لوگوں سے خود خیریت دریافت کرتے اور خاموش ہوجاتے تھے، بدگوئی اور غیبت و دشنام طرازی اور ہر قسم کے زبانی گناہوں اور آفتوں سے کوسوں دور تھے، ایک اہم خوبی یہ بھی تھی کہ علماء کے بڑے اور سچے قدرداں تھے، بناوٹی ادب سے کوسوں دور تھے، دورۂ تبلیغ دار العلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور میں طالب علمانہ زندگی میں خود عاجز نے دیکھا، مظاہر علوم کے دفتر میں اجازت لے کر داخل ہوئے اور طالب علم وعمل کی طرح حضرت مولانا سلمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے دونوں ہاتھ باندھ کر نگاہیں نیچی کرکے کھڑے ہوگئے، حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا آئیے آئیے، کہاں سے تشریف لارہے ہیں؟ پھر تعارف کرایا، اس کے بعد مولانا سے ادباً نصیحت کی درخواست کی، اس وقت کی نصیحت تو یاد نہیں ہے، البتہ آج تک یہ بات ذہن میں نقش ہے کہ پیرانہ سالی کے باوجود کام میں زندگی لگانے والے قدیم لوگ کس قدر باادب اور متواضع ہوا کرتے تھے۔
ایک اور خوبی یہ دیکھی کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ آپ کے رگ وریشہ میںکتب بینی کا شوق پیوست ہے، آپ کے ساتھ جو بیگ ہوتا اس میں ہر روز کوئی نہ کوئی کتاب سیرت، تاریخ، مواعظ، ارشادات سے متعلق ضرور موجود ہوتی تھی، جس وقت دار العلوم اور مظاہر علوم کا سفر ہوا تو کتابوں کی لسٹ طلباء کے حوالہ کرکے کہا کہ ان کتابوں کو لاؤ، کہ ہم علم اور کتابوں کی دنیا میں آئے ہیں تو کچھ خرید کر اور کچھ علماء کی صحبت کے ذریعہ حاصل کرکے جائیں۔
آپ نے پوری زندگی تبلیغ اور دعوت دین کے لئے وقف کر رکھی تھی، دینی تقاضوں پر چلنے والے اور عمل کرنے والے تھے، تبلیغ اور دعوت دین کی ترقی اور اس کے استحکام کے لئے شروع زمانہ ہی سے جب سے کام میں جڑے اخیر زمانہ تک محنت کرتے رہے، اپنے آپ کو پڑوں اور علماء کے تابع رکھا۔
اخیر زمانہ میں تو مرکز نظام الدین سے آپ کو صوبائی سطح کے اجتماعات میں بھیجا گیا، بیماریوں اور کمزوریوں کے باوجود خود راقم الحروف نے دیکھا گولیوں کا نوالہ بناکر کھاتے تھے۔
خوب اندازہ ہوا کہ دین کا کام جسم کے صحیح اور صحت مند ہونے سے نہیں بلکہ جذبات کے صحت مند ہونے سے ہوتا ہے، ایک اور خوبی یہ تھی کہ ہاتھ میں ہمیشہ تسبیح نظر آتی تھی، اپنے معمولات کے بڑے پکے تھے، سادہ مزاج اور نیک سیرت تھے، مرکز کی ہدایات کے مطابق فجر سے پہلے ہی تہجد ، تلاوت قرآن، ذکر، منزل اور دعا وغیرہ میں مصروف رہتے تھے، مہاراشٹرا کے ایک اجتماع میں ملاقات کی غرض سے ساتھیوں کے ساتھ تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ رومال سر سے ڈالے ہوئے دعاء میں مشغول ہیں، ٹھنڈی کا زمانہ ہے، گرم آنسو بہارہے ہیں، الحاح وزاری، تضرع وبکاء کی کیفیت میں مولا کی طرف محو ہیں ؎
عطار ہو رومی ہو، رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
آپ کی رقت کا یہ حا ل تھا کہ جب مجمعوں میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تو ایسی تڑپ سے اللہ کا نام لیتے کہ بڑے بڑے سنگ دل پسیج جاتے، دعا کراتے تو حاضرین میں سے شاید ہی کوئی ایسا شخص رہتا جس کی آنکھیں نم نہ ہوتی۔
یہی وہ مقبولیت کے آثار تھے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ساری زندگی دعوت دین کے لئے صرف اور وقف کرنے کی سعادت اور توفیق عطا فرمائی تھی، پتہ نہیں کتنے بندگان خدا آپ کے ذریعہ تائب ہوئے، کتنے گناہوں اور نافرمانیوں سے بھری زندگی کو چھوڑ کر راہ راست پر آگئے، اور کتنوں نے آپ کے ذریعہ اللہ کے پیغام کو دوسروں تک پہونچانے کا ذریعہ بنایا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں آپ کو درجات عالیہ عطا فرمائے، حسنات کو قبول فرمائے، سیئات سے درگذر فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے، آمین۔

٭ ٭ ٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×