شخصیات

وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھا۔۔۔ (حضرت شیخ الہندؒ کی عبقری شخصیت پر ایک مختصر مگر اہم خطاب کا خلاصہ)

شورش عندلیب نے روح چمن میں پھونک دی
ورنہ یہاں کلی کلی محو تھی خوابِ ناز میں

اس چرخ نیلی فام نے بزم ہستی میں جن اولوالعزم شخصیات کا مشاہدہ کیا، بالخصوص برصغیر کے دینی و سیاسی افق پر جو ماہ تاب بن کر روشن و فروزاں رہیں، ان حوصلہ مند اور صاحب عزیمت ہستیوں میں ایک نمایاں نام اس مرد پختہ کار و جاں باز،حق اندیش و سرفروش شخصیت کا ہے؛ جسے دنیا شیخ الہند کے نام سے جانتی ہے۔آپ بہ یک وقت تحریک ریشمی رومال، تحریک خلافت، تحریک ترک موالات کے عظیم قائد ،زندانِ مالٹا کے اسیر،دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث، تحریک آزادی کے عظیم مجاہد رہے، آپ کی ہشت پہلو شخصیت کا ہر پہلو اس قابل ہے کہ اسے موضوع قلم بنایا جائے اور تفصیلی مقالہ لکھا جائے۔زیر نظر تحریر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی دامت برکاتہم کی تقریر کا خلاصہ ہے جسے قلم بند کرکے ہدیۂ قارئین کیا جارہا ہے۔حضرت شیخ الہندؒ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کا قول نقل کررہا ہوں،حضرت معاذ بن جبلؓ کی جب وفات ہوئی ہے حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ اپنے تلامذہ میں بیٹھے ہوئے تھے،اطلاع ملی تو بے ساختہ فرمایا کان معاذ امۃایک شاگرد نے کہا کہ کان ابراہیم امۃ تو حضرت نے انہیں ڈانٹا کہ‌تم سمجھتے نہیں ہوں۔شخص واحد کو قرآن نے جو امۃ کہا ہے،اگرچہ ایک فرد ہے لیکن اللہ نے انہیں ایک بہت بڑی جماعت قرار دیا،میں جو حضرت معاذؓکے بارے میں کہہ رہا ہوں،پس تم سمجھو ! اللہ تعالی نے حضرت ابراہیمؑ کو امۃ کیوں کہا ؟آپ کی ذات گرامی مجموعۃ الفضائل ہے،کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ شجرۃ الانبیاءہے، نبیوں کے درخت ہے،آپ کے بعد جتنے نبی آئے ہیں؛ سب کے سب آپ ہی کی اولاد‌ ہے، آپ کی ذات با برکت سے ایک عالم مستفید ہوا،یہی حال حضرت معاذؓکا تھا کہ آپؓ کے سیرت وکردار سے لوگ فوائد حاصل‌کیا کرتے تھے،اس لیے میں نے امۃ کہا،حضرت شیخ الہند ؒ بھی کان امۃ کے مصداق تھے،حضرت شیخ الہند کی ذات گرامی‌کو دیکھیے!زندگی ان کی کل بہتر برس کی تھی،اس بہتر سال میں آپ نے جو کام کیا ہے اگر صدیوں پر اُس کام کو تقسیم‌کردیا جائےتو شاید کئی صدیاں اس کام‌ کو نہ کرسکے جتناتنہا حضرت شیخ الہندؒ نے کیا ہے۔آپ ؒدار العلوم میں شیخ الحدیث تھے،سیاسی اعتبار سےشیخ سیاست تھے،طریقت کے اعتبار سے شیخ طریقت تھے،عقیدت ومحبت کے اعتبار سے آپؒ کو شیخ الہندسے یاد کیا جاتا ہے،شخص واحدہی شیخ سیاست بھی ہے،شیخ طریقت و شیخ الہند بھی ہے۔پس یہ امۃ کے مصداق ہے کئی جماعتیں مل کر جو کام کرتی ہے،حضرت شیخ الہند نے تنہا وہ‌خدمت انجام دی‌ہےقدرے تفصیل کے ساتھ:دار العلوم‌کی تدریس خدمت پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات آشکارا ہوجائے گی کہ دار العلوم‌کی پوری تاریخ میںآپؒجیسے تلامذہ کسی نے تیار نہیں کیے،محدث عصر مولانا انور شاہ کشمیری ؒ صاحب،حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنیؒ ،مفتی اعظم مفتی‌کفایت اللہ ؒہے،چندے آفتاب و چندے ماہتاب کے مثل آپ ؒکے شاگرد ہیں ، ایک ایک شاگرد آپ کا ایک ایک مدرسے پر بھاری ہے۔بانی تبلیغی‌ جماعت حضرت مولانا‌الیاس ؒ آپ ہی کے تلامذہ میں سے ہے،،حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنیؒ بھی آپ ہی کے تلامذہ میں سے ہے،جن کا نام اور کام سب پر عیاں ہے،ان‌تمام کی خدمات صدیوں پر بھاری ہےپس دار العلوم میں‌مدرس رہے تو تلامذہ کی اتنی بڑی جماعت تیار کردی اور ایسے ایسے لوگوں کو تیار کیا کہ آج ایک ایک فرد ایک پوری جماعت کی طرح زندہ ہے کا نام پوری دنیا میں زندہ ہے اور آپ کا کام بھی۔آپ ؒ شیخ طریقت بھی ہے؛ اس لحاظ سے کم لوگ آپ‌ کو جانتے ہے،اس میدان کے بھی آپ ؒ شہسوار تھےجن افراد آپ‌ ؒ کو دیکھا ہےفرماتےہیں کہ آپؒ کی نسبت اتنی قوی تھی کہ جب مالٹا سے رہا ہوکر ہندوستان میں دیوبند تشریف لے آئے، آپ ؒ نےبا ضابطہ تبلیغ نہیں کی،اصلاح معاشرہ کا کوئی جلسہ‌نہیں کیا،لیکن انہی انفاس قدسیہ‌کی برکت تھی،کہ از خود سارے لوگ نمازی‌ہوگئے ایسے نمازی ہوگئے کہ مسجدیں تنگ ہوگئی،یہ ان‌کے آمد کی برکت ہے،اور ‌لوگوں کے دلوں میں آپ کی جو تحریکِ آزادی تھی وہ اس طرح بیٹھ گئی کہ اب تک جتنا کام‌ہوا تھا اس سلسلے میں حضرت کی واپسی کے بعد اس تحریک سے بے پنا ہ تعلق پیدا ہوگیا،میں کہتا ہوں کہ ہندوستان کو جو آزادی ملی اور ہندوستان کو جو غلامی سے نجات ملی،اور اس کے بعد جو لوگ فرماں روا ہوئے،جن کے ہاتھوں میں اقتدار آیا،اگر ان کے اندر انصاف ہوتا تو وہ لوگ ضرور اعتراف کرتے کہ آزادئ ہند صدقہ ہے حضرت شیخ الہند ؒکی محنت اور آپ کی تحریک ریشمی رومال کا۔ہندوستان کی آزادی میں روح ڈالنے والےشیخ ا لہند ؒ ہی تھے،کانگریس نے تقریبا ستر سال حکومت کی،در حقیقت یہ جماعت انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان اتحاد کے لیے بنی‌ تھی،ہندوستان کی آزادی کے لیے یہ جماعت نہیں بنی تھی،حضرت شیخ الہند ؒ اور آپ کے تلامذہ ہے،ان کے ساتھ جو لوگ جڑے ہوئے تھے ان لوگوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرکے اس کے نظریہ کو بدلا،کہ اب عام آزادی کا اعلان کیا جائے،پس تبھی کانگریس کے لوگ حضرت شیخ الہندؒ تلامذہ کے کہنے پر آزادی کا مطالبہ کیا،در حقیقت ہندوستان جو آزاد ہوا ہے،چاہے کانگریس ہو یا‌ کوئی اور جماعت اور وہ اپنی‌محنت کی بنیاد پر آزادی کا دعوی کرے،لیکن؛آزادی کا بگل بجانے والے وہ تو حضرت شیخ الہند ؒ کی شخصیت ہی تھی۔سب لوگ سورہے تھے،کسی کو آزادی‌کی فکر‌ نہیں تھی،حضرت شیخ الہندؒ نے آزادی کے لیےتحریک ریشمی رومال شروع کی، مختصرا یہ سمجھا جائے کہ حضرت نے ایک نقشہ بنایا تھا، کہ‌ہندوستان میں جگہ جگہ اس تحریک کے افراد ہو،اپنے طور پر وہ بیدار وتیار رہے،پھر افغانستان ایران اور ترکی ان تینوں کو ملاکر آمادہ کیا جائے،کہ ہندوستان پر حملہ کرے اُدھر سے یہ تینوں حملہ کرے،اور اندرون سےیہاں کے باشندے مقابلہ کرے،تو انگریز ان کا مقابلہ نہیں کرسکے گا،ہندوستان چھوڑ کر بھاگ جائے گابس اس تحریک کا خلاصہ یہی ہے۔اسی غرض سے حج کے عنوان سے آپ مکہ تشریف لے گئے،وہاں ترکیوں سے بات کی جائے،افغانستان میں مولانا عبید ا للہ ؒ کو پہلے سے بھیج رکھا تھا،لیکن اسی دوران حالات بدل گئے،جنگ عظیم جھڑگئی،جنگ عظیم شروع نہ ہوئی ہوتی،اورترکیوں کو شکست نہ ہوئی ہوتی تو آج اس ملک کا نقشہ دوسرا ہوتا،ریشمی رومال پکڑ اگیا ،اس کی وجہ سے تحریک ناکام ہوئی،ایسا نہیں ہے۔حضرت شیخ الہند ؒ نے تحریک‌کو جس طریقے سے شروع کیا تھا،اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے،کہ جتنا کام جس کو دیتے تھے، اس تحریک‌کے بارے میں اس کی معلومات محض اتنی‌ہی ہوتی تھی،اس سے زیادہ نہیں ہوتی تھی،جب ایسی بات ہے تو تحریک کو کوئی پتہ نہیں لگا سکتا تھا،حضرت عبید اللہ سندھیؒ جب ہندوستان آزاد ہونے کے بعد واپس آئے،تو مولانا منظور صاحب نعمانی ؒ کی زبانی انہوں نے بیان‌کیا،کہ حضرت آپ تو تحریک ریشمی رومال میں شریک تھے،اس کےبہت بڑے کارکن رہے،تو ہم‌لوگوں کواس کی کچھ تفصیلات بتائیے !جوابا کہا کہ‌کوئی کل تفصیلات نہیں جانتا ہم بھی نہیں جانتےہیں،ہمیں حضرت نے حکم دیا کہ تم کراچی چلے جاؤ!کراچی میں ایک آدمی ملے گا اس کا نام یہ‌ہوگا،اس سے رابطہ قائم کرو!کیوں جائیں؟کس لیے جائیں؟ کچھ نہیں معلوم ہم کراچی گئے، حضرت کا حکم تھا،وہاں ان سے ملاقات ہوئی ،بتایا کہ حضرت نے بھیجا ہے، کیا کام ہے؟انہوں نے کہا یہاں کوئی کام نہیں۔تم یہاں سےکولکاتہ چلے جاؤ!وہاں فلاں آدمی ملے گا ،بتائے گا کہ کیا کام ہے؛ اب وہاں گئے وہاں دریافت کیا کہ کیا کام‌ ہے؟انہوں نے کہا: کہ‌یہاں کوئی کام‌نہیں ہے،آپ کابل جائیے!کابل گئے تو لوگ آتے ہیں،ملاقات کرتے ہیں،کہتے ہیں کہ ہم بھی شیخ الہند ؒ کے ساتھ کام کرنے اس طرح سینکڑوں ہزاروں لوگ تین چار دن میں ہم سے ملے،کہ آپ‌ ہم کو کام دیجیے حضرت نے آپ ہی کو یہاں سردار وذمہ دار بناکر کے بھیجا ہے،اب ہمیں کچھ بھی پتہ نہیں تھا،وہاں لوگوں نے بتایا تو معلوم‌ہوا۔پس شیخ الہندؒ کی تحریک کو کوئی کیسے بتاسکتا ہے۔کہ تحریک‌ کیسی تھی؟اس کی تفصیلات کسی کو بھی مکمل طور پر معلوم نہیں تھی، رومال گرفتار ہوگیا تو اس سے وہ تحریک‌نا کام نہیں ہوئی،حالات ایسے پیش آگئے،جنگ عظیم شروع ہوگئی،ترکی وغیرہ‌کو شکست ہوئی،اور مکہ میں بغاوت ہوگئی،وغیرہ اگر یہ تحریک اُسی اعتبار سے کام یاب ہوجاتی،تو آج ہندوستان کا‌نقشہ دوسرا ہوتا۔یہ سیاست کا معاملہ ہے۔ایک شخص واحد نےایسا عظیم کام کیا،پس آپ‌ بجائے خود امت تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×