گلشنِ علم و ادب کا زھرۂ جمالاں چل بسا آہ! مولانا ابن الحسن عباسیؒ
اس جہان فانی میں انسان بھی اپنی بے ثباتی کے عجیب جلوے دکھاجاتاہے،یہاں نہ علم کا متوالا ہمیشہ جی سکتا ہے، نہ دولت کا دھنی امرت جل پی کر موت کے چنگل سے آزاد ہوسکتا ہے، نہ غریب اپنی غربت کی دہائی دے سکتا ہے ، نہ بادشاہ اپنے جاہ وجلال کا رعب ، اور نہ ہی فقیر اپنے کاسۂ گدائی سے ابدی زندگی کی بھیک مانگ سکتا ہے، یہ دنیا ہر کسی کو اپنی آغوش میں کچھ دن کا مہمان رکھتی ہے اور بے تکلف الوداع کہہ ڈالتی ہے۔
دنیائے علم وادب میں ابن الحسن عباسیؒایسا پر کشش اور جاذب نظر نام تھا، جسے پڑھتے ہی قلب کی سوئیں اس جانب مائل ہونے لگتی تھیں ،مولانا سے سب سے پہلی آشنائی ان کی شاہ کار تالیف’’کتابوں کی درس گاہ میں ‘‘ سے ہوئی، بس یہ نام بھی بڑا لبیلا محسوس ہوا، کتاب کیا کھولی مختلف علمی پھولوں کا ایک گلدان نظر نواز ہوا، بس پڑھتے جائیے، پڑھتے جائیے، نگاہیں جم گئیں، ذہن یکسو ہوگیا، علم وادب کی چاشنی نے قلب ونظر کو موہ لیا، موجودہ مضمون کا لطف اور آئندہ مضمون کی تمنا، ایک حسن کشمکش نے مکمل کتاب کو سمیٹ لیااور دل اس درجہ فریفتہ ہوا کہ یہ کتاب اپنے لیے بھی تسکین خاطر ہوئی اور دوسروں کی علمی وادبی تسکین کا ذریعہ بننے لگی، ہم ساتھی آپس میں اس کتاب کا بڑی محبت کے ساتھ تذکرہ کرتے اور اپنی انجمن کے حلقوں میں ہفتہ واری انعام کے طور پر اس کتاب کو تقسیم کرکے خوب مسرور ہوتے، وہیں سے مولانائے محترم سے وابستگی شروع ہوگئی،ایک وقت تک ادبی چاشنی کے لیے قلب وذہن پر صرف ایک ہی نام ابن الحسن عباسی کا سوار رہا۔
پیدائش،تعلیم وفراغت
مولانا ابن الحسن عباسی جناب مخدوم عباسی کے گھر 1972ء میں مسعود عباسی کے نام سے پیدا ہوئے اور قلمی دنیا میں ابن الحسن عباسی کے نام سے متعارف ومقبول ہوئے ۔
مولانا نے مشہورمیخانۂ علم وعرفاںجامعہ دارالعلوم کراچی سے شراب طہور نوش کیا، جبال العلم اساتذۂ عظا م سے خوب اکتساب فیض کیا اور ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا ایسا لازمہ بنایا کہمشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید کی تصویر مجسم بن کر 1413ھ مطابق 1993ء میں سند فراغت حاصل کی ۔
آغاز تدریس
فراغت کے معاً بعد جامعہ فاروقیہ کراچی میں مسند تدریس پر جلوہ گر ہوئے اور اس میکدۂ علم و فضل کے ساقیٔ سرمست ہوگئے اور متلاشیان حق کو راہ مستقیم اور ان کے قلب کو سلیم بنانے کی صنعت گری میں خودکو مصروف کرلیااور ایک دراز عرصہ تک وہاں پر علم کے شیدائی آپ کے فدائی بنے رہے اور یہ سلسلہ از1993ء تا 2010ء چلتا رہا۔
جامعہ تراث الاسلام کا قیام
بعدہٗ 2010ء میں مولانائے مرحوم نے جامعہ تراث الاسلام کی سنگ بنیاد ڈالی اور اس باغیچۂ علم و عمل کے مالیٔ گرم جوش اپنی زندگی کی آخری سانس تک بنے رہے، آپ نے درس نظامی کی اکثرکتب کادرس دیا، ادب وحدیث میں اپنی بے پناہ رغبت دکھائی اور اپنے ادارہ کے خودشیخ الحدیث رہے اور درس بخاری کا سلسلہ تادم آخر جاری رہا۔
درس کی مقبولیت
مولانا ابن الحسن عباسیؒ کا درس کیا تھا؟ وہ ایک بہتار دریاتھا جو سب کو اپنے جلو میں لیے بہتا جارہا تھا، ایک ٹھاٹے مارتا سمندر تھا جس کی لہروں سے ہر خاص وعام لطف اندوز ہوا جارہاتھا، جہاں پر مطالعہ کی کثرت خوب نمایاںتھی، علمی جواہر پاروں کا انبارتھا، ہرطالب علم درس کی لذتوں سے قلب وذہن کو مسرور کرنے کے لیے بے تاب نظرآتا تھا، زبان ناز سے جو بات بھی نکلتی دل کی عمیق گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی، ہر کوئی درس میں حاضری کا طلب گارتھا، ادب کی چاشنی نے تو درس کی مقبولیت کو چار چاند لگا رکھے تھے، لب کیا جنبش کرتے؟ طلبہ قرطاس وقلم لیے تیار… کہ پتہ نہیں کب کون سی تعبیر اپنے کام کی نکل آئے، جملوں کی نزاکت پر سب کو رشک ہوتا، لہجہ کی ملاحت پر سب عش عش کرتے، صرف ایک ہی درس میں بلاغت کے جوہر بھی ہیں، ادب کے گوہر بھی ہیں، حدیث کیشرحِ معتبر بھی ہے، جملوں میں بلا کااثر بھی ہے، باطل کے لیے زہر بھی ہے،باطل پرستوں پر قہر بھی ہے،حقانیت کی لہربھی ہے، ترجمۃ الباب کے وقت جہر بھی ہے، یہ ساقی ٔاطہر ہے، جس کی شراب علم ومعرفت کی مظہر ہے۔
ذوق مطالعہ
مولانا ابن الحسن عباسیؒعلم کے دھنی تھے، کثرت مطالعہ میں طاق تھے،راتوںرات مطالعہ کرتے اور رات اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرتی اوراس طالب حق نوازکی علمی پیاس بجھنے کوتیار ہی نہیں، وہ ہر رات سونے کے بجائے علمی دنیا میں کھونے کوترجیح دیتے، آخر اس مرد حق کو کیا چاہیے؟ کون سی عبارت کی تلاش ہے؟ کس مسئلہ نے اتنا الجھا رکھا ہے؟ کس بحث نے بے قرار کر رکھا ہے؟ کس فن نے مجنوں بنادیا ہے؟ کس حدیث کا تتبع ہے؟کس سندمعتبر کی جستجو ہے؟ نہیں نہیں… یہ تو علمی سمندر میں جو بھی موتی مل جائے سمیٹنے کو تیار ہے، قرطاس کوقلم کا جھولا تھامے ہوئے ہر نظر نواز بات کو قلم بند کرکے اپنے جھولے میں محفوظ کر رہا ہے، یہ کسی خاص فن کا نہیں؛ بلکہ ہر فن کا طالب ہے،اس کی طلب …مہارت کی معراج تک پہونچ چکی ہے، پھر بھی ھل من مزید کا یہ شاہ کار ہے،ارے…تم کو پتہ نہیں، یہ صرف اپنی پیاس بجھانے والا فرد نہیں؛ بلکہ ہزاروں پیاسوں کی سیرابی کا سامان کر رہا ہے، ہر اچھی بات کو لکھتا جاتا ہے، تب ہی’’ کتابوں کی درس گاہ‘‘ لیے ایک کارنامہ انجام دے رہا ہے، کبھی تو اپنے متاع عزیز کو کارآمد بنانے کے ساتھ لاکھوںکو وقت کا قدرداں بنانے کے لیے ’’ متاع وقت اور کاروان علم‘‘کی متاع عزیز طالبان حق کے سپر د کر رہا ہے، ارے اس کی نظر صرف حال پر ہی نہیں؛ بلکہ اس نباضِ عصر کو ماضی کا خوب احساس اور مستقبل کی خوب بصیرت حاصل ہے، تب ہی تو ’’ دینی مدارس ماضی ، حال اور مستقبل‘‘ کاآئینہ سامنے رکھ جاتا ہے۔مختلف موضوعات پر گہری نظر کے بعد جو تجزیہ قائم کرتا ہے، وہ ’’التجائے مسافر‘‘ بن کر سب کے لیے شاہراہ زندگی و کامیابی کا ذریعہ ہوجاتا ہے، کئی کتابوں کو ایک میز پر رکھ دیتا ہے تو ’’کتب نما‘‘ کے نام سے ایک آئینہ سامنے آجاتا ہے ، اسلاف سے وابستگی پیدا کرنے کا خیال پیدا ہوا تو ’’کرنیں‘‘ ایک نئے انداز سے نمودار ہوجاتی ہے، مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا حنیف جالندھری کی نگاہ انتخاب پڑتی ہے تو وفاق المکاتب کی ساٹھ سالہ تاریخ کتابی شکل میں نمودار ہوجاتی ہے۔ یہ سعادت بغیر محنت و جہد مسلسل کے حاصل ہونے والی نہیں،بے آہ سحرگاہی کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ یہ عظیم سرمایہ بہت ہی مشقتوں کے بعد ہاتھ لگتاہے، مطالعہ کے ذوق کا اندازہ مولانا کے ایک شاگر د علی انجم گوادری کے ایک مراسلہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا نے خود فرمایا : ایک زمانہ تھا کہ میں عشاء کی نماز کے بعد کتب خانہ جاتا اور فجر کی اذان سن کر نکلتا اور ساری رات مطالعہ کرتا تو کچھ مدت بعد میں بیمار ہونے لگا، ہسپتال گیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ کی 12سال سے رات کی نیند پوری نہیں ہوئی ہے۔
جناب علی انجم ہی کے اسم گرامی سے یہ تحریر بھی سوشل میڈیا کی زینت بنی رہی کہ 1440ھ میںمولاناؒ نے فرمایا:میرے پاس جتنی کتابیں ہیں ، میں نے ایک بار سب کو دیکھا ہے ، اس لیے کہ شاید پھر کبھی موقع نہ ملے اور تمام کتابیں مجھے اس طرح یاد ہیں جیسے کوئی تختی میرے سامنے موجود ہو۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کثرت مطالعہ اور ذوق علم میں کس درجہ فنائیت حاصل ہے ، تب ہیتو کئی شاہ کار تصانیف منصہ شہود کی کرشمہ سازی کرسکیں؛ ورنہ سطحی علم اور بے ذوق مطالعہ کہاں تشنہ امیدوں کی سیرابی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے؟
شاہ کار تصانیف
مولانا ابن الحسن عباسی ان کامیاب مصنفین میں گزرے ہیں کہ جن کی کتابیں منصہ ظہور پر آنے سے قبل ہی مقبولیت کا جامہ اوڑھ لیتی ہیں، کتابوں کے البیلے اور پرلطف نام اپنی جانب مائل کئے بغیر چھوڑتے ہی نہیں، رب منان نے مولانا کو ذہنی میلان وکھنچاؤ کا وہ سحر انگیز ملکہ عطا فرما رکھا تھا کہ ان کی تحریروں کے عناوین اس کا عکس جمیل ہوا کرتے تھے، مولانا کی چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:
ترتیب کشف الباری شرح صحیح بخاری: کتاب المغازی تا کتاب النفقات چھ جلدیں
درس مقامات حریری
توضیح الدراسہ شرح دیوان حماسہ
کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ
متاع وقت اور کاروان علم
داستاں کہتے کہتے
التجائے مسافر
کرنیں
کتب نما
کتابوں کی درس گاہ میں
وفاق المدارس ساٹھ سالہ تاریخ
دینی مدارس ماضی، حال ، مستقبل
مولانا کا قلم اکابر کی نگاہ میں
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب زیدمجدہٗ ’’ متاع وقت اور کاروان علم‘‘کی تقریظ لکھتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
تقریظ کا اصرار بڑھا تو بین بین صورت یہ ذہن میں آئی کہ جستہ جستہ چند صفحے دیکھ کر صرف ان کے بارے میں رائے لکھ دی جائے ؛ لیکن یہ ابتدائی صفحے ہی وقت لیوا ثابت ہوئے ، ہرمضمون کے بعد اگلا مضمون اپنی طرف کھینچتا چلا گیا اور جب کتاب ختم ہوئی تو محسوس ہوا کہ اس نے وقت لیا کم اور دیا زیادہ ہے؛ کیوں کہ اس کتاب نے مجھے اپنے صبح سے رات تک کے مشاغل کا احتساب کرنے پر بار بار مجبور کیا ۔ (متاع وقت اور کاروان علم:ص:21)
حضرت مولانا اسلم شیخوپوری صاحبؒ اپنی تقریظ(جو کہ پیش لفظ کے نام سے درج ہے) کے آخر میں یوںرقم طراز ہیں:
کتاب کیا ہے؟ …ایک پر بہار گلشن ہے جس کے پھولوں کی دل آویزی، گل ولالہ کا حسن ، روشوں کی چھبن، علم وعمل کے سربفلک درختوں کی قامت زیبا اور دل کو لبھانے اور روح کو وجد میں لانے والے نظارے ایک لمحے کے لیے بھی نظر کو بھٹکنے نہیں دیتے ، جملوں کی تراش خراش ،الفاظ کا انتخاب ،ترکیبوں کی بناوٹ اور اشعار کے استعمال میں انہوں نے جس ادیبانہ جسارت کا ثبوت دیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
مجھے ان کی زکاوت وذہانت ، زہد وتقوی، سادگی وانکساری،علمی اور تحقیقی ذوق اور ادبی صلاحیتیں دیکھ یوں محسوس ہواکہ قحط الرجال کے اس دور میں دین حق کے سچے ترجمان کی صف میں ایک اور فرد کا اضافہ ہوا ہے۔(حوالہ بالا:ص:40)
حضرت مولانا ناظم ندوی(سابق مہتمم ندوۃ العلماء وپروفیسر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ وسابق شیخ الحدیث جامعہ عباسیہ بہاولپور) لکھتے ہیں:
مؤلف ابن الحسن عباسی نے بڑی محنت او رکد وکاوش سے یہ کتاب مرتب کی ہے ، کتاب کا اسلوب نگارش نہایت دل کش اور دلچسپ ہے اور اس کی زبان سلیس و رواں ہی نہیں؛ بلکہ ادبی زبان ہے، کتاب کے مطالعہ سے وقت کی قدروقیمت ، علمائے اسلام کی تالیف و تصنیف کے بلند مقام اور ان کی عظیم زندگی کا درخشاں ورق سامنے آجاتا ہے، مؤلف موصوف نے پوری سعی وکوشش کی ہے کہ اسلوب بیان بلیغ، مؤثر اور ادبی ہو، وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہیں۔ (حوالہ سابق:28)
ادارتی خدمات
مولانا ابن الحسن عباسیؒ عرصۂ دراز تک وفاق المدارس سے نکلنے والے علمی ترجمان کے بانی اور اس کے مدیر رہے ، بعدازاں انہوں نے اپنا ایک ماہنامہ ’’النخیل‘‘ کے نام سے شروع کیا، یہ ماہنامہ بہت کم مدت میں بڑی شہرت اور کامیابی حاصل کرگیا، مولانا ابن الحسن عباسیؒ کانام ہی اس کی کامیابی کا ضامن تھا ہی؛ مگر مجلہ کی خصوصیات بھی اپنی جگہ مسلم رہیں، بالکل جداگانہ انداز ، بدلاہوا اسلوب تحریر، بالکل مختلف رنگ ڈھنگ اور مجلہ کی ترتیب وتزئین نے قارئین کو اپنی مقبولیت کے جال میں پھانس رکھا تھا، جس کا ’’مطالعہ نمبر‘‘ کافی مقبول ہوا، کاش مولانا کی ادارت کا یہ سلسلہ اور دراز ہوتا؛ مگررب جو کرتا ہے وہی خیر ہوتا ہے۔
وفات حسرت آیات
اپنی تمام تر حسن آرائیوں کی جلوہ نمائی کرنے کے بعد یہ شاہ کار علم وادب28؍ربیع الثانی1442ھ مطابق: 14؍ ڈسمبر 2020ء کو ہمیشہ کے لیے محوخواب ہوگیا۔