سیاسی و سماجیمفتی سید ابراہیم حسامی قاسمی

ملین مارچ…ہر شہری کا ذاتی احتجاج

ملین مارچ کسی خاص تنظیم وتحریک کا مارچ نہیں ہے؛بلکہ یہ ہر ہندوستانی شہری بالخصوص ریاست تلنگانہ کے ہر فرد کا ایک ذاتی احتجاج ہے ، اس میں اپنی شرکت کو لازمی بنانا ملک کے آئین کی حفاظت میں اپنی قربانی وحصہ درج کرانے کے مترادف ہے ، ملین مارچ ریاست کا سب سے بڑا احتجاج ہونے جارہا ہے ، لاکھوں کی تعداد میں اس میں شریک ہوکر اپنے ضمیر کی آواز کو بلند کرنا اور اپنے وجود کا احساس دلانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ؛ اگر ہم نے آواز بلند نہیں کی اور اپنے اپنے مصالح پر نظر کئے رہے تو یہ ظالم حکومت ہمیں جینے بھی نہیں دے گی اور ہم سے ہمارے تمام حقوق سلب کر لے گی؛ بلکہ نوبت یہاں تک بھی پہونچ سکتی ہے کہ ہمیں تیسرے نمبر کا شہری بنا دیا جائے اور ہم سے ہمارے تمام اختیارات چھین لیے جائیں اور ہم مجبور محض بن کر صرف تماشائی اور اندھی غلامی کی زندگی جینے پر مجبور ہوجائیں، موجودہ حکومت بڑے ناپاک عزائم اپنے اندر رکھتی ہے اور اقلیتوں کے تئیں تو اس کی زہر افشانی اور ظالمانہ قانون سازی اس کی بیّن دلیل ہے ۔
یہ وقت خاموشی کا نہیں ہے ؛ بلکہ ایسے وقت میں خاموشی کسی جرم سے کم نہیں،ظلم کے خلاف آواز اٹھانا انسانیت بھی ہے اور دین بھی، جب ظلم حد سے گزر جائے تو مصلحت منافقت کے سوا کچھ نہیں رہ جاتی ہے،یہ وقت حق مانگنے کا نہیں ، حق چھین کر لینے کا ہے،حکومت سے درخواست کا نہیں، للکار کا وقت ہے، لہذا ہر حیدرآبادی شہری ملین مارچ کی کامیابی کو یقینی بنائے، اپنے مسلک ومشرب ، مذہب وملت کو بالائے طاق رکھ کر اور تنظیموں کی جکڑبندیوں سے نکل کر میدان عمل میں مجاہدانہ شان کے ساتھ کود پڑنا وقت کا ضروری تقاضہ ہے ۔
یہ خاموشی تمہیں جینے نہیں دے گی
اگر جینا چاہتے ہو تو کہرام مچا دو
تو چلے آئیے ہفتہ کے روز ٹھیک دو بجے دن اندرا پارک دھرنا چوک پر،لاکھوںکی تعداد میں شریک ہوکر اپنے وجود کا احساس دلائیے کہ ہم بھی زندہ قوم ہیں،باطل سے دبنے والے نہیں ہیں، حق کے لیے لڑنے مرنے والے ہیں، مجاہدانہ شان کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں، اپنے تمام مذہبی تشخصات کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، نہ کسی سے دبیں گے ، نہ جھکیں گے ، نہ غلامی کو پسند کریں گے اوریہ اعلان کرتے رہیں گے کہ
ہر سمت مچلتی کرنوں نے افشونِ شب غم توڑ دیا
اب جاگ اٹھے ہیں دیوانے دنیا کو جگا کر دم لیں گے
یہ بات عیاں ہے دنیا پر ہم پھول بھی ہیں تلوار بھی ہیں
یا بزم جہاں مہکائیں گے یا خوں میں نہا کر دم لیں گے
سوچا ہے کفیل اب کچھ بھی ہو ہر حال میں اپنا حق لیں گے
عزت سے جئے تو جی لیں گے ورنہ جام شہادت پی لیں گے
٭ ہر فرد اپنی ذمہ داری کے ساتھ شرکت کرے۔
٭ اپنے دوست و احباب کو ضرور ساتھ لانے کی کوشش کریں۔
٭ ہفتہ کی ظہر تک ہر مسجد میں اعلان کیا جاتا رہے۔
٭ مسلک ومشرب ، مذہب وملت سے ما وراء ہوکر سب اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔
٭ تنظیمی حد بندیوں سے آزاد ہوکر انسانیت اور حق کی بنیاد پر شرکت کریں۔
٭ ہر محلہ کے با اثر اصحاب ، علماء اور ائمہ اپنے محلہ کے افراد کو زیادہ سے زیادہ لانے کی کوشش کریں۔
٭ اسکول و کالجس کے بڑے طلبہ کو وہاں پہونچنے کی ترغیب دی جائے۔
٭ بیرونی مدارس میقات ثانی سے تعطیل کا اعلان کرکے اپنے طلبہ کو وہاں پہونچنے کی فکر دلائیں۔
٭ ذمہ داران مدارس اپنے طلبہ کو مکمل نظم وضبط کے ساتھ شریک کراوئیں۔
٭ ہر ناعاقبت اندیش رویہ سے کلی اجتناب کریں۔
٭ اپنا فریضہ تصور کرتے ہوئے شریک ہوں۔
٭ مذہبی نعروں سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
٭ متعلقہ پلے کارڈس اور بیانرس، جانماز اور پانی اپنے ساتھ ضرور رکھیں۔
٭ کسی کو تکلیف پہونچائے بغیر پر امن و تاریخی احتجاج درج کرائیں ۔
٭ عوام پولیس اہلکاروں کا اور پولیس اہلکار عوام کا مکمل تعاون کریں۔
٭ شر پسند عناصر پر پوری نظر رکھی جائے۔
٭ مارچ کو پر امن اور کامیاب بنانے میں پر ممکنہ کوشش اور خصوصی دعائیں کی جائیں۔

9396227821

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×